ہارس ٹریڈنگ کا” ہنر“ اور ہمارے سیاستدان !

آج وزیر اعلیٰ پنجاب کی سیٹ کا مقابلہ ہے، ٹاکرا بڑا سخت ہے، ہر طرف سے نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھل گئے ہیں، عمران خان اس حوالے سے ذرا پیچھے ہیں کیوں کہ اُن کے پاس نا تو بڑی اے ٹی ایم مشینیں ہیں اور نہ ہی اپنے دور میں کمائے کرپشن کے پیسے ہیں۔ لیکن دوسری جانب مقابلہ بڑا سخت ہے، ایک تحریک انصاف کے ایم پی اے کو استعفیٰ دینے پر راضی کر لیا گیا ہے، ایک کو ترکی بھیج دیا گیا ہے، جبکہ سنا ہے 10، 12ایم پی ایز سے بات چیت جاری ہے۔ تادم تحریر تحریک انصاف اور اُن کے اتحادی 160سے 165تک اسمبلی اراکین کو مقامی ہوٹل میں لاچکی ہے، جبکہ باقیوں کی بھی ”تلاش“ جاری ہے۔ جب حالات یہ ہوں کہ ہر طرف ”ہارس ٹریڈنگ“ کا عالم ہوتو کوئی بھی ذی شعور شخص بتائے کہ ملک کیسے چل سکتا ہے؟ کیسے آپ بہترین قیادت اوپر لا سکتے ہیں؟ یا کیسے آپ دنیا کو دکھا سکتے ہیں کہ پاکستان ایک بہترین قیادت والا ملک ہے جسے ذاتی مفادات سے زیادہ قومی مفاد عزیز ہے۔ لیکن اس کے برعکس حد تو یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ ہے کہ رکتی ہی نہیں۔ بلکہ یہ آج کی نہیں، یہ پاکستان بننے کے فوری بعد شروع ہوگئی تھی، یعنی 1959ءسے جمہوری حق کے نام پریہاں کھیل کھیلا جارہا ہے۔پھر مسلم لیگ ن نے ہی 1985ءسے ”ہارس ٹریڈنگ “ کی بنیا درکھی تھی ، جب ہار جانے والے سیاستدانوں کو سینیٹ میں کھپایا جانے لگا تھا، پھر 1988ءمیں کھل کر کھیلا گیا جب ملک میں پیپلزپارٹی کی بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف چھانگا مانگا کا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا۔جبکہ یہ عمل دخل 1993ءمیں عروج پر ہوگیا جب صنعتکاروں کو بھی سینیٹ میں بھیجنے کی روایت اسی جماعت کی طرف سے قائم کی گئی، جو ایوان بالا میں جا کر کچھ نہیں کرتے ، اور اس طرح بھانت بھانت کے لوگ اس ایوان کا حصہ بننے لگے۔ ورنہ بقول شاعر ہم کسی بھی دور میں ، غرقِ جنوں ایسے نہ تھے دشمنوں میں جنگ میں بھی بے سکوں ایسے نہ تھے پھر حالیہ سالوں میں جب نوازشریف کو ہٹانا مقصود تھا ، یا پر کاٹنے کی تیاری ہو چکی تھی اور فیصلہ ہو چکا تھا تو سب سے پہلے اُنہیں سینیٹ سے فارغ کرنے کا سوچا گیا ، اس کام کے لیے اُس وقت زرداری صاحب کی سروسز حاصل کی گئی تھیں کہ کسی بھی طرح سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین اپوزیشن جماعتوں کا ہی منتخب ہونا چاہیے۔ اس پروجیکٹ میں عمران خان بھی شامل ہو گئے اور آصف زرداری اور عمران خان دونوں کے مابین ایک خفیہ معاہدہ بھی ہوا۔ اس معاہدے کے تحت یہ طے پایا تھا کہ جب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہوگا تو پی ٹی آئی کے سینیٹرز آصف زرداری کے امیدوار کو ووٹ ڈالیں گے لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ لانے کیلئے سینیٹرز کی مطلوبہ تعداد کیسے پوری کی جائے۔ پھر ”زبردست ہارس ٹریڈنگ “ ہوئی، اور اس کے ساتھ آصف زرداری نے ایک منصوبہ بنایا کہ پہلے بلوچستان کی حکومت گرا کر وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کی جائے اور سینیٹ کے الیکشن سے پہلے نئے سینیٹرز اسلام آباد لائے جائیں اور ان کی مدد سے پورے ہاﺅس کا کنٹرول سنبھالا جائے۔آصف زرداری نے اس مقصد کیلئے اپنے ساتھ ایک بندہ لیا اور کوئٹہ روانہ ہو گئے۔ جہاں انہوں نے اپنا بلوچ کارڈ اور بریف کیس استعمال کیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک اچھی خاصی چلتی صوبائی حکومت جسے نواز شریف کی پارٹی کی حمایت حاصل تھی، یوں دھڑام سے گر جائے گی۔ آصف زرداری کی حکمت عملی سے چند ہی روز میں وزیراعلیٰ ثناءاللہ زہری کے خلاف بغاوت ہوئی اور عبدالقدوس بزنجو نئے وزیراعلیٰ بلوچستان بن گئے۔ جس کے بعد وہاں منعقدہ سینیٹ کے الیکشن میں بلوچستان سے اپنے لوگ سینیٹرز بنوا کر اسلام آباد بھجوا دیے گئے۔ چند ہی روز بعد جب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن ہوئے تو آصف زرداری کی کامیاب حکمت عملی سے ”بی اے پی“ سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی چیئرمین جبکہ پی پی کے سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے۔ سینیٹ نواز شریف کے ہاتھ سے نکل گیا۔ عمران خان سے بھی سینیٹ کے ووٹ لے کر آصف زرداری کے امیدوار کو ڈلوائے گئے اور عمران خان کے سینیٹرز نے پی پی پی کے سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین بنوایا۔ پھر یہی کھیل عمران خان کے ساتھ کھیلا گیا، لیکن اس بار زرداری صاحب کے ساتھ عمران خان کے بجائے نوازشریف تھے، اور عمران خان اُن کے مخالف گروپ میں تھے، اب کی دفعہ پھر آصف زرداری کے ذمے وہی کام لگا کہ سینیٹ عمران خان کو نہیں ملنا چاہیے۔ زرداری اور شریفوں کے الائنس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے مل کر عمران خان حکومت کو بڑا دھچکا اس وقت دیا جب اسلام آباد کی سینیٹ سیٹ سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اچانک لانچ کیا گیا، یہاں بھی خوب ”ہارس ٹریڈنگ“ ہوئی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یوسف رضا گیلانی عمران خان کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو ہرا کر بڑا اَپ سیٹ کردیں گے۔ یہ اتنا بڑا اَپ سیٹ تھا کہ عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑا اور اس کے لیے انہیں ”غیب“سے مدد مانگنا پڑی، اس ساری مشق کا مقصد عمران خان کو سبق سکھانا تھا۔ الغرض اس ساری ہارس ٹریڈنگ میں پیپلز پارٹی اور اس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سب سے زیادہ ”ہارس ٹریڈنگ“ کے الزامات کی زد میں رہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب آصف علی زرداری اقتدار میں تھے تو یہ اتنا ہی ہارس ٹریڈنگ سے ہچکچاتے بھی رہے یعنی 2008ءتا 2013ءدور حکومت میں سینیٹ کے دو انتخابات ہوئے تھے اور انہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے یہ کوشش کی تھی کہ جوڑ توڑ اور ہارس ٹریڈنگ کے بجائے ہر جماعت کو سینیٹ میں نمائندگی کا اتنا حق ملنا چاہیے جتنے اس کے ممبران اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ آصف زرداری بڑی حد تک اپنی کوشش میں کامیاب ہوئے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آصف زرداری نے فاٹا سے منتخب اپنے ایم این اے اخونزادہ چٹان کو مارچ 2012ءکے سینیٹ الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے سے اس لیے منع کر دیا تھا کیونکہ اس وقت الزام لگ رہا تھا کہ فاٹا کے 12 ممبران قومی اسمبلی 4 سینیٹرز کو منتخب کرنے کے لیے کروڑوں روپے وصول کر رہے ہیں۔ جب آصف علی زرداری ہارس ٹریڈنگ اور انتخابات میں پیسے کے لین دین سے ووٹوں کی خریدو فروخت کے خلاف کوششیں کر رہے تھے، تو وہ اس وقت بھی سب سے زیادہ الزامات کی زد میں تھے اور آج بھی انہیں ہی تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ نہ تو آصف علی زرداری کے دور حکومت میں ان کی کوششوں کے باوجود سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خرید و فروخت رک سکی تھی اور نہ ہی اب عدم اعتماد کی تحریکوں اور پنجاب کی سیاست میں اُن کو بخشا جا رہا ہے۔ قصہ مختصر کہ ہارس ٹریڈنگ کے ذمہ داران الیکشن کمیشن، عدلیہ اور غیبی قوتیں ہیں۔ مطلب جب سرعام ہارس ٹریڈنگ کی جارہی تو عدلیہ کیوں نہیں سوموٹو ایکشن لیتی؟ کیوں اسٹیبلشمنٹ اس کا ایکشن نہیں لیتی؟ پھر الیکشن کمیشن بھی اس میں پوری طرح ملوث لگ رہا ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس کے پاس زیادہ ووٹ ہیں اُس کو وزارت اعلیٰ ملنی چاہیے، اور جس کے پاس کم ووٹ ہیںاُس کو اپوزیشن میں بیٹھنا چاہیے ۔ ظاہر ہے اسی لیے اگرآپ کا نام ڈیل کے ماہرین کی فہرست میں آگیا ہے تو پھر آپ نہیں بچ سکتے لیکن افسوس اس چیز کا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے اندر ”رحم“ نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ ملک و قوم اور غریب عوام کے نعرے تو ضرور لگاتے ہیں لیکن اُن کیلئے سب سے مقدم اُن کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہی ہوتے ہیں، اُن کی سیاست کا محور و مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول اور اپنے اقتدار کو قائم رکھنا ہی ہوتا ہے۔ چاہے نواز ،شہباز، زرداری یا مولانا ہوں ،چاہے وہ عمران خان ہوں۔یہ سب اقتدار کی جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ دوستیاں دشمنیاں کر رہے ہیں۔ ملک کا خیال ہوتا، عوام کا احساس ہوتا تو مل بیٹھ کر موجودہ معاشی بحران کا کوئی حل نکالتے۔ لیکن جتنی باتیں ہو رہی ہیں، جو جو ملاقاتیں اور اپنی اپنی جماعتوں یا اتحادیوں کے درمیان مشاورت ہو رہی ہے اُس سب کا مقصد صرف اور صرف اپنی اپنی سیاست کو بچانا اور اقتدار کو قائم رکھنا یا اُس کا حصول ہے۔حالانکہ پنجاب میں ن لیگ کی تحریک انصاف کے ہاتھوں تاریخی شکست کے بعد گزشتہ تین روز میں پاکستان کی معیشت کو جو حال ہوا ہے، وہ سنگدل سے سنگدل پاکستانی کابھی دل نرم کر سکتا ہے۔ لیکن مجال ہے ان سیاستدانوں کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ 4روز میں ڈالر 20 روپے مزیدمہنگا ہو گیا اور پاکستانی کرنسی کی یہ گراوٹ جاری ہے، سٹاک ایکسچینج کا برا حال ہے، مگر حکمران بدمست ہاتھی کی طرح سب کچھ روندتے جا رہے ہیں۔ بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیاں بھی پاکستان کی معیشت کے بارے میں منفی خبریں سنا رہی ہیں لیکن ایک طرف حکومتی اتحاد کے سربراہان قہقہے لگاتے ہوئے یہ فیصلہ سنا رہے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے وہ اپنی حکومت کی مدت مکمل کریں گے ، جبکہ دوسری طرف بھی یہی حال ہے۔ ملکی معیشت ڈوب رہی ہے ، ملکی سالمیت کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ آنے والے دن اور مہینے عوام کیلئے مہنگائی کا ایک بڑا طوفان لائیں گے،لہٰذا یہ وقت ہے پاکستان کے بارے میں سوچنے کا!! یہ وقت ہے عوام پر جو ممکنہ مصیبتیں آنے والی ہیں اُن سے بچاو کے لیے سر جوڑ کر ،اپنے اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ،سوچ بچار کرنے کا۔اگر اس وقت کو آج ہم نے ضائع کردیا تو یقین مانیں بہت پچھتاوا ہوگا اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا! ، لہٰذاایسی صورت حال میں عمران خان کو چاہیے کہ وہ چوہدری پرویز الٰہی کو مکمل اعتماد دیں، تاکہ اُن کے ممبران اسمبلی بھی اُنہیں اعتماد دیتے ہوئے اُنہیں وزیر اعلیٰ منتخب کروائیں اور پنجاب ایک بڑے بحران سے باہر نکل آئے۔