کل کے مفرور آج کے حکمران !

آج کل یہ بات زبان زد عام ہے کہ عدالتوں کی طرف سے ”نامزد“ کیے گئے ملزمان، یکے بعد دیگرے پاکستان آرہے ہیں اور دوبارہ اقتداربھی سنبھال رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اس ”المیے“ اور رویے سے خاصے پریشان بھی ہیں اور مایوس بھی۔ لیکن وہ ماسوائے کُڑھنے، فیصلہ کرنے والی قوتوں کو کوسنے یا سڑکوں پر احتجاج کرنے کے کچھ نہیں کر پارہے ۔ وہ ان واقعات کو قبول کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں آرہے کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ حالانکہ ہمیںوطن عزیز کی سیاسی تاریخ کو کھنگالنے کی ضرورت ہے کہ یہاں ہر دور میں ہی ایسا ہوتا آیا ہے۔ جیسے آغاز میں ہی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا، جس کی وجہ سے تیسری قوت کو میدان میں آنا پڑا۔ اور پھر 1954ءمیں سپریم کورٹ نے گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں آئین ساز اسمبلی کی برطرفی کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا تھا جس کی وجہ سے ملک کی تاریخ کا رخ مڑگیا اور 1970ءتک عام انتخابات کا انتظار کرنا پڑا جس کی وجہ سے پارلیمانی نظام کی جڑیں گہری نہ ہوسکیں، وزیراعظم تیزی سے تبدیل کئے جاتے رہے۔تاریخ دان بتاتے ہیں کہ اس دوران بار بار ایسا لگتا، جیسے عوامی دباﺅ کی وجہ سے جنرل یحییٰ اور جنرل ایوب خان اقتدار چھوڑ دیں گے، مگر یہ محض خام خیال تھی، بلکہ اُنہوں نے وہ سب کچھ کیا جو اُن کا دل چاہتا تھا۔ اور بلا شرکت غیرے اُنہوں نے کئی سال تک حکومت کی۔ اُس کے بعد راقم پاکستانی سیاست کا گزشتہ 40سال سے چشم دید گواہ ہے، اس پر کافی کچھ لکھ چکا ہے ، بھٹو صاحب بھی لیڈروں کے لیڈر تھے مگر اُن سے بھی کافی غلطیاں ہوئیں مگر اقتدار کے نشے نے اُنہیں تختہ دار تک پہنچا دیا۔ پھر جنرل ضیاءکا دور آیا۔ اُنہوں نے بھی بہت سے بلنڈر کیے، اُس وقت بھی ہم سب سر پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے کہ یہ پاکستان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ضیاءصاحب کبھی ”اسلامی ٹچ“ دیتے ہوئے شریعت نافذ کرد یتے تو کبھی مغربی ایما پر سود کودرست قرار دے دیتے۔ اُس وقت بھی اُن پر عوامی دباﺅ کافی تھا، لیکن لوگ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی” لبیک لبیک “ کی صدائیں بلند کرتے تھے۔ پھر اُن کی حادثاتی موت کے بعد نواز شریف اور بے نظیر کا ”زبردست“ دور شروع ہوا۔ اس دور میں نواز شریف پر بطور وزیر خزانہ پنجاب اور بعد میں بطور وزیراعلیٰ پنجاب اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگے۔ خاص طورکر 1988/89کی آڈیٹر جنرل کی رپورٹ جس میں نواز شریف پر قومی خزانے کو کم از کم 35 ارب روپے یعنی آج کے لگ بھگ 35کھرب روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام لگا۔لیکن تمام کیسز گئے تیل لینے !وہ اگلے ہی دوریعنی 1990ءمیں وزیرا عظم بن گئے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد اُن پر بینکوں کے کئی سو ارب روپے کی غیر قانونی قرضے جاری کرنے ( کم از کم 675 ارب روپے )، کوآپریٹیو سوسائیٹیز سکینڈل، گندم فراڈ، موٹر وے فراڈ اور پیلی ٹیکسی سکیم میں فراڈ کرنے کے الزامات لگے۔ان تمام معاملات میں نواز شریف پر کل ملا کر کم از کم 1000 ارب روپے سے زائد کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت برطرف کی تھی۔اور مقدمات قائم ہوئے تھے۔ قارئین اُس وقت ہم سوچ رہے تھے کہ اب شاید ان کی حکومت دوبارہ نہ آئے ۔ لیکن ساڑھے تین سال بعد ہی اقتدار دوبارہ اُن کی دہلیز پر تھا۔ پھر محترمہ بے نظیربھٹو کی دوسری حکومت 1993ءمیں آئی، لیکن یہ حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی اور نومبر 1996میں اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ محترمہ اور ان کے شوہر جناب آصف علی زرداری پر پھر کئی ریفرنسز دائر کر دیئے گئے اور بغیرثبوت کے جناب آصف علی زرداری کو دوبارہ قید کر لیا گیا ان کی یہ اسیری مسلسل آٹھ سال تک رہی ،ایک وقت کے لیے تو ایسا لگا کہ اب زرداری صاحب کبھی اقتدار میں نہیں آئیںگے، اُن کی سیاست کا ”ڈی اینڈ“ ہو گیا ہے، لیکن سب نے دیکھا کہ وہ 2008ءمیں صدر بنے اور اگلے پانچ سال تک پاکستان کے کرتا دھرتا اور نمبر ون شخصیت کے طور پر کام کرتے رہے۔ خیر پھر 1997ءمیں نوازشریف کی دوبارہ حکومت آئی، اور اسی سال یعنی 997 1میںاُن پر الزام لگا کہ غیرملکی کرنسی اکاو¿نٹس فریز کر کے لوگوں کو کم از کم 11 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ یہ اتنا بڑا نقصان تھا جسکی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔پھر بہت سی نجکاریاں کر کے کمیشن وصول کیا گیا اور کئی ایک ملیں لگائیں تاکہ پیسہ کاروبار میں لگایا جائے، پھر پرویز مشرف نے ٹیک اوور کیا تو ایسے لگا جیسے آپ پاکستان سے کرپٹ سیاستدانوں کا صفایا ہو جائے گا، اُنہوں نے آغاز میں جو Gestureدیا اُس سے تو یہی لگا کہ اب کسی کرپٹ کی خیر نہیں، اُنہوں نے شریف فیملی کے لوگوں کو جیلوں میں بھیج دیا، اُن کے ٹیم کے دیگر لوگوں کو بھی جیل میں ڈال کر مقدمات بنائے اور ہم ایک بار پھر سمجھے کہ بس! اب یہ باہر نہیں آئیںگے۔ لیکن پھر چند سال بعد NROہوا، جس میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ سمیت تمام سیاستدانوں پر سرے سے ہی مقدمات ختم کر دیے گئے۔ اور ہم ایک بار پھر منہ دیکھتے رہ گئے۔ الغرض یہی سیاستدان پھر 2008سے 2018ءتک برسراقتدار رہے، اور 2017ءمیں ایک بار پھر نواز شریف کو پانامہ کیس میں عدالت کی جانب سے برطرف کیا، اُنہیں سزا ہوئی اور بیماری کا بہانہ بنا کر لندن چلے گئے، اُن پر سیاست کے دروازے بند کر دیے گئے، اُن پر سیاست کرنے پر بھی تاحیات پابندی لگا دی گئی،جبکہ دوسری جانب اُن کے سمدھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو ن لیگ ہی کے دور میں یعنی 2017ءملک سے فرار ہوئے، 2018ءمیں وہ بیرون ملک ہی تھے کہ سینیٹر بھی منتخب ہو گئے ، لیکن عدالتوں نے اُنہیں اشتہاری قرار دیا، اُنہیں طلب کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئیں، سکاٹ لینڈ یارڈ سے رابطے کیے گئے، انٹرپول میں درخواستیں دی گئیں تو ہم نے سمجھا کہ شاید اب تو موصوف نہیں بچتے ، بلکہ ہم نے ایک بار پھر سسٹم پر اعتبار کیا اور سمجھا کہ نظریہ ضرورت ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا ہے۔ مگر قسمت ہماری! ایسا نہ ہوا۔ اب اسحاق ڈار بھی آچکے ہیں اورشاید نوازشریف بھی چند دنوں میں پاکستان میں ہوں گے! اور اب تو ان چھ ماہ میں اتنا کچھ بدل گیا ہے کہ یقین نہیں آرہا۔عمران خان وزیراعظم تھے اور کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ یہ حالات ہوں گے۔ کل تک شریف خاندان عدالتوں میں دھکے کھا رہا تھا، آج عمران خان اسلام آباد کی عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں۔ ہوسکتا ہے الزامات کی نوعیت مختلف ہو۔ شریف خاندان پر کرپشن کے الزامات تھے اور انہیں جرم ثابت ہونے پر سزائیں بھی ہوئیں۔ عمران خان پر عدالت کی توہین کے الزامات ہیں۔ اس ایشو کو سیٹل کرنے کیلئے وہ خاتون جج کی عدالت میں تشریف لے گئے لیکن جج صاحبہ کرسی پر موجود نہ تھیں۔کس کا قصور ہے کہ کل کے ملزم یا مجرم آج دوبارہ اس ملک کے سربراہ بن گئے ہیں؟ جس پر منی لانڈرنگ کے الزامات تھے اور جس نے نیب کے سابق چیئر مین جنرل (ر) امجد کے ساتھ لاہور میں بیٹھ کر ڈیل کی تھی اور شریف خاندان کے خلاف بیانِ حلفی دے کر آزادی لی تھی وہ آج ملک کے خزانوں کا دوبارہ مالک ہے۔ جو کچھ دن پہلے تک مفرور تھا وہ آج ملک کا خزانہ چلائے گااور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی آمد کی اطلاع پا کر ڈالر بھی فورا ًدس روپے نیچے آگیا۔ مطلب ڈالر کو بھی عزت راس نہیں آتی! بہرکیف قصہ مختصر کہ اس ملک میں تو یہ رواج ہے۔ کوئی اینٹ اٹھا کر دیکھ لیں،آپ کو نیچے سے سکینڈل،فراڈ یا کرپشن ملے گی۔ شریفوں کو دیکھ لیں تو پانچ براعظموں میں ان کی جائیداد ہے، جو انہوں نے پاکستان سے کمائی۔ سب کچھ چھپا کر باہر لے گئے تاکہ ٹیکس نہ دینا پڑے۔ لندن کے فلیٹس 1992 ءمیں کسی پراکسی کمپنی کے ذریعے خریدے اور بعد میں قطری خط کے ذریعے جواز ڈھونڈا۔ اس طرح اسحاق ڈار سے جب ایک ارب روپے کا نیب نے پوچھا تو وہ دبئی کے ایک حکمران کا خط لے آئے جو نیب کو دے کر معاملہ سیٹل کرا یا۔ شیخ صاحب نے ایک لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ میں نے جناب ڈار صاحب کو یہ ایک ارب روپے ان کی خدمات کے عوض ادا کیے تھے۔ مزے کی بات ہے کہ کوئی بینک ٹرانزیکشن‘ کوئی سیلری سلپ‘ کوئی ٹرانسفر کچھ نہیں۔ بڑا لطیفہ تو یہ ہوا کہ اس لیٹر پیڈ پر دبئی کے حکمران کے نام کے سپیلنگ تک غلط تھے۔ آگے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ کیا کھیل کھیلا گیا۔اور پھر کوئی یقین کرے گا کہ ابھی چند ماہ پہلے تک زرداری صاحب چالیس ارب کے فیک اکاﺅنٹس میں کئی ماہ جیل میں رہے۔ آج وہ کنگ میکر ہیں اور انہوں نے عمران خان کا تختہ الٹ دیا۔اب عمران خان فرماتے ہیں کہ زرداری اور شریفوں نے نیب کے قوانین میں تبدیلیاں کر کے اپنے مقدمے ختم کرا لیے۔ اپنا چیئرمین نیب لگا کر سب کچھ صاف کرارہے ہیں۔ نیا چیئر مین وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے لگانا ہوتا ہے، شہباز شریف نے یہ مشورہ ایم این اے راجہ ریاض سے کیا جو پی ٹی آئی کے باغی ایم این اے ہیں۔ عمران خان جنہیں ہم آخری اُمید سمجھتے رہے، وہ آج اپوزیشن میں ہوتے تو ایسے لوگوں کو نیب کا چیئرمین لگانے سے روک سکتے تھے جن کے بارے سب کو یقین ہو کہ وہ شریفوں کے وفادار ہیں۔ آپ نے خود ہی شریفوں اور زرداری کے لیے فورم چھوڑ دیا کہ وہ جو جی چاہے کرتے رہیں۔یقینا عمران خان کو ان کے مشیروں نے مروایا جنہوں نے مشورہ دیا کہ پارلیمنٹ توڑ دیں اور خود استعفیٰ دے کر ہاﺅس کو اکیلا چھوڑ کر زرداری اور شریف کا کھیل آسان کر دیں۔ ویسے خان صاحب! معذرت کے ساتھ یہ کوئی مذاق نہیں تھا، آپ انقلاب کی باتیں ضرور کریں مگر حکمت عملی سے کام لیں، دانش مندی سے کام لیں، اور انقلاب لانے کے لیے سب سے پہلے تیاری کریں کیوں کہ یہ آپ کی ناقص حکمت عملی کا ہی نتیجہ ہے کہ کل کے چور اور مفرور لوگ آج کے حکمران بن بیٹھے ہیں!