محترمہ بے نظیر بھٹو اگر آج زندہ ہوتیں!

آج ہی کے دن جب 2007ءمیں اُنہیں شہید کیا گیا تو اُس وقت سیاسی گہما گہمی ضرور تھی، مگر سیاسی ”افراتفری“ نہیں تھی۔فرق یہ بھی تھا کہ اُس وقت ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جنگ لڑی جا رہی تھی جبکہ آج آپسی لڑائیاں زیادہ ہیں۔ اوران آپس کی لڑائیوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ اس کا ہمیشہ تیسری قوت فائدہ اُٹھاتی ہے۔ خیر بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کا روشن چہرہ اور روشن مستقبل تھیں،انہیں عالمی سطح پر آئرن لیڈی، مشرق کی شہزادی، دخترِ اسلام اور مشرق کی بیٹی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔وہ ”تیسری چوتھی قوتوں“ کو انکار کرنا جانتی تھیں۔ محترمہ وفاقِ پاکستان کی علامت اور عوام کی امنگوں کا مظہر بھی تھیں۔انہوں نے پاکستان کے طول وعرض میں سیاسی فراست، ذہانت اور سوجھ بوجھ کے انمٹ نقوش ثبت کیے اور وقت کے ساتھ ان کی عزت و تکریم میں بیش بہا اضافہ ہوتا چلا گیا۔وہ ایک ایسی قومی راہنما تھیں جو پاکستان کا ایجنڈا لے کر آگے چل سکتی تھیں۔ بی بی شہید عالمی سطح کی شخصیت تھیں اور پاکستان کی نمایاں آواز تھیں۔ وہ مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں اور لوگوں میں فاصلے کم کرنا اور انہیں قریب لانا جانتی تھیں۔ان کی تحریریں ان کی شخصیت کے اس پہلو کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ہر معاملے میں فاصلوں کو کم کرنا اور مثبت اندازِ فکر کو اپنانا ہی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔ ان کی مثبت سوچ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ غربت و افلاس کا خاتمہ کرکے عالمِ اسلام کو امن اور ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتی تھیں۔ اسے قسمت کا کھیل کہیں یا وراثتی تنقید کہ جب سے اُن کے والد محترم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا تھا تب سے وہ اسٹیبلشمنٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ وہ بحیثیت سابق وزیرِاعظم ہمیشہ ڈھکے چھپے الفاظ میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتیں اور ان کا انداز ایک شکوہ کناں کا رہا۔ بے نظیر نے عدالتوں کے فیصلوں پر سوال اٹھانے کے لیے بھی وہ اصطلاح چنی جو دنیا میں رائج ہے لیکن بے نظیر جیسی صورتحال کا سامنا جب نواز شریف کو اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں کرنا پڑا تو ان کے تیور مختلف اور جارحانہ تھے۔ 1999ءمیں جب بے نظیر کو کرپشن کے الزم میں 5 سال قید اور 50 لاکھ پاﺅنڈ جرمانے کا فیصلہ سنایا گیا تو محترمہ نے عدالتوں کو”کنگرو کورٹس“ قرار دیا تھا یعنی انصاف کے تقاضے پورے نہ کرتے ہوئے، کنگرو کی طرح کودتے ہوئے جلد بازی میں ناقص فیصلے سنانے والی عدالتیں۔ بے نظیر بھٹو جب 2 مرتبہ اپنی برطرفی کے لیے عدالتوں اور اسٹیبلشمنٹ پر نام دھرتی تھیں تو اس وقت ان کے صف اوّل کے سیاسی مخالف نوازشریف محترمہ کو سیکورٹی رسک قرار دیتے تھے۔ جبکہ دوسری جانب محترمہ بھی سیاست میں نومولود تھیں ،اُن سے بھی درجنوں غلطیاں سرزد ہوئی تھیںجن کا یہاں ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں کیوں کہ جب تک ہم اپنی اور اپنے قائدین کی غلطیوں کی نشاندہی نہیں کریں گے تب تک ہم خود احتسابی کے عمل سے گزرنے سے قاصر رہیں گے۔ لہٰذااگر ہم محترمہ کے سیاسی کیرئیر کی بات کریں تو محترمہ کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی کو حقیقی سیاسی پارٹی یا حقیقی عوامی پارٹی نہ بنا سکیں۔ وہ نہ تو پارٹی میں ڈسپلن قائم کر سکیں اور نہ کارکنوں اور جیالوں کو پارٹی کے ساتھ Connectکر کے رکھ سکیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنا ظلم کسی نے نہیں سہا جتنا ضیاءالحق کے دور میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے سہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1977ءکے بعد پارٹی پر جب برا وقت شروع ہواتو پاکستان بھر میں کارکنوں کو اُٹھایا جانے لگا، اُس وقت میرے والد محترم تحصیل قصور کے پیپلزپارٹی کے صدر تھے۔ تو ہمارے گھروں میں بھی چھاپے پڑنے شروع ہوئے، جس کے بعد والد صاحب کو دو مرتبہ جیل بھی جانا پڑا، اور ساتھ مجھے بھی جیل کی ہوا کھانا پڑی، حتیٰ کہ اُن دنوں حالات یہ تھے کہ ہمارے گھروں میں آئے مہمانوں کو بھی اُٹھا لیا جاتا ۔حتیٰ کہ 1981ءمیں جب پی آئی اے کا جہاز اغوا ہوا جسے مبینہ طور پر ”الذولفقار “اور پیپلزسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اغوا کاروں نے پیپلزپارٹی کے 54ساتھیوں کی رہائی کے بدلے اغوا کیا تھا تو پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔لیکن ہم جیالوں کا جذبہ ماند نہ پڑتا اور شیخیاں بگھارتے نظر آتے کہ ہم نے پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی او ر پاکستان کی اُمید ”پیپلزپارٹی“ کے لیے جیل کاٹی ہے، یا قلعہ میں بند رہ کر صعوبتیں جھیلی ہیں۔ الغرض ہم بڑے جو ش و خروش سے پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے رہتے۔ لیکن بھٹو کی پھانسی کے بعد حالات بدل گئے، پیپلزپارٹی نے سب سے پہلے 1979اور 1983ءکے غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور پھر 1985ءکے غیر جماعتی عام انتخابات کا بائیکاٹ کرکے سب سے بڑی سیاسی غلطی کی۔ حالانکہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے لاہور میں کلین سویپ کیا تھا، لیکن جماعت کی سرپرستی نہ ہونے کے سبب تمام اُمیدوار تتر بتر ہو کر یا فروخت ہو کر حکومت کے ساتھ شامل ہوگئے۔ پھر 1983ءکے بلدیاتی الیکشن میں بے نظیر نے اعلان کیا کہ جو اُمیدوار الیکشن میں حصہ لے گا ہم اُسے پارٹی میں نہیں رہنے دیں گے،اس کے بعد پھر1985ءکے غیر جماعتی الیکشن میں بھی فیصلہ کیا گیا کہ جو اُمیدوار ان الیکشن میں حصہ لے گا پیپلزپارٹی کبھی اُسے اپنی جماعت میں نہیں رہنے دے گی اور کبھی اُسے واپس بھی نہیں لے گی۔ اس حوالے سے بعض جگہوں پر کہا جاتا ہے کہ 1985ءکے انتخابات کے بائیکاٹ کی محترمہ کم قصور وار تھیں، اس سے زیادہ قصور وار ایم آر ڈی کا اتحاد تھا۔ جس میں نوابزادہ نصراللہ خان اور ایئرمارشل (ر)اصغر خان انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں تھے۔ الغرض پیپلزپارٹی اُس وقت بڑی جماعت تھی، اُسے الیکشن میں جانا چاہیے تھا، بادی النظر میں یہیں سے پیپلزپارٹی کے زوال کا وقت شروع ہو گیاتھا۔اور محترمہ بے نظیر بھٹو خود بھی اس فیصلے کو سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غلطی سمجھتی رہی ہیں، محترمہ تسلیم کرتی رہیں کہ یہاںوہ زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو گئیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے لیکن ضیاء الحق نے محترمہ کی اسی خود اعتمادی کافائدہ اٹھایااور ملک میں غیر جماعتی انتخابات کروا کر ایک ایسی سیاسی اشرافیہ پیدا کی جو ہنوز پاکستانیوں پرمسلط ہے،جس کے نزدیک اصول و ضوابط نام کی کوئی چیز معنی نہیں رکھتی۔ ان کے نزدیک اہمیت صرف اور صرف اقتدار کی ہے اور اس کیلئے وہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں وگرنہ وہ ریاست کے وجود کو ہی تہس نہس کرنے سے گریز نہیں کریں گے ،یہی کچھ اس وقت پاکستانی سیاست میں ہو رہا ہے کہ ایک ”تاجر“ سوائے تجارت کے اور کیا کر سکتا ہے؟اس کے نزدیک آج ریاست بھی ایک ”سودے“ کے حیثیت اختیار کر چکی ہے،جس کی سالمیت کی ضمانت بعوض اپنی غلطیوں،اپنی کرپشن و غیر قانونی اثاثہ جات کی معافی پر ہی ،دینے کو تیار ہے نہ کہ اپنے اثاثہ جات کی صحیح اور مستند منی ٹریل کی فراہمی سے خود کو بے گناہ ثابت کر ے۔ خیر 1986ءمیں محترمہ پاکستان آئی اور لاہور میں ایسا فقید المثال استقبال ہوا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی، یہ استقبال اسی لیے تھا کہ محترمہ یعنی پیپلزپارٹی عوام کی اُمید تھی، لیکن 1988ءکا الیکشن جیسے ہی آیا محترمہ اپنے تمام تروعدے بھول گئیں، اور فاروق لغاری اور اسٹیبلشمنٹ کی چالوں میں آگئیں، اُنہوں نے امیر، برادری والے اور مضبوط اُمیدوار تلاش کیے ،محترمہ نے اس دوران کسی کی پرواہ نہیں کہ کس کس نے پارٹی کے لیے قربانیاں دیں، کس کس نے کوڑے کھائے اور کون کون جیلیں کاٹتا رہا، اگر یہاں یہ کہا جائے کہ 1988ءمیں پیپلزپارٹی کا ورکر پہلی مرتبہ Damage ہوا۔ اور پیپلزپارٹی کو پنجاب میں شکست ہوئی تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ ایسا میں شاید اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں کہ اُس وقت کا میں چشم دید گواہ ہوں کہ پنجاب میں بے شمار ایسے اُمیدوار کھڑے ہوگئے جن کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا، اس لیے پیپلزپارٹی کے ورکرز نے پارٹی کی اُس طرح کی مہم ہی نہیں چلی جس طرح ماضی میں چلتی رہی۔ اس کی ایک سادہ سی مثال لے لیں کہ جیسے قصور میں سردار آصف احمد علی کھڑے ہوگئے ، حالانکہ 1977 میں اُن کے والد نے سردار احمد علی نے پاکستان پیپلز پارٹی کی مدد سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور کامیاب بھی ہوئی مگر پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک چلی تو بعض دیگر ارکان اسمبلی کے ہمراہ جن میں سردار شوکت حیات خان ، امیر عبداللہ روکڑی ، اور میر بلخ شیر مزاری وغیرہ شامل تھے ، قومی اسمبلی کی رکنیت سے بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا۔ اس لیے ورکرز اُن سے خاصے نالاں تھے، لہٰذاکیسے ممکن تھا کہ 1988ءمیں اُنہیں دوبارہ ہم سپورٹ کرتے ۔ اسی طرح کی کئی سیٹیں پنجاب میں تقسیم کی گئیں جس سے پیپلزپارٹی کا ”کرنٹ“ اُسی وقت ختم ہوگیا۔ اس پر بے نظیر نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ وقت کی مجبوری ہے، لہٰذاورکرز کو بعد میں ایڈجسٹ کر لیا جائے گا،لیکن اُس کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر کو ہوش ہی نہیں آنے دی ۔ یعنی دو بڑی پارٹیاں ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں مقابلے کی سیاست شروع ہوگئے اور ایک دوسرے کے خلاف سینکڑوں مقدمات درج ہوئے۔ اور پھر اس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو عام سیاسی کارکن کو بھول کر دفاعی پوزیشن میں چلی گئیں اور اور آہستہ آہستہ پیپلزپارٹی اپنے بچاﺅ کی جنگ لڑتی رہی، بلکہ یوں کہیں کہ پیپلزپارٹی ، پیپلزپارٹی نہیں رہی بلکہ زرداری صاحب کی پارٹی بن گئی ۔ اس استحصال کی وجہ سے جیالے کارکن نہ ہو نے کے برابر رہ گئے، کچھ شہید ہوگئے تو کچھ نے پارٹی چھوڑ دی۔جیسے سندھ کی ایم آرڈی تحریک میں سندھ میں بہت سے کارکن شہید ہوئے ، کیا ملا اُنہیں ، کچھ نہیں !حتیٰ کہ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ پیپلزپارٹی کے پاس اُن ورکرز یا جیالوں کی کوئی لسٹ بھی نہیں ہوگی جنہوں نے بی بی پر اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ آج بھی اُن کے بچے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ۔ جبکہ پارٹی شرفاءکے حوالے ہے، بلکہ محترمہ کے بعد تو پیپلزپارٹی جیسے شرجیل میمن ، اویس ٹپی، ڈاکٹر عاصم جیسے لوگوں کے ہاتھوں ہائی جیک ہوگئی ہے۔ قصہ مختصر کہ کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ ہی دو طرح کی رہی ہے، جب پیپلزپارٹی اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اور قسم کے لوگ ہوتے ہیں، جب یہ پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو مفاد پرست آجاتے ہیں، تبھی یہ پارٹی آج ایک صوبے کی جماعت بن کر رہ گئی ہے، لہٰذااگر محترمہ آج زندہ ہوتیں تو یقینا وہ مزید پالش ہو چکی ہوتیں، اُن میں نکھار آچکا ہوتا، لیکن اب محترمہ نہیں ہیں تو پیپلزپارٹی کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے اور اپنے جیالوں کو وہ حقوق دینے چاہیےئں جس کے وہ حقدار ہیں ورنہ صوبہ سندھ بھی اُن کے ہاتھ سے جانے میں دیر نہیں لگے گی!