قانون.... تجھے سلام!

چند ماہ پہلے تک خبریں آرہی تھیں کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے فلاں عدالت نے ریڈ وارنٹ جاری کر دیے، فلاں ادارے نے اُن کے پانچ سال تک عدالت سے مفرور رہنے کی وجہ سے نوٹسز کے انبار لگادیے، فلاں احتساب ادارے نے اُنہیں پاکستان لانے کی مکمل تیاریاں کر لیں۔ پھر ایک ادارے کے سربراہ فرما رہے تھے کہ کیا ہم اتنے بے بس ہو گئے کہ عدالتوں کو مطلوب اسحاق ڈار کو واپس نہ لا سکیں۔ ایک شخص لندن کی گلیوں میں گھوم رہا ہے اور وطن واپس آنے کے لئے تیار نہیں۔عدالت بلائے تو کہتا ہے کہ میرے پٹھوں میں کھنچاﺅ ہے، وہ شخص عدالتی احکامات کو خاطر میں لانے کے لئے بھی تیار نہیں۔موجودہ حکومت نے اس معاملے میں اب تک کیا کیاہے وغیرہ وغیرہ۔پھر سابق حکومت بھڑکیں مار رہی تھی کہ اُنہیں تین ماہ کے اندر اندر انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لایا جائے گا۔ لیکن اب حالیہ چند ہی دنوں میں اُنہوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو سبھی راستے خود بخود سیدھے ہوگئے، نہ انٹرپول یاد رہا کسی کو، نہ مفروری، نہ نیب نے رکاوٹ ڈالی اور نہ ہی کسی اور احتسابی ادارے نے۔ مطلب! قانون تجھے سلام! کیوں کہ اس ملک میں یہی قانون اگر غریبوں کے لیے استعمال ہو تو اُس کو دن میں تارے دکھا دیتا ہے، کبھی کبھی تو چند ہزار روپے کی چوری کرنے والے کی ہڈی پسلی توڑ کر بھی اداروں کو ذہنی سکون نہ ملے تو اُس کے خاندان والوں کو اُٹھا کر تھانے میں لے آتے ہیں اور زبردستی اگلواتے ہیں کہ تم بھی مجرم ہو،تبھی تو یونان کے رہنے والے اور ایک عظیم فلسفی سقراط کے شاگرد ارسطو کا مقولہ ہے کہ ”قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں۔ بڑے جانور اسکو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں“۔ آپ اسحاق ڈار کیس کی ہی مثال لے لیں، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ پاکستان کیوں آئے ہیں؟یا اُن پر مقدمات جھوٹے ہیں یا سچے، مگر سوال یہ ہے کہ ان مقدمات پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اور پھر ظاہر ہے وہ ن لیگ کے شروع سے ہی وزیر خزانہ رہے ہیں، اور ن لیگ اُنہیں ہر حالات میں نجات دھندہ سمجھتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ درجنوں مقدمات کس لیے بنائے گئے تھے، کیا عام عوام کو دکھانے کے لیے یا وہ حقیقت میں اس قسم کے کریمنل شخص ہیں۔ آپ ایک لمحے کے لیے مقدمات کی نوعیت دیکھ لیں کہ اُن کے خلاف آمد ن سے زائد اثاثے بنانے کا ریفرنس احتساب عدالت میں5جولائی 2017سے زیر سماعت ہے یہ ریفرنس اُن کی اپنی ہی حکومت کے دور میں بنا۔وہ 23اکتوبر2017کو آخری بار احتساب عدالت میں پیش ہوئے ،احتساب عدالت نے عدم پیشی پر اسحاق ڈار کو21نومبر2017 کو مفرور قرار دیے گئے، یہ بھی اُن کی اپنی ہی حکومت میں ہوا۔ پھر سپریم کورٹ نے دو مقدمات میں اسحاق ڈار سے بھاری رقوم کی برآمدگی کا حکم دے رکھا ہے پہلا مقدمہ سابق چیئرمین پی ٹی وی تقرری کے خلاف از خود نوٹس کیس ہے جس میں سپریم کورٹ نے 4کروڑ روپے کی برآمدگی کا حکم دے رکھا ہے دوسرا مقدمہ لاہورمیں پارک کی جگہ اپنے گھر کے سامنے سڑک بنانے پراُن کے خلاف لئے گئے از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے بھاری رقم وصول کرنے کا حکم بھی دے رکھا ہے۔ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق ایم ڈی پی ٹی وی عطا الحق قاسمی، سابق وزیر اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد ، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید اور سابق وزیرخزانہ اسحا ق ڈارسے تقریبا 20کروڑ روپے ریکورکرنے کا حکم دے رکھا ہے، یہ حکم 13دسمبر 2021ءکا ہے۔ پھر 3 اکتوبر2018 کواسلام آباد کی احتساب عدالت نے قومی احتساب بیورو کو اُن کی جائیداد قرقی کا فیصلہ کیا تھا ، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اپنے فیصلے میں کہاتھا کہ صوبائی حکومت کا اختیار ہے کہ وہ ان اثاثوں کو فروخت کرے یا قبضے میں لے۔احتساب عدالت کے جج نے اسحاق ڈار کے بینک اکانٹس کے بارے میں بھی کہا تھا کہ صوبائی حکومت کو اسحاق ڈار کی بینک میں جتنی رقم پڑی ہوئی ہے اس کو سرکاری خزانے میں جمع کرانے یا اپنی تحویل میں لینے کا اختیار حاصل ہے۔پھر اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ہی 18 مئی 2022 کو سابق وزیر خزانہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحاق ڈار کے خلاف دائر آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیاتھا۔الغرض بقول شاعر نہ جانے آپ کو ہمارے لیے کون نافذ کرتا ہے کون نہیں! ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا تھا ہمیں کیا خبر کس نے تری سمت ہمیں موڑ دیا قصہ یہیں ختم نہیں ہوتابلکہ پھر آپ اس سے پہلے جائیں جب پرویز مشرف کی حکومت تھی تو اُس وقت موصوف وعدہ معاف گواہ بنے تھے، اور 45صفحات پر مشتمل اعترافی بیان بھی جمع کروایا تھا جس کا لب لبا ب یہ تھا کہ ” میں نے ساری منی لانڈرنگ شریفوں کے کہنے پر کی “ یہ علیحدہ بات کہ بعد میں وہ اس اعترافی بیان سے مکر گئے ، لیکن یہ وہی اعترافی بیان کہ جس کے بارے میں اسحق ڈار کے وکیل نے جب سپریم کورٹ میں کہا کہ ”اسحق ڈار کا اعترافی بیان محض کاغذ کا ایک ٹکڑا “ تو جسٹس کھوسہ بولے” یہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں وہ ثبوت جس کی کبھی تحقیق ہی نہیں کی گئی “۔ پھر یہی نہیں آپ نے بی بی سی کا پروگرام ’ہارڈ ٹاک ‘ بھی دیکھا ہوگا جس میں میزبان نے جب ڈارصاحب سے پوچھا کہ آپ اور آپکے خاندان کی دنیا بھر میں کتنی جائیدادیں تو ڈار صاحب بولے صرف ایک گھر لاہور میں ، میزبان نے کہا دبئی میں کوئی جائیداد نہیں ،بولے، ارے ہاں ایک گھر میرے بچوں کا دبئی میں بھی ہے، ڈار صاحب نہ صرف بیٹوں کے دبئی میں مبینہ پلازے بھول گئے بلکہ نیب کے کھاتوں میں موجود اپنے الفلاح ہاﺅسنگ میں 3پلاٹ، اسلام آباد میں 6ایکڑ کا پلاٹ ، پارلیمنٹرین انکلیو میں دوکنال کا پلاٹ ، سینیٹ کوآپریٹو ہاﺅسنگ سوسائٹی میں ایک پلاٹ اورایک نجی ہاﺅسنگ سوسائٹی میں ایک پلاٹ بھی بھول گئے۔ پھر اُن کے سابقہ ادوار میں آپ نے بہت سی کرپشن کہانیاں سنی ہوں گی، جیسے کہ کیسے ڈار صاحب نے ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کیلئے کروڑوں ڈالر مارکیٹ میں جھونک دیئے، کیسے انہوں نے مہنگے ترین قرضے لئے ،اسکے علاوہ وہ ڈالر ڈار لطیفے، وہ 5سو ملین یورو سوا آٹھ فیصد سو د پرسعید احمد کو ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک لگانا، جس کے بارے میں اسحق ڈار نے نیب کو اپنے اعترافی بیان میں بتایا کہ وہ ان کے منی لانڈرنگ فیلوہیں۔قصہ مختصر کہ ا ب وہی اسحاق ڈار دوبارہ پاکستانی معیشت کو ”سنبھالیں“ گے، تو پاکستانی قوانین، اداروں اور یہاں پر موجود اعلیٰ عہدوں پر بیٹھی شخصیات کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ کیا یہی ہمارے قوانین ہیں؟ پھر آپ خود بتائیں کہ کیا آپ کا دل نہیں کرے گا کہ ایسے قوانین کو آپ ایک ”سیلوٹ“ ضرور کریں ، جہاں ارسطوکا قول ایک تَلخ صداقت بن جاتا ہے کہ جس میںبڑے لوگوں کے لیے قانون ہونا ،نہ ہونا برابر ہے کیونکہ اُن کے پاس یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جب چاہیں وہ توڑ سکتے ہیں اور جب چاہیں اُس میں ترامیم کر سکتے ہیں۔ بلکہ ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے جن میں بڑے بڑے لوگوں نے قانون کو ایک مکڑی کے جالے سے زیادہ اہمیت نہیں دی ماضی قریب میں ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ارسطو کے قول پر مہرِ صداقت ثبت کی ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں بلکہ ناظم جوکھیو قتل کیس کو ہی دیکھ لیں جس میں گزشتہ ہفتے ہی دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جس کے مطابق غریب ناظم جوکھیو کے اہل خانہ نے مبینہ طور پر دباﺅ میں آکر صلح کر لی ہے۔ کیس میں دوسری جانب طاقتور خاندان یعنی پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی جام کریم کا خاندان تھا جن کی جانب سے ناظم جوکھیو کے اہلخانہ کو 4 سے 5 کروڑ روپے دیے گئے ہیں، جام کریم کی جانب سے ناظم جوکھیو کے بچوں کی کفالت کا ذمہ بھی لیا گیا،ناظم جوکھیو کے بچوں کی کفالت بھی شروع کردی گئی ہے۔حالانکہ جب گزشتہ سال انہی دنوں یہ واقعہ جب رونما ہوا تھا یعنی 27 سالہ ناظم جوکھیو کو 3 نومبر 2021 کو کراچی کے ضلع ملیر میں جام اویس کے فارم ہاو¿س میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔اُس وقت مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو نے الزام عائد کیا تھا کہ پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس سمیت ان کے بڑے بھائی رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور ان کے غیرملکی مہمانوں کو تلور کے شکار سے روکنے پر مقتول کو مبینہ طور پر ٹھٹہ میں جام اویس کے فارم ہاو¿س میں تشدد کر کے قتل کیا تھا۔تو اُسی وقت راقم نے کہہ دیا تھا کہ جام کریم کو کچھ نہیں ہوگا۔ اور اُس وقت پورا میڈیا اس کیس کو اُٹھا رہا تھا کہ اب شاید یہ امیر خاندان نہیں بچے گا لیکن اب وہی ہوا جس کا یقین تھا، کہ قانون کو ایک بار پھر سلام ٹھوکنا پڑا۔ آپ اس سے پیچھے چلے جائیں جب ڈیفنس کراچی میں شاہ زیب کو قتل کیا گیا تھا، اُس کیس میں بھی بااثر ملزمان نے دیت دی تھی ،2017 میں مقتول اور قاتل کے اہل خانہ میں دیت کا معاملہ طے پایا تھا، شاہ زیب قتل کیس میں دیت کے تحت مقتول کے اہل خانہ کو 27 کروڑ روپے دیے گئے، دیت میں شاہ زیب کے گھر والوں کو ڈیفنس میں ایک 5 سو گز کا بنگلہ بھی دیا گیا، جبکہ شاہ زیب کے والد مرحوم کو آسٹریلیا میں فلیٹ بھی دیا گیا ،جتوئی فیملی کا معاہدہ شاہ زیب کے مرحوم والد ڈی ایس پی اورنگزیب کے ساتھ ہوا تھا۔ لہٰذاکیا آپ ایسے قوانین کے ساتھ اس ملک کو ترقی کرتا دیکھ سکیں گے، کبھی بھی نہیں! بلکہ آپ اس سسٹم سے ہی متنفر ہو جائیں گے اور پھر چاہے آپ کو افریقہ کی نیشنلٹی ملے آپ ایسے قوانین کو سلام ٹھوک کر خیر آباد کہہ کرنم آنکھوں کے ساتھ افریقہ شفٹ ہو نے کو ترجیح دیں گے!