اگر PTI کی حکومت ہوتی تو پھر بھی معیشت ایسی ہوتی؟

ایک وقت تھا جب جاپان کے حالات بھی پاکستان جیسے تھے، بلکہ اس سے بھی بدتر تھے، کیوں کہ اُس وقت یعنی دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اتحادی ممالک نے جرمنی اور جاپان سے تاوان کے معاہدے کئے۔ اور چونکہ متحدہ ہندوستان کے فوجیوں نے اس جنگ میں اتحادیوں کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔اس لیے پاکستان بھی اس تاوان کی رقم میں حصہ دار قرار پایا۔ لیکن ہم نے دریا دلی دکھائی اور جاپان کے حالات دیکھتے ہوئے تاوان کی رقم معاف کر دی۔ اس سلسلے میں ایک معاہدہ 1952میں جاپان اور پاکستان کے سفارتی تعلقات سے قبل طے پایا۔جاپان سنبھلا، جاپانیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کھیت سے منڈیوں تک پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دے گا، اس کے لیے اُس نے پورے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کیا ، اور زرعی انقلاب پیدا کر دیا۔ جس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ تین سال کے عرصے میں یعنی 1955میں حکومت جاپان نے پاکستان کو اقتصادی امداد کی فراہمی شرو ع کر دی اور کولمبو منصوبے کے تحت پاکستانی باشندوں کو جاپان میں ٹریننگ کی سہولت فراہم کی۔ 1990میں جاپان پاکستان کا سب سے بڑا اقتصادی امداد دہندہ بن گیا اور 2000کی دہائی میں پاکستان کے قرضوں کی معافی کے لئے کئی معاہدے کئے۔مطلب! جس ملک نے جاپان کو تاوان کی رقم معاف کی تھی، وہی جاپان 2000ءمیں پاکستان کے قرضے معاف کروانے کے لیے تگ و دو کر رہا تھا۔ یہ سفر جاپان نے اپنی پالیسیوں کے تسلسل کی وجہ سے شروع کیا اور آج یہ دنیا کا ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔ جس کا معیشت میں چوتھا، بہترین رہائش والے ملکوں میں پہلا اور زندگی کے ہر موڑ پر سب سے بہترین ملک قرار پا چکا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان کے حالات تباہی کی طرف جا تے رہے۔ہر گزرتا دن ہمارے لیے برا ثابت ہوا۔ عوام کو مہنگائی نے گھیرے رکھا، روٹی ، کپڑا اور مکان کی پریشانیوں سے عام پاکستانی نکل ہی نہ سکا۔ جس کی وجہ سے اُس کی تمام تر توانائیاں ضائع ہوتی رہیں۔ جبکہ آج بھی عوام کو ریکارڈ30 فیصد افراط زر یعنی مہنگائی کا سامنا ہے، جبکہ حکومتی سطح پر حالات یہ ہیں کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 4سال میں نچلی ترین سطح 5.5 ارب ڈالر پر پہنچ گئے جس میں ایک ارب ڈالرکا قرضہ 10جنوری کو ادا کرنا ہے، ڈالر کی طلب کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر 257روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، معاشی ماہرین کے مطابق ڈالر مصنوعی طور پر انٹر بینک میں 227روپے پر رکھنا آنے والے مہینوں میں ممکن نہیں ہوگا، خطے میں پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں سب سے خراب کارکردگی رہی ہے اور 2022ءمیں پاکستانی کرنسی کی ویلیو 50روپے کم ہوئی۔ جنوری 2022ءمیں پاکستانی روپے کی قدر 176.75روپے تھی جبکہ سال کے آخر میں اسکی قدرکم ہو کر 227روپے پر آگئی۔ جنوری سے دسمبر 2022ءمیں زرمبادلہ کے ذخائر میں 67فیصد کمی ہوئی جو 16.6ارب ڈالر سے کم ہو کر 5.5ارب ڈالر پر آگئے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان بزنس کونسل نے اپنا ہنگامی معاشی پروگرام جاری کردیا ہے جسکے مطابق حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ IMF سے جلد از جلد قرض پروگرام کو بحال کرے، نان کمرشل غیر ملکی قرضوں کو ری اسٹرکچر کیا جائے، ساتویں NFC ایوارڈ پرازسرنو مذاکرات کئے جائیں، ایکسپورٹ کیلئے منگوائے گئے خام مال کو کلیئر کرنے کی فوری اجازت دی جائے اور ڈالر کی افغانستان کو غیر قانونی اسمگلنگ روکی جائے۔ IMFکی سب سے بڑی تشویش حکومت کے پاور سیکٹر کے 4000ارب روپے کے گردشی قرضے ہیں جن میں پاور سیکٹر کے 2500 ارب روپے اور گیس اور LNG سیکٹر کے 1500ارب روپے شامل ہیں۔ آج جاپان 2ہزار ارب ڈالر کی معیشت جبکہ ہم تجارتی خسارہ پورا کرنے کی وجہ سے ہمارے بیرونی قرضے 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جو GDP کا 40فیصد ہیں جبکہ 2013 میں یہ قرضے 65 ارب ڈالر یعنی GDP کا 24فیصد تھے۔ خام مال اور پارٹس کی عدم دستیابی کی وجہ سے فارما، پولٹری، موبائل اور ٹیکسٹائل صنعتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں جبکہ انڈس موٹرز، ڈاﺅلینس اور فوجی فرٹیلائزر بن قاسم کی فیکٹریاں بند کردی گئی ہیں جس سے ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔ سویا بین کے 8جہازوں کی شپمنٹ رکنے سے خوردنی تیل اور مرغی کی خوراک کا اسٹاک بمشکل دو ہفتے کا رہ گیا ہے جسکے بعد مرغی کی سپلائی میںکمی سے مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ دواﺅں کی مینوفیکچرنگ کیلئے خام مال کی امپورٹ میں تاخیر سے انکی مینوفیکچرنگ اور سپلائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ سردیوں میںگیس کی لوڈشیڈنگ نے ٹیکسٹائل صنعت کی کمر توڑ دی ہے اور اس طرح مجموعی طور پر بڑے درجے کی صنعتوں کی پیداوار میں 8فیصدکمی ہوئی ہے جو بیروزگاری اور غربت میں اضافے کا سبب بنے گا۔ حکومت اور پی ٹی آئی کی ملکی معیشت پر پریس کانفرنسز میں سیاست چمکانے کیلئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ملکی معیشت ان کی وجہ سے تباہ ہوئی ہے۔ ساتھ ساتھ ملک میں طویل المدت ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کی باتیں بھی کی جارہی ہیں جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس حوالے سے راقم گزشتہ کالم میں تفصیلاََ بیان کر چکا ہے۔ خیر ان ساری مشکلات کے بعد کیا کوئی کہہ سکتا ہے؟ پاکستان آنے والے دنوں میں بہتری کی طرف جا سکتا ہے؟ قطعاََ نہیں! اور کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے؟ کہ جو اس معیشت کو بہتر بنا رہے تھے، اُن کے ساتھ آج کیا سلوک کیا جا رہا ہے؟ اُنہیں کبھی اسلام آباد کے مقدمات میں، کبھی لاہور، کبھی کوئٹہ اور کبھی سندھ میں مقدمات کی پیروی کے لیے رولا جا رہا ہے۔ حالانکہ آپ اُس دور میں یعنی سابقہ حکومت کے دور کو دیکھ لیں تو اُس وقت حکومت میں سب سے زیادہ بہتری ہیلتھ کے شعبے میں آئی۔ ہیلتھ کارڈ نے صحت کے میدان میں انقلابی کام کیا۔ ہیلتھ کوسچ مچ صحتِ عامہ کا محکمہ بنا دیا۔پی ٹی آئی کی حکومت ریونیوکو بھی کہاں سے کہاں تک لے آئی تھی۔ زرِمبادلہ کے ذخائر 22 ارب ڈالر تک پہنچا دئیے تھے۔ ایک ارب سے زائد درخت لگائے گئے۔ کورونا جیسی آفت کو ایسے گزارا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ماہرین کے مطابق تحریک انصاف کے گروتھ ریٹ کے جو نمبر آرہے تھے وہ رشک کرنے والے نمبرتھے۔شوکت ترین کے بقول ہمارے دور میں گروتھ ریٹ چھ فیصد تھا جوآج منفی ہے۔بے شک پچھلے سترہ سال میں سب سے زیادہ گروتھ ریٹ عمران خان کی حکومت میں دکھائی دیتا ہے۔یعنی عمران خان کی حکومت رفتہ رفتہ پاکستان کو معاشی سر بلندی کی طرف لے جارہی تھی۔ پھر عمران خان کے الفاظ میں یوں ہوا کہ ”ایک آدمی نے ہمارے ساتھ دشمنی کی اور ہماری حکومت کو گرادیا“۔ یقیناً حکومت گرانے کے پیچھے وہ طاقتیں بھی ہوں گی جنہیں ترقی کرتا ہوا پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا مگر یہ طے ہے کہ اس کام میں جو ہاتھ استعمال ہوئے۔ وہ ہمارے اپنے تھے۔غلطیاں ہو جاتی ہیں۔انسان خطا کا پتلا ہے مگر جب کوئی اپنی غلطی پربضد ہو جائے تو پھر غلطیوں کے پھاٹک کھلنے لگتے ہیں۔اس وقت بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ مارچ میں خیبر پختون خوا اورپنجاب حکومت توڑدی جائے یعنی ابھی دو ماہ تک کوئی تبدیلی نہ ہو۔دوسری طرف پی ٹی آئی اسی ماہ اسمبلیوں کوتوڑدینے میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔عمران خان سمجھتے ہیں کہ ملک کو معاشی تباہی سے بچانے کا واحد راستہ انتخابات ہیں۔ صرف منتخب عوامی حکومت ہی عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے۔اس وقت معاشی طور پر حالات انتہائی نا گفتہ بہ ہو چکے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے ہوتے 5.6 بلین ڈالر تک آ گئے ہیں۔ یہ گزشتہ دہائی کی کم ترین سطح ہے۔ معیشت ایک سنگین خطرے سے دوچارہے۔دیوالیہ ہونے کے امکانات پچاس فیصد سے بڑھ چکے ہیں۔ایک ماہ سے زیادہ ملک کے مالی معاملات نہیں چل سکتے۔ موجودزرِمبادلہ سے زیادہ سے زیادہ تین ہفتوں کی درآمدات کی ادائیگیاں ہو سکتی ہیں۔بینک غیر ملکی زرِمبادلہ کی ادائیگیوں کی ضمانت دینے سے قاصر ہیں۔ کارگو میں خراب ہونے والی کھانے کی اشیا اور لاکھوں ڈالر مالیت کا طبی سامان بھی شامل ہے۔کراچی کے ایک بڑے اسپتال میں آلات کی کمی کے باعث ایک ماہ سے آنکھوں کے آپریشن بند ہیں۔شنید ہے کہ پاکستان ریلوے بھی ڈیفالٹ کرنے والا ہے۔اس کے پاس صرف تین دن کیلئے ایندھن رہ گیا ہے۔ گریجویٹی کے طور پر تقریباً 25 ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کیلئے رقم نہیں ہے۔ بہرکیف عوام کیلئے مہنگائی ناقابل ِ برداشت ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط اتنی خوفناک ہیں کہ انہیں تسلیم کرنا ممکن نہیں۔ یعنی اس کی طرف سے نئی قسط جاری ہونے کے امکانات بھی پچاس فیصد سے کم ہیں۔ آئندہ ہفتے آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان آئے گی۔ اللہ کرم کرے۔یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ جب تک آئی ایم ایف سے معاملات طے نہیں پاتے ،سعودی عرب اور چین بھی امداد سے گریزاں ہیں۔شاید آرمی چیف خود اسی سلسلے میں سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ اللہ نہ کرے پاکستان دیوالیہ ہو مگر جو ہمارے چلن ہیں وہ قطعاً ایسے نہیں کہ آسمان ہم پر رحم کرے۔جہاں ملک کے مقبول ترین لیڈر کو قتل کرنے کی سازش کی گئی ہو اوراس کیلئے ایف آئی آر بھی اپنی مرضی کی درج کرانا ممکن نہ ہو۔وہاں ہماری دعائیں کیا کام کریں گی۔ اربابِ اقتدار سے درخواست ہے کہ ملک کے معاشی معاملات کوپوری سنجیدگی سے دیکھیں۔پانی خطرے کے نشان سے اوپر جا چکاہے۔کیوں کہ غلطی اُنہی کی ہے، مداوا بھی انہوں نے کرنا ہے ،غلطی اس لیے کہ اگر عمران حکومت اپنے پانچ سال پورے کرتی تو یقینا حالات ایسے نہ ہوتے اور آنے والے دور کا فیصلہ عوام کرتے ناکہ کوئی اور!