ٹیکنو کریٹس کی متوقع حکومت: یہ کس کو جوابدہ ہوں گے؟

اس وقت پاکستان کی طول و عرض میں ٹیکنو کریٹس حکومت کی گفت و شنید سنائی دے رہی ہے میڈیا کے اندر اور ٹی وی ٹاک شوز میں اس طرح کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں کہ انڈر گراونڈ ٹیکنو کریٹ حکومت کی تیاری جاری ہے شبر زیدی نے پہلی بار اس کے بارے میں ایک نامعلوم ذرائع سے خبر نشر کی، یہ بھی بتایا گیا کہ یہ حکومت شاید دو سال تک چلے گی اس بارے میں فواد چوہدر ی کے کچھ بیانات بھی سامنے آئے جبکہ خود عمران خان نے اس طرح کی کسی حکومت کے بنانے کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا اور جلدی انتخابات پر زور دیا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ جو صاحبان ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے ذریعہ قوم کو معاشی مسائل کے حل کا خواب دکھا رہے ہیں ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ کب، کہاں اور کس نے ان کے ساتھ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے بارے میں صلاح مشورہ کیا؟ اگر اس سوال کا جواب مل جائے تو پھر اس غیر آئینی تجویز پر غور کرنے والوں سے پوچھ گچھ کی جائے کہ وہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور اگر کوئی نام نہیں بتایا جاتا تو پھر یہ شوشہ چھوڑنے والے کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے۔ کیوں کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا تصور نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ عوام دشمنی پربھی مبنی ہے۔ کیوں کہ دیکھا جائے تو وطن عزیز کو گزشتہ 75سال سے ٹیکنوکریٹس ہی چلا رہے ہیں، اگر اُن سے پہلے اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکا تو اب کیا ہوگا؟ اور میرے خیال میں تو ان ٹیکنو کریٹس نے ہی ملک کو ڈبویا ہے، نہیں یقین تو خود اندازہ لگائیں جب بھی مارشل لاءلگتا ہے تو جو ”ایکسپرٹ“ لائے جاتے ہیں کیا وہ ٹیکنو کریٹ نہیں ہوتے؟ اور پھر انہی کے ادوار کا طائرانہ جائزہ لیں تو آپ کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ مثلاََ جنرل ایوب کے دور میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں نفرت کے ایسے بیج بوئے گئے کہ ملک دو لخت ہوگیا، پھر جنرل ضیا کے دور میں ملک کی ”شخصیت “ہی یکسر بدل گئی، یہاں مذہبی جنونیت کی ایسی داغ بیل ڈالی گئی کہ جس کے اثرات 5دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ختم نہ ہوسکے۔ پھر کسے علم نہیں کہ مشرف نے طالبان کا تحفہ ہمیں تھماد یا۔ جس نے 75ہزار سے زائد پاکستانیوں کی قربانی وصول کی اور ساتھ اربوں ڈالر کا نقصان بھی اُٹھانا پڑا۔ الغرض مارشل لاءبھی ٹیکنو کریٹس کی حکومت کی دوسری قسم ہوتی ہے، جس میں تمام لوگ ”سربراہ “کی پسند ناپسند پر لگائے یا اُتارے جاتے ہیں۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ٹیکنو کریٹس کو امپورٹ کرنے کی روایت بڑی پرانی ہے،یہاں سینکڑوں قسم کے سیاستدان و ماہرین و مشیر تعینات کیے جاتے رہے ہیں، یعنی سب سے پہلے سیدامجد علی کو 1955ءمیں امریکہ سے لاکر وزیر خزانہ بنایاگیا۔ کئی سال کے بعد ان کے بھائی سید بابر علی 1993ءمیں پاکستان کے نگران وزیر خزانہ بنے۔ امریکہ سے امپورٹڈ ٹیکنو کریٹس کو وزیر خزانہ بنانے کی روایت کو جنرل ایوب خان نے مزید آگے بڑھایا۔ انہوں نے 1958ءمیں عالمی بینک کے ایک ملازم محمد شعیب کو پاکستان کا وزیر خزانہ بنایا۔ موصوف 1966ءتک وزیر خزانہ رہے اور پھر واپس عالمی بینک میں چلے گئے۔ جنرل یحییٰ خان نے وزارت خزانہ نیوی کے ایک سینئر افسر ایس ایم احسن کے حوالے کر دی۔ جنرل ضیاءالحق نے 1977ء میں مارشل لاءلگایا تو ایک سابق بیورو کریٹ غلام اسحاق خان کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ آٹھ سال بعد ان کی جگہ عالمی بینک سے امپورٹڈ ڈاکٹر محبوب الحق کو وزیر خزانہ بنادیا۔ سرتاج عزیز بھی جنرل ضیاءالحق کی دریافت تھے جو بعد میں بار بار وزیر خزانہ بنے۔1993ءمیں معین قریشی کو امریکہ سے بلا کر وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ موصوف کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ بھی نہیں تھا۔ معین قریشی پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے تو انہوں نے پاکستان کا شناختی کارڈ بھی بنوا لیا۔ پھر جنرل مشرف کے دور میں شوکت عزیزکو امریکہ سے لا کر پہلے وزیر خزانہ اور پھر وزیراعظم بنا دیاگیا۔ شوکت عزیز کو شارٹ کٹ عزیز بھی کہا جاتا تھا۔ وہ بھی شوکت ترین کی طرح نجی بینک سے وابستہ تھے اور جب وزارت عظمیٰ سے نکلے تو واپس امریکہ چلے گئے۔ یہ ٹیکنو کریٹس جب بھی کسی سیاسی حکومت یا نگراں حکومت میں شامل ہوئے تو انہوں نے پاکستانی عوام کی بجائے ان اداروں کے مفادات کا زیادہ خیال رکھا جہاں سے ان کو لایا گیا تھا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے کئی گورنر بھی امپورٹڈ تھے۔ رضا باقر کے علاوہ ڈاکٹر محمد یعقوب اور اشرف محمود واتھرآئی ایم ایف سے آئے۔ شمشاد اختر اور ڈاکٹر عشرت حسین عالمی بینک سے اور سید سلیم رضا نجی بینک سے آئے۔ ان سب ٹیکنوکریٹس نے مل کر ہماری معیشت تباہ کی۔ جبکہ ان کے برعکس ہمار ے سیاستدان قدرے بھولے ہیں ، جو انہی امپورٹڈ لوگوں کے اعلانات کو اپنے اعلانات بنا کر نمبر ٹانگتے رہے، جب ان سمیت عوام کو چونا لگ چکا ہوتا ہے تو پھر ان کی شکلیں دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں، لیکن بہرحال جوابدہ تو انہی کو ہونا ہوتا ہے، جو عوامی طاقت سے اقتدار میں آتے ہیں، اور انہی سیاستدانوں نے براہ راست عوام کو حساب بھی دینا ہوتا ہے، جبکہ اس کے برعکس ٹیکنوکریٹس کسی کو جواب دہ بھی نہیں ہوتے، نہ ہی انہیں پوچھنے والا کوئی ہوتا۔ اور پھر تیسری بات یہ کہ سارا سینیٹ ہی ٹیکنو کریٹس سے بھرا پڑا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے اسے پارٹی میں پیسے خرچ کرنے والوں کے لیے بھر دیا ہے، جو ناتو کسی بھی لحاظ سے اپنی اپنی فیلڈ کے ایکسپرٹ ہیں اور نہ ہی کسی لحاظ سے اُن کی جگہ بنتی ہے، بلکہ اس کے برعکس جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے وہ تاحیات اپنے نام کے ساتھ سینیٹر کا لفظ جوڑ کر مزید مالدار بن جاتا ہے۔ حالانکہ سینیٹ میں کچھ لوگ بطور ایکسپرٹ کام بھی کر رہے ہیں، یا کرتے رہے ہیں جن میں اعظم نذیر تارڑ، رضا ربانی، مصدق ملک ، اعتزاز احسن وغیرہ جیسے لوگ بھی شامل ہیں مگر ایسے لوگ محض چند ایک ہی ہیں۔ اور پھر چوتھی بات یہ کہ ان ٹیکنوکریٹس کی سلیکشن کون کرے گا؟ وہی کریں گے؟ جو پہلے بھی کر رہے ہیں مثلاََ سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو سابق آرمی چیف نے براہ راست منتخب کیا تھا۔اس کا ذکر ایک سینئر صحافی بھی کر چکے ہیں کہ صحافیوں کے ساتھ جنرل قمر جاوید کی ملاقات کے بعد وہ بار بار اسد عمر کی کارگردگی کے حوالے سے خاصے پریشان تھے، اور شوکت ترین یا حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنانا چاہ رہے تھے، پھر اُس کے بعد اگلے دو دن کے اندر اسد عمر فارغ ہوگئے اور حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنادیاگیا۔ یہ صاحب جنرل پرویز مشرف کی دریافت تھے۔ انہیں پہلے سندھ کا وزیر خزانہ بنایا گیا۔پھر مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر سینیٹر بنا کر اسلام آباد لایاگیا۔ بعد ازاں انہیں پیپلز پارٹی میں شامل کرایا گیا اور جب پیپلز پارٹی شوکت ترین سے مایوس ہوگئی تو پیپلز پارٹی پر حفیظ شیخ کو بطور وزیر خزانہ مسلط کردیا گیا۔ 2018ءمیں یہ صاحب مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں پہنچ گئے اور 2019ءمیں وزیر خزانہ بن گئے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ پیپلز پارٹی نے بھی شوکت ترین اور حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنایا اور عمران خان نے بھی ان دونوں ٹیکنوکریٹس کی خدمات حاصل کیں۔خان صاحب کے دور میں ا سٹیٹ بینک کا گورنر رضا باقر براہ راست آئی ایم ایف سے امپورٹ کیا گیا۔ عمران خان نے چار وزرائے خزانہ اور چھ سیکریٹری خزانہ بدلے۔خیر چھوڑیں بقول شاعر بات دور تک نکل جائے گی بات نکلے گی تو پھر دور تَلَک جائے گی لوگ بے وجہ اُداسی کا سبب پوچھیں گے بہرکیف ٹینکو کریٹس حکومت کی ٹرم پہلی دفعہ امریکا میں 1919ءمیں استعمال ہوئی تھی، یہ ایک ایسی حکومت تھی جس کے اندراپنے فیلڈ کے بہت ماہر اور تجربہ کار جیسے انجنیئرز، سائنسدان ،ڈاکٹرز ،لایرز،ٹیچرز ارکیٹیکچرز اور دیگر اعلی عہدیداروں کو لیا گیا تاہم ہمارے ہاں ایسا ممکن نہیں ۔پھر ”گریٹ ڈپریشن 1930“ کے وقت نیو یارک میںScott Howard نے ٹیکنو کریٹ حکومت کی بنیاد رکھی تھی تاہم اس میں شامل ممبرز سائنسدان،انجنیئرز تھے یا ڈاکٹرز،1930میںگریٹ ڈپریشن کے وقت لوگوں کی بھی نظریں ان ماہرین پر لگی ہوئی تھی جنہوں نے قوم کو مشکل سے نکالنا تھا امریکی صدرروز ویلٹ نے گریٹ ڈپریشن کے بعد زبرد ست انقلابی اقدامات اٹھائے اور ریفارمز لائے ۔ آج بھی آپ کینیڈا یا ناروے کی حکومت میں شامل وزیروں اور مشیروں کا پروفائل اٹھا لیں تو 75 فیصدوزیر اپنے فیلڈ میں ماہر لوگ ہونگے آدھے اس میں انجنیئرز ڈاکٹرز یا سائنس دان ہوتے ہیںمجال ہے کوئی بھی ذاتی ملکیت اور مفاد کی بات کریں اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو قانون سے بچنا ناممکن ہے روس کی پچھلی حکومت میں 89 فیصدممبرز تو انجنیئرز تھے جو حکومت 1986میں leonid Brezehevنے روس میں بنائی تھی اس میں سوشلسٹ نظریہ کے حامل ماہر لوگ تھے ایسے ممالک میں جب وزیروں مشیروں کو لیا جاتا ہے وہ ٹیکنیکل ماہر ہوتے ہیں اسلئے ان کو ٹیکنو کریٹ کہا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں؟؟؟ اللہ ہی حافظ ہے۔ 90فیصد ساجھے ماجھے اکٹھے کیے ہوئے ہیں۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ اگر مقتدر حلقوں نے کچھ کرنا ہے تو ساری پارٹیوں کو ایک میز پر بٹھائیں، کیوں کہ ملک کو جب بھی ٹھیک کرنا ہے، تو ان سیاستدانوں نے ہی ٹھیک کرنا ہے، جو کسی کو جواب دہ تو ہوں گے۔ جو لوگ کسی کو جواب دہ نہیں، بھلا وہ کیسے ملک ٹھیک کر سکتے ہیں؟ پھر آئن سٹائن دنیا کی تاریخ کا سب سے ذہین شخص تھا،1952میں امریکا کی صدارت کی پیش کش ہوئی جسے اُس نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ کام وژنری لوگوں کا ہے، میں ذہین ضرور ہوں مگر میں وژنری نہیں ہوں، قیادت کرنے کے قابل نہیں ہوں اس لیے میں معذرت چاہتا ہوں۔ الغرض ہمارے ہاں وژنری ہونے کی کمی کے ساتھ ساتھ نئی قیادت کو حوصلہ دینے کی ضرورت ہے جو جلد شفاف الیکشن کی صورت میں ہی ممکن ہو سکتی ہے ورنہ نہیں!