5جولائی1977ئ: تاریخ کا سیاہ ترین دن!

ایک اور پانچ جولائی گزر گیا، نہ جانے اور کتنے 5جولائی آئیں گے اور 1977ءکی یاد تازہ کرتے جائیں گے جب جنرل ضیاءالحق نے شب خون مار کر ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔اس کے محرکات اور پس منظر کیا تھے اس کا ذکر تو بعد میں کریں گے مگر سب سے پہلے آپ کو بتاتا چلوں کہ اس دن سے پہلے یہاں بالکل اسی طرح غیر ملکیوں کی چہل پہل تھی جیسے آج کل یورپ، امریکا، برطانیہ ، دبئی یا ترکی میں دیکھی جا سکتی ہے، یہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح آتے تھے، لوگ ان کے ساتھ گھل مل جاتے تھے کوئی ان کے لباس یا حلیے پر تنقید نہیں کرتا تھا۔ نہ ہی ان کے کھانے پینے یا عقیدے کے بارے میں کسی کو پروا تھی۔یعنی یہ ملک بہت پرامن، روشن خیال اور مہذب ملک تھا۔ پھر کیا ہوا؟ جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاءلگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہاں مذہب کے نام پر خون بہایا جانے لگا، بم دھماکے ہونے لگے، ہیروئن عام ہوگئی، کلاشنکوف کلچر نے جنم لیا، اغواءبرائے تاوان ہونے لگے، غیر سیاسی شخصیات نے سیاست کو گھر کی باندی بنا لیا، سیاست میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جانے لگا، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگز قائم ہونے لگے اور پھر یہاں دنیا کی 20سے زائد خفیہ تنظیموں نے ایسے قدم جمائے کہ اب پتہ نہیں یہاں کون ”سجن“ اور کون دشمن ہے۔ اب اگر ذرا اس حوالے سے بات کریں کہ 5جولائی 1977ءکو ایسا کیا ہوا کہ جنرل ضیاءالحق کو مارشل لاءبھی لگانا پڑا اور اُس کے چند ماہ بعد معزول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر بھی لٹکانا پڑاتو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اس ملک کو عالمی طاقتوں اور اندرونی سازشوں کے ذریعے ڈبویا گیا۔ درحقیقت ذوالفقار علی بھٹو بھی نڈر، بے باک اور کچھ کر گزرنے والے سیاستدان ضرور تھے مگر اقتدار کا طول اور شخصی آمریت اُنہیں بھی لے ڈوبی تھی۔ یہ اُنہی دنوں کی بات ہے جب ہم زمانہ طالب علمی سے گزر رہے تھے ، بھٹو کا دور اقتدار تھا، سیاسی جماعتیں اُس وقت بھی ایک دوسرے پر سخت قسم کی تنقید کر رہی تھیں، ہم بھی پیپلزپارٹی کے ادنیٰ سے جیالے ہونے کی وجہ سے ہر جلسے جلوس میں موجود ہوتے، کبھی بسوں کی چھتوں پر سوار ہوکر تو کبھی میلوں پیدل چل کر بھٹو کی تقریر سننے جایا کرتے تھے۔پھر ان جلسے جلوسوں کی ایسی لت پڑی کہ ہم نے بھی پیپلزپارٹی کا” جیالا“(کارکن) بن کر ہی دم لیا۔ لیکن اُس کا اُلٹا نقصان اس وقت ہوگیاکہ ہمیں ”سر منڈاتے ہی اولے پڑنا شروع ہوگئے“ مطلب ضیاءالحق نے مارشل لگایا اور ہمیں بھی پکڑ کر ”اندر“ کر دیا گیا، ہم بھی ایک عرصہ تک ”قلعہ بند“ رہ کر آمریت کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ جس سے ہماری سیاست شروع ہونے سے پہلے ہی مارشل لاءکی نذر ہوگئی! خیر جس طرح غلطیاں سیاست کا شاخسانہ ہوتی ہیں بالکل اُسی طرح بھٹو صاحب سے بھی اُس وقت کئی ایک غلطیاں سرزد ہوئیں جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ جیسے 1976 کے اوائل کی بات ہے جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک اہم فیصلہ کرنا تھا۔ آرمی چیف جنرل ٹکا خان کی مدت ملازمت پوری ہو رہی تھی اور انہیں اب اس منصب پر نیا فرد مقرر کرنا تھا۔ وزارت دفاع 5 سینئیر ترین جنرلز کے نام ایک سمری کی صورت میں وزیر اعظم آفس بھیج دیتی ہے۔ وزیر اعظم اس سمری کے برعکس ایک فیصلہ کرتے ہیں اور وہ فیصلہ جو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اور وہ یہ تھا کہ وہ اس لسٹ میں آٹھویں نمبر پر ہونے والے شخص کو آرمی چیف مقرر کر دیتے ہیں اور جس شخص کو وہ اس منصب پر فائز کرتے ہیں وہ تھے اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالحق۔ سارے ٹاپ آفیشلز حیران تھے کہ یہ کس قسم کا فیصلہ ہے اور یہ کیوں گیا ہے مگر اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب ایسا شخص اپنے ماتحت طاقتور عہدہ پر رکھنا چاہتے تھے جو ان کا تابع دار ہو اور نا ہی ان کی حکومت کو اور ان کو اس شخص سے کوئی خطرہ ہو۔ اور جنرل ضیاءبھٹو صاحب کے اس معیار پر پورا اترے اور انہوں نے بھی بھٹو صاحب کی قربت لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نا چھوڑا۔ بھٹو صاحب عوامی لیڈر تھے، درجنوں متنازع اقدامات کے باوجود عوام میں اُن کی مقبولیت میں کمی نہیں ہو رہی تھی۔ اسی عوامی مقبولیت کی بنیاد پر انہوں نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا، 1977 میں اور تمام اپوزیشن جماعتیں پاکستان قومی اتحاد کے نام سے انتخابی اتحاد بنا کر پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابات لڑتی ہے۔ پہلی قومی اسمبلی کی 200 نشستوں پر پہلے انتخاب ہوتے ہیں جس کے نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو 155 نشستیں ملتی ہیں۔ دھاندلی کا شور اٹھتا ہے اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد پی این اے احتجاجی تحریک چلاتی ہے اور وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کرتی ہے۔ بد ترین سنسرشپ کے باوجود تحریک چلتی ہے اور وہ تحریک اچانک تحریک نظام مصطفی بن جاتی ہے اور اور شدت اختیار کرنے لگتی ہے۔ ملک کے ہر گلی کوچے میں احتجاج ہو رہا ہوتا ہے اور اس دوران 200 افراد مارے جاتے ہیں۔اس تحریک کا فائدہ جنرل ضیاءنے بھی اُٹھایاجو پہلے ہی بھٹو کے خلاف ہو چکے تھے۔ اور مناسب وقت کے انتظار میں تھے۔انہوں نے اپوزیشن کو سپورٹ کیا۔ جبکہ دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات حتمی نتیجے تک پہنچ چکے تھے، جس کے مطابق جلد دوبارہ انتخابات ہونا تھے۔ مگر جنرل ضیاءکو یہ منظور نہ تھا، وہ شاید عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایماءپر اقتدار میں آنا چاہتے تھے، کیوں کہ بادی النظر میں جنرل ضیاءالحق کی شکل میں سامراجی طاقتوں کو ایک مہرہ مل چکا تھا اور عالمی طاقتیں بھٹو کی بولڈ ٹاک کی وجہ سے اُنہیں سخت ناپسند کرتی تھیں۔ اس حوالے سے اپنی حکومت کے آخری ایّام کی ایک تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایک تاریخی فقرہ کہا تھا جسے وقت نے سچ ثابت کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ”مجھے نہیں پتہ میرے بعد فرشتے آئینگے یا راسپوٹین “۔راسپوٹین زا رِ روس کے آخری زمانے کا ایک پادری تھا۔ جو مذہب کے نام پر ہر طرح کی مکّاری اور عیاری کو جائز سمجھتا تھا۔ اور پھر ایک اور جگہ کہا تھا کہ میں کبھی عالمی سازشی ٹولوں کو اُن کے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔ بہرکیف پھر سب نے دیکھا کہ جنرل ضیاءکا مارشل لاءکامیاب ہوگیا اور موصوف برسراقتدار آگئے۔ اُس کے بعد جنرل ضیا ءنے ایک ریفرنڈم کرایا جس میں پوچھا گیا کہ کیا عوام اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں اگر وہ ہاں کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وہ جنرل ضیاءکو صدر منتخب کرنا چاہتے ہیں، اس سے اُن کے اقتدار کو مزید طوالت مل گئی۔پھر ضیا الحق نے ملک گیر عوامی جماعت پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لیے اندرونِ سندھ علیحدگی پسندوں کو مضبوط کیا اور سندھ کے شہروں میں کئی فرقہ وارانہ اور لسانی گروہوں کی سرپرستی کی اس کے غیر جماعتی انتخابات نے قوم کو عمودی اور افقی ہر سطح پر تقسیم در تقسیم کردیا۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو سرِعام کوڑے مارنے کی غیر انسانی سزائیں دیں۔ اس کے نام نہاد اور خود ساختہ نظام نے کرپشن کے نئے دروازے کھول دئیے۔ انہوں نے ہر ممبر اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر لاکھوں روپے دیکر ضمیر فروشی کو سیاست کا حصّہ بنا دیا۔ انہوںنے اپنی غیر جمہوری آئینی ترامیم خصوصاََ آٹھویں ترمیم کے ذریعے آمریت کو آئین کا حصّہ بنا دیا۔ الغرض جوں جوں وقت گزرتا گیا ، ملک کے حالات بدلتے گئے اور پھر ہماری آنکھوں کے سامنے ایک ”ناکام پاکستان“ کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ ہمارا یونیورسٹی کا زمانہ گھٹن اور دباﺅ میں گزر گیا”یہ نہیں کرنا اس کی اجازت نہیں ہے۔وغیرہ “ضیا آمریت کا آسیب معاشرے پر اس قدر غالب آگیا کہ اقدار ہی بدل گئیں۔ مصنوعیت، منافقت اور جارحیت عام ہو گئی۔ توازن، اعتدال اور برداشت کی خوبیاں غائب ہو گئیں۔ اب ضیا دور کو گئے کئی دہائیاں گزر گئیں مگر اس کا آسیب آکاس بیل کی طرح معاشرے کو ایسا چمٹا ہے کہ اسے ریزہ ریزہ کرنے کے درپے ہے۔ فرقہ بندی، ذاتیں، خانہ جنگی ، کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر وہ تحفے ہیں جو پانچ جولائی کا آپریشن فیئر پلے پاکستان کو سونپ دیا گیا۔لاکھ کوششوں کے باوجود ہم پانچ جولائی 1977سے پہلے والا پر سکون معاشرہ واپس لانے میں ناکام ہیں۔دوسری طرف جنرل ضیا الحق نے افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف امریکہ کی مدد سے عملی مزاحمت اور خفیہ امداد کا سلسلہ شروع کر دیا۔ پڑوس میں تیسری عالمی جنگ کے شعلے بلند ہوتے رہے پاکستان میں بھی اس آگ سے بہت کچھ بدل گیا۔ تخریب کاری، بم دھماکے، افغان مہاجرین اور ہیروئین اور کلاشنکوف جیسی وبائیں اسی جنگ کا نتیجہ تھیں۔ عالمی سامریت کا ساتھ دیتے دیتے جنرل ضیا الحق نے اپنے توسیعی عزائم کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔ افغانستان تو آخر تک ان کا میدان عمل رہا۔ ساتھ ہی ساتھ روس اور چین کے مسلم شدت پسندوں کو بھی پاکستان لا بٹھایا۔ انڈیا کے سکھوں میں آزادی کی تحریک کے حوالے سے بھی امداد شروع کی۔ بہرکیف میں پانچ جولائی کو 1971ءکی جنگ کے بعد تاریخ کا سب سے سیاہ ترین دن سمجھتا ہوں، جب سیاست کا رُخ ہی موڑ دیا گیا۔ان سالوں میں ایک تبدیلی البتہ صاف نظر آتی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت یا کوئی بھی ادارہ، جنرل ضیا الحق کی پالیسیوں کا مداح نہیں رہا ایک عمومی اتفاق رائے ہے کہ پانچ جولائی 1977 اور اس کے بعد 11سال تک جنرل ضیا الحق نے جو کیا وہ ملکی مفاد میں نہیں تھا۔ ان پالیسیوں سے ملک کمزور ہوا، عوام تقسیم ہوئے اور ہم سب غیر محفوظ ہوگئے۔لیکن اس بات کو آج تک سدھارنا تو دور کی بات کسی نے تسلیم بھی نہیں کیا۔ اور غلطی سدھارنے کی پہلی شرط بھی یہی ہے کہ سب سے پہلے کی گئی غلطی کو دل سے تسلیم کر لیا جائے!!