ایک طرف دہشت گردی دوسری طرف معیشت!

’ہمیں بتایا جائے کہ کون ہمارا جینا حرام کر رہا ہے؟ دن دیہاڑے بھتے کی دھمکیاں مل رہی ہیں“ ”وزیرستان والے بنوں اور بنوں والے وزیرستان میں قتل ہو رہے ہیں“” ایف سی اہلکار بھی محفوظ نہیں تو پھر کون محفوظ ہو گا؟ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے امن اور صرف امن۔ “،”وہ ایف سی اہلکار کو قتل کرنے کے بعد ان کا سر اُتار کر ساتھ لے گئے اور مقامی بازار میں رکھ دیا جبکہ اہل علاقہ کو اہلکار کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہونے کی بھی تاکید کی گئی“ ، ”گذشتہ رات ساڑھے دس بجے کے قریب ہم لوگ سو رہے تھے کہ اچانک گھر کے باہر شور کی آواز سنائی دی۔ جس پر میرے خاوند نے صحن میں نکل کر دیکھا کہ اٹھارہ، بیس افراد مختلف قسم کے اسلحہ سے لیس تھے۔ ان لوگوں نے میرے خاوند کو پکڑ لیا اور اس دوران میرا بیٹا بھی باہر نکل آیا۔ مسلح لوگوں نے فائرنگ شروع کر دی، جس سے میرا بیٹا اور خاوند موقع ہی پر ہلاک ہو گئے جبکہ وہ میرے خاوند کا سر تن سے جدا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔اور جاتے جاتے کہا کہ سرکاری نوکری کا یہ ہی انجام ہوتا ہے۔ “،”18 دسمبر کو بنوں کے سی ٹی ڈی کمپاو¿نڈ میں زیرِ تفتیش 35 دہشتگردوں نے ہتھیار چھین کر فائرنگ کی اور سی ٹی ڈی کے دو جوانوں کو ہلاک کیا اور باقی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا “، ”ہم نے 25دہشت گردوں کو مار دیا، 3بھاگتے ہوئے پکڑے گئے جبکہ 7نے سرنڈر کیا،آپریشن 48گھنٹے تک جاری رہا جبکہ اب تمام حالات کنٹرول میں ہیں“۔ یہ الفاظ کسی اور ریاست یا ملک کے باشندوں کے نہیں بلکہ پاکستان کے سرحدی علاقوں کے ہیں جہاں ہر گزرتے دن میں دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے۔ اور یہ سب کچھ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد ہو رہا ہے۔ طالبان کو اب کابل میں برسرِ اقتدار آئے سولہ ماہ ہو چلے ہیں۔اس عرصے میں پاکستان کے سرحدی اضلاع میں دہشت گرد سرگرمیوں میں گزشتہ دور کے مقابلے میں کمی تو خیر کیا ہوتی الٹا پچاس فیصد سے زائد اضافہ ہو گیا۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت ماہرین کے ایک پینل کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سب سے زیادہ فائدہ جس غیر ملکی مسلح گروہ کو ہوا ہے وہ کالعدم ٹی ٹی پی ہے۔اس عرصے میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں ڈیڑھ سو سے زائد پاکستانی سیکیورٹی اہل کار شہید ہو چکے ہیں۔گزشتہ چھ ماہ کے دوران کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ سرحدی علاقوں سے بڑھا کے خیبر پختون خوا کے اندرونی اضلاع تک پھیلا دیا ہے۔افغان طالبان کی جانب سے ثالثی کے پردے میں ٹی ٹی پی نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بات چیت میں الجھائے رکھا اور بظاہر جنگ بندی کا تاثر دیتے ہوئے اپنے نیٹ ورک کو مزید منظم انداز میں پھیلا دیا۔بقول شاعر دیکھ کر شہر کا بدلا ہوا منظر رویا میں بدلتے ہوئے حالات پہ اکثر رویا اس کے علاوہ میرے ملک کے مزید حالات سنیں کہ اگرچہ مالاکنڈ ڈویژن میں مقامی لوگوں کی مزاحمت کے سبب ٹی ٹی پی کو پہلے کی طرح قدم جمانے کا موقع نہ مل سکا۔مگر انھوں نے شمالی و جنوبی وزیرستان سے متصل بنوں اور لکی مروت جیسے بندوبستی اضلاع میں اپنا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھایا۔اب شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا جاتا ہو جب ان اضلاع میں پولیس اور سیکیورٹی اہلکار شب خون کا نشانہ نہ بنتے ہوں۔بنوں میں پچھلے دو ہفتے میں دو سیکیورٹی اہل کاروں کے سر قلم کر دیے گئے۔ ایک پولیس تھانے پر گزشتہ ہفتے جتھے کی شکل میں حملہ کر کے چار پولیس والوں کو شہید کر دیا گیا۔مگر داد دینی پڑتی ہے صوبائی حکومت کے ترجمان کو۔جسے میڈیا کو بتانے کے لیے صرف ایک ہی جملہ یاد ہے کہ ” پریشانی کی کوئی بات نہیں۔حالات قابو میں ہیں“۔مگر کس کے قابو میں ہیں ؟ ریاست کے یا ٹی ٹی پی کے ؟جبکہ حد تو یہ ہے کہ اس دوران خود افغان طالبان انتظامیہ نے پاکستانی سیکیورٹی اہل کاروں کی توجہ بٹانے کے لیے چمن کی سرحدی گذرگاہ چن رکھی ہے۔وہاں سرحد پار سے پچھلے پندرہ دن میں دو بار بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا اور آٹھ پاکستانی شہری شہید اور چالیس کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ افغان طالبان انتظامیہ کسی صورت سرحدی باڑھ کی تعمیر مکمل نہیں ہونے دینا چاہتی۔وہ پانچ سرحدی گذرگاہوں پر آنے جانے والے شہریوں کی سختی سے دستاویزی جانچ پڑتال اور بائیومیٹرک سسٹم کی بھی مزاحمت کر رہی ہے۔اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتی ہے کہ عام افغان شہریوں کے بھیس میں مسلح یا تربیت یافتہ عناصر کی آمد و رفت میں کوئی خلل نہ پڑے۔ اگرچہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اندورنِ خانہ اپنی افغان پالیسی کی مکمل ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس نئے حقیقت پسندانہ خطوط پر استوار کرنا چاہتی ہے مگر افغانستان کے ساتھ ایک خاص حد سے زیادہ کشیدگی میں اضافہ بھی مضرِ صحت ہے۔ کیونکہ دو طرفہ تعلقات کو دوٹوک سطح پر ڈیل کرنے کی راہ میں کئی تاریخی ، نسلی ، جغرافیائی ، نظریاتی اور تزویراتی نزاکتیں بارودی سرنگوں کی طرح بکھری پڑی ہیں۔ان حساس رکاوٹوں سے بہ احسن و خوبی نمٹنے کے لیے ہر متعلقہ ریاستی سطح پر جس غیر معمولی فراست و تدبر ، صبر ، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور پیشہ ورانہ تعاون کی ضرورت ہے اس کا سنگین فقدان نظر آ رہا ہے اور یہی لاچارگی ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ایک زرخیز موقع بن رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف کی خبریں بھی ملاحظہ فرما لیں کہ ریاستی خزانے میں اس وقت اتنا زرِمبادلہ ( چھ اعشاریہ سات ارب ڈالر ) موجود ہے جس سے صرف چار ہفتے کی درآمدات کی ادائیگی ہو سکے۔مگر یہ ادائیگی بھی یوں مشکل تر ہوتی جا رہی ہے کہ لگ بھگ دو سو چالیس روپے فی ڈالر قیمت کے باوجود اوپن مارکیٹ میں ڈالر دستیاب نہیں۔چنانچہ درآمد کنندگان ایل سی کھولنے کے باوجود غیر ملکی وینڈرز کو بروقت ادائیگی نہیں کر پا رہے۔ جو درآمدی اشیا پاکستانی بندرگاہوں اور ائیرپورٹس پر آ چکی ہیں وہ بھی گوداموں سے کلئیر نہیں ہو پا رہی ہیں۔ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجا گیا زرِ مبادلہ سمجھا جاتا ہے۔مگر ڈالر کے سرکاری نرخ اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں پندرہ تا پچیس روپے فرق کے سبب باضابطہ بینکنگ چینلز سے زرِ مبادلہ آنے کی شرح روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے اور FATFسے کیے گئے وعدے کے برعکس ہنڈی کا کام ایک بار پھر عروج پر ہے۔کہا جاتا ہے کہ زرِمبادلہ کی یقینی اور مسلسل ترسیل برآمدات میں اضافے سے مشروط ہے۔مگر پچھلے دو ماہ سے کلیدی مقامی صنعتی مصنوعات کی پیداوار مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔پچھلے چھ ماہ میں اس پیداوار میں لگ بھگ تین فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔روپے کی قدر میں گراوٹ کے سبب درآمدی صنعتی خام مال کی قیمتیں بھی لگاتار مد و جزر کے تھپیڑے کھا رہی ہیں۔چنانچہ مقامی سطح پر مصنوعات کی پیداواری لاگت بقول شخصے صنعت کاروں کو وارا نہیں کھا رہی ہے۔بجلی و گیس کی فراہمی میں بے قاعدگی کا سب سے زیادہ منفی اثر سب سے بڑی برآمدی صنعت یعنی ٹیکسٹائل پر پڑ رہا ہے۔اس کی پیداوار میں پچھلے دو ماہ کے دوران لگ بھگ پچیس فیصد کمی ہوئی ہے۔ قصہ مختصر کہ نہ درآمدی ضروریات کے لیے کافی زرِمبادلہ ہے ، نہ برآمدات میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلِ زر حوصلہ افزا ہے۔جب کہ سیاسی بے یقینی اور عالمی مالیاتی اداروں کے عدم اطمینان کے سبب غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافے یا نئی سرمایہ کار کی ممکنہ آمد کو تو مستقبلِ قریب میں بھول ہی جانا چاہیے۔الغرض اگلے چھ ماہ میں کیا ہونے والا ہے۔ٹھیلے والا بھی دیکھ رہا ہے۔اسحاق ڈار کے بجائے تنخواہ دار کی نیند اڑ چکی ہیں۔قیادتی عناصر دھنیے کا شربت گھوٹ رہے ہیں اور ایک دوسرے کو پلا رہے ہیں۔جب کہ خان صاحب ”الیکشن الیکشن“ کی دھن سے باہر ہی نہیں نکل پارہے۔ اور تو اور میڈیا میں بھی مذکورہ بالا دونوں خدشات کو دبایا جا رہا ہے ، اور صرف یہ دکھایا جا رہا ہے کہ پنجاب کے سیاسی میدان میں کیا ہو نے والا ہے۔ بقول شاعر ایک تماشا سا لگا ہوا ہے۔ یہ تماشا سا کیا لگا ہوا ہے چوک میں آئینہ لگا ہوا ہے بہرکیف ان سب چیزوں میں رہ گئی عوام کی بات تو کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ کبھی پیاز کاٹنے والے سے زیادہ پیاز خریدنے والے کو رونا پڑے گا۔ اور نہ صرف رونا پڑے گا بلکہ اس قدر رونا پڑے گا کہ اس بدنصیب کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی ایسی تیز اور چبھنے والی جھڑیاں بہنے لگیں گی کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ رجیم چینج کے بعد سے پیاز نے خریداری کی نیت سے گھروں سے ڈرے سہمے باہر نکلنے والوں کی اس بری طرح چیخیں نکلوا دی ہیں کہ لگتا ہے کہ ان کے قدموں کے نیچے زمین نہیں بلکہ کانٹے ہیں۔ گلی‘ محلے‘ مارکیٹ‘ بازار یا کسی جمعہ و اتوار بازار میں سبزی کی دکانوں کے ٹوکروں میں پیار‘ محبت اور بڑی ترتیب سے سجایا گیا پیاز اپنے گاہکوں کی جانب طنزیہ مسکراہٹ لیے ایسے دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ ''یہ منہ اور مسورکی دال“۔لہٰذاخدا کو خوف کھائیے اور ملک کی طرف دھیان دیجیئے، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔