ڈینیل پرل کیس : یہاں کسی کو انصاف نہیں مل سکتا!

”ڈینیل پرل کیس“ کے بارے میں تو یقینا سبھی کو علم ہوگا، کیوں کہ یہ کیس پاکستان و امریکی میڈیا پر گزشتہ 18سال سے اس قدر توجہ حاصل کر چکا ہے کہ دنیا بھر میں قتل ہونے والے صحافیوں کا شاید ہی اتنی کوریج حاصل ہوئی ہو، ڈینیل پرل ایک پیشہ ور صحافی تھا، جو امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کے لیے جنوبی ایشیاءمیں بطور بیوروچیف کا کرتا تھا،وہ اس خطے میں2001ءمیں تعینات ہوا تھا،کیوں کہ امریکا نے افغانستان میں اُن دن دہشت گردی کا خلاف عالمی جنگ کا آغاز کیا تھا، اس لیے اُنہی دنوں یہ خطہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا، اور مشرف صاحب امریکا کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا رہے تھے، پرل کا آفس بھارت میں تھا، لیکن وہ خبر کی تلاش کے لیے پاکستان، افغانستان یا بنگلہ دیش کا سفر بھی کرتا رہتا تھا، وہ ایک روز 11جنوری 2002ءکوکراچی آیا جہاں اُسے ایک ایسی مذہبی شخصیت کی تلاش تھی جس کے ایک پیر وکار نے فرانس میں اپنے جوتے میں بم چھپا کر امریکا جانے والے ایک پرواز کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن وہ ایسا نہ کر سکا، گرفتار ہو گیا۔پرل اُس مذہبی شخصیت سے ملنا چاہتا تھا، اُس کے خیالات کو جانچنا چاہتا تھا، انٹرویو کرنا چاہتا تھا، اوریہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آخر انہوں نے اُس کی برین واشنگ کیسے کی؟ اور مزید اُن کے مریدین دنیا میں کہاں کہاں موجود ہیں، اُن دنوں یہاں بالخصوص پاکستان میں ہر غیر ملکی شخص کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اُسے امریکی ایجنٹ قرار دیا جاتا تھا، ایسے میں پرل بھی ایک بشیر نامی شخص کے ہتھے چڑھ گیا، یہ بشیر نامی شخص احمد عمر سعید شیخ تھا۔ جس نے پرل کی ملاقات اُس مذہبی شخصیت سے کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ آگے چلنے سے پہلے اگر احمد سعید کی اگر بات کی جائے تو وہ ایک جہادی تھا، جو 90کی دہائی میں بھارت میں غیر ملکیوں کے اغوا کی کوشش میں گرفتار ہو کر جیل جا چکا تھا، اور بعد میں دسمبر 1999میں ایک بھارتی طیارے کے افغانستان میں اغوا کے بعد اُس کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ لیکن انٹرنیٹ تک رسائی زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے پرل کو البتہ ”بشیر“ کا پس منظر معلوم نہ تھا۔خیر کچھ دن بعد دوبارہ ڈینیل کی ملاقات احمد عمر سعید شیخ سے ہوئی ، اُس کے بعد ڈینیل منظر عام سے غائب ہوگئے، اور جنوری کے آخر میں یہ خبر پھیل گئی کہ پرل کو مذہبی شدت پسندوں نے اغوا کر لیا ہے۔ جس کے بعد امریکی حکام کو ایک ای میل موصول ہوئی جس میں پرل کی رہائی کے بدلے ایف سولہ طیاروں کی فراہمی اور افغان قیدیوں کی رہائی کی بات کی گئی، جسے امریکی حکام نے زیادہ سنجیدہ نہ لیا اوراگلے ہی ماہ یعنی 21فروری 2002کو پرل کے قتل کی ویڈیو منظر عام پر آگئی جس میں انہیں بے دردی سے قتل کرتے دکھایا گیا تھا۔ مقدمہ درج ہوا، انوسٹی گیشن کا آغاز ہوا تو احمد عمر سعید شیخ کا نام سامنے آیا، چونکہ احمد عمر لاہور کا رہائشی تھا تو سیکیورٹی اداروں نے اُن کے گھر والوں کوہراساں کیا جس پر عمر شیخ نے خود کو حکومت کے حوالے کر دیا۔ کراچی کی مقامی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کیس چلتا رہا، اور15جولائی 2002ءکو ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی ۔سزا ہونے کے فوری بعد ملزمان نے 2002ءہی میں سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا، جہاں 18سال سے کیس تعطل کا شکار تھا اور پھر ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد مقدمے میں نامزد 4 ملزمان کی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے رواں سال اپریل میں3 کی اپیلیں منظور جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔لیکن سندھ حکومت نے رہا کر نے سے انکار کر دیا۔ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا جہاں مزید پیشیاں ڈال دی گئیں مگر اب سندھ ہائیکورٹ نے گزشتہ ہفتے ایک بار پھر سسٹم پر ”تنقید“ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمان کو 9ماہ مزید قید میں رکھنے کی کیا وجہ ہے انہیں فوری رہا کیا جائے۔ اب یقینا عدالت عالیہ سندھ نے ثبوتوں کے نہ ہونے اور ملزمان کا عمر قید پوری کرنے کی بنا پر کہا ہو گا کہ انہیں رہا کیا جائے لیکن، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جو قتل شیشے کی طرح صاف ہے ، جس قتل کی تحقیقات کے پیچھے سپر پاور امریکا ہے، جس قتل کے پیچھے سندھ سرکار کی پوری مشینری ہے، جس قتل کے پیچھے ہمارے بڑے ادارے ہیں، جس قتل کے ملزمان خود اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے ہی پرل کو قتل کیا اور جس قتل کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بتا رہی ہے کہ اس قتل میں استعمال ہونے والا آلہ کون ساتھا،لیکن ملزمان کو ریلیف کیسے مل گیا۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ تو جناب یہی ہمارے سسٹم کی مکمل تصویر ہے، کہ جب کیس چھوٹی سے بڑی عدالت میں جاتا ہے تو اکثر کیسز کی دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں، مثلاََ مذکورہ کیس میں سندھ پولیس نے احمد عمر سعید شیخ کے خلاف کراچی سے گرفتار جن دو ملزمان کے اعترافی بیان پر کیس کی عمارت کھڑی کی تھی، محمود شیخ نے انہی بیانات کی روشنی میں ثابت کیا کہ وہ اعترافی بیانات دباﺅ اورتشدد کے ذریعے لئے گئے تھے۔پھر پولیس بھی کیس کی کارروائی سے عاجز آگئی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ، ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور آلہ قتل کچھ پیش نہ کر سکی۔ یوں سارے کیس کی عمارت دھڑام سے گرگئی۔بہرکیف یہ سارا کیس بتانے کا جو مقصد ہے وہ سادہ سا ہے کہ جس کیس کے پیچھے تمام تر امریکی اثرو رسوخ کام نہ آسکے اور سب سے اہم بات کہ ڈینیل پرل کو انصاف نہ مل سکا، آپ اندازہ لگا لیں کہ یہاں عام آدمی کو انصاف ملنے کی کیا حالت ہوگی؟ عام آدمی کو انصاف لینے کے لیے یہاں کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہوں گے؟ بقول قتیل شفائی کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے یقین مانیں دکھ ہوتا ہے کہ ہم انصاف مہیا کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ 128ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 120واں ہے حالانکہ جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی کی صورت حال پاکستان کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ رول آف لاءانڈکس کے مطا بق نیپال اپنی عدلیہ کی کارکردگی کے لحاظ سے 61 ویں، سری لنکا 66 ویں اور بھارت 69 ویں نمبر پر ہے۔ہمیں اُن ممالک پر رشک کرنا چاہیے جہاں کا عدالتی نظام دنیا میں ایک مثال ہے، اس انڈکس کی پہلی دس پوزیشنوں میں سے سات پر مختلف یورپی ممالک کے نام ہیں جبکہ قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے ڈنمارک دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔آج ہماری چھوٹی بڑی عدالتوں میں 30لاکھ سے زائد کیسز زیر التواءہیں، یہ تعداد 2010ءمیں 13لاکھ تھی جبکہ اسی رفتار سے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا تو یہ تعداد آنے والے 10سالوں میں یعنی 2030ءمیں 50لاکھ سے بھی بڑھ جائے گی ۔ میرے خیال میں اگر عدالتوں کا یہی حال رہا تو ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے اور ان ممالک کے عدالتی نظام کو فالو کرنے کی ضرورت ہے جن کا انڈیکس بہتر ہے۔ ہمیں چرچل کے اُن تاریخی الفاظ سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے جن سے دنیا مستفید ہو رہی ہے، دو سری جنگ عظیم کے دوران ونسٹن چرچل نے اپنا دفتر کیمبرج یونیورسٹی کے ایک کمرے میں منتقل کرلیا تھا۔ایک صبح چرچل کا ماتحت دوڑتا ہوا آیا اور بتایا کہ جرمن فوجیں برطانیہ کے سر پر پہنچ گئی ہیں۔ خوفناک بمباری کی وجہ سے برطانیہ کی سلامتی کو شدید خطرہ ہے۔چرچل نے اطمینان سے پوچھا کہ برطانیہ میں عدالتیں کام کررہی ہیں۔ماتحت افسر نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالتیں کام کررہی ہیں۔چرچل نے پھر پوچھا کہ کیا وہ انصاف فراہم کررہی ہیں۔ماتحت افسر نے جواب دیا کہ جی ہاں برطانیہ میں عدالتیں مکمل انصاف فراہم کررہی ہیں۔چرچل مسکرائے اور کہنے لگے کہ جب تک برطانیہ میں عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں تو برطانیہ کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ لہٰذاہمیں اپنے عدالتی نظام میں بتدریج بہتری لانے کی ضرورت ہے، سب سے پہلے تو عدالتی نظام میں خرابی کی وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا، جب تک ہم مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچیں گے ہم مسائل حل کرنے میں ہمیشہ پیچھے رہیں گے، اور ہمارے عدالتی نظام میں خرابی کی شاید کئی وجوہات ہوں لیکن میری نظر میں اس کی بڑی وجہ کیس کا لمبے عرصے تک چلنا ہے، کیس طویل ہونے کی وجہ سے گواہ تتر بتر ہو جاتے ہیں، ملزم پارٹی کے دباﺅ میں آجاتے ہیں، گواہ مارے جاتے ہیں، اس مذکورہ پرل کیس کو دیکھ لیں، اسے 18سال ہوگئے، حالانکہ اس کیس میں سرکاری گواہان شامل رہے، لیکن وہ اب تک شاید ریٹائرڈ بھی ہو چکے ہوں، یا ہو سکتا ہے اس دنیا ہی میں نہ ہوں۔ پھر پولیس اس کیس میں مدعی رہی، جسے ویسے ہی ایسے کیسز حل کرنے میں ”دشواری“ رہتی ہے۔لہٰذاعدالتی نظام میں اگر بہتری لانا مقصود ہے تو اس کے لیے ہمیں ہر کیس کی مدت مقرر کرنا پڑے گی، کہ فلاں کیس 2ماہ یا 2سال میں حل ہونا چاہیے اس کے علاوہ یہ بات درست ہے کہ ہمارے بہت سے قوانین انگریز دور کے بنائے ہوئے ہیں، جو موجودہ دور سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مقدمے سول ہوں یا فوجداری کے، ان میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ ججوں کی تعداد کم ہے، جس کے باعث زیر التوا مقدمات کا انبار لگا رہتا ہے۔لہٰذاانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔قصہ مختصر پاکستانی نظام عدل تب کہیں کھڑا ہوگا، جب اس میں وسیع تر اصلاحات اور ترامیم لائی جائیں گی، شفافیت ہو گی، عدلیہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔اس پر یقینا حکومت کو سوچنا چاہیے او ر جلد از جلد اس پر تھنک ٹینک بنانا چاہیے تاکہ عدالتی سسٹم میں بہتری لا کر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔