خوش آمدید جنرل عاصم منیر: اُمید ہے غیر آئینی اقدام نہیں کریں گے!

بالآخر جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف بن گئے، اُن کی تقرری کے بعد ایک دور کا اختتام اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔اس نئے دور کے آغاز نے ایک مرتبہ تو دن میں تارے دکھا دیے ہیں کہ ملکی سیاست میں گزشتہ 6ماہ سے اور کچھ سجائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ بلکہ بقول قتیل شفائی دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا سگمنڈ فرائیڈ کی Unconscious اور Jokes کے تعلق کے حوالے سے ایک کتاب ہے جس پر کارل ژونگ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا، Freud has taken the joke too far، یعنی فرائیڈ مذاق کو بہت آگے لے گئے ہیں ۔ ہمیں بھی اس اہم اور بڑی تقرری کے وقت اسی قسم کی صورتحال کا سامنا تھا۔ مطلب مذاق ہی مذاق اور سنجیدگی ہی سنجیدگی میں پورے ملک کو فالج زدہ بنا دیا گیا تھا، سب کچھ اپنی جگہ ٹھٹھرا ہوا اور سہما ہوا تھا۔ مضبوط اعصاب کے لو گ بھی چٹخ رہے تھے، جب میچ پھنس جائے توکچھ دوست بے قراری میں بہانے بہانے ٹی وی کے سامنے سے اٹھ جایا کرتے ہیں، کسی کو تازہ ہوا کی فوری ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کسی کو ”بریک“ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر ہم بھی دائیں بائیں دیکھ رہے تھے۔ایک نارمل تقرری کو ہماری سیاسی پارٹیوں نے اس قدر متنازعہ بنا دیا کہ ایک بار تو ایسا بھی لگ رہا تھا کہ آج نہیں تو کل مارشل لگ سکتا ہے۔ لیکن مولا نے کرم کیا اور ہمیں باعزت طور پر اس بحرانِ عظیم سے نجات دلائی۔ خیر نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر ایک قابل افسر ہیں، جنرل عاصم منیر منفرد اور نمایا ں اس لیے بھی ہیں کیوں کہ عام طور پر آرمی چیف لانگ کورس سے آنے والے جنرل بنتے ہیں، مگر جنرل عاصم منیر لانگ کورس سے نہیں بلکہ او ٹی ایس سے آئے ہیں۔لانگ کورس سے مراد پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں منعقد ہونے والے دو سالہ کورس ہے، جس سے تربیت پا کر پاکستانی فوج کے افسران فوج کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ لانگ کورس ایبٹ آباد کی کاکول اکیڈمی میں ہوتا ہے۔اس کے مقابلے پر ایک اور ادارہ او ٹی ایس یا آفیسرز ٹریننگ سکول کہلاتا ہے جو پہلے کوہاٹ میں ہوا کرتا تھا بعد میں منگلا منتقل ہو گیا۔ یہ ادارہ پاکستانی فوج میں افسران کی کمی کو پورا کرنے کے لیے خصوصی طور پر بنایا گیا تھا۔ او ٹی ایس پروگرام 1989 کے بعد ختم کر دیا گیا تھا اور 1990 میں آفیسر ٹریننگ سکول کو جونئیر کیڈٹ اکیڈمی کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کے علاوہ جنرل عاصم منیر پاکستان کے وہ واحد آرمی چیف ہوں گے جو چیف بننے سے قبل دو مختلف انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ رہے ہیں۔ جنرل عاصم منیر 25 اکتوبر 2018 سے 16 جون 2019 تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ اس کے علاوہ وہ ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل آئی ایس آئی کے سربراہ تو آرمی چیف بنے ہیں، مثال کے طور پر جنرل اشفاق پرویز کیانی، مگر کوئی ایسا سربراہ نہیں آیا جو دو انٹیلی جنس اداروں کا سربراہ رہا ہو۔پھر جنرل عاصم منیر سے قبل قبل کوئی آرمی چیف نہیں گزرا جس نے اعزازی شمشیر یا سورڈ آف آنر حاصل کی ہو۔ یہ وہ اعزاز ہے جو جنرل عاصم منیر کے پاس ہے۔سورڈ آف آنر وہ اعزازی تلوار ہوتی ہے جو پاس آو¿ٹ ہونے والے کیڈٹوں میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر دی جاتی ہے۔ اس اعزاز کا حصول ہر کیڈٹ کا خواب ہوتا ہے اور اسے پانے کے لیے ان کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا ہے۔ یہ شمشیر مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔اگر اُن کے حوالے سے مزید منفرد اور نمایاں بات کروں تو جنرل عاصم منیر وہ پہلے آرمی چیف ہوں گے جو کوارٹر ماسٹر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ فوجی اصطلاح میں کوارٹر ماسٹر وہ عہدہ ہے جو فوجیوں کو مختلف قسم کا ساز و سامان فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس ساز و سامان میں اسلحہ، گولہ باردو، فوجی گاڑیاں، وردیاں، وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ اگر جنرل عاصم کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے بات کروں تو ہمیں جنرل قمر جاوید باجوہ کے آخری خطاب کو لینا ہوگا جس میں انہوں نے اپنی سیاسی غلطیوں کااعتراف اور واقعات کی ملمع سازی کر کے اپنے تاثر کی دھاک بٹھائی۔ میرے خیال میں ناکافی تھا۔جنرل باجوہ کا فرمانا ” سانحہ مشرقی پاکستان ہر گز فوجی شکست نہیں تھی بلکہ سیاسی ناکامی تھی“۔سر! میرے سمیت پوری قوم آپ کے اس موقف کی تائید کرتی ہے۔ اتنا بتادیں، 1971 میں وطنی سیاست کس کے قبضے میں تھی؟جنرل یحییٰ ہی توسیاست کے مائی باپ تھے۔یادش بخیر جنرل یحییٰ سے پہلے وطنی سیاست دس سال کس کے قبضہ استبداد میںتھی۔ جنرل ایوب خان ہی تو نظام”بستی “چلا رہا تھا۔خیر اس بات کو چھوڑیں یہ تاریخ کے پلندے ہیں، انہیں جتنا کریدیں گے ، اتنے ہی زخم تازہ ہوں گے مگر باجوہ صاحب نے جس اہم بات کی طرف نشاندہی کی جو یقینا ہمیں ہضم بھی نہیں ہورہی وہ یہ ہے کہ اُنہوں نے کہا کہ سیاست میں مداخلت غیر آئینی ہے، اس لیے اُمید کی جاتی ہے کہ یہ دوبارہ نہیں ہوگا، آرمی چیف مزید کہتے ہیں کہ انہوں نے فروری میں فیصلہ کیا کہ وہ مداخلت نہیں کریں گے،وغیرہ ۔ چلیں یہ بات خوش آئند ہے کہ اُنہوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا، یہ اُن کا بڑا پن ہے مگر کیا اس حوالے سے انہوں نے کوئی لائحہ عمل طے کیا کہ اگر کوئی اس قسم کی غلطی کرے گا تو اُس کے لیے کیا سزا ہوگی؟اور یہاں خالی جگہ ہے تو اسے آنے والے آرمی چیف اگر پر کردیں گے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اور پھر نئے آرمی چیف کو بھی اسی تسلسل کو برقرار رکھنا ہوگا کہ رواں سال فروری سے پہلے جو اقدام ہوتے رہے ہیں وہ نہ ہوں، کیوں کہ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ عوام اور پاک فوج کے درمیان خلیج بڑھ گیا ہے۔ اور نئے چیف کو اس حوالے سے کام بھی کرنا پڑے گا کہ عوام کا اعتماد جو چند مخصوص سیاسی جماعتوں ، شخصیات اور اداروں کی وجہ سے خراب ہوا ہے اُسے سمیٹنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ نئے آرمی چیف کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ عوام مینڈیٹ کا احترام کیا جائے، عوامی لیڈر کو باہر نکالنے کے اقدامات کو روکنا ہوگا۔ کیوں کہ میرے خیال میں کسی بھی لیڈر کے اقتدار میں رہنے یا نہ رہنے کے بہترین طریقہ عوام ہے، عوام جسے رکھنا چاہتی ہے، اُسے رکھے، جسے نہیں رکھنا چاہتی اُس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پھر ایک اہم بات یہ کہ عوامی لیڈرز کو عدالتوں سے نکلوانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے ۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے نیب کا استعمال کم سے کم ہونا چاہیے۔ اور پھر ہم سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ معیشت کیسے ٹھیک ہوگی؟ سنا ہے حالیہ دور میں معیشت اپنی آخری حد کو چھو رہی ہے، اور اس کے آگے اب ڈیفالٹ ہی ہے اور کچھ نہیں۔ یقین مانیں یہ سیاسی کشمکش اگر نہ ہو تو معاشی نمو کے امکانات پیدا کیے جاسکتے ہیں‘ مگر بدقسمتی سے سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کے اس ماحول میں نمو کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ آرمی چیف کے یہ الفاظ قابلِ غور ہونے چاہئیں کہ پاکستان آج سنگین معاشی مشکلات کا شکار ہے اور کوئی ایک پارٹی ملک کو اس بحران سے نکال نہیں سکتی؛ چنانچہ سیاسی استحکام کی خاطر سبھی فریق ذاتی اَنا کے جھگڑوں کو ختم کریں اور آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ ہمارے رہنما جمہوریت کا پرچار بہت کرتے ہیں مگر جمہوریت کی روح اور تقاضوں کو سمجھنے اور لاگو کرنے میں خلوص کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس دو رنگی کا ختم ہونا بھی ضروری ہے۔ سیاسی قیادت کو سمجھنا ہو گا کہ جمہوریت میں عدم برداشت نہیں ہوتا‘ قومی مقاصد ہوتے ہیں جن کیلئے ہر جماعت اور لیڈر ایک ڈھنگ سے جدوجہد کرتا ہے، یہ ڈھنگ جمہوری کلچرسے آتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں حقیقی جمہوری کلچر کو فروغ دینے میں کیا رکاوٹیں ہیں، سیاسی رہنماﺅں کو اس کا جائزہ اپنی ذات سے شروع کرنا چاہیے۔ ہمارے رہنماماضی میں غیر جمہوری مداخلتوں کی تاریخ کو جمہوری اقدار کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تعبیر کرتے ہیں؛ تاہم فوج کی جانب سے سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی کے ساتھ سیاسی قیادت کے لیے بڑا موقع پیدا ہوتا ہے جسے خلوصِ نیت کے ساتھ بروئے کار لا کر ملک میں جمہوری استحکام یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ افواجِ پاکستان کی جانب سے اس یقین دہانی کے ساتھ اب گیند سیاست دانوں کے کورٹ میں ہے۔ یہ ان قائدین کی صلاحیتوں کا امتحان ہے جو ملک میں جمہوریت کے علم بردار کہلاتے ہیں۔ بہرکیف اہل وطن ! نیا دورشروع ہوا چاہتا ہے، اُمید ہمیشہ اچھے کی کرنی چاہیے، ورنہ مایوسی اور نااُمیدی گناہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذادوسری طرف سیاسی جماعتوں کو بھی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا کہ وہ اپنے مسائل حل کروانے کے لیے دوسروں کو کس قدر مدعو کرتے ہیں، اس لیے اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی قائدین ان امکانات سے کس طرح فائدہ اٹھا تے ہیں۔ کیا وہ اب بھی مداخلت کا راگ الاپتے رہیں گے یا جمہوریت کو مستحکم کرنے میں اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کریں گے۔ اگرچہ حالات کچھ اچھی تصویر پیش نہیں کرتے کہ جو منفی سیاست اس وقت دکھائی دیتی ہے اس کی مثال ماضی قریب میں تو کم از کم نہیں ملتی۔ اس صورتحال کو ختم کرنا ہو گا۔ سیاسی عدم برداشت کا خاتمہ اور میں نہ مانوں کے رویے میں مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کو سیاست سے الگ کر کے بڑا قدم اٹھا لیا۔اب سیاسی قیادت کو بھی چاہیے کہ اپنے حصے کا کام کرے اور سیاسی سوجھ بوجھ‘ فراست‘ اور تدبر و حکمت کے ساتھ ملک کو اس گمبھیرتا سے نکالیں۔