ارشد شریف : ہم آپ کو بھی بھول جائیں گے!

اپنے حصے کی شمع جلا کے گیا وہ کون تھا یہ بتاکے گیا صبح صبح افسوناک خبر ملی کہ ہمارے پرائیڈ آف پرفارمنس سینئر صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کو کینیا میں قتل کردیا گیا۔ اس حوالے سے مختلف اطلاعات آرہی ہیں کہ شاید اُنہیں گھات لگا کر شہید کیا گیا ہے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ کینیا کی پولیس نے اُنہیں گاڑی نا روکنے پر جان سے مار دیا ہے۔ آگے چلنے سے پہلے کینیا کے بارے میں بتاتا چلوں کہ یہ ساﺅتھ افریقن ملک ہے جو پاکستان سے کم و بیش 5ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی آبادی ساڑھے پانچ کروڑ سے زیادہ نہیں۔ جبکہ اس کی پولیس پاکستانی پولیس سے مختلف نہیں ہے ! اگر انہوں نے مارا ہے تو یقینا اس کی بھی مکمل تحقیقات ہوں گی۔ لیکن اس وقت پورے پاکستان میں اس بات پر شبہ کیا جارہا ہے کہ اُنہیں ”بولڈ“ ٹاک پر مارا گیا ہے۔ وہ یہاں سے ”دباﺅ“ کی وجہ سے نجی چینل کی نوکری چھوڑ کر لندن گئے، جہاں سے کینیا چلے گئے۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ یہاں کے اداروں سے اتنے متنفر کیوں تھے؟ شاید وہ ہم سے زیادہ کچھ جانتے تھے، حالانکہ اُن کے والد محمد شریف پاکستان نیوی میں کمانڈر تھے ، انہیں بہادری اور شاندار کارکردگی پر تمغہ امتیاز ملا تھا ، 2011 میں وہ 79 سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے تھے۔ والد کے انتقال کی خبر سن کر ارشد شریف کے بھائی اشرف شریف ( پاکستان آرمی میں میجر) بنوں کنٹونمنٹ سے بغیر پروٹوکول کے روانہ ہوئے ، گھر پہنچنے پر ان پر حملہ ہوا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ میجر اشرف شریف کی عمر35 سال تھی۔ میجر اشرف شریف کو والد کے جنازے کو کندھا دینے سے پہلے ہی شہید کر دیا گیا۔ ایک گھر میں دو جنازے اٹھے۔ میجر اشرف شریف کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ملٹری قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت حکومتی شخصیات نے ارشد شریف کے گھر آکر اس افسوسناک واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔اور جبکہ اب ارشد شریف کو بھی شہید کر دیا گیا ہے تو یہ ہمارے لیے افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنے ملک میں صحافیوں کی حفاظت کرنے سے قاصر ہیں۔ تبھی وہ ملک چھوڑ کر جاتے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ اس ملک میں گزشتہ 30سالوں میں 300سے زائد صحافیوں کو مختلف واقعات میں قتل کیا گیا۔ جبکہ ہمارے ہمسایہ ممالک اس فہرست میں ذرا پیچھے ہیں۔ بھارت میں 1993 سے 52 صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے جن میں سے پانچ 2021 میں قتل ہوئے۔ افغانستان میں 1993 کے بعد 81 صحافی قتل ہوئے جن میں سے 8 کو 2021 میں قتل کیا گیا۔اسی طرح بنگلہ دیش میں 2021 میں دو سمیت 24 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں ان صحافیوں یا کسی بھی شعبہ کے افراد کے قتل ہونے پر تحقیقات نہیں کی جاتیں۔ بلکہ ہم تو اتنے ظالم ہیں کہ ارشد شریف کو بھی چند دنوں میں بھول جائیں گے۔ اس کا اندازہ آپ خود لگا لیں کہ پاکستان بننے کے بعد 1947ءمیں کم از کم 10لاکھ مسلمان شہید ہوئے، لیکن ہم نے پاکستان بنانے کے فوراََ ہم نے اُن کی قربانیوں کو ناصرف فراموش کردیا، بلکہ فوری طور پر لوٹ مار میں لگ گئے۔ 1951ءمیں ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا، ہم نے کیا کیا ، ہم نے اُن کے قاتلوں سے گلے مل لیا۔ 1958ءمیں جمہوریت کو شہید کیا۔ تو شہید کرنے والوں کی تصویریں ہم نے ٹرکوں کے پیچھے لگا دیں۔ 1964ءمیں ہم نے بانی پاکستان کی بہن کو گلی گلی رسوا کیا۔ ہم بانی پاکستان کی تمام خدمات کو بھول گئے۔ 1971ءکی جنگ میں آدھاپاکستان ٹوٹ گیا، جس نے 1971ءمیں ملک کے دوٹکڑے کر دیے، جس نے کشمیر کے ہزاروں مربع میل کے علاقے پر قبضہ کیا۔ ہمارے 90ہزار فوجی قید کیے، ہم نے اُس کے ساتھ ذاتی تعلقات بنائے، ہم نے اُس کے ساتھ ذاتی تجارتیں کیں، ہم نے اُن لوگوں کو اپنی شادیوں پر مدعو کیا۔ 1979ءمیں جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کیا، ہم نے بعد میں اُسے امیر المومنین کا خطاب دیا۔ ہم نے 1979ءمیں لوگوں کو آگ لگا کر مرتے دیکھا، کوڑے کھاتے دیکھا۔ہم نے 1983ءکی ایم آر ڈی تحریک میں لوگوں کو مرتے دیکھا۔ نصرت بھٹو کا سر پھاڑا گیا، سانحہ کارساز کون بھول سکتا ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو کون بھول سکتا ہے، پھر سانحہ اے پی ایس، سانحہ ماڈل ٹاﺅن اور دیگر سانحات کون بھول سکتا ہے۔ لیکن ہم یادداشت کے بہت کمزور لوگ ہیں۔ ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ جن لوگوں نے ملک بھر میں بم دھماکے کیے، ہم نے پورا سوات اُن کے حوالے کردیا۔ جسے بعد میں مزید شہادتوں کے ذریعے واپس لیا۔درحقیقت یہ واضح ہے کہ ہماری قوم انتقام پر یقین ہی نہیں رکھتی۔ وہ اسرائےل جس نے سینکڑوں فلسطینیوں کو بے آبرو کیا، قتل کیا ہم نے اُن سے صلح کرنے کے لیے وفد بھیجنا شروع کردیے۔ ہم تو اُس سے بھی صلح کرنا چاہتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ ارشد شریف صاحب معذرت کے ساتھ پھر آپ کس کھیت کی مولی ہو! کہ آپ کو یاد رکھا جائے! الغرض آپ کے باپ کو جنہوں نے شہید کیا ہم نے تو اُن سے بھی صلح کر لی۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ کی شہادت کے حوالے سے تمام بڑے بڑے لیڈران افسوس کا اظہار کریں گے، آپ کے گھر بھی جائیں گے، آپ کی فیملی کے ساتھ ہر قسم کی تحقیقات کے وعدے بھی کریں گے مگر ہوگا کیا؟ کچھ بھی نہیں سب اُنہیں بھول جائیں گے۔ خیر بات بہت آگے نکل جائے گی، ہمیں یہیں اکتفا کرنا چاہیے ۔ اور ارشد شریف کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے علاوہ لندن ، پیرس ، اسٹراسبورگ اور کیل سے بھی رپورٹنگ کر چکے تھے۔ انہیں علاقائی حالات اور انٹرنیشنل چیلنجوں کے بارے میں پوری طرح ادراک تھا۔ اور وہ ہر طرح کے حالات میں بہترین کام کرنے کا تجربہ رکھتے تھے۔ ویسے تو اس شریف کے کریڈٹ پر بے شمار سنسنی خیز اور چونکا دینے والی اسٹوریاں ہیں لیکن خاص طور پر جب انہوں نے موٹروے کے ایک منصوبے اور سابق سربراہ احتساب بیورو سیف الرحمان کے حوالے سے اسٹوری کی تھی تو ان کو خاصی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ جب انہوں نے مسلم کمرشل بینک اور میاں منشاءکے نشاط گروپ کے حوالے سے اسٹوریز کرنا شروع کیں تو وہ توجہ کا مرکز رہے۔سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں ہونے والے مختلف اقدامات پر انہوں نے تحقیقاتی سٹوریاں کیں ، اس کے علاوہ سینٹ جیمز ہوٹل لندن کی خریداری میں نشاط گروپ کے حوالے سے ان کی اسٹوری کو زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ ارشد شریف کسی ایک خاص سیاسی گروپ یا سیاسی جماعت کے حامی نہیں تھے۔ انہوں نے مختلف ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں حکومتوں اداروں اور شخصیات کے حوالے سے جو شاندار رپورٹنگ اور تحقیقاتی اسٹوریا میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائیں ، وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ کا ایک حصہ بن چکی ہیں ، پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے اہم مقدمات میں ارشد شریف کے پروگراموں اور تحقیقاتی رپورٹس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ ارشد شریف بنیادی طور پر دھیمے لہجے میں بات کرنے کے عادی اور دلیل کے ساتھ بات کرتے تھے۔انہوں نے راولپنڈی کے گولڈن کالج سے بی اے اور قائداعظم یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ پڑھائی کے دنوں میں ہی فری لانس جرنلسٹ بن گئے اور اس کے بعد عملی طور پر صحافت سے وابستہ ہوئے ، انہوں نے مختلف نجی ٹی وی چینلز کے ساتھ کام کیا۔ سال 2019 میں حکومت پاکستان نے ان کو پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ دیا۔ اس کے علاوہ وہ انٹرنیشنل سطح پر آگاہی ایوارڈ ، ایشین انویسٹی گیٹو میڈیا ایوارڈ اور وار کور سپونڈنٹ ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔ وہ خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے۔ بہرکیف ہمیں اس کی شفاف تحقیقات کرنا ہوں گی ، یہ ہر گزنہیں ہونا چاہیے کہ پانچ سات دن کے احتجاج کے بعد ہم دوبارہ اُنہیں بھول جائیں۔ اس حوالے سے عمران خان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اس حوالے سے قوم کی سرپرستی کرتے ہوئے خاموش احتجاج کروائے ۔ ہر شخص کو آمادہ کریں اور وقت دیں کہ فلاں وقت پورا پاکستان گھروں سے نکل کر 30منٹ کے لیے خاموش احتجاج ریکارڈ کروائے۔ ہمیں ارشد شریف کی شہادت کو کیش کروانے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے، یقین مانیں ہم پاکستانیوں نے بہت سی افسردگیاں اور شہادتیں دیکھ لیں۔ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ میں پھر وہی کہوں گا کہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کو سر عام پھانسی چڑھتے دیکھا، ہم نے نصرف بھٹو کے سر پھٹتے دیکھے، ہم نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت دیکھی، ہم نے سانحہ کارساز دیکھا۔ لیکن تحقیقات سے عاری یہ قوم نہ جانے کب تک پستی کی طرف جاتی رہے گی۔ نہ جانے کب تک حقیقت سے سر چھپاتی رہے گی۔ ہمیں کھڑا ہونا پڑے گا۔ ارشد شریف کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا، اس ملک کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا اور سچ کا ساتھ دینا پڑے گا تاکہ یہ ملک مزید تباہی کی طرف نہ جا سکے!