تحریک انصاف :اسمبلیوں میں واپس جانا بہترین پالیسی!

”پاکستان کے حالات کیسے ہیں؟“ یہ وہ سوال ہے کہ جب آپ بیرون ملک سفر پر ہوں تو آپ سے ہر پاکستانی یہی پوچھ رہا ہوتا ہے!مثلاََ ابھی میں ہفتے کو امریکا سے واپس پاکستان آنے کے لیے نیویارک ائیر پورٹ کیلئے ایک دوست کے ساتھ روانہ ہوا تو راستے میں اُس دوست نے بھی تکلفانہ انداز میں پوچھ لیا کہ خان صاحب کے جانے کے بعد اب ”پاکستان کے حالات کیسے ہیں؟“ میں نے برجستہ جواب دیا کہ یار!باقی حالات کا تو پتہ نہیں مگر ایک خبر میں آپ کو سناتا ہوں پھر اندازہ آپ خود لگا لیں کہ حالات کیسے ہیں۔ دوست میری طرف سے ”خبر“ کا انتظار کرنے لگا۔ میں نے گہری سانس لی اور بتایا کہ شہباز شریف آج کل ترکی کے دورے پر ہیں(گزشتہ ہفتے تین روزہ دورے پر تھے) ۔ دوست نے یہیں بات ٹوک کر کہا یہ تو اچھی بات ہے! میں نے کہا حضور! آگے سنیے! مسئلہ یہ ہے کہ اس دورے میں لندن سے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے چھوٹے بیٹے سلیمان شہباز کو ترکی کے سرکاری دورہ میں لندن سے بلا کر پاکستانی وفد میں شامل کیاہوا ہے۔ نہ صرف وفد میں شامل کیا ہے بلکہ ترک صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے پاکستانی وفد کو دیے گئے عشائیہ میں مرکزی ٹیبل میں اپنے اور ترک صدر کے ساتھ بٹھایاہے۔اعتراض یہ نہیں کہ وزیراعظم اپنے بیٹے کو دورے پر ہمراہ کیوں لے گئے اور کیوں مرکزی ٹیبل پر ساتھ بٹھایا۔ اعتراض اس بات پر ہے کہ سلیمان شہباز پاکستانی عدالتوں کی طرف سے مفرور قررار دیے جا چکے ہیں، وہ اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کے کیس میں یہاں مطلوب ہیں۔ ایک مفرور جو کہ ریاست کو مطلوب ہے، جو اگر پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوتا ہے تو قانون کے مطابق گرفتار کیا جائے گا، اُسے بیرون ملک کے سرکاری دورے پر وزیراعظم نے اپنے وفد میں شامل کر لیا اور اتنی اہمیت بھی دی کہ ترک صدر کے ساتھ بٹھا دیا۔ یہ خبر سن کر دوست کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ خاموش ہوگیاپھر اچانک بولا کہ آپ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذاتی کاروبار ۔۔۔ میں نے بات کاٹ کر کہا نہیں مسئلہ یہ بھی نہیں ہے ! مسئلہ یہ ہے کہ ریاستی اداروں کی عزت خاک میں مل گئی ہے! کہ جس ملک کی عدالتوں اور سکیورٹی اداروں نے جس شخص کو کرپشن کیسز میں اشتہاری قرار دیا ہے، اُسے سرکاری وفد میں شامل کر لیا گیا ہے؟ یعنی یہ ایسا ہی ہے جیسے ریاستِ پاکستان کا مذاق اُڑایا جا رہا ہو۔حالانکہ اس کے برعکس ویسے تو بحیثیت وزیراعظم شہباز شریف صاحب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ قانون اور عدالت سے بھاگے ہوئے ہر شخص کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئے اقدامات اُٹھائیں، کجا یہ کہ کسی مفرور کو سرکاری وفد میں شامل کر کے اپنے ہی ملک کا مذاق اُڑوائیں۔۔۔خیر اتنے میں ائیرپورٹ آگیا اور ہم جلدی سے فلائیٹ کے لیے پراسیجر میں لگ گئے مگر میری اس ”خبر“ کے بعد دوست کو پوری طرح اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ملک کے حالات کیسے ہیں؟ او رکس طرح اسے چلایا جارہا ہے! بہرحال ہمارا آج کا موضوع یہ نہیں بلکہ تحریک انصاف کے استعفوں پر تھا یہ واقعہ تو ویسے ہی یاد آگیا، سوچا آپ کی گوش گزار کروں۔ لہٰذاخبریں آرہی ہیںکہ تحریک انصاف استعفوں کے معاملے پر دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان فی الوقت انتہائی سختی سے اس مو¿قف پر قائم ہیں کہ ان کی جماعت کے قومی اسمبلی میں واپسی کے امکانات نہیں ہیں لیکن پھر بھی سیاسی حلقوں میں اس سوال کی بازگشت سنی جا سکتی ہے کہ آیا وہ قومی اسمبلی میں واپس چلے جائیں گے! آگے چلنے سے پہلے 1985ءکے الیکشن پر روشنی ڈالتا چلوں کہ اُس وقت بائیکاٹ کرنے کا پچھتاوا محترمہ بے نظیر بھٹو کو ساری عمر رہا۔کیوں کہ کاروباری مافیا کو سیاستدانوں کی جگہ لینے کا سنہری موقع میسر آیا۔ ہوا کچھ یوں کہ اُس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھیں اور پیپلز پارٹی کی کمان غلام مصطفی جتوئی کے ہاتھ تھی جبکہ ایم آر ڈی کو اس وقت خواجہ خیرالدین، ملک قاسم اور نوابزادہ نصراللہ خاں مرحومین کے علاوہ ان یک رکنی جماعتوں نے 1985ءکے انتخابات کے بائیکاٹ کی راہ پر لگایا جو انتخابی عمل میں شریک ہو کر اپنے لئے قومی یا صوبائی اسمبلی کی ایک نشست بھی حاصل کرنے کا تصور نہیں کرسکتی تھیں۔ شنید یہی ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو انتخابات کے بائیکاٹ سے متعلق ایم آر ڈی کے اس فیصلہ پر کسماتی رہیں مگر وہ اس فیصلہ کی پابند تھیں، نتیجہ کیا ہوا۔یہ مقبول عوامی جماعت انتخابی عمل سے باہر نکلی تو اس کا پیدا کردہ خلاءبالشتیوں نے پرُکرلیا اور پھر پیپلزپارٹی کو 1988ءکے انتخابات میں اپنی جگہ بنانے کیلئے بہت مشقت کرنا پڑی وہ بھی خود کو ایم آر ڈی سے باہر نکال کر ورنہ 1988ءکے انتخابات کے موقع پر بھی فیصلوں کا اختیار ایم آر ڈی کی یک رکنی جماعتوں کے پاس ہوتا تو پیپلز پارٹی ان انتخابات سے بھی باہر نکل چکی ہوتی۔ پیپلز پارٹی نے 1985ءوالی حماقت سے یہ سبق ضرور سیکھا کہ پھر وہ کبھی انتخابات کے بائیکاٹ کی راہ پر نہیں آئی، اسی لئے تو وہ چوتھی بار بھی اقتدار کا زینہ چڑھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔لہٰذاتحریک انصاف کو بھی اس وقت تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ حکومت کو خالی میدان نہ دیں ورنہ اُنہیں اگلے الیکشن میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور پھر اگر تحریک انصاف اسمبلیوں میں نہیں آتی تو اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض ہوگا؟ مطلب وہ پہلے ہی پی ٹی آئی مخالف سکول تھاٹ کے ایم این اے ہیں ، لہٰذاپھر کیا ہوگا ؟ پھر یہی ہوگا کہ نیب چیئرمین انہی کی مرضی کا ہوگا، آرمی چیف بھی انہی کی مرضی کا لگایا جائے گا۔ اور تو اور سینیٹ پر بھی لازمی طور پر اس کا اثر ہوگا۔ لہٰذاابھی کچھ بھی نہیں بگڑا اس لیے قائد تحریک انصاف فوری فیصلہ کریں اور جماعت کو اس ابہامی کیفیت سے نکالیں۔ کیوں کہ ابھی تک پارٹی کے 135ایم این ایز کو علم ہی نہیں ہے کہ اُن کے ساتھ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے اور ویسے بھی آئین کے تحت استعفے قبول ہی نہیں ہوئے کیوں کہ آئین کے آرٹیکل 64 اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے رولز 43‘ جو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس (ر) آصف سعید کھوسہ کے فیصلے کی روشنی میں استعفیٰ کا مکمل طریق کار وضع کرتا ہے‘ میں بتایا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 64 (چار) کے تحت کوئی رکن اپنی دستخط شدہ تحریر کے ذریعے استعفیٰ دے سکتا ہے جس کے بعد سپیکر متعلقہ رکن سے رازداری میں معلوم کرے گا کہ استعفیٰ رضا کارانہ ہے‘ کسی دباو¿ کا نتیجہ تو نہیں؟ جبکہ اس سوال پر کہ استعفیٰ حقیقی ہے یا پارٹی دباو¿ یا کسی اور وجہ سے ہے، سپیکر استعفیٰ کے حقائق جاننے کے لیے کسی بھی حساس ادارے کا تعاون حاصل کر سکتا ہے اور خفیہ ایجنسی کی رپورٹ آنے کے بعد ہی سپیکر استعفیٰ کے سوال پر فیصلہ کرے گا۔2014ءکے اوائل میں تحریک انصاف کے 26 ارکان قومی اسمبلی نے استعفے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو پیش کیے تھے جنہوں نے اپنی رولنگ کے تحت کچھ عرصہ بعد ان استعفوں کو مسترد کر دیا تھا۔ اسی طرح 2015ءاور 2016ءمیں متحدہ قومی موومنٹ کے ارکانِ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ نے استعفے دے دیے تھے جنہیں سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ نے اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے تحت مسترد کر دیا تھا۔ انفرادی طور پر استعفیٰ جاوید ہاشمی کا ہی منظور کیا گیا تھا‘ سینیٹر مصطفی کمال کا استعفیٰ بھی چیئرمین سینیٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ بعد ازاں مخصوص حالات میں یہ استعفیٰ غالباً منظور کرا لیا گیا تھا۔ لہٰذاابھی حالیہ استعفوں کے حوالے سے کچھ نہیں بگڑا ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پارٹی کے اندر استعفوں کے معاملے میں تقسیم پائی جاتی ہے اور اس پہلو سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی نے اپوزیشن بینچوں پر نہ بیٹھ کر سارا میدان خالی چھوڑ دیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایوان کے اندر سے حکومت کوئی دباو¿ محسوس نہیں کررہی۔بقول بابا بلھے شاہ پنج ست مرن گوانڈھناں، رہندیاں نوں تاپ چڑھے گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے لہٰذاہمیں مرزا صاحب کو اکیلے نہیں چھوڑنا ، اور ویسے بھی پی ڈی ایم نے عدم اعتماد کی تحریک چلائی ہے تو تحریک انصاف بھی اپنے نمبرز پورے کر کے حکومت کو گرا سکتی ہے اور پھر اہم بات یہ کہ اُن کے پکے اتحادی اور زیرک سیاستدان چوہدری پرویز الٰہی نے بھی تحریک انصاف کو قومی اسمبلی سے استعفے واپس لینے کا مشورہ دیا ہے، یہ مشورہ اُنہوں نے آف دی ریکارڈ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد دیا ہے اور کہا ہے کہ پارلیمنٹ حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کا جمہوری فورم ہے، تحریک انصاف ایوان سے باہر آکر اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گی، تحریک انصاف کو پارلیمان کے اندر اور باہر بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے۔لہٰذا بال اس وقت خان صاحب کے کورٹ میں ہے، پوری پارٹی اُن کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں، اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ وہ ملکی مفاد میں بہترین فیصلہ کریں گے تاکہ جمہوری عمل کے ساتھ غیر جمہوری قوتیں چھیڑ چھاڑ نہ کر سکیں! اور صاحب اقتدار لوگ ترکی جیسے دوست ملک میں جا کر اپنا اور ملک کا مذاق نہ بنوائیں اسی میں سب کی بھلائی ہے۔