زراعت پر ہی توجہ دے کر دیکھ لیں!

بجٹ میں عوام کے لیے ویسے توکچھ نہیں ہے، اور تاریخ کا شاید یہ پہلا بجٹ ہے کہ جس میں عوام نے حکومت سے کسی قسم کی اُمید نہیں رکھی، اور شاید یہ پہلا بجٹ ہے جب وزیر خزانہ کو ”ہیڈفون“ کا استعمال نہیں کرنا پڑا ، کیوں کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن نام کی کوئی پارٹی ہی موجود نہیں ہے، اور پھر آپ حیران ہوں گے کہ عوام کی جانب سے بھی نام نہاد اور نت نئے ٹیکسز لگانے کے حوالے سے کوئی خاص احتجاج ریکارڈ نہیں ہوا۔ اس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ شاید ہم نے آئی ایم ایف اور موجودہ حکومت کو ذہنی طور پر قبول کر لیا ہے، یا شاید ہم ان کے آگے سرنگوں ہو چکے ہیں! لیکن اس اندھیر بجٹ میں ایک چیز نے ہمیں متاثر ضرور کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت نے وفاقی بجٹ میں زراعت کے شعبے کے فروغ کے لئے زرعی آلات سمیت دیگر مشینری اور زراعت کے حوالے سے ٹیکس کو فری کردیا گیا ہے جو ایک خوش آئند امر ہے کیونکہ کسان طبقہ پہلے سے ہی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خیر زراعت کی کچھ سُدھ بُدھ اس طرح سے ہے کہ کئی نسلوں سے ہمارا خاندان زراعت سے جڑا ہوا ہے۔ اب بھی گاﺅں کھڈیاں(قصور) اکثر جانا ہوتا ہے اور رشتہ دار کسانوں سے ان کے مسئلے مسائل پر بات ہوتی ہے۔تو سوچتا ہوں کہ اگر حکومت اس جانب سنجیدگی سے توجہ دے تو ہم اربوں ڈالر کی زرعی اجناس کی ایکسپورٹ کے قابل ہوسکتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ فی الوقت ہم زرعی اجناس امپورٹ کر رہے ہیں یعنی آپ کو حیرت ہوگی کہ پچھلے سال پاکستان نے آٹھ ارب ڈالر کاغذائی مواد درآمد کیا اور اس میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی گندم بھی تھی۔ میرے لیے یہ خبر بالکل اچھی نہیں تھی۔ دیہات میں اگر کوئی شخص جسمانی یا مالی طور پر خاصا کمزور ہو جائے تو کہتے ہیں کہ فلاں شخص کے دانے ختم ہو گئے ہیں۔ مجھے پہلی نظر میں یوں لگا کہ پاکستان کے دانے ختم ہو رہے ہیں، لیکن حقیقت یوں تھی کہ کچھ گندم پاکستان ایکسپورٹ بھی کر چکا تھا اور یہ بھی بذاتِ خود ایک لطیفہ تھا اور اس بات کی دلیل تھا کہ ہماری بیورو کریسی زمینی حقیقتوں سے دور ہے۔ پھر یہ بھی پتہ چلا کہ مغربی جانب دو تین ممالک میں نان پاکستانی آٹے سے بنتے ہیں،گویا سمگلنگ بڑی مقدار میں ہوتی ہے۔ بہرحال اگر پاکستان میں زیر کاشت رقبے کے حوالے سے بات کی جائے تو اس وقت پاکستان میں 22.15 ملین ہیکٹر رقبہ زیر کاشت ہے جبکہ 9.40 ملین ہیکٹر رقبہ ایسا ہے جس میں گزشتہ سال کے دوران کم از کم ایک فصل کاشت ہوئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 8.29 ملین ہیکٹر رقبہ ایسا ہے جو قابلِ کاشت تو ہے لیکن اس پر کاشتکاری نہیں ہو رہی۔ یہ رقبہ اس وقت کے کل زیر کاشت رقبے کا تقریباً 30 فیصد سے زائد بنتا ہے۔ اگر ہم اس 8.29 ملین ہیکٹر قابلِ کاشت رقبے کے صرف 25 سے 30 فیصد حصے پر کاشت کر لیں تو ملک میں یقینا زرعی انقلاب آ سکتا ہے لیکن ایسا کرے گا کون اور کیوں کرے گا؟آپ اندازہ لگائیں کہ گزشتہ 20 سالوں میں ہماری زیر کاشت رقبے اور قابلِ کاشت بیکار پڑے رقبے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس سے آپ حکومتوں کی زراعت سے عدم دلچسپی اور عدم توجہی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔اور پھر پاکستان میں انگریز کا قائم کردہ آبپاشی کا بہترین نظام موجود ہے۔ ہماری غفلت سے وہ کم اثر ہورہا ہے۔اس کے علاوہ بھی بے شمار چیلنجز ہیں۔ جن سے پیداوار متاثر ہورہی ہے۔مثلاََ یہاں پہلا مسئلہ پانی کی عدم دستیابی ہے، 1950ء میں ہر پاکستانی کو پانچ ہزار مکعب فٹ سالانہ پانی دستیاب تھا جو اب ایک ہزار مکعب فٹ رہ گیا ہے۔اس کی بڑی وجہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ ہمارے ہاں پچپن سے ساٹھ فیصد لوگوں کی روزی روٹی زراعت سے منسلک ہے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی رونقیں بھی زرعی شعبے سے جڑی ہوئی ہیں۔پاکستان میں آبپاشی زیادہ تر اب بھی روایتی طریقے سے ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ابIrrigation Drip اورPivot Irrigationاستعمال ہوتی ہیں۔ ڈرپ سسٹم میں پانی پلاسٹک کی باریک نالیوں میں سے قطرہ قطرہ پودوں کی جڑوں میں گرتا ہے جبکہ Pivot سسٹم میں فواروں کے ذریعے اچھے خاصے رقبے کو چند منٹوں میں سیراب کر دیا جاتا ہے۔ اس میں پانی کم از کم آدھا بچ جاتا ہے اور وقت بھی کم لگتا ہے ۔ Pivot Irrigationکے چند پائلٹ پراجیکٹ لگائے گئے ہیں مگر بڑے شہروں کے آس پاس اور وہ بھی ایسے اضلاع میں جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔نہر کے آخری حصے کو ٹیل( Tail)کہا جاتا ہے۔ ٹیل والے حصے میں پانی کا بہاﺅ کمزور بھی ہو سکتا ہے اور مقدار میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔ پانی چوری کی وبا بھی موجود ہے۔ نہر سے زرعی زمین کو پانی لیجانے کے لیے پکے موہگے بنائے جاتے ہیں جو کہ محکمہ آبپاشی کی پیمائش کے مطابق ہوتے ہیں۔ پانی چور ان موہگوں کو محکمہ کے اہلکاروں سے ملی بھگت کر کے یا خود ہی بڑا کر لیتے ہیں۔ اگر حکومت جرمانہ کرے تو عدالتوں سے سٹے لے آتے ہیں۔ ایسی صورت میں ٹیل والوں کو پانی اور بھی کم ملتا ہے۔ ہماری زراعت کا دوسرا چیلنج کھاد کی بروقت عدم دستیابی ہے۔ اس مرتبہ گندم کی بوائی کے وقت DAPغائب تھی، چلیں یہ کھاد تو 40فیصد ہی ملک میں بنتی ہے ہمارے ملک میں بننے والی یوریا بھی مارکیٹ میں شارٹ ہے اور مہنگے داموں مل رہی ہے۔ یہ دونوں کھادیں گندم کی فصل کے لیے لازمی ہیں۔ سنا ہے ہماری یوریا سنٹرل ایشیا تک سمگل ہوتی ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے اونچی قیمت پر بیچی جاتی ہے مگر کسان کو رسید کنٹرول پرائس والی دی جاتی ہے۔ چھوٹے رقبے والا غریب کسان مہنگی کھاد افورڈ ہی نہیں کر سکتا ہے اور ہمارے اکثر کسان چھوٹی ہولڈنگ والے ہیں۔زرعی ریسرچ کے فوائد اور ماڈرن مشینری پروگریسو فارمر کو بھی نہیں مل پاتے‘ گندم اور گنے کی کاشت کے نئے طریقے نکل آئے ہیں۔ گندم کے لیے ساڑھے تین فٹ چوڑے اور بہت لمبے بیڈ بنائے جاتے ہیں۔ ان کے اوپر گندم بوئی جاتی ہے۔ دونوں جانب پانی کے لیے نالیاں بنائی جاتی ہیں۔ اس عمل سے آدھا پانی بچ سکتا ہے اور پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے مگر بیڈ اور نالیاں بنانے والی مشینری کسانوں کو نہیں مل رہی۔ پھر ہماری زراعت کا تیسرابڑا مسئلہ حکومت کی چھوٹے کسان سے بے اعتنائی ہے۔ یہ وہ کسان ہے جو ایک دو ایکڑ کا مالک ہوتا ہے۔ اُس میں نہ ٹریکٹر خریدنے کی سکت ہوتی ہے نہ ٹیوب ویل لگوانے کی۔ ویسے بھی کسانوں کے لیے بجلی ساڑھے پانچ روپے فی یونٹ سے بڑھا کر ساڑھے سات روپے فی یونٹ کر دی گئی ہے۔ چھوٹا کسان بری طرح پس گیا ہے۔ سنا ہے کہ انڈیا کے صوبہ راجستھان میں کسانوں کو بجلی مفت ملتی ہے۔ ہمارے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک غیر سرکاری تنظیم بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ اس کا شعار ہے ”ایک ایکڑ ایک فیملی“۔ یہ چھوٹے کسانوں کو خود کفالت سکھاتے ہیں۔ ایک ایکڑ والا فارمر اگر فصل کاشت نہیں کر سکتا تو پولٹری فارم تو بنا سکتا ہے۔ فش فارمنگ کے لیے تالاب بھی بنا سکتا ہے۔ کنو، مالٹے اور لیموں کے پودوں کی نرسری بنا سکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی زراعت کو بچانا ہے تو پہلے چھوٹے کسان کو بچانا ہو گا۔ ہماری زراعت کا ایک اور مسئلہ فصلوں کا چناﺅ ہے۔ گنا پورے سال کی فصل ہے جو بہت پانی مانگتی ہے۔ ہمارے ہاں سفید چینی کا استعمال خطرناک حد تک زیادہ ہے اور سفید چینی عمومی طور پر صحت کے لیے مضر ہے۔ شوگر مافیا کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ لوگ گنا زیادہ کاشت کریں۔ کماد اور گندم کی بوائی کا موسم آس پاس ہے ہماری نیشنل فوڈ سکیورٹی کے لیے گندم یقینا زیادہ اہم ہے۔ چینی کے بغیر چائے پی جا سکتی ہے۔ مٹھائی کھائے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے لیکن روٹی‘ نان کے بغیر زندگی دشوار ہے۔ جنوبی پنجاب میں کماد نے نہ صرف گندم اور کپاس کا رقبہ کم کیا ہے بلکہ یہ دونوں فصلیں گنے کے کھیتوں سے پیدا ہونے والی رطوبت سے بھی متاثر ہوئی ہیں یہ رطوبت فصل دشمن کیڑوں کو جنم دیتی ہے۔ اور پھر ان مسائل سے بڑھ کر زراعت کا سب سے اہم شعبہ لائیو سٹاک بھی حکومت کی ناقص پالیسیوں کا شکار ہو چکا ہے حالانکہ پاکستان لائیو سٹاک کی دولت سے مالا مال ہے۔ ہمارے پاس 42.4 ملین بھینسیں 51.5 ملین گائے 80.3 ملین بکریاں اور 31.6 ملین بھیڑیں بھی موجود ہیں لیکن دنیا کی حلال گوشت کی مارکیٹ میں ہمارا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کا چوتھا نمبر ہے لیکن اس کے باوجود ہم دودھ اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات کی درآمد پر ہر سال اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم بیج کھاد، کرم کش ادویات اور زراعت سے متعلقہ کئی اشیاءکی درآمد پر لگے ہوئے ہیں۔ بہرکیف کتنی شرم کی بات ہے کہ بنیادی طور پر صدیوں سے ایک زرعی ملک کی شناخت رکھنے والے پاکستان کو گندم، چینی بھی درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارا میڈیا، نامور اینکر پرسن، معیشت کے ماہرین بڑے بڑے بینکار کوئی بھی اپنی زرعی پیداوار بڑھانے پر زور نہیں دیتا۔ 4سے 5مہینے مسلسل دن رات جان لڑاکر کام کرنے والے کسان کی آمدنی کا تخمینہ صرف 100روپے روزانہ بنتا ہے۔ جبکہ شہر میں ایک عام بے ہنر مزدور بھی 6سو سے 8سو روپے روزانہ کما لیتا ہے۔ یہ فرق کسان کو بھی زمین چھوڑ کر شہر جانے پر مجبور کرتا ہے۔ کہیں سے ایسی آواز نہیں آتی کہ ہم فی ایکڑ بہتر پیداوار کے ذریعے پاکستان کو خوشحال کر سکتے ہیں۔ غربت کے خاتمے میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔لہٰذاحکومت کو چاہیے کہ اگر اُس نے زراعت پر زیرو ٹیکس لگا کر بہترین اقدام اُٹھایا ہے تو کسان کے باقی ماندہ مسائل کو حل کرنے میں بھی دلچسپی دکھائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم اس اہم شعبے میں بھی خود کفیل نہیں رہیں گے!