پاکستان معاشی دلدل سے ڈیفالٹ کے خطرے تک؟

ظاہر ہے جب آپ کسی سے قرض لیتے ہیں اور بار بار لیتے ہیں تو پھریاتو آپ کواُسی کی مرضی کے مطابق معیشت چلانا پڑتی ہے،یا وہ اپنے ماہرین کے ذریعے آپ کی معیشت کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے، آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ معیشت کو مصنوعی انداز میں نہ روکیں، نہ سبسڈی دیں اور نہ ہی کسی کو مراعات دیں۔ جبکہ ہماری حکومتیں عوامی دباﺅ میں آکر نہ صرف ڈالر کو مصنوعی طریقے سے روکتی ہیں ، سبسڈیز بھی دیتی ہیں اور امراءو اشرافیہ مراعات بھی حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر ہم مشکل معاشی حالات کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔ اور انہی مشکل حالات کی بدولت حکومت و اپوزیشن اس وقت عوام کی ذہن سازی کر رہے ہیں کہ خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ اور ڈیفالٹ کرنے کے مطلب کے حوالے سے میں اپنے کئی کالموں میں ذکر کر چکا ہوں۔ اور یہ بھی ذکر کر چکا ہوں کہ ہم کب کب معیشت کو سہارا دینے اور عالم شوق میں آئی ایم ایف کے پاس گئے اور کتنا کتنا قرض حاصل کیا۔ لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر پاکستان کو گزشتہ 50سال معاشی حالات میں بگاڑ کے لیے لگے ہیں تو اب کم از کم 15سے 20سال تو ضرور لگیں کہ پاکستان اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوسکے۔ خیر آگے چلنے سے پہلے ذرا ان قرضوں پر اور آئی ایم ایف پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں 1980ءکے دور میں جانا پڑے گا جب آفتاب احمد خان سیکرٹری خزانہ کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ گونج دار آواز کے مالک اور مرزا غالب کے شیدائی تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان پر مغربی ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے نوازشات کی بارش ہو رہی تھی۔ 1979میں پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے امداد کی درخواست کی تھی جو مسترد کر دی گئی۔ 1976اور 1979 میں پاکستان پر اقتصادی امداد کی فراہمی کے لئے پابندی عائد کی گئی۔ افغان مجاہدین کی امداد کے بعد یہ پابندیاں ہٹا لی گئیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی جانب سے از خود ڈیڑھ ارب ڈالر امداد کی منظوری دی گئی۔ امریکہ نے ساڑھے تین ارب ڈالر کی اقتصادی امداد اور قرضوں کی منظوری دی۔ اُس وقت بھی ماہر معاشیات آفتاب احمد خان سے سوال کرتے تھے۔ کیا قرضوں کے معاہدوں پر دستخط کرتے ہوئے آپ سوچتے ہیں کہ یہ قرضے واپس کیسے کئے جائیں گے؟ آفتاب احمد اپنی قہقہوں سے بھرپور آواز میں جواب دے کر آگے بڑھ جاتے۔ افغانستان سے روسی فوجیوں کا انخلاءشروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی امریکہ اور اس کے حواریوں نے نظریں پھیر لیں۔ اگست 1990میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بہانہ بنا کر ایک مرتبہ پھر اقتصادی امداد بند کر دی گئی۔ بارہ سال کے عرصے میں یہ تیسری پابندی تھی۔ پھر اُس کے بعد پاکستان نے سنبھلنے کا نام ہی نہیں لیا بلکہ گزشتہ 3دہائیوں میں ہر حکومت مسلسل اور مستقل بین الاقوامی اداروں کی جانب سے عائد شرائط اور مسلط کی گئی پالیسیوں کی تابع رہی ہے۔ پہلی بے نظیر بھٹو حکومت دسمبر 1988میں اقتدار میں آئی اور صرف تین دن کے بعد آئی ایم ایف سے امدا دکی درخواست کرنا پڑی کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے۔1994 بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک اور پیکیج کے لئے معاہدہ کیا۔ نواز شریف نے ”قرض اتارو ملک سنوارو“ مہم چلائی۔ اس مہم کے تحت جو رقم جمع ہوئی اس کے استعمال کا آج تک پتا نہیں چل سکا۔اس سے قبل نواز شریف کی دوسری حکومت نے سیکرٹری خزانہ معین افضل اور گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر محمد یعقوب کی سربراہی میں دو وفود واشنگٹن بھیجے تاکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک اور اقتصادی امدادی پیکیج حاصل کیا جائے۔ معین افضل ناکام رہے لیکن ڈاکٹر یعقوب جو آئی ایم ایف میں خدمات سرانجام دے چکے تھے، ایک اور پیکیج لینے میں کامیاب ہو گئے۔ پرویزمشرف نے شوکت عزیز کو بطور وزیرخزانہ امریکہ سے درآمد کیا تو اسلام آباد آمد سے پہلے ہی انہوں نے آئی ایم ایف کے اعلیٰ عہدے داروں سے اقتصادی امداد کے لئے گفتگو کی جس میں پرائیویٹ سیکٹر میں بجلی گھروں پر عائد پابندیاں ختم کرنا شامل تھا۔ تیسری پیپلز پارٹی حکومت اور تیسری نواز شریف حکومت نے بھی حسب عادت آئی ایم ایف سے پیکیجز کے لئے معاہدے کئے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز شریف کے منشور میں ”خیرات کا پیالہ“ توڑنا شامل تھا لیکن مئی 2013میں تیسری نواز حکومت برسراقتدار آئی تو آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ دراز کرنے کی عجیب و غریب تاویلیں گھڑیں۔ یہ کہا گیا کہ قرضوں کے حجم میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ صرف پرانے قرضے اتارنے کے لئے نئے قرضے لئے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے 7ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا تو کہا گیا کہ یہ قرضہ پیپلز پارٹی نے آئی ایم ایف سے جو قرضہ لیا تھا اس کی واپسی کے لئے لیا جا رہا ہے۔ اپریل 2014میں وزارت خزانہ کے اعلیٰ افسروں اور وزیرخزانہ اسحق ڈار 500ملین ڈالر کے یورو بانڈ بیچنے کے لئے کئی مغربی ممالک کے دورے پر گئے جس کے نتیجے میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور حکومت نے بجائے 500ملین ڈالر کے دو ارب ڈالر کے قرضے حاصل کئے جو یورو بانڈ کی شکل میں تھے۔ یورو بانڈ وہ قرضے ہیں جو حکومتوں اور مالیاتی اداروں سے نہیں بلکہ غیرملکی بنکوںسے حاصل کئے جاتے ہیں۔ ان کی واپسی کی مدت محدود اور شرح سود ماکیٹ ریٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اپریل 2014میں حکومت نے جو یورو بانڈ بیچے ان پر شرح سود 8فیصد سالانہ ہے۔جبکہ خان صاحب کی حکومت نے آغاز میں تو آئی ایم ایف سے کنارہ کشی کے اعلانات کیے مگر اُس بھولے سائیں کو بعد میں علم ہوا کے اس کے بغیر دنیا نہیں چلتی! اس لیے پھر خان صاحب کو بھی آئی ایم ایف کا سہارا لینا پڑا۔ الغرض ہمارا سفر معیشت کو دلدل میں دھکیلنے کے حوالے سے گزشتہ 40سال سے جاری و ساری ہے۔ اور حالات یہ ہیں کہ ہم پھر بھی باز نہیں آرہے ، جبکہ حد تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت غیرملکی بینکوں سے مارکیٹ سے بلند ریٹ پر 10-15ارب ڈالر کے قرضے حاصل کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہے جو داسو ڈیم اور بھاشا ڈیم کی تعمیر پر خرچ کئے جائیں گے۔ پرائیویٹ سیکٹر سے حاصل کئے گئے قرضوں کی بنیاد پر دو میگا ڈیمزکی تعمیر کے منصوبوں کے لئے حاصل کئے گئے قرضوں پر شرح سود کم از کم دس فیصد کا اندازہ لگایا گیا ہے کیونکہ یوروبانڈ جو صرف دو بلین ڈالر مالیت کے تھے، آٹھ فیصد شرح سود پرحاصل کئے ہیں۔ گویا اگر دس ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا تو اگلے دس سالوں میں دس ارب ڈالر صرف سود کی مد میں ادا کرنے ہوں گے اور یہ ضروری نہیں کہ یہ ڈیم مقررہ مدت میں مکمل ہو جائیں۔ اور پھر حالات یہ ہیں کہ گزشتہ دنوں جب ہمارا وفد آئی ایم ایف کے پاس گیا تو شاہانہ اخراجات پر ایک مبصر نے تبصرہ کیا کہ” آج تک تیسری دنیا کا کوئی حکمران اتنے شاہانہ انداز میں مانگنے نہیں آیا۔“ اس طرح کے ہی ایک دورے کے دوران ایک لوکل اخبار میں ایک کارٹون شائع ہوا جس میں ایک فقیر کو آئی ایم ایف کے باہر بیٹھے دکھایا گیا جس کی کمر جھکی تھی اور بال گر رہے تھے۔ ”یہ شخص نوجوان تھا جب مانگنے کے لئے پہلی مرتبہ آیا تھا“ ایک اعلیٰ افسر اپنے ساتھی کو بتا رہا تھا۔اس بات پر غور وفکر کی ضرورت ہے کہ پاکستان اس مقام پر کیسے پہنچا۔ ایک ایسا ملک جسے مملکت خداداد کہا جاتا ہے، جسے قدرت نے ہر طرح کی نعمت سے مالا مال کیا ہے۔ پانچ دریا دنیا کے آٹھ اونچے ترین پہاڑ‘ زرخیز زمین۔ بہرکیف لاکھوں کا سوال یہ ہے کہ ہم اس جھنجٹ سے کیسے نکلیں؟ اس کے جواب بہت سے ہیں مگر Implementationنہیں ہے، مثلاََ اگر میں کہوں کہ ایکسپورٹ بڑھائی جائے، اپنی چیزیں دوسرے ملکوں کو بیچی جائیں، یا دوسرے ملکوں میں جاکر اپنی پراڈکٹس کی نمائش لگائی جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ گاہک پاکستان کا رخ کریں اور یہاں زیادہ سے زیادہ سرمایہ آئے۔ لیکن لاکھوں نہیں کروڑوں کا سوال یہ ہے کہ ہم بیچیں کیا؟ ہمارے پاس بیچنے کے لیے ہے کیا؟ گندم؟ چاول؟ یا دوسرے اجناس۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے حالات یہ ہیں کہ یہ تمام اجناس ہماری اپنی ضروریات پوری نہیں کر رہیں۔ مثلاََ چاول گندم ہم امپورٹ کرنے کا پلان بنا رہے ہیں۔یا غیر معیاری کوالٹی کی ہونے کی وجہ سے ہمارے گاہک بھاگ کر بھارت و بنگلہ دیش کا رخ کر رہے ہیں۔ اور پھر اگر میں کہوں کہ امپورٹ کم کی جائیں تو یقین مانیں آج ہم شیونگ بلیڈ سے لے کر الیکٹرانک اشیاءتک ہر چیز کے تابع ہو چکے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہم امپورٹڈ چیزوں کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ آہستہ آہستہ چیزوں کو ٹھیک کیا جائے، اس کے لیے لانگ ٹرم پالیسی کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف سے قرضے لینا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ دنیا کے 130ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض لے رکھے ہیں مگر وہ ان قرضوں کو اپنے ملکوں کی تعمیر و ترقی اور بڑے بڑے فلاحی ، دیرپا اور منافع بخش پراجیکٹس بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ہم ان قرضوں کو صرف سود ادا کرنے کی مد میں خرچ کر رہے ہیں۔ لہٰذادس سالہ منصوبوں کو دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے، اس کے لیے فل تگڑا اور تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے، لیکن اُس سے پہلے حکومت دس سالہ پالیسی کو ماہرین کے ذریعے مرتب کرے، فیصلہ کرنے والی قوتوں اوران کے ماہرین کو بھی ساتھ ملائے اور تب اپوزیشن کو بھی ساتھ ملالے ورنہ خاکم بدہن ہم آج نہیں تو کل تک ضرور ڈیفالٹ کر جائیں گے کیوں کہ بقول شاعر اب یہ سفر نہیں رکے گا۔ کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا