یقین مانیں: معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے!

فرض کیا کہ ایک شخص قرض پر زندگی گزار رہا ہے، اس کے اخراجات کا پھیلاﺅ اس قدر ہے کہ وہ چاہ کر بھی اپنے اخراجات کم نہ کر پا رہا۔ جبکہ قرض دینے والے اُس پر ہر حربہ استعمال کر چکے ہیں کہ شاید وہ کسی طرح اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو جائے لیکن وہ ہر صورت ناکام رہے۔ دن گزرتے جا رہے ہیں اور اب موصوف کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ وہ پچھلا قرض اور سود چکا نے کے لیے اگلا قرض لینے پر مجبور ہے اور اس کے لیے گھر کی چیزیں تک گروی رکھوارہا ہے جو ایک ایک کرکے ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ لہٰذااب وہ قرض لینے کے لیے نئی نئی ترکیبیں استعمال کر رہا ہے، اور اس بار بھی اسے ایک نئی ترکیب سوجھی۔ وہ ترکیب یہ تھی کہ اُس نے اپنے منیجرز کو تبدیل کرنا شروع کردیا، پہلا منیجر جب پچھلے منیجر پر ساری غلطیاں ڈال دیتا تو قرض دینے والا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا۔ پھر قرض دینے والے کو بھی ترکیب سوجھی اور اُس نے اپنے ”منیجرز“ دینا شروع کر دیے۔جس کے بعد اُن کے اپنے منیجرز نے رپورٹ دی کہ سر! اسے مزید قرض دے دیں تاکہ یہ سود سمیت ہمیں ہمارا پیسہ واپس لوٹا سکے۔ ایسا کرنے سے قرض خور کو وقتی افاقہ تو ہوا مگر اُس شخص پر قرض کا مزید بوجھ بڑھنے لگا اور پھر ایک دن آیا کہ قرض دینے والوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ پھر وہ ہمسایوں کے پاس گیا، وہ پہلے ہی اُس شخص کے ”لچھن“ جانتے تھے، اس لیے اُنہوں نے صاف انکارکیا، لیکن منت سماجت اور گھر کے ”بڑوں“ کو بیچ میں ڈال کر ہمسایوں نے ترس کھایا اور تھوڑے بہت پیسے دیے اور کہا کہ خرچ نہیں کرنے، بس اپنے پاس رکھو، تاکہ ”پرچون والا“ یا ”سبزی والا“ تمہیں سودا سلف دے سکے جس سے تمہارا روز مرہ کا گزارہ چل سکے۔ لیکن اُس شخص کے گھر والے ”امپورٹڈ“ اشیاءاستعمال کرنے اور کھانے پینے کے عادی بن چکے تھے، اس لیے اُسے سارا قرض ”امپورٹڈ“ بلز کی ادائیگی میں دےنا پڑتا۔ قصہ مختصر کہ وہ شخص قرض میں اتنا پھنس گیا ہے کہ اب کسی معجزے کے انتظار میں ہے، اور گھر کے رہائشی آپس میں اس قدر لڑائی میں مصروف ہیں کہ اُنہیں فکر ہی نہیں کہ اُن کا گھر کس نے اور کیسے چلانا ہے۔ اور پھر شاید یہ معجزوں کا دورنہیں بلکہ کچھ کرنے کا دور ہے ورنہ اُس شخص کا Survivalتقریباََ ختم ہوچکا ہے۔ جی ہاں! یہ پاکستان ہی کی مثال ہے! وہ قرض خور کوئی اور نہیں پاکستان ہی ہے، جہاں آج کل ہر طرف قرضوں کے ڈیفالٹ کے خطرے پر گفتگو ہو رہی ہے۔اور پھر جس ڈیفالٹ کی بات ہو رہی ہے، وہ کوئی عام ڈیفالٹ نہیں۔ قانونی زبان میں اسے ”ساورن ڈیفالٹ“ کہا جاتا ہے۔ یہ ساورن یعنی خود مختار ڈیفالٹ کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں ایک خود مختار ملک کی جانب سے واجب الادا قرض کی ادائیگی میں ناکامی یا اس ادائیگی سے انکار کو ساورن ڈیفالٹ کہا جاتا ہے۔ اس ادائیگی میں ناکامی کی دو شکلیں ہیں۔ ایک اعلانیہ شکل ہوتی ہیں۔ اس شکل میں حکومت واجب الادا قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی کا باقاعدہ حکومت کی طرف سے رسمی اعلان کر سکتی ہے کہ وہ اپنے سارے قرضوں یا کچھ واجب الادا قرضوں کی ادائیگی نہیں کرے گی۔ ڈیفالٹ کی دوسری شکل غیر اعلانیہ ہوتی ہے، جس میں حکومت عدم ادائیگی کا با قاعدہ اعلان تو نہیں کرتی مگر عملی طور پر وہ واجب الادا قرض یا قرضے ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ڈیفالٹ کی ایک تیسری شکل بھی ہوتی ہے جس میں قرض کی ادائیگی سے رسمی انکار نہیں کیا جاتا، نہ ادائیگی میں ناکامی کا اعتراف کیا جاتا ہے لیکن کچھ ایسے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ ممالک بعض اوقات اپنے قرضوں کے حقیقی بوجھ سے بچ جاتے ہیں۔ یہ عام معنوں میں ڈیفالٹ نہیں ہے کیونکہ قرض کا احترام کیا جاتا ہے مگر کم حقیقی قدر کی کرنسی کے ساتھ ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومتیں بعض اوقات اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرتی ہیں۔ یا پھر وہ مزید رقم چھاپ کر یا اپنی کرنسیوں کی قیمتی دھاتوں یا مقررہ شرحوں پر غیر ملکی کرنسی میں تبدیلی کو ختم یا تبدیل کر کے ایسا کر سکتی ہیں۔ ڈیفالٹ کی ان سب شکلوں کو بین الاقو امی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اپنے ریکارڈ میں دکھاتی ہیں جس سے کسی ملک کے اچھے یا خراب کریڈٹ کا تعین ہوتا ہے۔ ان ایجنسیوں کی ان رپورٹس سے اس ملک کی مستقبل میں مزید قرض لینے کی صلاحیت کا اظہار ہوتا ہے۔جن ملکوں یا اداروں نے قرض دیا ہوتا ہے یا بانڈز خریدے ہوتے ہیں، اگر ان کو یہ شک ہو کہ حکومت اپنا قرض واپس کرنے میں ناکام ہو سکتی ہے تو وہ ڈیفالٹ کے خطرے کے پیش نظر بلند شرح سود کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک قرض دار ملک کے لیے خطرناک صورت حال ہوتی ہے۔ سود کی شرح میں ڈرامائی اضافہ جس کا سامنا کسی حکومت کو اس خوف سے کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے قرض کو ادا کرنے میں ناکام ہو جائے گی، اسے خود مختار قرضوں کا بحران کہا جاتا ہے۔ چونکہ ایک خود مختار حکومت اپنے معاملات کو خود کنٹرول کرتی ہے، اس لیے بظاہر اسے قرض دینے والا ملک اپنے قرض کی ادائیگی پر مجبور نہیں کر سکتا۔ مگر ماضی میں ایسا کیا جاتا رہا ہے۔ قرض کی واپسی میں ناکامی پر ایک بڑی قرض دہندہ قوم، اپنے قرض کی وصولی کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتی تھی۔ مقروض ملک کے اثاثوں کو ضبط کرنے کے لیے مقروض قوم کے خلاف جنگ چھیڑ سکتی تھی۔ لیکن اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کے بعد ایسا ہونا ناممکن ہو چکا ہے، اسے اقوام متحدہ نے 1945ءکے بعد اپنے چارٹرڈ کے آرٹیکل 2 (4) کے تحت ریاستوں کی طرف سے اپنے قرضوں کی وصولی کے لیے طاقت کے استعمال پر پابندی لگا دی تھی۔ورنہ اس سے پہلے 1882ءمیں برطانیہ نے قرض ادا کرنے میں ناکامی پر مصر پر حملہ کر دیا تھا۔ پھر 1890ءکی دہائی کے وسط میں وینزویلا میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ”گن بوٹ ڈپلومیسی“ اور 1915ءمیں ہیٹی پر امریکہ کا قبضہ بھی اسی کی مثالیں ہیں۔ لیکن آج کل حملہ تو نہیں کیا جاتا مگر آپ اپنی پسند کی زندگی گزارنے کے قابل بھی نہیں رہتے، پھر آپ اپنی مرضی کے ”منیجرز“ ، حکومتیں اور اداروں کے بڑے عہدیداران بھی نہیں رکھ سکتے! بقول شاعر پیری نہیں چلتی کہ فقیری نہیں چلتی اس عشق میں ہر ایک کی مرضی نہیں چلتی پڑتی ہے بنا کر ہمیں رکھنی اسی خاطر دنیا کے بنا اپنی فقیری نہیں چلتی بہرحال پاکستان پچھلے تقریباً ایک سال سے مستقلاً سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس دورانیے میں جس ڈرامائی انداز میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں بنی اور ٹوٹی ہیں، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عجب صورتحال ہے کہ سیاسی بحران ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ایک کے بعد دوسرا سیاسی بحران تیار کھڑا ہوتا ہے۔ لانگ مارچ کے بعد اب قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفے زیرِ بحث ہیں۔ گو کہ اس پر فوری عمل درآمد ہونا اور ممبرانِ اسمبلی کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں لیکن چیئرمین تحریک انصاف کی مقبولیت کے پیشِ نظر پارٹی اراکین سرِ تسلیم خم کرسکتے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں سے فوری مستعفی ہونے پر کھربوں روپوں کے بجٹ ایم پی ایز کے ہاتھوں سے نکل سکتے ہیں۔ الیکشن مہم چلانے کے لیے ترقیاتی کام کرانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ایک طرف ایم پی ایز ترقیاتی بجٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا حکم مل رہا ہے۔ یہ معاملہ چند دنوں میں ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، بلکہ اگلے کئی ماہ تک بہ آسانی کھینچا جا سکتا ہے۔ حتمی فیصلے کے لیے ایک مرتبہ پھر عدالتوں کا رخ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومتیں بننے اور توڑنے کا یہ سلسلہ ابھی یونہی چلتارہے گا اور ہمارے نصیبوں میں وہی چور لٹیرے ہی آئیں گے! جبکہ اس دوران حد تو یہ ہے کہ کوئی بھی ملک کے بارے میں سوچنے سے قاصر ہے! اور پھر یہ جو کہا جا رہا ہے کہ اب ہمارا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، اُنہیں بتاتا چلوں کہ پچھلے سات ماہ میں معاشی حالت نہایت کمزور ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے پر انٹربینک میں ایک ڈالر تقریباً 179 روپے کا تھا جو آج تقریباً 224 روپے کا ہے۔ یہ اضافہ تقریباً 45 روپے بنتا ہے۔اسی طرح اس وقت اوپن اور گرے مارکیٹ میں ڈالر لگ بھگ 182روپے میں مل رہا تھا جو آج تقریبا 255 روپے میں مل رہا ہے۔ یہ فرق تقریباً 73 روپے بنتا ہے۔ تحریک انصاف کی پونے چار سالہ حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت میں تقریباً 54 روپے اضافہ ہوا تھا جبکہ پی ڈی ایم کی سات ماہ کی حکومت میں ڈالر تقریباً 73 روپے بڑھ چکا ہے۔ اسی طرح اگر مہنگائی کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو ان میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مارچ 2021ءمیں مہنگائی کی شرح تقریباً تیرہ فیصد تھی جو پی ڈی ایم کی تین ماہ کی حکومت کے بعد ہی دوگنا بڑھ کر تقریباً پچیس فیصد ہو گئی تھی اور آج مہنگائی کی شرح تقریباً انتیس فیصد ہو چکی ہے۔ سات ماہ پہلے تک ماہانہ برآمدات تقریباً 2 ارب 73 کروڑ ڈالر یکارڈ کی گئی تھیں جو اب کم ہو کر تقریباً 2 ارب 37کروڑ ڈالر ہو گئی ہیں۔ حکومت نے ماہانہ بنیادوں پر برآمدات بڑھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ حکومت نے سالانہ برآمدات کا ہدف تقریباً 38 ارب ڈالر مختص کیا تھا جس کو حاصل کرنا ناممکن ہو چکا ہے بلکہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سالانہ برآمدات پچھلے سال کی نسبت کم ہوں گی۔لہٰذاجب حالات یہ ہوں تو یقینا ہمیں قیادت بدلنے کی ضرورت ہے، اور مقتدر حلقوں کو اس حوالے سے سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے کہ فوری طور پر الیکشن کی طرف جائیں تاکہ شفاف قیادت میسر آسکے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ ملک پر چیک اینڈ بیلنس کو بڑھانے کی ضرورت ہے، اور جو آج کل کرپشن ہو رہی ہے اُس پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ تو ہم مزید ایک اور گڑھے میں گر جائیں گے اور اسی کو ایک بار پھر سمندر سمجھ کر گھومنا شروع کر دیں گے اور پھر جب ہمیں ہوش آئے گا تو بہت دیر ہو چکی ہوگی اور مزید اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل ہو چکے ہوں گے!