عمران خان ملک کیلئے اچھا ثابت کیسے ہوا!

آج کل شاید عمران خان کے ستارے گردش میں ہیں یا کوئی اور مسئلہ ہے کہ وہ جیسا پلان کرتے ہیں اُس کے بالکل اُلٹ ہو رہا ہے، ورنہ سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت ملک کی 70فیصد سے زائد عوام اُن کے ساتھ ہے۔ وہ یقینا ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ہماری سیاست میں سب سے دلچسپ شخصیت ہیں۔ ایک مسحورکن شخصیت جس کا جادوکئی ناکامیوں کے باوجود آج بھی قائم ہے۔ ان کے چاہنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی یونانی دیوتا ہیں جن سے سہواً تو غلطی ہو سکتی ہے لیکن نیت ان کی صاف شفاف ہے۔ ان کے نوجوان سپورٹرز اپنے لیڈر کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں۔ دوستوں میں عمران خان کی وجہ سے لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔ میں ایک بزرگ میاں بیوی کو جانتا ہوں‘ دونوں بہت پڑھے لکھے اور دانا شخصیات ہیں۔ ایک عمران خان کا حامی ہے اور دوسرا مخالف۔ ان کی شادی کو چالیس سال سے زائد عرصہ ہو چکا‘ دونوں ایک دوسرے سے خوش ہیں‘ اگر گھر میں کبھی لڑائی ہوتی ہے تو کپتان کی وجہ سے۔میں سمجھتا ہوں کہ کپتان ایک عام انسان ہے‘ جس نے کرکٹ اور انسانی خدمت کے میدان میں بے شمار کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کا فین کلب بہت وسیع ہے۔ حکومت چھوڑنے کے بعد ان کے ووٹ بینک میں یقینا اضافہ ہوا ہے۔ اپریل میں تحریک انصاف کی حکومت گرا کر اپوزیشن نے عمران خان پر بڑا احسان کیا، انہیں نئی زندگی دی۔جب تحریک انصاف کی حکومت گرائی گئی تو اُس وقت اُس کی پاپولیرٹی 45فیصد کے آس پاس تھی جبکہ آج جیسا میں نے اوپر ذکر کیا کہ 70 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ آج 80فیصد میڈیا عمران خان کی ”غلطیاں “ گنوا رہا ہے مگر تب بھی مجال ہے عوام ٹس سے مس ہو رہے ہوں۔ اور پھر یہ کیسا ملک ہے کہ جو شخص عوام میں مقبول ہے مگر وہ اقتدار میں آنے سے قاصر ہے۔ اس میں میرے خیال میں خان صاحب کی اپنی بھی غلطی ہے، کہ وہ ”سیاسی“ نہیں ہیں۔ کیوں کہ یہاں سیاسی ہونے کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ آپ کو کرپٹ ہونا چاہیے، آپ کے دس بارہ ”ڈیرے“ ہونے چاہیے، آپ کی درجن بھر فیکٹریاں ہونی چاہیئںاور آپ کی کہہ مکرنیاں عروج پر ہونی چاہیئں۔جبکہ اس کے برعکس عمران خان نے سیاسی نہ ہونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ سے بگاڑی لی، تمام مافیاز سے بگاڑ لی۔ حتیٰ کہ اے ٹی ایمز سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اسی لیے آج تک عمران خان کی سیاست کا اُنہیں فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس کا فائدہ وطن عزیز کو ضرور پہنچا ہے۔ کیسے؟مثلاََ عمران خان کرپشن ختم تو نہ کر سکے مگر اس بات کا عمومی شعور ضرور عام کیا کہ کرپشن ایسا زہر قاتل ہے جو معاشرے کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس ضمن میں کپتان نے ہر اُس سیاستدان، بیوروکریٹ اور کرپٹ اداروں کو ایکسپوز کیا ہے، بلکہ عوام زبان میں اُنہیں ننگا کیا ہے۔ عوام میں اس حوالے سے شعور بیدار کیا ہے کہ ملک کے لیے کون اچھا ہے اور کون برا۔ انہوں نے باربارسنگا پور کی مثال دی جہاں کرپشن ختم ہوئی، قانون کی حکمرانی شروع ہوئی، میرٹ کا بول بالا ہواتو ملک نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔ سنگا پور کا لیڈر لی کوآن یو کپتان کا آئیڈیل تھا لیکن بوجوہ عمران خان لی کوآن یو نہ بن سکے ا±ن کے سپورٹر اس ناکامی کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت نہ ہونے پر محمول کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں اتحادی پارٹیوں کا سہارا لینا پڑا، اپنی پسند کی قانون سازی میں انہیں خاصی دشواری رہی۔ پھر کپتان کی سیاست کا ملک کو اس طرح سے فائدہ ہوا کہ انہوں نے پاکستان کی موروثی سیاست پر زور دار ضرب لگائی۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ والے مزے سے باریاں لے رہے تھے کہ کپتان نے مینارِ پاکستان والا جلسہ کر کے خطرے کی گھنٹی بجا د ی۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے این آر او لے چکی تھی۔ 2008ءمیں پیپلز پارٹی کی سربراہی میں مرکز میں حکومت تو بن گئی مگر جلد ہی اسے وکلا تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ کپتان انصاف اور تبدیلی کے پ±رکشش نعروں کے ساتھ میدان میں اتر آیا۔2018ءمیں اقتدار میں آنے سے پہلے کپتان نے لمبا عرصہ جدوجہد میں گزارا تھا۔ پھر اُنہوں نے گلوبل وارمنگ کے حوالے سے بھی کافی کام کیا۔ جس کو دنیا نے تسلیم بھی کیا۔ ان کے دورِ حکومت میں ہزاروں نہیں لاکھوں پودے اسلام آباد میں لگائے گئے۔ پچھلے چند سال میں اسلام آبادسرسبز شہر بن گیا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرے گا، بڑھتے ہوئے درخت شہر کے حسن میں مزید اضافہ کریں گے۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی خوب شجرکاری ہوئی‘ اس سے ماحول پر مجموعی طور پر بہتر اثر پڑے گا۔ گلوبل وارمنگ کے اثرات قدرے کم ہوں گے۔ پھر اس دوران اُن کی جہاں ذاتی زندگی کو ڈسکس کیا جاتا رہا اور اُنہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا جبکہ دوسری طرف احساس پروگرام تھا جس کا مقصد غربت کم کرنا تھا۔ اس پروگرام کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ شہریوں کی مدد کی گئی اور یہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پروگرام تھا، ڈاکٹر ثانیہ نشتر اس پروگرام کی روحِ رواں تھیں۔ ان کی قابلیت اور ایمانداری مسلمہ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ چند سال پہلے جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو ایک اور خاتون” بینظیر انکم سپورٹ پروگرام“ کی ہیڈ تھیں‘ وہ کافی عرصے سے ملک سے غائب ہیں‘ وجوہات آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے احساس پروگرام کو بہت شفاف طریقے اور کامیابی سے چلایا اور اس بات کا انٹرنیشنل لیول پر اعتراف کیا گیا۔پھر کورونا کی روک تھام اور معیشت کا پہیہ حرکت میں رکھنا تحریک انصاف کی تیسری بڑی کامیابی تھی۔ وبا کی صورتحال کے باوجود فیصل آباد کی ٹیکسٹائل فیکٹریاں چلتی رہیں، کسان خوشحال رہے، برآمدات میں اضافہ ہوا‘ حکومت نے سمارٹ لاک ڈاﺅن کی پالیسی اپنائی جسے معروف انٹرنیشنل میگزین اکانومسٹ نے بہت سراہا۔ کپتان کا خواب تھا کہ ملک اقتصادی لحاظ سے خود کفیل ہو، کپتان کی توجہ اپنے ملک پر مرکوزرہی کیونکہ ان کے نہ تو سوئٹزر لینڈ میں اکاﺅنٹ تھے اور نہ انگلینڈ اور عرب ممالک میں پراپرٹی۔ پھر اُن کی سیاست کا ملک کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب کوئی بھی شخص ”لوٹا“ بننے سے گریز کرتا ہے، بلکہ گزشتہ چند سالوں میں اس بار سب سے کم پنچھیوں نے ادھر اُدھر کی سیاسی جماعتوں میں اُڑان بھری ہے۔ اس کے علاوہ پہلی بار اسٹیبلشمنٹ بیک فٹ پر گئی ہے۔ پھر اُن پر سب سے بڑا الزام یہ لگتا ہے،کہ وہ یوٹرن سب سے زیادہ لیتے رہے ہیں، حالانکہ میری نظر میں نواز شریف سے زیادہ یوٹرن آج تک کسی سیاستدان نے نہیں لیے۔آپ تاریخ پڑھ لیں، آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا۔ اُن کا اس سے بڑا یوٹرن کیا ہو گا کہ وہ زرداری کے ساتھ حکومت چلا رہے ہیں۔ پھر نوازشریف کا بیان کہ اُنہوںنے ضیاءالحق کی ڈکٹیٹر شپ کو سپورٹ کر کے غلطی کی ہے۔ پھر ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا اور اُسی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر انہوں نے حکومت بھی سنبھال لی۔ کیا یہ یوٹرن نہیں ہیں؟ پھر بیرون ملک جائیداد کی نفی کرتے ہیں اور پھر وہ اقرار بھی کرتے ہیں کیا یہ یوٹرن نہیں ہیں؟ حد تو یہ ہے کہ عمران خان سے پہلے بلکہ اب بھی پاکستانی سیاستدانوں کی یہ سب سے بڑی خوبی رہی ہے کہ وہ جب چاہیں کوئی بھی منجن بیچ سکتے ہیں اور ان کی خوش قسمتی دیکھیں کہ انہیں اپنے اس منجن کے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑں خریدار بھی مل جاتے ہیں۔کوئی سوچ سکتا تھا کہ شہباز شریف جنہوں نے اقتدار میں آکر آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنا تھا، وہ انہی زرداری کے ووٹوں سے آج وزیراعظم بنے ہوئے ہیں۔کیا یہ یوٹرن نہیں ہیں؟ اور پھر یہی نہیں بلکہ خان صاحب کی سیاست سے پہلے یہ سیاستدان کس طرح عوام کو چونا لگاتے تھے اس بارے میں بھی سن لیں کہ ایک بار جب 2014ءنواز شریف وزیر اعظم تھے تو وزارتِ قانون میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ پتا چلا جینوا سے ایک وکیل نے پاکستانی حکومت کو ایک خط لکھا تھا۔ وہ وکیل پہلے بھی بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف حکومت پاکستان کے مقدمات میں پیش ہوتا رہا تھا۔ اس نے نواز شریف حکومت کو لکھا کہ اس کے نوٹس میں آیا ہے کہ زرداری صاحب نے سوئس حکومت اور عدالت کو اپروچ کیا تھا کہ بینظیر بھٹو کے وہاں ضبط شدہ نیکلس اور دیگر قیمتی اشیا اور پیسہ انہیں واپس کیا جائے اور ان کی اولاد اب اس اثاثے کی جائز وارث ہے۔ زرداری کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف والے این آر او کے بعد اب وہ مقدمہ ختم ہوچکا ہے لہٰذا اب بینظیر بھٹو کے منجمد اثاثے انہیں واپس کریں۔ جب یہ بات وزیراعظم نواز شریف کے نوٹس میں لائی گئی تو انہوں نے اپنے سیکرٹری قانون کو بلا کر کہا کہ زرداری کو یہ پیسہ نہ لینے دیں۔ یہ سارا پیسہ پاکستانی عوام کا تھا جو لوٹ کر منی لانڈرنگ کے ذریعے جینوا منتقل کیا گیا۔ سیکرٹری لاءکو کہا گیا کہ فوراً جینوا میں وکیل کی خدمات حاصل کریں اور اس مقدمے میں فریق بن کر بینظیر بھٹو کے منجمد اثاثے پاکستان واپس لائیں۔ایسا کرنے سے مذکورہ کیس آج تک وہیں جنیوا میں ہی لٹکا ہوا ہے۔ مطلب یہ سیاستدان جب چاہیں انہیں ایک دوسرے کے خلاف کیسز یاد آجاتے ہیں اور جب چاہیں ایک دوسرے کے خلاف کیسز بھلا کر تاریخ کے بدترین ”یوٹرن“ لے لیتے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑا ایک اور یوٹرن دیکھ لیں کہ آج 2022 ءمیں اسی زرداری اور بینظیر بھٹو کا بیٹا اسی شہباز شریف کی حکومت کا وزیرخارجہ ہے اور دنیا کو ان کی خوبیاں بتا رہا ہے۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ اس ملک کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذااسی میں سب کی بھلائی ہے کہ اپنے قبلہ کو ہمیشہ اُسی طرف رکھیں جہاں دل مانتا ہے، جبکہ حقائق کے برعکس کسی کے کہنے پر یا دباﺅ میں آکر کسی اور کی برائیوں کو اچھا کہنے سے نقصان خان صاحب کا نہیں ہونا بلکہ یہ ملک مزید ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا جو پہلے ہی اس ملک کے لیے شدید نقصان دہ ٹھہرے ہیں۔