دل دل پاکستان،،، گروی گروی پاکستان !

اسے مایوسی سمجھ لیں یا زمینی حقائق کہ ہمارے ملک کی ہر چیز” پرائی“ ہوتی جا رہی ہے، ہر روز ایک نیا ”کٹا“ کھل جاتا ہے، یہ کٹا کھلنا بھی ایک شاندار محاورہ ہے اس کے پیچھے کی کہانی پہلے سن لیں تاکہ کالم کسی اچھی بات سے شروع ہوجائے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ بھینس پالنے والے کو دودھ بچانے کے لئے کٹے کو الگ باندھنا پڑتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار کٹا کھل بھی جاتا ہے اور سیدھا بھینس کے پاس جاکر گوالے میاں کے ارمان خاک میں اور دودھ کو پیٹ میں پہنچا دیتا ہے۔ لہٰذا کٹا کھلنا ایک گوالے کے سارے دن کو برباد کر دیتا ہے۔ہمارے پاکستان میں بھی روز ہی کٹا کھلتا ہے اور ہمیشہ نیا ہوتا ہے، جو ہم پاکستانیوں کے ارمانوں کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ کبھی عالمی عدالت میں ہر فیصلہ ہمارے خلاف آتا ہے، تو کبھی ہمارے خلاف، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ معاملہ ثالثی میں چلا جائے تو بھی فیصلے ہمارے خلاف آتے ہیں اور کبھی ہم مسئلہ عالمی فورم میں لے جائیں تو اُس کا فیصلہ بھی ہمارے ہی خلاف آتا ہے۔ بات صرف یہاں تک نہیں رہ جاتی۔ عالمی فورم یہ بھی حکم دے دیتے ہیں کہ پاکستان کا دنیا بھر میں اگر کوئی ہوٹل ہے، جہاز اڑ رہا ہے یا پھر بینک اکاﺅنٹ ہے یا جائیداد ،وہ فوری طور پر ضبط کر لی جائے اور اسے بیچ کر پیسے پورے کر لیں۔ اور اب نیا نیا جو کٹا کھلا ہے، اُس کے بارے میں بھی سن لیں کہ سابقہ حکومتوں کی ڈگر پر چلتے ہوئے موجودہ حکومت نے وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے عوامی مقام ایف نائن پارک کے عوض قرض حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ایف نائن پارک750 ایکڑ پر مشتمل ہے اور اس کے عوض سکوک بانڈز جاری کئے جائیں گے۔ وفاقی کابینہ اراضی کے بدلے سکوک بانڈز جاری کرنے کی منظوری آئندہ اجلاس میں دے گی۔وزارت خزانہ کی سمری وفاقی کابینہ کے ایجنڈے میں شامل کر لی گئی ہے۔ وفاق کے ترقیاتی ادارہ سی ڈی اے سے این او سی بھی حاصل کرلیا گیا ہے۔قرض کی مالیت کا تعین کابینہ کی منظوری کے بعد کیا جائے گا، لیکن فی الوقت تخمینہ 500پاکستانی ارب روپے لگایا جا رہا ہے۔ سکوک بانڈ ملک اور ملک سے باہر مارکیٹ میں جاری کئے جائیں گے۔ یہ قرض تین بینکوں کے کنسورشیم کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ مزید سُن لیں کہ یہ سلسلہ رُکنے والا نہیں ہے، کیوںکہ اگرہم نے دیوالیہ ہونے سے بچنا ہے تو آپ کے پاس ملک بھر میں جتنے بھی منافع بخش پراجیکٹس ہیں اُنہیں گروی رکھوانا ہوگا، ورنہ پاکستان کے لیے قرضہ لینا ایک خواب بن جائے گا۔ قارئین لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس وقت ملک بھر کی سینکڑوں املاک گروی رکھی گئی ہیں، کہ اگر قرضہ نہ واپس کیا گیا تو مذکورہ املاک پاکستان کی ملکیت میں نہیں رہیں گی اور ان پراجیکٹس کا تمام منافع قرضہ دینے والے ملک یا ادارے کے پاس چلا جائے گا۔ اس لیے اب آپ کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کا کون کون ساپراجیکٹ بطور گروی رکھوایا جا چکا ہے ۔ 90ءکی دہائی تک تو پاکستان کو اُس کے سابقہ ریکارڈ اور آسان عالمی شرائط کی وجہ سے عالمی ادارے قرضہ دیتے رہے لیکن جونہی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہوا شرائط بڑھا دی گئیں اور پاکستان میں سب سے پہلے 2006ءمیں قرضہ حاصل کرنے کے لیے ملکی پراجیکٹس کو گروی رکھوانے کا آغاز ہوا ۔ 2006ءمیں اس وقت کی حکومت نے صرف 6ارب روپے قرضہ لینے کیلئے بیشتر نیشنل ہائی ویز اور بعض موٹر ویز کو رہن رکھنے کا فیصلہ کیا جن میں اسلام آباد پشاور موٹر وے ایم ون ، فیصل آباد ملتان موٹر وے ایم فور ، اسلام آباد مری اور مظفر آباد ، جیکب آبا د بائی پاس ، ڈیرہ غازی خان تا راجن پور ہائی وے ، اوکاڑہ بائی پاس اور دیگر منصوبے گروی یعنی بطور سیکیورٹی رکھ دیے گئے۔ پھر کیا تھا کہ جیسے برائی نے ہمارا گھر دیکھ لیا اور ہمارے آنے والے حکمرانوں کو قرضہ حاصل کرنے کا آسان حل مل گیا۔بقول شاعر بس انتہا ہے چھوڑیے بس رہنے دیجیے خود اپنے اعتبار سے شرما گیا ہوں میں پھر پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں یعنی 2008 سے 2013 کے درمیان 14.7 ارب ڈالر حاصل کیا گیا، اس دور میں سب سے پہلے آئی ایم ایف کو اپنا ”کھاتہ“ دکھانا پڑا تاکہ وہ خود معاشی معاملات کو دیکھ سکے ، اس دور میں بھی ہم نے کئی ایک پراجیکٹس گروی رکھوائے۔ پھر ن لیگ کا دور شروع ہوا جس میں 35ارب ڈالر کے بھاری قرضے لیے گئے، اس دور میں تو قومی پراجیکٹس کو گروی رکھنے کی ایسی تاریخ رقم ہوئی جس کی مثال نہیں ملتی۔ 2013ءمیں حکومت نے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو اسلامی بانڈز کی سیکیورٹی کے طور پر استعمال کیا اور اس کی بنیاد پر 182ارب کے مزید قرضے حاصل کیے۔ پھر اسی ائیر پورٹ کو 2015ءمیں بھی دوبارہ گروی رکھوا کر بدلے میں 117ارب روپے کامزید قرض حاصل کیا گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ ن لیگ نے اسلام آبا لاہور ایم 2 موٹر وے کے اسلام آبا د تا چکوال سیکشن کو غیر ملکی سرمایہ کاروں سے 1ارب ڈالر حاصل کرنے کیلئے رہن رکھ دیاجبکہ 2014ءکے دوران حکومت نے موٹر وے کا حافظ آباد تا لاہور سیکشن اسلامی بانڈز کے بدلے مزید 1ارب ڈالر لینے کیلئے استعمال کیا۔جون 2014ءمیں حکومت نے فیصل آباد تا پنڈی بھٹیاں موٹر وے ایم تھری کو رہن رکھ کر 49ارب روپے حاصل کیے۔پھر پشاورتا فیصل آباد موٹر وے ، فیصل آبا دتا پنڈی بھٹیاں موٹر وے، اسلام آباد تا پشاور موٹر وے اور اسلام آبا دتا لاہور موٹر وے کا چپہ چپہ گروی رکھوا کر قرض حاصل کیے گئے۔ اور پھر جب ان ہائی ویز کا کچھ نہیں بچا تو مزید قرضے حاصل کرنے کیلئے پی ٹی وی کے تمام اثاثے رہن رکھ دیے گئے، یعنی پاکستان ٹیلی ویژن کی اسلام آباد، لاہور، کراچی اورکوئٹہ کی عمارتیں بچ گئی تھیں جنہیں گروی رکھ کر اسحاق ڈار سکوک بانڈزکے نام پر قرضہ لیا گیا۔ وزارت خزانہ کو پتا چلا کہ پی ٹی وی کی ان عمارتوں سے بھی کام نہیں چلے گا کیونکہ قرضہ بڑی مقدار میں لینا مقصود ہے، لہٰذا فیصلہ ہوا کہ ریڈیو پاکستان کے ملک بھر میں پھیلے نیٹ ورک کی تمام عمارتوںکو بھی گروی رکھا جائے۔ سروے کرایا گیا تو پتا چلا پاکستان میں ریڈیو پاکستان کی اکسٹھ عمارتیں ہیں۔ حکم ہوا کہ ان سب کی قیمت لگائی جائے اور پتا کیا جائے کہ ان پرکتنا قرضہ مل سکتا ہے۔ جس نے قیمت لگائی اسے داد دیں، اس نے ان تمام عمارتوں کی مجموعی قیمت بہترکروڑ روپے لگائی۔ آپ یقیناً حیران ہوںگے کہ سپریم کورٹ کے سامنے واقع ریڈیو پاکستان کے ہیڈکوارٹر کی عمارت کی قیمت پانچ سے دس ارب روپے ہونی چاہیے جو ایک فائیو سٹارہوٹل کے قریب واقع ہے۔ اس ہوٹل کی قیمت یقیناً اربوں روپے ہوگی، لیکن ریڈیو پاکستان کی اس عمارت کی قیمت صرف چند کروڑ روپے لگائی گئی۔ افسوناک صورتحال یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں کو سرکاری جائیدادوں کو عالمی اداروں کے پاس گروی رکھ کر قرض لینے کے طعنے دینے والی تحریک انصاف کی حکومت نے بھی سکوک بانڈ جاری کرنے کیلئے موٹرویز کو استعمال کیا ہے، اس ضمن میں پشاور اسلام آباد موٹر وے کو 71ارب روپے اور اسلام آباد لاہور موٹر وے کو 2ارب ڈالر کے عوض سکوک بانڈ کی مد میں دیا گیا ہے۔پھر آپ کو اس خبر پر بھی حیرانگی ہوگی کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ذیلی ادارے کی ملکیت، امریکی شہر نیویارک میں واقع روزویلٹ ہوٹل اور فرانس کے دارالحکومت پیرس میں واقع ہوٹل سکرائب کی قسمت کا حتمی فیصلہ ابھی تک ہوا میں معلق ہے۔دونوں ہوٹل، جو قومی ایئر لائن کے ذیلی ادارے پی آئی اے انویسٹمنٹ لمیٹڈ (پی آئی اے آئی ایل) کی ملکیت ہیں، برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی ایل) کی ہائی کورٹ آف جسٹس کے ایک فیصلے کے تحت عدالت کے پاس گروی ہیں اور مستقبل میں انہیں معدنیات تلاش کرنے والی بین الاقوامی کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی(المشہور ریکوڈک والی کمپنی) کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ نہلے پہ دہلا یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ہمارے قومی ادارے پی آئی اے کے ایک جہاز کو ملایشیا نے عدم ادائیگی کی بنا پر قبضے میں لے لیا، یعنی اب ہمارے طیارے بھی نقاب اوڑھ کر اُڑا کریں گے کہ شاید اُس کے اصل مالک سے چہرہ چھپ جائے۔ قارئین! کیا یہ سب کچھ سننے کے بعد لگ رہا ہے کہ ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیںیا سابقہ حکومتیں ٹھیک تھیں اور یہ والی حکومت غلط ہے، یقین مانیں ہماری اپنی چیزیں اپنی نہیں رہیں، اپنا مال پرایا ہو چکا ہے، یقیناً جن عالمی بینکوں یا ساہوکاروں سے قرضہ لیا گیا ہوگا وہ اپنی نسلوں کو فخر سے بتاتے ہوںگے کہ بیٹا میں پاکستان میں ایک ایئرپورٹ کا مالک ہوں، پاکستان کے موٹروے میری ملکیت ہیں۔ دعا کرو پاکستانی حکومت کرپشن پر لگی رہے، ایکسپورٹس گرتی رہے، بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقومات میں کمی آتی رہے، اس ملک کے حکمرانوںکی شاہی خرچیاں چلتی رہیں، بیوروکریسی اسی طرح اپنے ہی ملک کو لوٹتی رہے، سابقہ شاہی خاندان کی حفاظت پر سات ارب روپے خرچ ہوتے رہیں، تو بیٹا یہ سب کچھ ہمارا ہوگا،کیونکہ پاکستانی ہمارے قرضے واپس نہیں کرسکیںگے۔ جس ملک کے بجٹ کا بڑا حصہ بیرونی قرضوں کی واپسی میں جاتا ہے وہ بھلا کب اور کیسے قرضے واپس کرے گا۔ اور پھر جس ملک کے پاس رکھوانے کے لیے کچھ نہ ہو اور دنیا Do Moreکہے تو خاکم بدہن ہمارے پاس گروی رکھوانے کے لیے صرف ایٹمی اسلحہ ہی بچے گا، پھر یقینا دل سے دل دل پاکستان جیسے الفاظ نہیں بلکہ گروی گروی پاکستان جیسے الفاظ ہی ادا ہوں گے ، اللہ تعالیٰ اس ملک پر رحم فرمائے (آمین)