اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کیا ہوگا؟

آج کل اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے، دونوںطرف کے دلائل دیئے جا رہے ہیں، یاران مجلس حق اور مخالفت میں معاملے کے ہر پہلو کو کھنگالنے کی کوشش کر رہے ہیں، معروضی اور متعلقہ حقائق کے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے، عرب ممالک کے رویوں کی جانچ پرکھ کی جا رہی ہے، فلسطینیوں کی حالت زار کا تفصیل سے نقشہ کھینچا جا رہا ہے، عربوں نے اسرائیل کے خلاف جو جنگیں لڑیں زیادہ تر میں شکست ہوئی ان پر تفصیلی نگاہ ڈالی جا رہی ہے، امریکہ اسرائیل تعلقات کی بنیادوں پر سیرحاصل گفتگو ہورہی ہے، پاکستان کی نظریاتی اساس کو یہودی ریاست کو تسلیم کرنے پر کیا زک پہنچ سکتی ہے اس پر روشنی ڈالی جا رہی ہے، دوسری جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی صورت میں ہمارے ملک کو کیا اقتصادی فوائد مل سکتے ہیں اس کے مثبت پہلوﺅں کو سامنے لایا جا رہا ہے، دنیا کی بااثر ترین یہودی لابی پاکستان کو کس نقطہ نگاہ سے دیکھتی ہے، اسرائیلی سرمایہ کار اگر پاکستان میں آ گئے، ان کے ثقافتی مراکز کھل گئے تو کیا اثرات مرتب ہوں گے یہودی دانشور ہمارے کلچر پر کس حد تک اثرانداز ہو پائیں گے، وغیرہ وغیرہ جیسے موضوعات آج کل زیر بحث ہیں، جن پر بحث ہونا اچھی بات ہے، کیوں کہ جب آپ کسی مسئلے پر درمیان میںاٹکے ہوتے ہیں تو قومی سطح پر بحث و مباحثہ کروانا بہترین عمل ہوتا ہے، اس سے ایک تو آپ کو عوامی رائے کا اندازہ ہوتا ہے ، دوسرا مسئلے کو حل کرنے کے لیے آپ کے سامنے کئی تجاویز آجاتی ہیں۔ رہی بات پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نا کرنے کی تو اس موضوع کو دوبارہ زیر بحث اس لیے لایا جا رہا ہے کیوں کہ گزشتہ ہفتے میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے امریکا دباﺅ ڈال رہا ہے، اور اس دباﺅ کی وجہ امریکہ میں اسرائیل کا گہرا اثر ورسوخ ہے اور یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں”غیرمعمولی“ ہوگیا ہے۔ساتھ ہی عمران خان نے کہا تھاکہ میں مسئلہ فلسطین کے قابل اطمینان حل تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وزیر اعظم کا یہ بیان بعض حلقوں کے نزدیک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پہلی سیڑھی قرار دیا گیا ہے جسے بعد ازاں پہلے عرب ممالک نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، پھر مشرق وسطیٰ کے ممالک نے، پھر امریکی اخبارات نے اور پھر بھارتی اخبارات نے اسے خوب اچھالا۔ جس کی وجہ سے ”دباﺅ“ میں آکر پاکستان کے دفتر خارجہ کو پریس بریفنگ بلانا پڑی جس میں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر وضاحت پیش کی اور کہا کہ وزیر اعظم کے انٹرویو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن بحث تو بہرحال چھڑ گئی ہے، اس لیے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے یا نہیں تو اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان نے پہلے دن سے اسرائیل کو کن وجوہات کی بنیاد پر تسلیم نہیں کیا تھا۔ قارئین اس کی تین وجوہات ہیں۔پہلی یہ کہ پاکستان کی عرب مسلم ممالک کے ساتھ مذہبی یکجہتی کے طور پر ، دوسری وجہ دنیا بھر میں قدامت پسند مسلمان تنظیموں کی جانب سے منفی ردعمل کا خدشہ، جبکہ تیسرا ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور مذہبی گروپوں کے ردعمل کا خوف۔ اب ان تینوں وجوہات میں سے پہلی وجہ میں عرب ممالک کے ساتھ یکجہتی ہے جو میرے خیال میں اب ختم ہو جانی چاہیے، کیوں کہ بڑے مسلم ممالک جن میں ترکی، متحد ہ عرب امارات، اردن ، بحرین، مصر جیسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں جبکہ کل ہی کی خبر ہے کہ اسرائیلی صدر نے سعودی عرب کا خفیہ دورہ کیا ہے ،اگر یہ خبر سچ ہے تو یہ ملاقات ماضی کے بڑے حریفوں کے درمیان ہونے والی پہلی ملاقات ہے جس کے دورس نتائج برآمد ہوں گے۔ اور یہ دورہ مائیک پومپیو کے دباﺅ پر کروایا گیا ہے جس سے تاثر یہی ملتا ہے کہ سعودی عرب جلد یا بدیر اسرائیل کے تسلیم کر لے گا اور جلد ہی اپنے ملک میں اسرائیلی سفارت خانے کھول لے گا۔جبکہ دوسری اور تیسری وجوہات بھی اب بہت پیچھے رہ گئی ہیں اس لیے بادی النظر میں ایسی کوئی Solidوجہ نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی نہ کریں۔ اور پھر بھارت کے ساتھ پاکستان کی دشمنی اور مسئلہ کشمیر کے باوجود عرب ممالک کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات نے اس رائے کو بھی جنم دیا ہے کہ جب عرب پاکستان کے دشمن ملک سے ہاتھ ملا سکتا ہے، ایوارڈ دے سکتا ہے، تو پاکستان کسی کی لڑائی کی وجہ سے ایک اضافی دشمن کیوں پالے؟ پاکستان کو بھی اپنی سفارتی پوزیشن مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ بھارت نے پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ ہونے کا بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر اسرائیل پاکستان سے تعلقات قائم کرتا ہے تو اسے جنوبی ایشیا کی سیاست میں توازن رکھنا پڑے گا۔اور پھر اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہونے کی وجہ سے شاید پاکستان فلسطین کے لیے بھی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ اور ویسے بھی اسرائیل کے وزیر اعظم نے جب ہندوستان کا دورہ کیا تو ترغیب دلانے کے باوجود انہوں نے پاکستان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا تھا۔بلکہ ماضی قریب میں کسی پراسرار اسرائیلی طیارے اور کسی خاص مہمان کے پاکستان آنے اور کچھ گھنٹے رکنے کی خبریں بھی پاکستان میں گردش کرتی رہی تھی جن کی حکومت نے سختی سے تردید کی تھی۔اور اگر اس سے بھی پہلے کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی خواہش کی خبریں آئی تھیں اور اس وقت کے پاکستانی وزیرِ خارجہ خورشید قصوری نے 2005میں اپنے اسرائیلی ہم منصب سلون شالوم سے ملاقات بھی کی تھی جس کے بعد خود جنرل مشرف نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے موقعے پر اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم ایریل شیرون سے ہاتھ ملایا تھا اور تصویریں کھنچوائی تھیں۔ اسی دوران شالوم نے ایک پاکستانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل نے پاکستان کو کبھی بھی اپنا دشمن نہیں سمجھا اور نہ ہی اس نے کبھی انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے پر غور کیا ہے۔ اور ایک اور بات قابل غور ہے کہ زیادہ تر اسلامی ریاستیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں تو پاکستان کو کیا مسئلہ ہے؟ عالمِ اسلام میں اسرائیل کے حوالے سے دو گروپس ہیں، جن میں ایک جانب ترکی، مصر اور اردن (اور اب متحدہ عرب امارات و دیگر) ہیں، جنھوں نے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ اقتصادی تعلقات بھی ہیں۔ اور دوسری جانب شام، عراق، سعودی عرب، ایران و پاکستان وغیرہ آتے ہیں۔ شام اور عراق کی اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگیں ہوچکی ہیں۔ ایران بالواسطہ (حزب اللہ وغیرہ کو اسلحہ اور مالی معاونت فراہم کرتے ہوئے) اسرائیل کے ساتھ پنجہ آزمائی کر رہا ہے۔ سعودی عرب کی کوئی فوجی حیثیت نہیں ہے اور پاکستان اور دور پار کے دیگر اسلامی ممالک کا کردار عموماً اقوامِ متحدہ میں زبانی جمع خرچ جتنا ہی ہے۔ ترکی اور اسرائیل کے تعلقات آج کے نہیں، مگر آج تک ترکی مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری نہیں رکوا سکا ہے۔ اور رہی بات مصر کی، تو اسرائیل کےلیے غزہ کا محاصرہ مصر کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو نہ جنگ کرکے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ حاصل ہو رہا ہے اور نہ ہی تعلقات قائم کرکے ان کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثر پڑ رہا ہے۔اس کے علاوہ جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اُن میں سے بیشتر کے اقتصادی تعلقات پھر بھی بحال ہیں، جیسے انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ پھر قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات ہیں۔ پھر کویت، مراکش ، ملائشیا وغیرہ نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا مگر اُن کے قریبی تعلقات ہیں۔ الغرض آج دنیا کے160سے زیادہ ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی رشتے قائم کرچکے ہیں تو پاکستان کیوں الگ تھلگ ہے۔ لہٰذاعالمی تعلقات نظریات کے بجائے قومی مفادات پر مبنی ہونے چاہئیں۔ اب دو ممالک کے مابین دوستی اور دشمنی کا تعین ان کے باہمی مفادات کرتے ہیں۔ اس لئے پاکستان کو بھی جذباتیت کی بجائے حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے۔وہ عرب ممالک جن کی اسرائیل کے ساتھ دیرینہ دشمنی تھی اور جس دشمنی کا جواز بھی تھا، وہ اگر آج یہودی مملکت کو نہ صرف تسلیم کررہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ اقتصادی اور ثقافتی رشتے قائم کررہے ہیں اور مواصلات، ٹیکنالوجی، صحت عامہ، توانائی، ماحولیات یہاں تک کہ سکیورٹی کے امور پر بھی اس کے ہمراہ معاہدے کررہے ہیں، تو بھلا پاکستان نے کس لئے اسرائیل کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔اس لیے فوری طور پر اس کے لیے ایک ایسا تھنک ٹینک جو ہمارے سابق ماہر امور خارجہ کے ماہرین پر مشتمل ہو، تشکیل دینا چاہیے، جو فوری فیصلہ کر سکے کہ آیا اسرائیل کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔ کیوں کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اس وقت تمام پہلوﺅں کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ جذبات میں آکر اپنا نقصان کرنے کی۔