نیب قوانین میں ترامیم : آخر اتنی جلدی کیا تھی؟

”ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی جرم ہوتا ہے“ ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ میں اس جملے کی بازگشت کچھ زیادہ پرانی نہیں، 20 اپریل 2017ءکے پاناما کیس کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ جملہ اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا۔ اس جملے پر اس وقت پورا ملک کھڑا ہے، کیوں کہ ہر مالدار شخص نے اپنی دولت تو بنا لی مگر اُسے چھپانے کے لیے وہ مختلف نوعیت کے حربے استعمال کرتا ہے، وہ کبھی اپنی دولت کو چھپ چھپا کر لانچوں کے ذریعے بیرون ملک شفٹ کرتا ہے، کبھی ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک بھیجتا ہے، کبھی ملک میں ہی اپنے خاندان کے دیگر افراد کے اکاﺅنٹس میں رقم چھپاتا ہے، کبھی چپڑاسی کے اکاﺅنٹ میں رقم جمع کروادیتا ہے، کبھی خانسامے کے اکاﺅنٹ میں تو کبھی مالی کے اکاﺅنٹ میں۔ لیکن وہ ایک دن دھر لیا جاتا ہے۔ کبھی وہ اینٹی کرپشن کی طرف سے بلایا جاتا ہے کبھی ایف آئی اے کی طرف سے اور کبھی قومی احتساب بیورو (نیب) کے ریڈار پر آ جاتا ہے۔ اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے میں تو اُس کے اپنے پیٹی بندھ بھائی ہوتے ہیںاس لیے اُسے اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی مگر نیب قوانین نسبتاََ دیگر احتسابی اداروں سے سخت ہیں اس لیے وہاں اُسے ٹف ٹائم ملتا ہے۔ لہٰذااس ”ٹف ٹائم“ کو ختم کرنے کے لیے وہ نیب کے خلاف لابنگ کرتا ہے اور اپنے اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ہر فورم پر اس کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے۔ جس سے نیب بھی قدرے دباﺅ میں آجاتا ہے۔کیوں کہ نیب کو علم ہے کہ کسی بھی ترمیمی آرڈیننس کی منظوری کے بعد کچھ بھی ہو سکتا ہے، اور یہ ترامیم اب تک 4مرتبہ ہوچکی ہیں۔ یعنی نیب آرڈیننس 1999ءمیں لایا گیا، تب سے لے کر اب تک اس میں 4مرتبہ ”خاص“ تبدیلیاں اور اپنی مرضی کی شقوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔یعنی نیب آرڈیننس 1999ءمیں لایا گیا، تب سے لے کر اب تک اس میں 4مرتبہ ”خاص“ تبدیلیاں اور اپنی مرضی کی شقوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔اور موجودہ حکومت نے بھی اس حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ لوگ نیب ترامیم کے لیے ہی اقتدار میں آئے ہیں، ورنہ تو ان کے کرنے کے لیے اور بہت سے کام ہیں، اور ڈالر اوپر جا رہا ہے، مہنگائی کنٹرول نہیں ہو رہی، پٹرول 200کو کراس کرنے والا ہے، کہیں چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، دیوالیہ ہونے کے خطرات منڈلا رہے ہیں، خارجہ پالیسی کے مسائل ہیں لہٰذایہ تمام مسائل چھوڑ کر پھرتیوں کے ساتھ صرف ترامیمی بل منظور کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ شاید انہیں علم ہو گیا ہو کہ ان کی حکومت کسی بھی وقت جا سکتی ہے اس لیے انہوں نے کہا کہ پہلے یہ بل منظور کروا لو۔ ورنہ تو اس پر تمام سٹیک ہولڈرز کو بلا کر بات چیت کرنے کی ضرورت تھی، عوام میں جانے کی ضرورت تھی، ڈیبیٹ کروانے کی ضرورت تھی لیکن سب کچھ چھوڑ کر فوری ترامیم کی طرف بھاگنے کا مقصد صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ اپنی کرپشن بچانے کے لیے آئے ہیں۔ خیر نیب کی حالیہ ترمیم جو پچھلے ہفتے کی گئی اُس کا احوال بھی سن لیں کہ اس مرتبہ 31ترامیم کی گئی ہیں، یعنی احتساب کا آدھا قانون ہی بدل دیا گیا ہے۔ اس میں نیب قانون شق 21 ختم کر دی ہے جس سے درجنوں کیسز غیر متعلق ہو کر رہ جائیں گے۔ اور موجودہ سیاستدانوں پر 90فیصدسے زائد مقدمات ختم ہو جائیں گے۔ یعنی اب ہوگا یوں کہ جو حکومت بھی آئے گی وہ نیب قوانین میں مرضی کی ترامیم کرے گی اور اپنی مدت پوری کرے گی، یا مخالفین پر نت نئے کیسز بنائے گی۔ مزید یہ کہ ان ترامیم میں کرپشن کیسز میں نااہلی 10 سال کے بجائے 5 سال کیلئے ہوگی اور 5 سال بعد الیکشن لڑا جاسکے گا۔ کرپشن کیس میں سزا پر اپیل کاحق ختم ہونے تک عوامی عہدے پر فائز رہا جاسکے گا۔ 5سال سے زیادہ پرانی ٹرانزیکشن یا اقدام کے خلاف نیب انکوائری نہیں کرسکے گا، بار ثبوت ملزم کے بجائے نیب کوفراہم کرنا ہوگا ورنہ انکوائری شروع نہیں ہوسکے گی۔ نئی ترامیم میں نیب کا ملزم کو گرفتار کرنے کا اختیارختم کردیا گیا ہے اور اب عدالت کی منظوری سے نیب ملزم کو گرفتار کرسکے گی۔نئی مجوزہ ترمیم کے تحت وزیراعظم، کابینہ ارکان اورکابینہ کمیٹیوں کے فیصلوں پرنیب کارروائی نہیں کرسکے گا جبکہ زیرالتوا انکوائریاں اور انڈر ٹرائل مقدمات احتساب عدالت سے متعلقہ اتھارٹیزکومنتقل ہوں گے۔ ترمیم کے ذریعے نیب آرڈیننس کی 7 شقیں ختم کردی جائیں گی۔ایک اہم ترمیم جو نیب آرڈیننس میں تجویز کی گئی، بہت حیران کن ہے۔ اس کے مطابق نیب قوانین کے ترمیمی بل کا اطلاق جنوری 1985ءکے قوانین کے تحت ہو گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نیب کا ادارہ 1999ءمیں قائم ہوا تھا اور یہ قوانین اس وقت بنائے گئے تھے۔ستم ظریفی دیکھئے کہ نیب لاءکے سیکشن چار میں کی گئی ترمیم کے ذریعے وفاقی اور صوبائی کابینہ، ایکنک یا کسی بھی ریگو لیٹری اتھارٹی کی جانب سے کیے گئے فیصلوں اور ٹھیکوں کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کھینچ لیا گیا ہے یعنی کرپشن کے لیے بظاہر میدان صاف کر دیا گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ اب ان ترامیم کو دیکھ لیں اور سوچیں کہ ملک کے ساتھ کیا مذاق ہو رہا ہے، اور پھر یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پیپلزپارٹی کا 2008ءکا دور آیا اُس نے اپنی مرضی کی ترامیم کرائیں، ن لیگ نے اپنی مرضی کی اور پھر سابقہ حکومت نے اپنی مرضی کی اور رہی سہی کسر موجودہ بھان متی کے کنبے نے پوری کردی ہے، لہٰذااس ساری صورتحال میں ہماری نسلیں یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہےں کہ اگر یہ ملک چند سیاسی گھرانوں کا ہے تو پھر اسے بائیس کروڑ عوام کا ملک کیوں کہا جاتا ہے؟ ان چند گھرانوں کو کیا مکمل چھٹی ہے کہ ملک و قوم کو وہ جس طرح چاہیں‘ لوٹیں؟ کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ وہ لوگ جو خود ملزم ہوں اور کیسز بھگت رہے ہوں، وہ انہی قوانین میں ترمیم کر دیں؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جیلوں میں قید مجرم ہی جیل کا ضابطہ اور قوانین تشکیل دیں؟ کیا ایسے گروہ سے انصاف کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اگر تمام قانون سازی ایک مخصوص ٹولے کو فائدہ پہنچانے کے لیے کرنی ہے تو پھر ”مٹی کے یہ بندے“ کیوں ہیں؟ حالانکہ اس کے برعکس ہمسایہ بھارت میں احتسابی ادارے سی بی آئی کا پارلیمنٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،ان کے قوانین 1982ءسے لاگوہیں، اُن کے آزاد قوانین ہیں، جن میں ترامیم کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن یہاں نیب کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ یقین مانیں جب نومبر1999میں قومی احتساب بیورو (نیب)قائم ہوا تو مجھ جیسے کئی سادﺅں نے اطمینان کا سانس لیا جو ہوش سنبھالنے سے اب تک محکمہ اینٹی کرپشن ، جنرل ضیا الحق کے یکطرفہ احتسابی عمل اور سینیٹر سیف الرحمان کے احتساب بیورو کی انتقامی پھرتیاں دیکھ دیکھ کر احتساب کے لفظ سے بیزار ہو چکے تھے۔نیب سے اس لیے امیدیں زیادہ تھیں کیونکہ اس ادارے کو آئینی تحفظ دیا گیا تاکہ کسی بھی اچھے خان کی دھونس نہ چل سکے۔آئین کی نظر میں چونکہ تمام شہری برابر ہیں لہٰذا یہ امید برحق تھی کہ نیب بھی تمام پاکستانیوں کو اسی آئینی نگاہ سے دیکھے گی۔نیب کی عقابی نگاہوں سے کوئی محمود و ایاز نہیں بچ پائے گا اور کسی حکمران میں جرات نہیں ہو گی کہ وہ نیب کے عہدیداروں کو اپنی مرضی سے املا دے سکے اور دباﺅ میں لے کر تقرریوں اور تبادلوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا سوچ بھی سکے۔جب ملتان کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کو نیب کا پہلا چیئرمین بنایا گیا تو ایک پروفیشنل ایماندار منتظم کا انتخاب قابل ستائش تھا، لیکن وہ بیرونی ”مداخلت“ کی وجہ سے مستعفی ہوگئے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ نیب میں سیاست کا عمل دخل بڑھنے لگا تھا۔پھر ہم نے خود اس ادارے کو متنازعہ بنا دیا۔ کبھی پلی بارگین ہونے لگی کبھی من پسند افراد کا احتساب تو کبھی منتخب افراد کو احتساب میں چھوٹ! لہٰذااب بات آتے آتے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب یہ ادارہ اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کی طرح ”ہومیو پیتھک“ بن چکا ہے۔ جس میں مرضی کی ترامیم کروا کر ہر کوئی فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ جس طرح اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ ہے اُس کا ریکارڈ چیک کر یں کہ وہ کس طرح غریب آدمی کو سزا دیتی ہے۔ اسی طرح آپ ایف آئی اے کو بھی دیکھ لیں وہ بھی گنے چنے افراد کا احتساب کرتی ہے۔ لہٰذااگر نیب کو بھی اسی قسم کا ادارہ بنادیا گیا تو یہ یقینا اس ملک کے عوام کے ساتھ ظلم عظیم ہوگا۔ کیوں کہ نیب خواہ خراب کارکردگی والا ادارہ ہی سہی مگر یہ عوام کی اُمید ہے، اسی نیب نے ہی ہمیں بتایا ہے کہ کس کس طرح بے نامی اکاﺅنٹس سے ٹرانزیکشنز کی گئیں اور کس کس طرح سیاستدانوں نے قومی خزانے کے اربوں روپے پر ہاتھ صاف کیا۔ چلیں یہ بھی مان لیا کہ نیب سیاستدان کی عزتیں اچھالتی ہے تو کوئی بتائے گا کہ ”مقصود چپڑاسی“ کے اکاﺅنٹ میں اربوں روپے کہاں سے آئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عام آدمی کے پاس اربوں روپے ہو، اُس میں سے ٹرانزیکشنز بھی ہو رہی ہوں اور بنک منیجر کو علم ہی نہ ہو۔ اگر میں اپنے کسی کلائنٹ کو دس لاکھ کا چیک دوں تو فوری طور پر بنک مجھے کنفرمیشن کی کال کرے گا، اگر میں اجازت دوں گا تو چیک کلیئر ہوگا، اگر نہیں اجازت دوں گا تو چیک کیش نہیں ہوگا۔ چلیں یہ بھی مان لیا جاتا ہے کہ نیب کو بند کر دیا جائے۔ تو کیا یہ بڑے بڑے لیڈر اس بات کا حساب دیں گے کہ ان کے ملازمین کے اکاﺅنٹس میں اربوں روپے کس کے تھے؟ اور پھر کیا یہ اپنے منیجر کے اکاﺅنٹ کا حساب دے دیں، اپنے کچن سٹاف کے اکاﺅنٹ کا حساب دے دیں، اپنے گھریلو ملازمین کے اکاﺅنٹس کا حساب دے دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فی الوقت نیب کی پرفارمنس زیرو ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ لوگ نیب سے طاقتور ہیں، نیب ان کے لیے اگر لاکھ دو لاکھ روپے ماہانہ والا وکیل کھڑا کرتی ہے تو یہ اُس کے مقابلے میں پانچ کروڑ والا وکیل لے آتے ہیں۔ لیکن اگر اسے بھی ختم کر دیا تو پھر کیا ہوگا؟ کھلی لوٹ مار ہوگی،بجائے اس کے کہ ہم اس کے اختیارات میں مزید اضافہ کریں، پروفیشنل لوگوں کو اس ادارے میں اپوائنٹ کریں ، یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے ہاتھ باندھ کر ہم کہیں کہ ملک سے کرپشن ختم ہوجائے۔ بہرکیف ارسطو نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ قانون ایک ایسا مکڑی کا جالا ہے جس میں غریب پھنس جاتا ہے، اور طاقتور جالا توڑ کر نکل آتاہے۔ یہاں اپنی مرضی کے قانون آج تک بنتے آئے ہیں اور آئندہ بھی بنتے رہیں گے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آخر کب تک چلے گا؟ اس سے انکار نہیں کہ نیب میں کئی خامیاں ہیں اور وہ توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ اکثر سیاسی اشرافیہ کا سکور طے کرنے کا آلہ رہا ہے۔ تاہم نیب کو تحلیل کرنے یا اس میں مرضی کی اصلاحات لانے کے بجائے اس میں سنجیدہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت کو چاہئے کہ نیب میں اصلاحات کے لئے بہتر اقدامات کرے نہ کہ اسے ”ختم“ ہی کردے۔ایسا کرنے سے یقینا ان لوگوں کی اگر نیتیں صاف ہیں تو وہ بھی عوام کے سامنے کھل کر آجائیں گی!