بھٹوکے نظریات سے دور ہوتی پیپلزپارٹی !

آج 5جنوری سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ ہے، بھٹو آج کی سیاست میں ہمیں ہر پل شاید اس لیے یاد آتے ہیں، یا ہمیں اُن کی کمی ہمیشہ اس لیے محسوس ہوتی ہے کیوں کہ اُن کے بعد اُس لیول کا سیاسی رہنما نہ ہم نے کبھی دیکھا اور نہ سنا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی سیاست میں ایک انوکھے کردار تھے۔ جنہوں نے امیروں کی سیاست کو غریب کی دہلیز پر آ کھڑا کر دیا۔ ووٹ کی پرچی اور شناختی کارڈ کی پہچان اورطاقت سے انہوں نے غریبوں کے مردہ جسموں میں جان ڈالی۔ مسٹر بھٹو پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ بنے۔ صدر ایوب سے نہ بنی تو اپنی پارٹی بنا کر الگ سیاسی جماعت قائم کی کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں ایک نئی سیاسی جماعت کی اشد ضرورت۔کیونکہ وزیر خارجہ بننے کے بعد انہوں نے سیاسی جماعتوں میں خد و خال دیکھے۔ 70 کے دہائی میں عام انتخابات ہوئے تو وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلے وزیر اعظم پاکستان بنے۔ پاکستان کو متفق کے طور پر 73 کا آئین دیا۔ جسے تمام سیاسی جماعتوں، مختلف شعبوں اور مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی عوام، لوگوں نے نہ صرف اسے دل سے قبول کیا بلکہ سراہا بھی گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی طبقہ 73 کے اس آئین کو اسلامی آئین کا درجہ تک دیا گیا ہے۔ آئین دینے کے علاوہ پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور کھل کر اس کا دفاع بھی کیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھا۔ آج بھی پاکستان ان کی بنائی ہوئی خارجہ پالیسیوں کے اثرات سے فائدہ حاصل کررہا ہے۔ بھٹو کی خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے چین اور روس جیسے ممالک پاکستان کے قریب آئے اور پاکستان مسلم امہ کی نگاہوں کا مرکز بھی بن گیا۔ تمام عالم اسلام کے سرکردہ رہنما بھٹو کو اپنا محسوس کرنے لگے۔ اسی دور میں عالمی اسلامی ممالک کا سربراہ اجلاس لاہور میں ہوا۔ اسی دور میں اسلامی بینک جیسے ادارے بنے اور او آئی سی جیسے فورم بھی۔ تاکہ مسلم دنیا کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ یہ بات مغربی حکمرانوں کو بالکل پسند نہ آئی اور مغربی دنیا بھٹو کی دشمن ہوگئی۔پھر اس کے بعد 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاءالحق نے ملک میں مارشل لاءلگاتے ہوئے بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا۔ بھٹو کو کابینہ سمیت نظر بند کردیا، اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ اور تین ماہ میں عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ یوں بھٹو کی سیاسی زندگی کے تیسرے دور کا خاتمہ ہوا اور آغاز ہوا ایک عہد ساز شخصیت کے زوال کا۔اور پھر یوں ہوا کہ ایک احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ کھلنے کی دیر تھی بھٹو کو پہلے لاہور ہائیکورٹ میں پھانسی ہوئی، پھر سپریم کورٹ نے بھی اس سزا کو برقرار رکھا۔ اور پھر 4اپریل کو پھانسی پر چڑھ گئے۔ عدالتی فیصلے پر پی پی پی کے نامور رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا: شہادتوں کے تقابل سے کچھ ملا تو نہ تھا کیا تھا جبر عدالتوں نے یہ فیصلہ تو نہ تھا ذوالفقار علی بھٹو ایک نظریہ کا نام تھا، جسے پھانسی نہ مار سکی۔ جس کی جماعت ایک سیاسی تحریک کا نام اور غریب کی ترجمان تھی۔ جس کی جماعت کو آمرانہ ادوار کے جبر نہ ختم کرسکے اور پھانسی کے بعد بھی لوگ ”زندہ ہے بھٹو“ کا نعرہ لگاتے رہے۔یہ وہی وقت تھا جب چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی کا ہی سکہ چلتا تھا۔ کیا پنجابی، پشتون، سندھی بلوچی، یا کشمیری یہاں تک کہ کراچی کے اردو بھائی ہوتے ایم کیو ایم میں تھے مگر ان لوگوں کی دل پیپلز پارٹی کے ساتھ دھڑکتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو ہو یا بے نظیر بھٹو ان کے ایک اشارہ پر ہزاروں لاکھوں افراد امڈ آتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے پاس اثاث تھی، سوچ تھی، فکر فلسفہ تھا۔ تب ہی ذوالفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے کہ یہاں دو بھٹو ہیں ایک میں ہوں دوسرا آپ ہیں۔ تب پارٹی تنظیم سازی نظم و ضبط ہوا کرتا تھا۔جبکہ اس کے برعکس موجودہ پیپلزپارٹی عوامی پارٹی نہیں بلکہ جوڑ توڑ کی پارٹی بن چکی ہے، اور سمٹ کر ایک صوبے یعنی صوبہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جبکہ اب تازہ سیاسی بحران کے بعد وہ مرکز اور پنجاب میں اپنے پاﺅں جمانا چاہتی ہے۔ حالانکہ پنجاب کے عوام اُنہیں لگاتار کئی الیکشن میں مسترد بھی کر چکے ہیں۔ابھی بھی پنجاب کی سیاست میں اگر زرداری صاحب حصہ لے رہے ہیں تو وہ یا تو ن لیگ کے بل بوتے پر یا چوہدری برادران کے ذریعے حصہ لے رہے ہیں۔ لیکن جوڑ توڑ کے ماہر آصف علی زرداری کی خصوصیت کہہ لیں یا کچھ اور کہ عملی اور فلاحی سیاست میں اُن کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ فلاحی و عوامی سیاست اس لیے کہا کیوں کہ ابھی تک بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی نے کبھی تعمیری سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ بھٹو اور زرداری میں یہی فرق ہے کہ بھٹو پروگرام پر بات کرتا تھا، جبکہ زرداری صاحب یا موجودہ پی پی پی کی قیادت کے پاس کیا پروگرام ہیں؟ یہی پروگرام ہیں کہ آج عمران خان کو نیچا دکھانے کے لیے پنجاب لے لو۔ چوہدری شجاعت سے بات چیت کے ذریعے اقتدار میں اتھل پتھل پیدا کردو۔ کل فلاں کوتوڑ لو، پرسوں کسی اور بندے کو توڑ لووغیرہ۔اس کے علاوہ پی پی پی آج اُلجھنوں کا شکار ہے، نہ وہ صحیح طرح اپوزیشن میں بیٹھتی ہے نہ اقتدار کے ایوانوں میں ۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے اِن بے وقت کی الجھنوں نے پیپلزپارٹی کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ اندھیرا کس طرف ہے اور اجالا کس طرف؟ پیپلزپارٹی کے ہاں اضطراب ہے؛ مکمل اضطراب۔ سوچوں کا بوجھ ایک کندھے پر ہے اور فیصلہ سازی کا فقدان دوسرے کاندھے پر۔ پیپلزپارٹی ابہام اور غیر یقینی کی اندھیری گلی میں کسی ”مانوس جگنو“ کی تلاش میں ہے۔ دیکھئے یہ تلاش کب ختم ہوتی ہے، ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ اگر پیپلز پارٹی میں جان ڈالی جاتی، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح دوبارہ پیپلز پارٹی کو عوامی پارٹی بنا کر چاروں صوبوں میں مزید پھیلا کر کام کیا جاتا۔ تو آج پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کرپشن بدعنوانی، قبضہ گیری، قبیلائی دہشتگردی، بدامنی، پولیسنگ، منی لانڈرنگ میں نہ ڈوبی ہوئی ہوتی۔ اور نہ ہی نیب میں جیل قید بھگتتے!لہٰذاپیپلزپارٹی مرکز یا پنجاب میں اُس وقت تک نہیں آسکتی جب تک یہ عوام کے دلوں پر راج نہیں کرتی، یہ عوام کے قریب نہیں جاتی۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی عوام کے زیادہ قریب تھی، اُس وقت بھٹو کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے اُسے ضیاءنے شہید کیا۔ لیکن ان سیاستدانوں خصوصاََ پیپلزپارٹی کے حالیہ رہنماﺅں سے کسی کو خوف ہی نہیں ہے، سب کو علم ہے کہ یہ تو For Saleہیں، جبکہ بھٹو نے جلاوطن ہونے کی نسبت موت کو گلے سے لگایا۔ جبکہ یہ لوگ تو فوراََ ملک سے باہر بھاگ جاتے ہیں، لہٰذایہ پیپلزپارٹی کیسے پنجاب میں آسکتی ہے؟ اور یہ سوچا جائے کہ جو پیپلزپارٹی پنجاب یا پاکستان کے عوام میں مقبول تھی، اُس کی آخر وجہ کیا تھی؟ بہرکیف بھٹو کی ذات پر سیاسی نوعیت کے کئی الزام لگ سکتے ہیں، مگر مالی بدعنوانی کا ایک بھی الزام بھٹو سمیت ان کے کسی قریبی رفیق پر بھی نہیں لگ سکتا۔ مگر آج کی پی پی پی اور اس کی قیادت کرپشن کا استعارہ ہے، جس نے بھٹو کا نظریہ دفن کرکے زرپسندی کا نظریہ اپنا لیا۔ اور یوں غریب، کسان، مزدور، ہاری، مظلوم، محکوم، اور بے نوا پاکستانی کا بھٹو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مر گیا ہے، اس وقت پیپلز پارٹی کے پاس ووٹ تو ہے مگر وہ بھی نظریاتی ووٹ نہیں پٹواری، چوکیداری، کلرک کی نوکری والوں کا ووٹ ہے۔ بلکہ سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں، نوابوں ڈکیتیوں کا ووٹ ہے جو پولیس کی مدد سے کرمنلز کی مدد سے بندوق پیسے لالچ خوف کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔اس وقت حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سرکار چاروں صوبوں کے بجائے سندھ کے سرداروں وڈیروں، کرمنلز اور پولیس کے رحم و کرم پر سانس لے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی جہاں لاہور میں بنیاد ڈالی گئی لاہور میں وہاں سے ختم ہو کر آزاد کشمیر، کے پی کے سے ختم ہوتی ہوئی پنجاب میں مکمل صفایا ہونے کے بعد بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں سے بھی پیپلز پارٹی صاف ہوتی ہوئی سندھ میں گزشتہ 16 سالوں سے سرکار جبری مسلط کی گئی ہے۔ صرف لاڑکانہ اور سکھر ریجن تک بچی ہوئی ہے۔ جہاں جے یو آئی اس وقت دونوں ریجن میں پیپلز پارٹی کو ہرانے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ تعلیم کا ستیہ ناس کر دیا گیا۔ رشوت خوری۔ کمیشن نے تمام اداروں کا بیڑہ ہی غرق کر دیا ہے۔ صرف تھر، عمر کوٹ میں بھوک اور خوراک کی کمی کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ابھی بھی سندھ میں سیلاب کو گزرے 5ماہ ہو چکے ہیںمگر ابھی تک فنڈز ملنے کے باوجود ریلیف کا کام مکمل نہیں ہوسکا۔ یقین مانیں! شہید بھٹو کے آبائی گڑھ لاڑکانہ میں ایڈز کی خطرناک بیماری میں ہزاروں معصوم بچے افراد مبتلا ہو گئے ہیں جس میں سینکڑوں بچے افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ صرف سندھ میں ہیپاٹائٹس اے بی، سی میں 50 لاکھ سے زائد افراد مبتلا ہیں۔جبکہ سینکڑوں اس بیماری اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے قبروں تک جا پہنچے ہیں۔ سندھ بھر میں سانپ اور کتے کے کاٹنے کی ویکسین تک فراہم نہیں کی جا رہی۔ لاڑکانہ، جامشورو اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد اور بچوں کو کتے کاٹ چکے ہیں۔ محکمہ تعلیم کی یہ صورت حال ہے کہ 10 سالوں میں تعلیمی اداروں کی ریپیئرنگ کے مد میں آنے والی ساری رقم کرپشن کے نظر ہو گئی ہے۔ سندھ کے محکمہ خوراک میں اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔لوگوں میں احساس محرومی بڑھ رہاہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کیوں کہ یہ جماعت اب اسٹیبلشمنٹ کے آئی سی یو میں ہے، جسے عارضی چلانے کی مشق ہو رہی ہے۔ سندھ کی عوام اس وقت سوچنے پر مجبور ہے کہ وہ کون سا راستہ اپنائیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ پیپلز پارٹی میں بدعنوانی، کرپشن کی وجہ سے وہ اپنی اثاث کھو بیٹھی ہے۔ لہٰذاپیپلزپارٹی کو بھٹو کی سالگرہ کے دن اُن کے عزم کو پھیلانے اور اپنی پارٹی میں اُسے دوبارہ لانچ کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے بلاول زرداری کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ورنہ پیپلزپارٹی رواں سال کے جنرل انتخابات میں ماسوائے اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے وہ چند سیٹیں بھی نہیں لے سکے گی!