2022سیاست و معیشت کیلئے بدترین! مگر2023میں نئی امیدیں!

ہر سال جیسے جیسے گزرتا ہے، ہم بطور قوم مزید نااُمیدی کی طرف چلے جا تے ہیں۔ 80ءکی دہائی کے بعد تو شاید ہی ہم کبھی بہتری کی طرف گئے ہوں ۔ کبھی افغان جنگ میں ہمیں دھونس دیا جاتا رہا تو کبھی اندرونی خانہ جنگی کی طرف۔ کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر کھڑا کردیا گیا تو کبھی طالبانائزیشن کی صفوں میں شامل کر دیاگیا۔ کبھی سونامی کے نام پر تبدیلیوں کے خواب دکھائے گئے تو کبھی اُنہی سونامی والوں کو ناک سے لکیریں نکالتے دیکھا گیا۔ کبھی چوروں کو اقتدار سے نکال باہر کیا گیا اور ایسے لگا جیسے اب ملک جنت کی نظیر وادیوں میں گم ہو جائے گا، مگر پھر سب نے دیکھا کہ وہی چور دوبارہ مسلط ہوئے اور اب ہر گزرتے دن یہی فکر رہتی ہے کہ ہم دیوالیہ نہ ہو جائیں ۔ بلکہ ایسی صورتحال ہو چکی ہے کہ ہر کاروباری دن کے شروع ہوتے ہیں ٹی وی دیکھنا پڑتا ہے کہ کہیں خدا خیر کرے کہ کوئی بری معاشی خبر نے تو نہیں آن گھیرا۔ سال 2022ءہی کو دیکھ لیں، یہ سال بھی اس ملک کے لیے ایک ڈراﺅنے خواب جیسا تھا۔ایک ایسا خواب جسے دیکھتے ہوئے دل ڈوب ڈوب گیا اور جاگنے پر آنکھوں کوتعبیر کے کانٹے چننے پڑے۔جب شب وروز ایک جیسے اندھیرے اوڑھ لیں تو امید کا ٹمٹاتا دِیا بھی تھک کر کسی کونے میں بیٹھ جاتا ہے۔ کسے خبر تھی 2022ءاتنا خوفناک سال ہوگا جو ہمارے برسوں کے فخروانبساط اور چین وقرار کو نیست و نابود کردے گا۔ ہم جو سمجھتے تھے کہ اتنے وسائل، افرادی قوت، سونا اگلتی زمین،معدنیات سے بھرے پہاڑ،بل کھاتے دریا،ذرخیز زمین ،لہلاتے کھیت اور خزانوں سے بھرے وسیع سمندر کا مالک ملک ترقی پذیر کے حلقے سے نکل کر ترقی یافتہ کا رتبہ کیوں حاصل نہیں کر پا رہا۔ہمیں کیا خبر تھی کہ یوں جان کے لالے پڑ جائیں گے کہ پوری دنیا میں ہمارے دیوالیہ ہونے اور نہ ہونے کے تذکرے گونجنے لگیں گے۔ہماری ہر صبح کی جبین عالمی بینک کے آگے قرضوں کے ترلے کی ٹرے لئے سرنگوں کھڑی ہوگی۔جبکہ ہماری ترقی پذیر معیشت مصنوعی تنفس کی نالیوں پر زندہ ہوگی۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں، 2022 میں ہی چلے جائیں، اور اندازہ لگائیں کہ ایک سال میں ہی ہم کہاں سے کہاں آگئے، سال 2021ءختم ہوا اور 2022ءشروع ہوا تو ملک کا سیاسی نقشہ کچھ اور تھا۔ وزیراعظم عمران خان تھے جونسبتاََغیر مقبول ہورہے تھے اور مسلسل ضمنی الیکشن ہار رہے تھے، وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نہ صرف بھرپور دفاع کرتے تھے بلکہ اپوزیشن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ان دونوں پر الزامات اور سیاست میں مداخلت کو مسترد کرتے تھے۔پھر وقت نے پلٹا کھایا اور مارچ 2022ءمیں عمران کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آگئی، انہوں نے اپنے ساتھیوں اور حلیفوں کو یقین دلایا کہ تحریک ناکام ہوگی مگر پھر انہیں احساس ہونے لگا کہ معاملات گڑبڑ ہیں۔ جس دن انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا اس سے ایک رات پہلے صدر پاکستان عارف علوی صاحب نے انہیں ٹیلیفون کرکے اپنے فیصلے پر نظرثانی کا مشورہ دیا مگر کپتان نہ مانا اور امریکی مداخلت اور سازش کے بیانیے کو بنیاد بناکر نہ صرف اپنی توپوں کا رخ امریکہ کی طرف موڑ دیا بلکہ اسمبلیوں سے باہر آکر ’جہاد‘ کا اعلان کردیا اور ہدف تنقید اسٹیبلشمنٹ کو بھی بنانا شروع کردیا۔ ان کے مطالبات میں موجودہ حکومت کا خاتمہ، نئے عام انتخابات، نئے الیکشن کمیشن کے تحت کرانا شامل تھا جس کیلئے انہوں نے 25مئی کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ اس پورے عمل سے پاکستان تحریک انصاف جو اب تک 2021ءمیں غیر مقبولیت میں تیزی سے اوپر جارہی تھی، اسے بریک لگ گیا اور مقبولیت کا گراف اوپر جانے لگا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب پی ڈی ایم کے ایک حلقہ احباب میں جن میں خود سابق وزیراعظم نوازشریف شامل تھے، یہ فیصلہ ہوا کہ الیکشن میں جانا چاہئے حکومت چلانا مشکل ہے۔ چند دن پہلے صدر پاکستان عارف علوی صاحب سے ایک نشست میں گفتگو کرتے ہوئے اندازہ ہی نہیں تصدیق بھی ہوگئی کہ اگر عمران خان 25مئی کے لانگ مارچ کو موخر کردیتے تو نئے الیکشن پر سمجھوتہ ہونے جارہا تھا۔اب پی ڈی ایم کی جماعتیں اپنی سیاسی ناکامیوں کو ’سیاسی قیمت‘ ادا کرنے سے تعبیر کرتی ہیں حالانکہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد اگر ایک عبوری حکومت کے تحت نئے الیکشن ہوجاتے تو آج حکمران اتحاد انتخابات سے راہ فرار اختیار نہ کررہا ہوتا، وہ اپریل میں بہت بہتر پوزیشن میں تھے۔ خیر 2023ءالیکشن کا سال ہے ، بلکہ یہ صرف الیکشن کا سال ہی نہیں 1973ءکے متفقہ آئین کی گولڈن جوبلی کا سال بھی ہے۔ یاد رکھیں اس آئین کو کئی پیوند لگے، کئی ٹیکے لگے، اعلیٰ ترین عدلیہ نے جس کو اس کا تحفظ کرنا تھا، ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت اسے توڑنے والوں کو قانونی کہا ،جائز قرار دیا اور بنانے والے کو ’جوڈیشل مرڈر‘ کے ذریعہ پھانسی دے دی۔اس آئین نے ایک سمت دی، نظام دیا، آگے بڑھنے کا راستہ بتایا، اگر اس تاریخی دستاویز کو کسی آمر نے ’کاغذ‘ کا ٹکڑا کہا تو وہ آمرامر نہیں ہوا، بنانے والوں کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ان تمام اکابر کو خراج تحسین پیش کرنے کا وقت ہے جنہوں نے نظریات کو بالاتر رکھ کرایک آئین پر اتفاق کیا۔ اس آئین پر عمل نہیں ہوا اس لئے سیاست کو آمروں نے ’سیاسی اسٹاک مارکیٹ‘ میں تبدیل کردیا۔ اب الیکشن سے پہلے وزیراعظم کیلئے ’ٹینڈر‘ کھلتا ہے اور پھر قبولیت ہوتی ہے۔ جمہوریت مقبولیت کا نام ہے قبولیت کا نہیں۔ بہرحال نیا سال آچکا ہے، الیکشن کے اس سال میں سنا جا رہا ہے کہ سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو کھڈے لائن لگانے یعنی الیکشن سے دور رکھنے کی مکمل تیاریاں ہو چکی ہیں، یہ ہر صورت غلط ہوگا۔ ہمیں یہ روایت توڑنا ہوگی، ورنہ یہ ملک اگلے سو سال تک بھی ترقی نہیں کر سکے گا۔ ایسا کرنے سے ملک میں کبھی نئی لیڈر شپ پیدا نہیں ہوگی، ہمیں اُنہی غلام حکمرانوں پر اکتفا کرنا پڑے گا جو ہم پرہر بار مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن اُمید کی جاسکتی ہے کہ بطور قوم ہم اس وقت جن معاشی، سیاسی اور لاقانونیت کے مسائل سے دوچار ہیں وہ مسائل وقتی ہیں۔ ہم پہلے بھی ان سے نکلنے میں کامیاب رہے ہیں اور بطورِ قوم دوبارہ بھی ان سے نکلنے کی سکت رکھتے ہیں۔ یہاں رابندر ناتھ ٹیگور سے منسوب ایک فقرہ یادآجاتا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس بات کی علامت ہے کہ خدا انسان سے مایوس نہیں ہوا۔ اسی طرح گزشتہ برس کا پلٹتا صفحہ اور نئے سال کی آمد بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ خدا ہمیں بہتر ہونے کا مزید وقت دے رہا ہے،اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جہاں تک ملکی معیشت کا معاملہ ہے تو رواں سال اس میں کسی بھی انقلابی تبدیلی کی امید نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم نے اپنی معیشت کو ایسے چلایا ہے کہ اسے پتھر کے دور میں پہنچا دیا ہے۔ جو اکانومی ابھی تک اپنے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طریقے سے قابو کرنے کی جستجو میں ہوگی، وہ میکرو اور مائیکرو اکنامکس کے حوالے سے کیا فیصلہ کرے گی؟ معیشت کے میدان میں ہی ہم نے شوکت عزیز سے لے کر اسحاق ڈار جیسے ٹیکنوکریٹس آزما کر دیکھ لیے اورآج ہم جس کرائسس میں گھرے ہوئے ہیں وہ بھی انہی کی مرہون منت سمجھا جاتا ہے۔ کیا کبھی ان معاشی سورماﺅں نے پاکستان کو خود انحصاری کی جانب لیجانے کی کوشش کی‘جیسے من موہن سنگھ نے بطور وزیرخزانہ بھارت میں نوازشریف کی پہلی حکومت کی اوپن مارکیٹ پالیسیوں کی تقلید کی اور بھارتی معیشت کو ٹیک آف کروا دیا اور ہم وہیں کے وہیں رہ گئے۔ نجانے پاکستان میں اوپن مارکیٹ اور خودانحصاری جیسے بنیادی معاشی اہداف کا حاصل کرنا اتنا مشکل کیوں بنادیا گیا ہے اور ہم کب اپنا کشکول توڑنے میں کامیاب ہوں گے۔ بہرحال اس سال ہماری تین بڑی ترجیحات ہونی چاہئیں: صاف اور شفاف انتخابات ‘ معیشت کو درست راہ پر گامزن کرنا اور دہشتگردی کی عفریت کو کچلنا۔ یہ مشکل امر ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اگر سارے فریق ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے تو مسائل کا حل ناممکن نہیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اگلے برس بھی ہم یہی رونا رو رہے ہوں گے۔ فرق صرف یہی ہوگا کہ تب تک ہم مزید مواقع ضائع کرچکے ہوں گے اور بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوگا۔ 2023 کئی لحاظ سے اہم سال ہے، اس کو ’استحکام جمہوریت‘ کا سال قرار دینا چاہئے، ایک دوسرے کی سیاسی حقیقت تسلیم کرکے پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں بیٹھیں اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کریں۔ جمہوریت میں ’قبولیت‘ کوئی چیز نہیں ہوتی ’مقبولیت‘ کے آگے سرتسلیم خم ہونا چاہئے،سرفراز زاہد نے کیا خوب کہا ہے: سال گزر جاتا ہے سارا اور کلینڈر رہ جاتا ہے اہلِ پاکستان کو عزم کرنا چاہیے کہ اِس سال اپنے معاملات کو درست کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ یہ سب کچھ محض سوچنے یا عزم کرنے سے نہیں ہوسکتا۔ عمل کی دنیا میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے بھرپور تگ و دَو کرنا لازم ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں اپنی بقاءیقینی بنانا ہے۔ محض خرابیوں اور عدم استحکام سے دوچار ہونے کا زمانہ گیا۔ اب تو بقاءکا سوال اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ سال ہمارے ارادوں کو مزید مضبوط کرے اور نیتوں کا اخلاص بھی بڑھائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ذاتی مفادات کی سطح سے بلند ہوکر ملک و قوم کے لیے سوچنے کی توفیق نصیب ہو۔