چوہدری پرویز الٰہی سے ایک ملاقات ، بروقت فیصلے !

ملک بھر میں ایک طرف سردی کی لہر جبکہ دوسری طرف سیاسی گرما گرمی اور افراتفری کا ماحول ہے۔ ایسے میں چند سیاسی و غیر سیاسی لوگوں کی ملاقاتیں ”بیک سٹیج“ اور کچھ ملاقاتیں ”فرنٹ سٹیج“ پر ہو رہی ہیں۔یہ سب سیاسی گہما گہمی اور ملنا ملانا اچھا ہے کیوں کہ ملاقاتوں کے سلسلے جاری رہیں تو اس سے مسائل کے حل میں ہمیشہ مدد ملتی ہے۔ گزشتہ دنوں راقم کی بھی ایسی ہی ”غیر سیاسی“ ملاقات چوہدری پرویز الٰہی اور اُن کے صاحبزادے چوہدری مونس الٰہی کے ساتھ ہوئی ، آج کل چوہدری صاحب چونکہ سیاسی حوالے سے خاصے سرگرم ہیں اور اس وقت وہ واحد شخصیت ہیں جو موجودہ سسٹم کو جیسے تیسے کرکے سنبھالا دیے ہوئے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ورنہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت سیاسی حالات مزید مخدوش ہو چکے ہوتے اور ملک مزید سیاسی عدم استحکام کی طرف چل پڑتا۔ خیر ملاقات میں خاصی گرمجوشی تھی جس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ ایک عرصے بعد چوہدری صاحب کا دیدار ہوا اور پرانی باتوں کا تذکرہ چھیڑنے کا جی چاہا۔ جس سے چوہدری صاحب بھی خاصے محظوظ ہوئے، اور کہا کہ پرانے لوگوں سے مل کر ایک عجیب سی کیفیت ہوتی ہے جس کا بیان کرنا خاصا مشکل ہے۔ خیر روایتی اور نیم سیاسی گپ شپ کے بعد کچھ ”آف دی ریکارڈ سیاسی“ باتیں بھی ہوئیں جس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ چوہدری صاحب آج بھی اسی سرعت کے ساتھ فیصلے کررہے ہیں جس برق رفتاری اور جوش کے ساتھ وہ آج سے 15،20سال پہلے (2002-2007ءمیں بطور وزیر اعلیٰ پنجاب) کیا کرتے تھے۔ خیر ملاقات کے دوران بطور صحافی ہم نے بھی چوہدری صاحب خاصے سیاسی اختلاف کیے لیکن اُنہوں نے مزاحاََ اور تاکیداََ جو جواب دیے اُن سے ہمیں خاصی راحت نصیب بھی ہوئی۔ جیسے راقم نے خدشات کا اظہار کیا کہ آپ عمران خان کے ساتھ کہیں ڈبل گیم تو نہیں کر رہے یا اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار تو نہیں بنے ہوئے۔ جس پر چوہدری صاحب نے فرمایاکہ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ یہ اُن کی خاندانی روایات ہیں کہ اُن کے ہاں سبھی سیاسی ، سماجی اور غیر سیاسی افراد کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ لہٰذااگر کوئی اُن سے آکر ملاقات کرتا ہے یا اُنہیں کسی کے پاس ملاقات کے لیے جانا پڑتا ہے تو اس میں ہمیشہ خیر ہی خیر ہوتی ہے۔ شر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ لیکن اہمیت ہمیشہ حتمی فیصلوں کی ہوتی ہے جو ہم نے احباب کے ساتھ مل کر یا سیاسی گفت و شنید کے بعد کرنا ہوتے ہیںاور پھر ان فیصلوں میں کسی قسم کا جھول نہیں ہوتا۔ ویسے یہ بات تو چوہدری صاحب کے سبھی قریبی لوگ جانتے ہیں کہ پرویز الٰہی میں یہ ایک خوبی ہے کہ وہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرتے بلکہ فوری کردیتے ہیں حتیٰ کہ اُن کے پاس کوئی سائل بھی آئے تو وہ اُنہیں انکار نہیں کرتے، نہ ہی اس کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کوئی کمیٹی تشکیل دیتے ہیں۔ بلکہ وہ فوراََ اُس کام کے آرڈر جاری کرتے ہیں۔لیکن شرط یہ ہے کہ وہ کام مفاد عامہ کے لیے ہو۔ یقین مانیں کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ و موجودہ وزیر اعظم کی طرح کمیٹیاں نہیں بناتے نہ ہی فائلوں کو ٹیبل کے ایک طرف رکھ دیتے ہیں کہ اس پر میٹنگ کال کریں گے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ہم 2002ءمیں صحافی کالونی کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کے پاس گئے توہم نے چوہدری صاحب کے سامنے صحافیوں کے مسائل حل کروانے کے حوالے سے چند ایک مطالبات رکھے جن میں سب سے بڑا مطالبہ صحافیوں کے لیے پلاٹس الاٹ کروانا تھا۔ حالانکہ ہمیں 90فیصد یقین تھا کہ چوہدری صاحب بھی دیگر سیاستدانوں کی طرح ٹال مٹول کے ساتھ کام لیں گے مگر انہوں نے اُسی وقت ڈی جی ایل ڈی اے اور ڈی سی اولاہور کو بلا یا۔ اور اُن سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کو پلاٹ دے سکتے ہیں تو دونوں صاحبان نے برملا کہا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم دے سکتے ہیں، کیوں نہیں! اس پر پرویز الٰہی نے کہا پھر ہمیں ان صحافیوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے، پھر دنیا نے دیکھا کہ جن صحافیوں کی اُس وقت پانچ پانچ ہزار روپے تنخواہ تھی انہیں لاکھوں کروڑوں کے پلاٹس ملے، جبکہ اُن کے جانے کے بعد گزشتہ 15سالوں میں آج تک کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ اور آج بھی پنجاب میں وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی حکومت آنے کے بعد ان کی ہدایت پر راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اپنے پہلے فیز میں صحافی کالونی فیز ٹو کے لئے700کنال اراضی الاٹ کر دی ہے۔اس حوالے سے چیف آپریٹنگ آفیسر راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے روڈا کے فیز ون میں 700کنال اراضی الاٹ کرنے کے بارے میں پنجاب جرنلسٹ ہاو¿سنگ فاو¿نڈیشن کو آگاہ بھی کر دیا ہے۔ پھر مجھے یاد ہے کہ 2005یا 2006کی بات ہے جب چوہدری صاحب کے ہمراہ ٹیم کے ساتھ میں خود بھی ملتان گیا تو اُس وقت وہاں کے چند ایم پی ایز اور سماجی رہنماﺅں نے چوہدری صاحب کے سامنے ایک مسئلہ رکھا کہ اگر کسی کو جنوبی پنجاب میں دل کی تکلیف کا مسئلہ ہوتا ہے تو اُسے لاہور لے جانے تک اس کی موت واقع ہو چکی ہوتی ہے لہٰذاملتان میں دل کا ہسپتال بنادیا جائے۔ یعنی وہاں کے لوگوں نے پرزور فرمائش کی کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) بننا چاہیے۔ تواُس وقت کے سیکرٹری ہیلتھ سے پوچھا گیا کہ کیا ہم یہاں کے عوام کے لیے پی آئی سی بنوا سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کیوں نہیں؟ اس پر پرویز الٰہی نے کہا کہ جلد ہی اس پر کام شروع کریں اور مجھے چند روز میں رپورٹ بھیجیں۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہاں ناصرف پی آئی سی قائم ہوا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے جنوبی پنجاب کے عوام کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا۔ لیکن بعد میں جو اس پی آئی سی کا حال ہوا وہ بھی سن لیں۔ انسٹیٹیوٹ آف کارڈ یالوجی ملتان کا اُس وقت کا بجٹ30کروڑ روپے سالانہ رکھا گیا تھا۔جو مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے 2008ءسے 2013ءکے درمیان بتدریج کم کرتے ہوئے 10کروڑ روپے سالانہ کر دیاگیا، یہ محض اس لیے کیا گیا کہ اس ہسپتال کے مین گیٹ پر چودھری پرویز الٰہی کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ پھر حالیہ ملاقات کا ہی سُن لیں، میں نے سوچا کہ چلو آئے ہیں تو پرویز الٰہی سے اپنے علاقے کھڈیاں کی سڑک کی تباہی کا ہی قصہ بیان کر لیں۔ تو اس پر انہوں نے کسی لیت و لعل سے کام لینے کے بجائے اُسی وقت انہوں نے سیکرٹری سی ایم ڈبلیوسے کہا کہ اسے فوری طور پر بنایا جائے۔ تاکہ وہاں کے عوام کے دیرینہ مسائل حل ہوں۔ الغرض وہ کبھی سفارشات کے لیے میاں منظور وٹو یا شہباز شریف کی طرح کمیٹی نہیں بناتے بلکہ فوری آرڈر جاری کرتے ہیں۔ پھر یہی نہیں بلکہ چند ماہ ہوئے اُنہیں اقتدار سنبھالے اس دوران انہوں نے صحت کی معیاری سہولتوں کی فراہمی کیلئے انقلابی منصوبوں پر کام شروع کیا ہے، اس حوالے سے 26 ارب روپے کے ریکارڈ فنڈز بھی فراہم کر دیے ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں کارڈیالوجی ہسپتالوں میں جدید مشینری کی فراہمی کے ساتھ ساتھ نیا کارڈیالوجی ہسپتال بنانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی وزیر آبادکو 5 ارب روپے سے مزید 200 بیڈز اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ دل کے مریضوں کیلئے گیما کیمرہ الیکٹروفزیالوجی ایکوپمنٹ اور ٹرازٹ ٹائم فلومیٹر فراہم کی جا رہی ہے۔ سرگودھا میں 6ارب روپے کی لاگت سے چودھری انور علی چیمہ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی بہاولپور میں 700ملین روپے سے سی ٹی انجیوگرافی مشین اور گیما کیمرہ (تھیلیم سکین) کی فراہم کی جا رہی ہے۔لیڈی ولنگڈن ہسپتال لاہور میں 5ارب روپے سے 200 بیڈز کا مدر اینڈ چائلڈ بلاک فنکشنل کیا جا رہا ہے جبکہ گجرات میں چلڈرن ہسپتال کے لیے اراضی حاصل کرنے کیلئے500ملین مختص کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ چلڈرن ہسپتال لاہور میں 2ارب روپے سے جدید ریڈیو تھراپی یونٹ قائم کیا جا رہا ہے۔وغیرہ اور تو اور 2ہزار سے زائد کلومیٹر طویل سڑکیں بھی بنانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ جبکہ گزشتہ دنوں ہمارے محترم کالم نگار اشرف شریف نے اپنے کالم ”سرکاری تعلیمی اداروں کے گراونڈز کب استعمال ہوں گے؟“میں انہوں نے لکھا کہ ” عمران خان کے لئے قدرے نرم گوشہ رکھنے کے باوجود بطور کھلاڑی میری رائے میں تحریک انصاف کی حکومت نے کھیلوں کو بری طرح نظرانداز کیا۔میں نے تجویز دی تھی کہ لڑکیوں کے سرکاری سکولوں و کالجوں میں گراﺅنڈ کی سہولت لگ بھگ ہر جگہ ہے۔اگر شام کے اوقات میں وہاں ایک کوچ کا انتظام کر کے اردگرد کی آبادی کی بچیوں کو کھیلوں کی تربیت دی جائے تو اگلے چند برسوں میں پاکستان کھیلوں میں نام پیدا کر سکتا ہے۔“ جبکہ چوہدری پرویز الٰہی نے سپورٹس اکیڈمیوں کا تو اعلان کر دیا ہے مگر میرے خیال میں برادرم اشرف شریف کی مذکورہ تجویز بہترین ہے ،اس پر بھی غور کیا جاناچا ہیے، اس سے ہمارے ہاں بچیوں کی غیر نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے خاصی تقویت ملے گی۔ پھر چوہدری پرویز الٰہی کا گزشتہ دور کا ماس ٹرانزٹ ٹرین جیسا ادھورا کارنامہ کون بھول سکتا؟ اس کے لیے لاہور میں صرف 6جگہوں سے کھدائی ہونا تھی، اور پھر 1.7فیصد شرح سود پر ایشین بنک نے 32سال کے لیے قرض فراہم کرنا تھا، یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا، جبکہ اس کے برعکس موجودہ اورنج ٹرین پر 4فیصد سے زائد شرح سود کمرشل بنکوں کو ادا کی جار ہی ہے۔ اور اب جبکہ دوبارہ چوہدری صاحب نے اقتدار سنبھالا ہے تو دوبارہ چوہدری صاحب نے انڈرگراﺅنڈ ٹرین سسٹم لانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بلیو لائن اور پرپل لائن ،ماس ٹرانزٹ پراجیکٹ ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے شروع کیا جائیگا یہ منصوبہ بی او ٹی پر بنے گااو رپنجاب حکومت کا کوئی پیسہ نہیں لگے گا، ویلنشیا سے کلمہ چوک،لبرٹی چوک، داتا دربار، ائیر پورٹ تک انڈر گراﺅنڈ ماس ٹرانزٹ سسٹم بنا یا جائیگا،اورنج لائن کے 8بڑے سٹیشن بھی ڈویلپ کئے جائینگے۔ بہرکیف قصہ مختصر کہ چوہدری صاحب سے مونس الٰہی کی موجودگی میں ملاقات اچھی رہی ، وہ ہمیشہ محسن پنجاب ہیں اور رہیں گے، وہ محسن صحافت بھی ہیں اور محسن انسانیت بھی ۔ دعا ہے کہ وہ یونہی ہم عوام کی خدمت کرتے رہیں اور صدا آباد رہیں!