گندم سمگلنگ۔۔۔۔۔وفاق کی نااہلی!

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک زرعی ملک میں آٹے کے 20کلو کے تھیلے میں 700روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اور وہ بھی لمبی لمبی لائنوں میں لگ کر بھی عوام کو نہیں مل رہا۔اور کیا آپ یہ بھی تصور کر سکتے ہیںکہ ہمارا وطن عزیز دنیا کا پانچواں بڑا خوراک پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اور یقینا یہ بات بھی آپ کو تصور کرنا ہی پڑے گی کہ ملک پاکستان اس وقت 34سے زائد ممالک کو زرعی اشیاءبرآمد بھی کر رہا ہے۔ لیکن اس کے اپنے حالات ایسے ہیں کہ عوام گندم کے حصول کے لیے پیسے ہاتھ میں لیے ایک ایک ٹرک کے پیچھے ایسے دوڑ رہے ہیں جیسے کسی ملک کا مال غنیمت ہا تھ لگا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ نہ سبزیاں خالص، نہ پھل خالص اور نہ ہی گندم چاول۔ بلکہ سب کچھ کھاد کی بدولت پیدا کیا جا رہا ہے۔ خیر آج بات ہم آٹے کی کریں گے جس کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں اور اکثر مقامات پر یہ نایاب ہوچکا ہے۔ مارکیٹ میں اس کی قیمت یومیہ بنیادوں پر بڑھ رہی ہے، دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بے قابو ہوگئیں۔مرغی، انڈے اور چاول مزید مہنگے جبکہ گھی اور کوکنگ آئل کی ملک گیر قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ بلکہ ایک خبر یہ بھی آئی کہ سستا آٹا خریدنے کی کوشش کرنیوالا آٹھ بچوں کا باپ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا جبکہ نواب شاہ میں اسی صورتحال کی شکار تین خواتین ہجوم تلے دب کر زخمی ہوگئیں۔اس کے علاوہ بلوچستان میں ایک سیل سنٹر پر بھگدڑ مچ گئی ، اور بقیہ سیل پوائنٹس پر لوگ نوکریاں چھوڑ کر آٹے کی تلاش میں مصروف ہیں۔اور یہ صورتحال کسی ایک صوبے تک نہیں بلکہ چاروں صوبوں میں یہی حالات ہیں۔ ہر بڑے شہر اور گردنواح میں آٹے کا بحران ہے، شہر بھر میں منافع خور دکاندار آٹے کے من مانے دام وصول کر رہے ہیں۔ مارکیٹ میں اس وقت آٹا 160 روپے فی کلو میں فروخت کیا جارہا ہے۔پنجاب کے دیگر شہروں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی آٹا 180 روپے کلو ہونے کے بعد خیبر پختونخواہ کے سینکڑوں افراد آٹا حاصل کرنے پنجاب کے ضلع بھکر پہنچ گئے۔اگر کے پی کے کی بات کریں تو خیبرپختونخوا کو روزانہ کی بنیاد پر 15 ہزار ٹن آٹے کی ضرورت ہے، لیکن خیبرپختونخوا حکومت صرف 5 ہزار ٹن آٹا فراہم کررہی ہے جس کے باعث صوبے کا 70 فیصد انحصار پنجاب کی گندم پر ہے۔ پنجاب سے آنے والے آٹے پر بھتہ وصولی سے ڈیلر پریشان ہیں۔ جبکہ سندھ کی بات کریں تو سندھ میں بھی آٹے کی بڑھتی قیمتوں کو لگام ڈالنے کیلئے سندھ حکومت نے مارکیٹ میں فی کلو آٹا 95 روپے میں فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔لیکن یہ اعلان جس طرح سندھ کے سیلاب زدگان کو خوار کیے ہوئے ہے بالکل اسی طرح غرباءکو بھی منہ چڑھا رہا ہے۔ اس مجموعی صورتحال کے پیچھے بڑی حد تک سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی میں ذخیرہ اندوز اور اسمگلنگ مافیا سرگرم دکھائی دیتا ہے اور مجبوراً حکومت کو کثیر مقدار میں ایک مرتبہ پھر گندم درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ گندم کی فصل جب تیار ہوتی ہے، تو اُس وقت بیرون ممالک اسے برآمد کر دیا جاتا ہے، اور حکومتیں ملی بھگت سے منافع کماتی ہیں جبکہ ملک میں جب گندم کی قلت ہوتی ہے تو عین اُسی وقت سبسڈی دے کر گندم درآمد کرلی جاتی ہے۔ جس سے حکومتی عہدوں پر بیٹھے حلال نہ کھانے والے افسران و سیاستدان ڈبل منافع کماتے اور اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ خیر آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ،اور سنا جا رہا ہے کہ گندم کو مہنگے داموں افغانستان سمگل کرکے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ ان غیر قانونی اقدامات کی کوئی ذمہ داری لینے کو بھی تیار نہیں ۔ صوبے اس کا سارا ملبہ وفاق پر اور وفاق صوبوں پر ڈال رہا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو اگر یہ الزام درست ہے کہ تمام گندم افغانستان سمگل ہو رہی ہے اور اس میں کے پی کے حکومت ملوث ہے تو میرے خیال میں اس میں کوئی سچائی دکھائی نہیں دیتی۔ کیوں کہ بارڈرز اور راہداریاں ہمیشہ وفاق کے زیر اہتمام رہی ہیں۔ ان راہداریوں پر موجود افسران اور ادارے بھی براہ راست وفاق کے انڈر کام کرتے ہیں۔ وہاں ایف آئی اے کے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، وہاں افواج پاکستان کے ادارے موجود ہوتے ہیں، وہاں امیگریشن، کسٹم و دیگر ادارے موجود ہوتے ہیں جو تمام کے تمام وفاق کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ لہٰذاایسی صورت میں کیسے ممکن ہے کہ کوئی صوبہ اس غیر قانونی کام میں ملوث ہو سکتا ہے۔ لہٰذایہ میرے خیال میں وفاق کی نااہلی ہے۔ میں ایسا اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ یہ چھوٹی موٹی چیز تو ہے نہیں کہ آپ چھپ چھپا کر بارڈر کراس کریں اور ملک سے اشیاءدرآمد کر لی جائیں یا باہر بھیج دی جائیں۔ آپ ڈرگز سمگلنگ ، سونے کی سمگلنگ یا دیگر اشیاءکی سمگلنگ توچھوٹے پیمانے پر کسی نہ کسی طرح کر سکتے ہیں مگر تیل، گندم کی سمگلنگ بڑے پیمانے پر ہوتی ہے، جس میں ریاست کے ملوث ہونے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اورپھر افغانستان کی بات کریں تو اس ملک کو تو سمندر بھی نہیں لگتا کہ وہاں سے لانچیں بھر بھر کر روانہ کی جائیں ۔ اور ویسے بھی یہ منی لانڈرنگ تو ہے نہیں کہ ایان علی کے ذریعے کر لی جائے یا ہنڈی کے ذریعے کر لی جائے۔ خیر میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں کہ وہ یہ ہے کہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ بارڈرز کے آر پار چیزیں راہداریوں کے ذریعے جائیں اور مرکزی حکومتوں کو اس کا علم ہی نہ ہو۔ یہاں تو یہ ہوتا آیا ہے کہ مرکزی حکومت فیصلہ کرتی ہے کہ اُس کے پاس گندم بہت ہے، لہٰذااسے باہر بھیج دیتے ہیں۔ یوں چند لاکھ ٹن گندم باہر بھجوا دی گئی۔ باہر ہم سے گندم کس نے خریدنی ہوتی ہے کیونکہ ہماری گندم کا معیار اُن کی کوالٹی شرائط پر پورا نہیں اترتا، لہٰذا ہمارے پاس عالمی گاہک کم ہی آتے ہیں۔ آ جا کر ہم افغانستان کو ہی گندم تحفے میں یا بارٹر پر دے دیتے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے دور میں بھی گندم سکینڈل سامنے آیا تھا جس کی بڑی انکوائری ہوئی تھی لیکن وہ رپورٹ بھی دب گئی کیونکہ کس میں جرا¿ت تھی کہ وہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے خلاف کوئی کارروائی کرتا۔ مزے کی بات یہ کہ جب گندم باہر بھیج دی تو دو ماہ بعد پتا چلا کہ جناب غلطی ہوگئی‘ ہمارے تو اپنے گھر کے دانے پورے نہیں ہو رہے‘ فوراً گندم باہر سے نہ منگوائی گئی تو ملک میں بھوک ناچے گی اور آٹے پر فسادات ہوں گے۔ وہی حکومت جس نے لاکھوں ٹن گندم باہر بھجوا دی تھی، اب اس نے فوراً روس سے چالیس لاکھ ٹن گندم منگوانے کا فیصلہ کیا اور کروڑوں ڈالرز قرض لے کر روس کو ادائیگی کی گئی۔ اس سال بھی روس سے تیس لاکھ ٹن گندم منگوانے کا فیصلہ شہباز شریف نے کیا لیکن ابھی تک یہ قلت دور نہیں ہوئی۔ یوں دو سال میں تقریباً 70لاکھ ٹن گندم ہم روس سے منگوا چکے ہیں اور ذہن میں رکھیں ہمارے پاس ڈالرز بھی نہیں اور پچھلے سال ہم نے تقریباً دس ارب ڈالرز کی گندم، چینی، کپاس اور دالیں قرض لے کر منگوائی ہیں۔ایک زرعی ملک جہاں کبھی گندم‘ کپاس‘ چینی وافر مقدار میں موجود ہوتی تھی‘ اب وہ کہاں غائب ہوگئی؟ چینی کی سن لیں 2019ءمیں چینی کے بارے سابق وفاقی وزیر چلیں میں نام بھی لے لیتا ہوں عبدالرزاق داﺅد نے عمران خان کابینہ کو بتایا کہ ہمارے پاس بیس لاکھ ٹن وافر چینی پڑی ہے، باہر بھجوا دیں۔ اور تو اور اس مد میں چار ارب روپے کی سبسڈی بھی عوام کی جیب سے دی گئی۔ جونہی پتا چلا کہ چینی باہر جا رہی ہے تو ساتھ ہی لوکل مارکیٹ میں چینی کی قلت پیدا ہو گئی اور اس کی قیمت باون روپے فی کلو سے ایک سو بیس روپے تک پہنچ گئی۔ یہی مقصد تھا شوگر ملز مالکان کا۔ انہوں نے عوام کی جیب سے اربوںروپے نکلوا لیے۔ چند دنوں بعد پتا چلا کہ لوکل چینی بھی ختم ہوگئی ہے۔ اپنے کھانے کو بھی نہیں۔ رزاق داﺅد نے عمران خان کی کابینہ کو بتایا کہ دراصل چینی ایسوسی ایشن نے انہیں بیوقوف بنایا تھا۔ انہیں جھوٹے اعدادوشمار دے کر چینی ایکسپورٹ کرالی تھی۔ ہمارے پاس تو اپنے کھانے کے لیے چینی نہیں ہے۔ خان صاحب یہاں بھولے ثابت ہوئے انہوں نے کہا کوئی بات نہیں‘ گندم کی طرح چینی بھی باہر سے منگوا لو۔پھر قرض پر ڈالرز لے کر چینی منگوائی گئی۔ یوں ایک سال عمران خان کابینہ نے گندم اور چینی باہر بھجوا ئی اور اگلے سال اربوں ڈالرز قرض لے کر لاکھوں ٹن واپس منگوا لی۔ بہرکیف بقول شاعر حیراں ہوں دل کو روو¿ں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں بات شروع ہوئی تھی کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ اس زرعی ملک کا رقبہ اب قابل کاشت نہیں رہا۔ کیوں کہ ہمارے اندر ایک جنون بھر گیا ہے اور ہم نے زرعی رقبوں پر ہاﺅسنگ سوسائٹیز بنا لی ہیں۔ اس ملک میں اب اور کچھ نہیں ہو رہا‘ ہر وہ جگہ جو ہری بھری نظر آئی‘ اس پر بورڈ لگا کر‘ فصلیں اجاڑ کر مٹی کے سینے کو سیمنٹ اور سریے سے بھر دیا۔کوئی عقلمند انسان کبھی دریائے راوی کے اردگرد سوا لاکھ ایکڑ زرعی زمین پر تعمیرات کی اجازت دے گا؟لیکن ہماری حکومتیں ایسا بھی کر رہی ہیں، ابھی پچھلے دنوں پنجاب حکومت نے پولیس بھیج کر راوی کنارے رہنے والے کسانوں سے زرعی زمین کا قبضہ لینے کی کوشش کی‘ ان پولیس والوں نے کسانوں کو مارا اور قبضہ کر لیا۔ گندم بونے کے بجائے اب ان زمینوں پر فارم ہاﺅسز اور ولاز بنیں گے۔آپ ملتان چلے جائیں‘ جو کبھی آموں کا شہر تھا‘ وہاں اب ہر جگہ آپ کو رہائشی منصوبے نظر آتے ہیں۔ بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جو ہم پرزوال آرہے ہیں، یہ ایسے ہی نہیں آرہے ضرور ہم سے بقول چچا غالب کوئی غلطی ہوئی ہے! بے خودی بے سبب نہیں غالب کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے