فارن فنڈنگ کیس: تینوں جماعتوں کا اکٹھا سنا جاتا!

تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس 2014ءمیں شروع ہوا، جب پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں کسی سیاسی مخالف جماعت نے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر لے کر آئے ۔اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔اُنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاو¿نٹ میں منتقل کی گئی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔ جب اکبر ایس بابر کی طرف سے یہ درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی تو اس پر کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے یہ معاملہ مختلف اوقات میں چھ مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے جایا گیا اور یہ مو¿قف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکاونٹس کی جانچ پڑتال کا اختیار نہیں۔ ایک مرتبہ حکم امتناع(سٹے آرڈر) ملنے کے بعد جب عدالت عالیہ نے مزید حکم امتناع دینے سے انکار کیا تو پھر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار اور مبینہ طور پر اسے کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کیے گئے۔پھر سپریم کورٹ نے ایک درخواست نمٹاتے ہوئے 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو 2009 سے 2013 کے دوران اس جماعت کو جتنے بھی فنڈز ملے اس کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔ 2014 سے لے کر 2018 تک یہ معاملہ مختلف عدالتی فورمز پر زیر بحث رہا ہے۔جس کی کبھی تحریک انصاف تردید کرتی رہی تو کبھی سب کچھ ایجنٹس پر ڈالتی رہی، لیکن بادی النظر میں تحریک انصاف نے یہ غلطی جان بوجھ کر نہیں کی تھی بلکہ اُن کی جماعت کے بیرون ملک 40ہزار سے زائد ڈونر ز ہونے کی وجہ سے اُنہیں اُس وقت علم نہیں تھا، کہ اس ریکارڈ کو Maintainرکھنا اور اس میں شفافیت کتنی ضروری ہے۔ خیر اس حوالے سے گزشتہ روز 8سال بعدچیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔اس فیصلے کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف نے ممنوعہ فنڈز لیے ہیں۔پی ٹی آئی نے جانتے بوجھتے عارف نقوی سے فنڈز وصول کیے۔فنڈ ریزنگ میں 34 غیر ملکی ڈونیشنز لی گئیں۔امریکا، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات سے عطیات لیے گئے۔تحریکِ انصاف نے امریکی کاروباری شخصیت سے بھی فنڈز لیے۔پی ٹی آئی کے مجموعی طور پر 16 بے نامی اکاﺅنٹس نکلے۔پی ٹی آئی کی لگ بھگ ایک ارب روپے کی فنڈنگ کے ذرائع معلوم نہیں۔ اکاﺅنٹ چھپانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے فارم ون جمع کرایا جو غلط تھا۔پارٹی اکاﺅنٹس سے متعلق دیا گیا بیانِ حلفی جھوٹا ہے۔سیا سی جماعتوں کے ایکٹ کے آرٹیکل 6 سے متعلق ممنوعہ فنڈنگ ہے۔اسٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق جن 13 اکاﺅنٹس کو پی ٹی آئی نے تسلیم نہیں کیا وہ پارٹی قیادت اور مینجمنٹ نے بنائے۔اس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے کہ کیوں نہ ان کے ممنوعہ فنڈز ضبط کیے جائیں وغیرہ ۔ فنڈنگ کیس کے لیے پی ٹی آئی نے 9 وکیل تبدیل کیے جب کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی، اسکروٹنی کمیٹی کے 95 اجلاس ہوئے جس میں 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا جب کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف 4 درخواستیں دائر کیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔لیکن معاملہ جوں کا توں رہا۔ بہرحال یہ فیصلہ یقینا پاکستان کی سیاست میں بھونچال پیدا کرے گا، کیوں کہ یہ فیصلہ کسی اور کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کی سب سے بڑی اور دو صوبوں پر حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعت کے خلاف آیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں آخر چاہتی کیا ہیں؟ کیا اب اُن کا ٹارگٹ تحریک انصاف ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ یقینا کسی کی خام خیالی ہوگی، اور پھر دوسری بات یہ کہ فارن فنڈنگ کیس میں تو کوئی ایک جماعت بھی سرخرو نہیں ہو سکتی اور ویسے بھی الیکشن کمیشن کے پاس بقیہ تین جماعتوں ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی جماعتوں کے خلاف بھی درخواستیں زیر التواءہیں،، اس لیے یہاں سوال یہ بھی بنتا ہے کہ باقی تین سیاسی جماعتوں کے خلاف فیصلہ کیوں نہیں آیا؟ کیوں صرف ایک سیاسی جماعت کے خلاف فیصلہ سنایا گیا، حالانکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے اثاثوں کی چھان بین اور مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ2017 میں الیکشن کمیشن میں آ یا اور یہ کیس تحریک انصاف نے جمع کروایا تھا۔ مسلم لیگ نون پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ جماعت برطانیہ میں بطور ’ایل ایل سی‘ رجسٹرڈ ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں روحیل ڈار نامی شحص اس جماعت کے لیے فنڈز اکھٹا کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مختلف بین الاقوامی کمپنیوں نے اس جماعت کو فنڈز فراہم کیے ہیں اس کے علاوہ اس جماعت پر 70 کروڑ روپے چندہ میڈیا گروپ کو دینے کا بھی الزام ہے۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ نواز سے بھی فنڈز کی تفصیلات طلب کر رکھی ہیں۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے فنڈز کی جانچ پڑتال کرنے کا معاملہ بھی 2017 میں الیکشن کمیشن میں آیا۔ اس جماعت پر الزام عائد کیا گیا کہ 2008 کے عام انتحابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آ کر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک امریکی شہری مارک سیگل جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے امریکہ میں لابنگ کرتے ہیں ان کے ذریعے مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم پاکستان پیپلز پارٹی کے اکاو¿نٹ میں آئی ہے۔ اس جماعت پر یہ بھی الزام ہے کہ بعض غیر ملکی کمپنیوں نے انھیں انتخابات کے لیے فنڈز دیے تھے۔پھر تیسری جماعت جمعیت علمائے اسلام ف پر بھی اسی قسم کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور راہنما بیرونی ممالک سے پارٹی فنڈز اور تحفے تحائف لیتے رہے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ تاریخ کی دو مثالیں ریکارڈ پر موجود ہیں، لیبیا کے انقلابی لیڈر کرنل قذافی نے ایک ملاقات میں ذوالفقار علی بھٹو سے کہا اگر پاکستان کے مذہبی رہنما ان کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کریں تو وہ انہیں بتائیں کیوں کہ یہ رہنما ان سے پارٹی فنڈ حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کے آمر حکمران جنرل پرویز مشرف نے میڈیا کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کے بادشاہ سے ایک ارب روپے بطور گفٹ حاصل کیے ہیں جس سے انہوں نے دوبئی میں رہائش کے لئے فلیٹ خریدا ہے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسی سیاسی اور مذہبی جماعت ہو جس نے بیرونی ممالک سے فنڈز حاصل نہ کیے ہوں۔ اگر اس حوالے سے قوانین کی بات کریں تو ”الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 “اس حوالے سے کہتا ہے کہ سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔اس ایکٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی یا جن کو نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نے نائیکوپ کارڈ جاری کیا ہے، ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ سیکشن 204 کے سب سیکشن چار کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاو¿نٹ میں آئی ہے اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔اس قانون کے تحت ابھی تک پاکستانی تاریخ میں صرف ایک سیاسی جماعت پر پابندی عائد ہوئی ہے، جس پر الزام ثابت ہو گیا تھا کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے پارٹی چلانے کے لیے فنڈز اکھٹے کیے ہیں۔ یہ جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ نیشنل عومی پارٹی ایک پراگریسو سیاسی جماعت تھی اور اس کی بنیاد 1958 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں عبدالمجید خان بھاشانی نے رکھی تھی۔ اس جماعت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اپنا کردار ادا کیا جس کے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس جماعت پر غداری اور انڈیا سے فنڈز حاصل کرنے کے الزامات عائد ہونے کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد نہیں ہوئی۔ بہرکیف الیکشن کمیشن کا موجودہ فیصلہ ملک کو مزید گھمبیر حالات کی طرف کھینچے گا، کیوں کہ یہ فیصلہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے خلاف آیا ہے، اس حوالے سے کیس مزید آگے بڑھا اور اگر پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگی تو پھر ملک میں افراتفری پھیلنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔اسے یوں ہی سمجھا جائے گا کہ یہ فیصلہ خالصتاََ سیاسی ہے جسے جماعت کو بدنام کرنے اور جمہوریت کو کمزور کرنے کے لیے لاگو کیا گیا۔ اس حوالے سے عدالت عظمیٰ اور فیصلہ کرنے والی قوتوں سے درخواست ہے کہ وہ پچ کے دونوں طرف کھیلنے کے بجائے ملک میں سیاسی استحکام لانے میں کردار ادا کریں ورنہ ہم مزید رسوا ہوں گے!