قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟

کل یوم ولادت ِقائدِ پاکستان محمد علی جناح ہے، ایک طرف ہم اُن کی ولادت کی خوشی کی تیاریوں میں مصروف ہیں، جبکہ دوسری طرف قائد کا ملک اندرونی لڑائیوں سے چکنا چور ہو رہا ہے، سیاستدان اقتدار کی ہوس میں لتھڑے جا رہے ہیں۔ کیا پنجاب، کیا پختونخوا، کیا بلوچستان، کیا سندھ اور کیا مرکز ہر طرف سیاست نہیں لالچ نظر آرہا ہے۔ ہر طرف گٹھ جوڑبنتے اور ٹوٹتے نظر آرہے ہیں، مگر یہ عوام کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ اقتدار کے لیے اکٹھے بھی ہوتے ہیں، اقتدار بھی حاصل کرتے ہیں اور پھر مل کر ذاتی فائدے حاصل کرکے ملک کو اندر سے کھوکھلا کرتے ہیں۔ بلکہ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ یہ ایک کلو گوشت کی خاطر پوری بھینس بھی ذبح کرنے سے نہیں گریز کرتے۔ آپ پنجاب کی مثال لے لیں کوئی فریق اس وقت حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سرنڈر کرنے کو تیار نہیں، جبکہ ملک ایک بار پھر آئینی بحران کی طرف جانے کے بعد عدلیہ کو مداخلت کرنے کی دعوت دے رہا ہے، بقول جان ایلیا ۔ حاصل کن ہے یہ جہان خراب یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں ایسی صورتحال میں کوئی تصور کر سکتا ہے کہ کیا قائد اعظم ایسا پاکستان چاہتے تھے؟ کبھی بھی نہیں، وہ صرف عوام کا پاکستان چاہتے تھے، انہوں نے 1943ءمیں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پاکستان میں عوام کی حکومت ہوگی۔ میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کرنا چاہوں گا جنہیں ایک فاسد اور ظالمانہ نظام نے اتنا بے حس اور خود غرض بنادیا ہے کہ کسی دلیل کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ عوام کا استحصال ان کے خون میں سرایت کرچکا ہے ۔ لالچ کے باعث یہ لوگ عوام کی بہتری کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے، کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ کیا پاکستان اسی لیے بنایا جارہا ہے کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال جاری رہے؟ اگر یہی پاکستان کا تصور ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے۔“ بلکہ 1942میں دہلی میں رائٹرز Reuters کے نامہ نگار ڈون کیمپبل(Doon Campbell) کو انٹر ویو دیتے ہوئے قائد نے کھلے الفاظ میں کہا تھا کہ ”نئی ریاست جدیدجمہوری ریاست ہو گی جس میں اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہو گا اور نئی قوم کے اراکین کو شہریت کے مساوی حقوق حاصل ہو ں گے۔“وہ ایسا پاکستان بھی نہیں چاہتے تھے جس میں مقتدر حلقے سیاست میں مداخلت کریں۔ وہ سول اور ملٹری امور پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ ایک آزاد سیاسی ادارہ بنانے کے خواہاں تھے، علم نہیں کیوں! مگر اُن کے ملٹری کے ساتھ تعلقات بہت پیچیدہ رہتے تھے۔جیسے سپریم کمانڈر سرکلا وڈآکن لیک کے پرائیویٹ سیکرٹری میجر جنرل شاہد حامد اپنی کتاب ” Twilight Disastrous “ میں آزادی سے چند روز پہلے فوجی افسران سے قائداعظم کی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ3اگست 1947 کومحمد علی جناح نے اپنے گھر پر جنرل آکن لیک، بحریہ و فضائیہ کے سربراہان، پرنسپل سٹاف آفیسرزوغیرہ کو مدعو کیا اور قائداعظم کو بھی خصوصی طور پر دعوت دی۔ تقریب میں قائداعظم خوشگوار باتیں کرنے کے موڈ میں تھے۔ وہ صرف اس وقت رنجیدہ و سنجیدہ ہوئے جب ایک فوجی افسر نے پاکستان میں ترقی کے بارے میں سوال کر دیا۔ قائداعظم نے جذباتی ہو کر سوال کرنے والے کو سر سے پاو¿ں تک دیکھا اور کہا: ”آپ مسلمان یا تو آسمانوں سے باتیں کرتے ہیں یا دھڑام سے نیچے گر پڑتے ہیں۔ آپ متوازن راستہ اختیار نہیں کرسکتے۔ تمام ترقیاں اپنے وقت پر ہوں گی اور پاگل پن سے یا جلد بازی میں نہیں کی جائیں گی۔“ انہی افسران کے ایک اور سوال کا جواب دینے سے پہلے ہی قائداعظم ان فوجی افسران کے ارادے اور خیالات بھانپ گئے اور بڑے دو ٹوک انداز میں فرمایا: ” پاکستان کی منتخب حکومت سول افراد پر مشتمل ہو گی۔ جو بھی جمہوری اصولوں کے برعکس سوچتاہے، اُسے پاکستان کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔“ پھر تاریخ گواہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح جنرل ایوب کو بھی پاکستان کے لیے بہتر نہیں سمجھتے تھے، مثلاََقیوم نظامی اپنی کتاب ”قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل“میں لکھتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد سردار عبدالرب نشتر نے ایوب خان کے بارے میں ایک فائل قائد اعظم کو بھجوائی تو ساتھ نوٹ میں لکھا کہ ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کے بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے، اس پر قائد اعظم نے فائل پر یہ آرڈر لکھا:” میں اس آرمی افسر (ایوب خان) کو جانتاہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔ “پھر الطاف گوہر اپنی کتاب ”گوہر گزشت“ میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظم کا ایوب خان کے بارے میں غصہ بعد میں بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور جب وہ ڈھاکہ گئے اور انھیں فوجی سلامی دی گئی تو انھوں نے ایوب خان کو اپنے ساتھ کھڑے ہونے سے روک دیا۔الطاف گوہر مزید لکھتے ہیں کہ اپنی اس تنزلی پر ایوب خان بہت رنجیدہ ہوئے اور انہوں نے قائد اعظم کے احکامات کے برخلاف اسوقت کے فوجی سربراہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے انہوں نے اپنے دوست بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی سے مدد مانگی۔ شیر علی خان پٹودی پہلی فرصت میں کراچی سے راولپنڈی گئے اور کمانڈر انچیف سر فرینک میسروی سے اپنے دوست کی سفارش کی لیکن بات بنی نہیں۔لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ جس ایوب خان سے قائداعظم اسقدر نالاں تھے اسی ایوب خان کو لیاقت علی خان نے اسوقت کے سینئرترین جنرل، جنرل افتخار پر فوقیت دے کر فوج کا سربراہ بنا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس حوالے سے بھی انکے دوست بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی اور دیگر رفقاءنے اہم کردار ادا کیا۔اور بد نصیبی دیکھئے، وہی ایوب خان پاکستان کا پہلا مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بنا اور پاکستان پر گیارہ سال حکومت کرتا رہا۔ درحقیقت قائد اعظم خاص جمہوری انداز میں مملکت چلانا چاہتے تھے۔ اور اسی حوالے سے کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے تھے۔ اس حوالے سے تو اکثر وہ ڈانٹ ڈپٹ بھی کردیا کرتے تھے۔ مثلاََایک فوجی افسر اکبر خان کے مشوروں سے زچ ہو کر اس سے کہا تھا کہ آپ کا کام پالیسی بنانا نہیں، حکومت کے احکامات کی تعمیل کرنا ہے۔اور بعد زاں وہی جنرل اکبر لیاقت علی خان کے خلاف بغاوت کے جرم میں گرفتار ہوا اور تقریباََ پانچ سال جیل میں رہااور بد نصیبی دیکھیے، عدالت سے غداری کی سزا کاٹنے والے، اسی جنرل اکبر کو 1973 میں بھٹو صاحب، قومی سلامتی کونسل کا رکن نامزد کر دیتے ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی کہ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ تو قارئین! آج جیسا پاکستان ہے، قائداعظم بالکل ویسا پاکستان نہیں چاہتے تھے، وہ اقتصادی طور پر بھی ایسا نظام چاہتے تھے جو اُس وقت کے مغرب سے بھی بہتر ہو۔ وہ کہتے تھے کہ ”مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے تصور پر استوار ہو۔“ وہ اقلیتوں کے لیے بھی ایک ”آسان“ ملک بنانا چاہتے تھے۔ لیکن ہم نے تمام اُن افراد کو یہاں سے بھگا دیا جو اپنے آپ میں تھوڑے لبرل تھے، یہاں جو شخصی آزادی کے قائل تھے۔ قائد اعظم کے بقول ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ سب کی ماں ہوتی ہے، لیکن ہم اُس کے اُلٹ چل رہے ہیں۔ منافقت کی انتہا تو یہ ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما ہر خطبے ، وعظ میں قائد اعظم کا نام لیتے ہیں، لیکن اُن کو پڑھنا پسند نہیں کرتے۔ ہم آج کے پاکستان میں مذہبی آزادی رکھنے والے ممالک میں 107ویں نمبر پر موجود ہیں۔ قائد کے دور میں رینکنگ تو نہیں ہوتی تھی مگر ہمیں دنیا مثبت انداز میں گردانتی تھی جبکہ آج جہاں اچھے ملکوں کی فہرست بنائی جاتی ہے وہیں دس Worstترین ممالک کی فہرست بنا کر اُس کے نیچے نوٹ لکھا جاتا ہے کہ یہ ممالک آپ کے لیے بہتر نہیں ہیں۔ اس کی مثال دنیا کی ٹاپ رینکنگ ویب سائیٹ پر دیکھ لیں جہاں دس بہترین ممالک کا ذکر ہے وہیں 10بدترین ممالک میں وطن عزیز کا نمبر 8واں ہے، جبکہ دیگر 9ممالک میں چاڈ، یمن، سنٹرل افریقہ، افغانستان، جنوبی سوڈان، کانگو، شام، سعودی عربیہ اور ایران ہیں۔ خیر چھوڑیے! معذرت کے ساتھ یہاں تو ہر شخص گلا گھونٹنے کے چکر میں بیٹھا ہے ، ہر شخص سوچوں پر پابندی لگا کر بیٹھا ہے، ہم تو اپنے پرچم کی جس میں سفید سبز رنگ ہے کی بے حرمتی کررہے ہیں، حالانکہ قائد کے دور میں وزیر قانون ہندو تھے۔ وزیر خارجہ کا تعلق اقلیتی فرقے سے تھا۔ اُن کے قریبی ساتھیوں میں بیشتر عیسائی، ہندو اور دیگر فرقوں سے تعلق رکھتے تھے،جبکہ اس کے برعکس ہم نے اُن کو حکومتیں دیں جن کی قائد محترم شکل دیکھنا نہیں چاہتے تھے،اور پھر حد تو یہ ہے کہ آج ہم صرف اقتدار کے لیے لڑ رہے ہیں، فلاحی ریاست ایک خواب بن کر رہ گیا ہے،سیاستدان اور مقتدر حلقے ایک دوسرے کا گریبان پھاڑ رہے ہیں۔ لہٰذاآج کا قائد کا یوم پیدائش ہمیں یہ سبق ضرور دیتا ہے کہ ہم کس طرح انفرادی طور پر اپنے تئیں اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں، کیوں کہ ملک اجتماعی ترقی تب ہی کرے گا جب ہم انفرادی طور پر ایماندار اور قانون کی پاسداری کرنے والے بنیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو(آمین)