پاکستان گرے سے وائیٹ لسٹ: خوشی نہ منائیںپرہیز کریں!

حیرت ہے ہمیں ہر اُس چیزکے واپس ملنے پر خوشی منانا پڑتی ہے، جسے ہم نے اپنی غلطی سے کھویا ہوتا ہے، حالانکہ اس بات پر شرمندگی محسوس کرنی چاہیے کہ آخر ہم نے وہ شے یا مقام کھویا تو کھویا کیسے؟ آپ خود دیکھ لیں، ہم نے سوات دہشت گردوں کے ”حوالے“ کیا ، ہزاروں جانیں گنوا کر اور اربوں ڈالر جھونک کر اُسے دوبارہ حاصل کیا پھرپاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ ہم نے چار مرتبہ جمہوریت کھوئی، اور اُسے دوبارہ حاصل کرکے خوشی کے گیت بھی گائے اور وکٹری کا نشان بھی بنایا۔ ہم نے سانحہ اے پی ایس اور دیگر بم دھماکوں میں سینکڑوں جانیں قربان کروائیں،جس کے بعد خیال آیا تو نیشنل ایکشن پلان بنا لیااور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی۔ پھر ہم پہلی مرتبہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے 2008ءمیں گرے لسٹ میں گئے اور 2010واپس ”وائیٹ لسٹ“ میں آنے پر خوشی کا اظہار کیا ۔ اگر اس کی تفصیلات میں جائیں تو 2008ءمیں پہلی مرتبہ اُس وقت پاکستان مانیٹرنگ لسٹ میں آیاجب ہمارے ہاں دہشت گردی عروج پر تھی۔ اُس وقت ہم سوات دہشت گردوں سے واپس لینے کے لیے آپریشن راہ حق اور راہ نجات کر رہے تھے۔ اسی دوران دنیا ہم پر نظر رکھے ہوئے تھی ۔ ایسے حالات میں ملک کے اندر سے بھی دہشت گردوں کی معاونت کی جا رہی تھی۔ اگلے برس 25 فروری 2009 کو ایف اے ٹی ایف نے پاکستان سے کہا کہ وہ منی لانڈرنگ کے معاملے پر ورلڈ بینک اور ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ مکمل تعاون بھی کرے۔2010 میں جہاں پاکستان میں اعلیٰ سیاسی قیادت کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کی تجاویز پر ایکشن پلان دینے کے بعد ملک کو گرے لسٹ سے نکال دیاگیا تاہم بتایا گیا کہ پاکستان کوابھی کچھ اور اقدامات کرنا ہوں گے۔ ان اقدامات میں کراس بارڈر کیش ٹرانسفر پر کنٹرول، دہشت گردوں کے اثاثوں کا پتہ لگانے اور ان کو منجمد کرنے کے لیے مربوط طریقہ کار بھی شامل تھا۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اگلے تین برس کے دوران پاکستان کے ایکشن پلان پر عدم اطمینان کا اظہار جاری رہا، جب پاکستان نے اپنی ”حرکتوں“ پر کنٹرول نہ کیا تو 2013 میں ایک بار پھر پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا اور کہا گیا کہ وہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے حوالے سے موثر قانون سازی کرے اور یقینی بنائے کہ اس نے ایف اے ٹی ایف کے معیار کے مطابق اقدامات کیے ہیں۔ 2014 میں ایف اے ٹی ایف نے کہا کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس کو باضابطہ طور پر قانون کا درجہ دے۔ پاکستان نے ایسا ہی کیا جس کی بدولت 2015 میں پاکستان مانیٹرنگ لسٹ سے نکل آیا، لیکن ہم پھر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور کوئی واضع سسٹم نہ بنا سکے، جس کی وجہ سے 2018 میں پاکستان ایک مرتبہ پھر گرے لسٹ میں چلا گیا۔ 2019، 2020 اور 2021 میں بھی یہی صورتحال رہی رواں برس جون جولائی میں ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستانی اقدامات پر بھرپور اطمینان کا اظہار کیا گیا۔اُمید پیدا ہوئی کہ اگلے اجلاس میں اس شکنجے سے نجات مل جائے گی اور پھر ایسا ہی ہوا کہ رواں ماہ ہم دوبارہ وائیٹ لسٹ میں آگئے۔ ایف اے ٹی ایف سے نجات کے لئے دوست ممالک کا تعاون یاد رہنا چاہئے۔پاکستان کو بلیک لسٹ سے بچانے کے لیے چین، ترکی اور ملائشیا نے ووٹ دیے اور شروع سے آخر تک کھڑے رہے۔بھارت پاکستان کے مفادات کے خلاف سرگرم رہا لیکن اس حوالے سے افواج پاکستان نے جی ایچ کیو میں جو سیل قائم کیا میرے خیال میں یہ اسی بدولت ہی سب کچھ ممکن ہوا۔ خیر مدعا یہ ہے کہ جب ہم اپنی غلطیوں سے ن لیگ کے دور میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیے گئے تو نہ کسی نے سوچا کہ ہم بین الاقوامی اداروں کی طرف سے اعتماد کھو رہے ہیں اور نہ ہی کسی نے یہ سوچا کہ ہمیں بار بار گرے لسٹ میں جانے سے اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہمیں دنیا بار بار کہتی رہی کہ ہم نام نہاد دہشت گردوں پر ”اچھے طالبان“ کو کنٹرول کریں، مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ لیکن جیسے ہی FATFکی طرف سے ہم پر”جائز“پابندیاں لگیں تو سٹیٹ بینک سے لے کر بینکوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں تک کا کردار اس سلسلے میں اہم رہاہے۔تمام دہشت گرد گروہ بھی انڈر گراﺅنڈ کر دیے گئے، بنکوں نے نظام بھی بہتر بنا لیے، بینکوں کو پہلی بار عادت پڑی کہ وہ صارفین کی بائیو میٹرک کے ذریعے شناخت کریں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی پالیسیوں کو دیکھا، مقدمات میں جو خامیاں تھیں انھیں دور کیا گیا۔ پاکستان کی معیشت کو ڈاکومنٹ کرنے میں ان اقدامات سے مدد ملی۔ ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے قومی سلامتی متاثر ہو رہی تھی۔ سیاسی سطح پر ہم آہنگی کا فقدان تھا اس لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومت کی درخواست پر خصوصی سیل جی ایچ کیو میں قائم کیا۔پہلی بار تیس سے زائد محکموں ، وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان کوآرڈینیشن کا میکنزم بنایا گیا،پہلی بار ادارہ جاتی ہر چیز ریکارڈ پر لائی گئی، پہلی بار منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ پر موثر لائحہ عمل ترتیب دیا گیاجس پر تمام اداروں نے عمل کیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے ترسیلات میں تاریخی بہتری آئی۔پہلی بار بین الاقوامی سطح پر مالیاتی لین دین میں شفافیت نظر آئی ۔ الغرض قصہ مختصر کہ ہم ”ڈنڈے کے یار ہیں“ جب تک ہمارے ”مالک“ ہمیں سیدھا چلنا نہ سکھائیں ہم سیدھے راستے پر چلنا ہی نہیں چاہیں گے! ہم شارٹ کٹ کے عادی ہیں اور شارٹ کٹ ہی تلاش کریں گے۔ اگر کوئی ہم سے یہ کہے گا کہ آپ اپنے ”کھاتے“ درست کر لیں تو ہم کہیں گے کوئی بات نہیں ہم کوئی جگاڑ لگا لیں گے۔ لیکن میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اُنہوں نے ہم جیسے بگڑے ہوﺅں کے لیے FATFجیسا ادارہ قائم کیا۔ جس سے کم از کم منی لانڈرنگ ، ہنڈی اور دیگر غیرقانونی کاموں میں کمی تو آئی۔ ورنہ کون سا ملک چاہے گا کہ وہ گرے لسٹ میں رہے۔ اور پھر پاکستان جیسے ملک کے لئے گرے لسٹ میں رہنا ایک بھیانک خواب ہے۔ اس لسٹ میں موجودگی سے کئی چیلنجز لاحق ہوتے ہیں۔ اس کے اثرات متعدد پہلو سے قومی ترقی اور مالیاتی نظام کو ہی متاثر نہیں کرتے بلکہ عالمی برادری میں پر امن ہونے کی ساکھ بھی داو پر لگی رہتی ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم ہوتا ہے۔ اور ”وائیٹ لسٹ میں آنے کے ثمرات بھی بتاتا چلوں کہ بادی النظر میں ملک میں اب بین الاقوامی کمپنیوں کی سرمایہ کاری بڑھے گی، بین الاقوامی رفاہی ادارے، غیر سرکاری تنظیمیں اور ڈونر ایجنسیاں پاکستان میں نئے منصوبے شروع کر سکیں گی۔ پاکستان کی بین الاقومی سطح پر تجارت بالخصوص برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان کے یورپ اور دوسرے ملکوں کے ساتھ روابط بڑھیں گے۔عالمی ریٹنگ ایجنسیاں پاکستان کی ریٹنگ بہتر کر سکیں گی۔ پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام آئے گا اور بحیثیت مجموعی قومی معیشت کے لیے حالات تیزرفتاری سے سازگار ہوں گے جو آج پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔لہٰذاوقت کا تقاضا ہے کہ ہم خوشی سے نہال ہونے کے بجائے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم دوبارہ اُن چیزوں کو پیدا نہ ہونے دیں جس کی وجہ سے ہم بار بار گرے لسٹ میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی کہ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق حالیہ گرے لسٹ میں رہنے کی وجہ سے وطن عزیز کو28ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ لہٰذاہمیں اس گرے لسٹ میں مستقل رہنے کے لیے ابھی بھی بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، FATFکے صدر ٹی راجا کمار ابھی بھی پاکستان کو انتباہ کرتے ہوئے اپنی پریس کانفرنس میں کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی فنڈنگ کے حوالے سے 34 نکات پر عمل درآمد مکمل کرلیا ہے۔ یہ اصلاحات ملک اور خطے کے استحکام اور سلامتی کیلئے اچھی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مزید کام کی ضرورت نہیں،ہمیں امید ہے پاکستان نظام کو مزید مضبوط کرنے کی خاطر ایف اے ٹی ایف کے علاقائی شراکت دار ایشیا پیسفک گروپ سے تعاون جاری رکھے گا۔اُمید تو ہمیں بھی بہت ہوتی ہے مگر یہاں سیاسی ہلچل کم ہوتو کوئی معیشت کے بارے میں بھی سوچے یا یہاں مفاد پرستی ختم ہو تو سیاسی استحکام آئے۔بقول مرزا غالب ہم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے بہرکیف قارئین راقم گزشتہ دو دہائیوں سے صرف ایک ہی بات کرتا آیا ہے کہ سسٹم بنایا جائے، جب تک سسٹم نہیں بنے گا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمارے حکمرانوں کو تو شاید یہ بات سمجھ نہیں آئی لیکن دنیا نے بھانپ لیا کہ پاکستان میں سسٹم نام کی کوئی شے نہیں ہے، اور اُنہیں یہ بھی علم ہے کہ یہاں صاحب اقتدار لوگ کرپٹ لوگوں کی منڈیاں ہیں،جنہوں نے وطن عزیز کو دنیا بھر میں ناصرف رسوا کیا بلکہ اُسے آج تک بڑی بڑی مارکیٹوں سے بھی دور رکھا۔جبکہ حالیہ پیش رفت کا سہرا سہرا پی ٹی آئی حکومت اور پاک فوج کے سر بندھتا ہے۔اس لیے ہمارے تمام اداروں سے گزارش ہے کہ ایک بار پھر میثاق معیشت کی تیاری اور اس پر قومی اتفاق رائے کے حصول کی بھی جلداز جلد کوشش کی جائے تاکہ حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام برقراررہے اور ترقی کا عمل کسی روک ٹوک کے بغیر ہموار طریقے سے جاری رہ سکے۔