جنرل الیکشن ضروری کیوں؟

یہ 1993 کی بات ہے جب مرکز میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی حکومت بنی اور مسلم لیگ(ن) کو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا پڑا۔ اس وقت پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان سیاسی کشمکش کے باعث قرعہ فال مسلم لیگ (جونیجو) کے نام نکلا تھا (سابق وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کے 1993 میں انتقال کے بعد مسلم لیگ (جونیجو) کی کمان حامد ناصر چٹھہ نے سنبھالی تھی۔ مسلم لیگ کا یہ دھڑا میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں موجود مسلم لیگ (ن) سے ہی الگ ہو کر وجود میں آیا تھا۔)جس کی صوبے میں محض 18سیٹیں تھیں۔ جبکہ اُن کے ہمراہ دیگر دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی نشستیں 100، 100سے زائد تھیں۔ ایسے میں حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ (جونیجو) کا کردار اہمیت اختیار کر گیا ۔یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے آج مسلم لیگ ق 10نشستوں کے ساتھ پنجاب پر حکومت کرنے کے در پے ہے۔ اور پھر وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی بھی یہی خواہش تھی کہ پنجاب میں کوئی ڈمی وزیرِ اعلیٰ لے آئیں۔ لہٰذااس وقت مسلم لیگ جونیجو گروپ کے منظور وٹو وزیرِ اعلیٰ تو بن گئے تھے البتہ پیپلز پارٹی کے وزرا ان سے خوش نہیں تھے اور وہ بے نظیر بھٹو سے شکوے شکایات کرتے تھے۔ شکایتیں بڑھنے کے بعد بے نظیر بھٹو نے اس وقت کے صدر فاروق لغاری کو تجویز دی کہ وہ منظور وٹو سے کہیں کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔صدر فاروق لغاری نے گورنر پنجاب کو ہدایت کی جس کے بعد آرٹیکل 234 کے تحت میاں منظور وٹو سے کہا گیا کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔وہ حسبِ توقع ناکام رہے اور پھر سردار عارف نکئی کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنادیا گیا۔ایسا اس لیے ہوا کہ منظور وٹو کو ہٹانے کے بعد پیپلزپارٹی نے کوشش کی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مخدوم الطاف کو وزیرِ اعلیٰ بنایا جائے لیکن مسلم لیگ (جونیجو) کے سربراہ حامد ناصر چٹھہ کا اصرار تھا کہ وزیرِ اعلیٰ اُن کی جماعت سے ہی ہو گا جس کے بعد پیپلزپارٹی نے سردار عارف نکئی کی حمایت کی۔یوں جیسے تیسے کرکے 1993 سے لے کر 1996 تک پنجاب میں 18 نشستوں والی جماعت کا وزیرِ اعلیٰ تو رہا مگر ان تین سالوں میں پیپلزپارٹی کے وزراءاور مسلم لیگ جونیجو گروپ کے وزرا کے اختلافات تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ لہٰذاآج بھی پنجاب میں وہی صورتحال ہے اور 10سیٹیں رکھنے والی ق لیگ تادم تحریر سپریم کورٹ کے مبینہ فیصلے کے بعد پنجاب میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔تو بادی النظر میں چوہدری پرویز الٰہی کے لیے یہ ایک اچھا فیصلہ نہیں ہوگا۔ کیوں کہ پنجاب اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف کھائی ہے اور دوسری طرف کنواں۔ ایک جانب انتشار ہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام۔ تین ماہ سے زائد ہو چکے ہیں کہ پنجاب میں آئینی اور سیاسی بحران ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پہلے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ کا الیکشن ہونے نہیں دے رہے تھے، پھرگورنر نے حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکار کردیا، اس کے بعد کئی ہفتوں تک پنجاب کی کابینہ حلف کے لیے ماری ماری پھرتی رہی۔ آخرگورنر کو تبدیل کیا گیا تو صدرِ پاکستان نے وزیراعظم کی سمری مسترد کردی۔ غرض ایک کے بعد ایک آئینی اور سیاسی بحران جنم لیتا رہا۔ اب وزیراعلیٰ کے انتخاب کے بعد ایک اور بحران پیدا ہوگیا ہے۔ کون جانے یہ بحران آخری ہوگا یا پھر اس کی کوکھ سے مزید تلخیاں جنم لیں گے۔ تو ایسے میں چوہدری پرویز الٰہی کے لیے وزارت اعلیٰ کا پھولوں کی سیج ثابت ہوگی ؟ کبھی نہیں! اُنہیں اگلے ڈیڑھ سال تک جس کرب میں گزارنے ہوں گی یہ وہی جانتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے اقتدار حاصل کرنے کی ضد نے سب کے ذہنوں کو کند کر دیا ہے۔ حالانکہ مولانا روم کا قول ہے ”ضد میں تباہی ہے اور نرمی میں خیر۔ جو ضد چھوڑ کر ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے وہ تباہی سے بچ جاتا ہے اور جو ضد کا دامن نہیں چھوڑتا وہ تباہی کو گلے لگاتا ہے“۔ چلیں فرض کیا کہ اُنہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ میسر آبھی جاتی ہے تو اُن کے لیے ہر روز ایک نیا مسئلہ سامنے ہوگا، اُنہیں تحریک انصاف کے ایم پی ایز اوروزراءروزانہ کی بنیا د پر بلیک میل کریں گے، پھر عمران خان جو گزشتہ ساڑھے تین سال سے صوبہ پنجاب خود چلا رہے تھے، اُنہیں بھی کئی محاذ پر چوہدری صاحب سے اختلافات ہو سکتے ہیں، پھر بیوروکریسی میں وزراءکی پسند نا پسند سامنے آئے گی۔پھر اتنے مختصر وقت میں چوہدری صاحب صحیح انداز میں آﺅٹ پٹ بھی نہیں دے سکیں گے۔ لہٰذااگر یہ کہا جائے کہ اس مختصر مدت کے لیے اگر چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ نہ ہی بنیں تو بہتر ہوگا۔ اور پھر سب کو علم ہے کہ اتحادی قسم کی حکومت کبھی نہیں چلتی، ہمیشہ اختلافات کا ہی شکار رہتی ہے، جیسے سندھ میں کبھی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کبھی ایک پیج پر نہیں رہے، یا وفاق مین ن لیگ اور پیپلزپارٹی کبھی ایک پیج پر نہیں رہے، اور پھر وفاق میں فی الوقت تو تحریک انصاف کے دباﺅ کی وجہ سے ”باعث مجبوری“ یہ دو بڑی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں مگر ماضی گواہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے جب بھی مل کر حکومت کی سو اختلافات سامنے آئے۔ جیسے 2008ءمیں پیپلزپارٹی اور ن لیگ آپس میں مشترکہ حکومت بنی، جس کے نتیجے میں اُن کی آپسی لڑائی ہی ختم نہ ہوتی تھی، اور پھر نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے الگ ہو گئیں ۔ لہٰذاچوہدری صاحب جنرل الیکشن کی تیاری کریں، جسکی ویسے بھی مقتدر حلقوں سے خبریں آرہی ہیں کہ اکتوبر نومبر میں جنرل الیکشن ہوں گے، تو بہتر یہی ہے کہ چوہدری صاحب اگلے الیکشن کی تیاری کریں۔ ق لیگ بھرپور الیکشن لڑے، یا تو 100سے زائد سیٹیں حاصل کرے جو شاید ممکن نہیں ہیں، یا پھر ق لیگ تحریک انصاف میں ضم ہوجائے۔ اُس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کم از کم تحریک انصاف کے اراکین اُنہیں تسلیم کریں گے، اور عمران خان کو بھی اپنی پارٹی میں زیرک سیاستدان اور اچھا ایڈمنسٹریٹر نصیب ہوگا۔اور ویسے بھی پاکستان کی تاریخ میں ایک پارٹی کا دوسری پارٹی میں ضم ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مطلب یہ بالکل ایسے ہی ہوگا جیسے 1986 میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتوں میں ضم کر دی گئی اور اس طرح عوامی نیشنل پارٹی وجود میں آئی جس کے صدر ولی خان اور جنرل سیکریٹری رسول بخش پلیجو تھے۔پھر 2012ءمیں تحریک استقلال پارٹی ،تحریک انصاف میں ضم ہوگئی۔پھرمسلم لیگ جونیجو، مسلم لیگ جناح اور ملت پارٹی 2004ءمیں ق لیگ میں ضم ہوئیں۔ پھر شیرانی گروپ تحریک انصاف میں ضم ہوا، عوامی جمہوری اتحاد تحریک انصاف میں ضم ہوا، تحریک استقلال بھی تحریک انصاف میں ضم ہوئی ہے وغیرہ جیسی بہت سی مثالیں ہیں جس میں چھوٹی سیاسی پارٹیاں بڑی سیاسی پارٹیوں میں شامل ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرتی رہی ہیں۔ لہٰذامسلم لیگ ن کو بھی چاہیے کہ وہ ضد چھوڑے جنرل الیکشن کی تاریخ دے اور اقتدار کیئر ٹیکر گورنمنٹ کو دے کر سرخرو ہو جائے کیوں کہ آج ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہماری سیاست میں فی الوقت انتشار بڑھ رہا ہے، نفرتیں آگ اُگل رہی ہیں اور حسد سوا نیزے پر ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا حقِ حکمرانی چھیننے کے درپے ہیں۔ طاقت اور اقتدار کی خواہشیں اتنی بے لگام ہو چکی ہیں کہ کوئی ملک کا سوچ رہا ہے نہ عوا م کا۔ معیشت کا دیا منڈیر پڑا آخری سانسیں لے رہا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری اشرافیہ اپنی ہی دھن میں مگن ہے۔ ہمہ وقت ایک دوسرے کا راستہ کاٹنے کو تیار اور اپنے ہی قبیلے کی ٹانگیں کھینچنے کے لیے بے تاب ، بقول شاعر سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا بہرکیف حالات خراب ہو رہے ہیں،وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز ہو یا پرویز الٰہی ہوں دونوں صورتوں میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا، یہ آپس میں لڑتے رہیںگے، الزامات کی سیاست ہوتی رہے گی، ڈالر مزید مہنگا ہوتا رہے گا، معیشت برباد ہوتی رہے گی، جبکہ سیاسی مبصرین کی نظر میں عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن خود نہیں چاہتے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام آئے، جبکہ دوسری جانب ہمارے اراکین اسمبلی کی کوئی ذہنی تربیت نہیں، نہ اُن کی اپنی کوئی سوچ ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاملات کو خود سدھار سکیں۔میاں نواز شریف ہوں یا عمران خان، آصف زرداری ہوں یا کوئی اور۔ سب آئین کو اپنے سیاسی مفاد کی عینک سے دیکھتے ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق تشریح کرتے ہیں۔آج آخری خبریں آنے تک حکمران اتحاد کا لب ولہجہ بدل گیا ہے۔ میاں نواز شریف سے لے کر مریم نواز تک اور وزیراعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک سب نے گلے شکوے اور تلخ بیانات دینا شروع کردیے ہیں۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمن اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے پَر طول رہے ہیں۔ ان کے لہجوں کی تلخی بتا رہی ہے کہ وہ لڑائی کے موڈ میں ہیں اور ان کا ہدف بھی وہی ہوں گے جو عمران خان کے نشانے پر ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر الیکشن کا نقارہ بجنا ہی چاہیے۔ چلیں مان لیا کہ یہ الیکشن تاریخ کے مشکل ترین الیکشن ہوں گے، مگر یہ ضروری بھی بہت ہیں، اس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا۔ بس مقتدر حلقے اگر سیاست میں بہتری چاہتے ہیں تو وہ صرف ایک کام کردیں وہ یہ کہ ان تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ٹیبل پر بٹھا دیں، کیوں کہ اس سیاسی بحران کا واحد حل ڈائیلاگ میں پنہاں ہے جب تک ساری جماعتیں ڈائیلاگ کا راستہ نہیں اپناتیں نئے الیکشن کی راہ ہموار ہوگی نہ سیاسی استحکام کا دروازہ کھلے گا۔اور بدلے میں عوام کا ووٹ بھی چوری ہوتا رہے گا!