جنیوا کانفرنس اور ہم بھِک منگے!

سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں پاکستان اور اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ”جنیوا کانفرنس“ میں 10ارب ڈالر سے زائد کی امداد حاصل کرنے پر مبارک باد تو نہیں بنتی مگر حکومتی ایوانوں اور اداروں کی خوشیاں دیکھ کر ہمارے چہرے پر بھی احساس شرمندگی نما خوشگوار سی حیرت ہے کہ ایک بار پھر دنیا نے ہم پر کرم کیا اور ہمیں ڈالرز سے نوازنے کے وعدے وعید ضرور کیے۔ ذرا ایک نظر ان وعدوں پر ڈال لیں۔ تو سب سے بڑی رقم کا وعدہ اسلامی ترقیاتی بینک نے کیا ہے جس کے مطابق تین سال کے اندر 4.2ارب ڈالرز دیے جائیں گے۔ عالمی بینک نے دوارب ڈالرز کا وعدہ کیا۔ یورپی یونین نے 97ملین ڈالر، امریکہ نے 100ملین ڈالرز، فرانس نے 408 ملین ڈالرز‘ برطانیہ نے 43.5ملین ڈالرز، جرمنی نے 90ملین ڈالر،جاپان نے 77ملین ڈالرز، چین نے 100ملین ڈالرز، سعود عرب نے ایک ارب ڈالرز‘ ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے ایک ارب ڈالرز اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 500ملین ڈالرز کے وعدے کیے ہیں۔ سعودی ولی عہد کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری 10 ارب ڈالرز تک بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔ کانفرنس میں وعدوں کی رقوم کب اور کس ترتیب سے ملنی شروع ہوں گی، یہ تفصیل ابھی سامنے نہیں آئی۔لیکن ابھی سے ہمارے 14جماعتی اتحاد نے لڑنا شروع کر دیا ہے کہ امداد میں سے کس کس صوبے کا کتنا حصہ ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب بھک منگے بن چکے ہیں، اپنا گھر درست کرنے کی بجائے دوسروں کے آگے بار بار ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ حکومتیں بدل جاتی ہیں اور نئے حکمراں آ جاتے ہیں لیکن معاشی حالات بدلتے ہیں نہ ہمارے اطوار۔ بار بار آئی ایم ایف کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے اپنے دوست ممالک کے دروازے کو بار بارکھٹکھٹاتے اور بھیک مانگتے ہیں تاکہ تباہ حال معیشت کو کوئی سہارا مل جائے جو نہیں ملتا اور اس کی سب سے بڑی وجہ ایک ہے۔ وہ وجہ معیشت پر ہمارے سیاستدانوں کی سیاست ہے۔ معیشت پر اس گندی سیاست نے ایک طرف ملک کا یہ حال کر دیا اور دوسری طرف ہمیںبھک منگا بنا دیا لیکن افسوس کہ ہمارے سیاستدان سیکھتے نہیں۔ وہ لگژری سٹائل اپناتے ہیں، جیسے شاید اُنہیں دوبارہ اقتدار نصیب نہ ہو۔ وہ جب امداد بھی لینے جاتے ہیں تو ہمیشہ فائیو سٹار ہوٹلز میں ٹھہرتے ہیں ، کلب کلاس میں سفر کرتے ہیں، مہنگی گاڑیاں آگے پیچھے ہوتی ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس ”ڈونرز“ ہمیشہ تھری سٹارز ہوٹلز میں ٹھہرتے ہیں،اپنے سفارتخانوں کی گاڑیوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے سیاستدانوں کی ”شان و شوکت“ کو دیکھ کر وہ نا صرف غصے سے لال پیلے ہوتے ہیں بلکہ اس کا برملا اظہار اپنے ملک کے میڈیا پر بھی تمسخر اُڑا کرکرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ایک دہائی قبل اقوام متحدہ کی سفیر کے طور پر انجلینا جولی پاکستان آئیں تو ہمارے حکمرانوں کے شاہانہ انداز دیکھ کر خاصی ”متاثر“ ہوئیں اور دبے الفاظ میں وہ ہمیں خاصا ذلیل کر کے گئیں کہ کسی غریب ملک کا ایسا شاہانہ انداز پہلی مرتبہ دیکھا ہے؟ قصہ مختصر کہ ہمارے صدارتی یا وزیراعظم ہاﺅس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم غریب ملک ہیں؟ یا ہمیں کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہے؟ آپ ہر آفس میں سینکڑوں قسم کا سٹاف دیکھ لیں، ہر وزیر کے ساتھ آپ کو سٹاف کی فوج نظر آئے گی۔ جبکہ اس کے برعکس ڈونر ملک کے وزراءکو دیکھ لیں، کہیں کوئی اضافی سٹاف نظر نہیں آئے گا؟ میں بذات خود چند سال قبل یو ایس ایڈلاہور کے آفس میں گیا ، وہاں پورے آفس میں ایک آدھ آفیسر بیٹھا کام کر رہا تھا۔ میں جس آفیسر سے ملنے گیا، اُس نے مجھے اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر پلائی۔ کوئی دکھاوا نہیں، کوئی برینڈڈ سوٹ زیب تن نہیں اور نہ ہی کوئی پی اے وغیرہ۔ قومیں ایسے ترقی کرتی ہیں! ایسے ترقی نہیں کرتیں کہ سب اپنے اپنے تئیں ہاﺅسنگ سوسائٹیاں لانچ کر دیں۔ اور پھر وہی پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر لے جائیں۔ یا قومیں ایسے ترقی نہیں کرتیں کہ آپ بطور سرکاری نوکر ایسا شاہانہ طرز زندگی اپنائیں کہ دنیا کانوں کو ہاتھ لگائے بغیر نہ رہے۔ مطلب! دنیا کے کسی ملک میں سیکورٹی فورسز ، عدلیہ یا بیوروکریسی کو اتنی سہولیات نہیں دی جاتیں ، جتنی ہمارے ملک میں انہیں دی جاتی ہےں۔ اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ اتنی سہولیات ملنے کے باوجود کارکردگی صفر بٹہ صفرہو تو میرے خیال میں ہمیں بطور قوم شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ یا واقعی دنیا ہمیں صحیح بھک منگا سمجھتی ہے۔ کیوں کہ کسی بھی ملک کے درست ہونے کے لیے یا ترقی کرنے کے لیے سب سے پہلی شرط وہاں کی عدلیہ کا درست طور پر کام کرنا ہے، آج سے 8دہائیاں قبل جرمن فضائیہ نے لندن پر بمباری شروع کی تو برطانیہ کے وزیراعظم، سر ونسٹن چرچل کو ”موت ، تباہی اور تمام معاشی سرگرمیوں کی تباہی“ کے بارے میں بریفنگ دی جا رہی تھی۔چرچل نے پوچھا کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں؟ چرچل کو بتایا گیا کہ ”جج عدالتوں میں موجود ہیں اور درست انصاف فراہم کر رہے ہیں“۔ چرچل نے جواب دیا،خدا کا شکر ہے۔ اگر عدالتیں کام کر رہی ہیں تو کچھ بھی غلط نہیں ہو سکتا۔جبکہ ہمارے ہاں بہترین سہولیات کے باوجود ملک میں عدالتی نظام بہت کمزور ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں بہت سقم ہیں۔ لاکھوں کیسز زیر التواءہیں جس بھی شعبہ زندگی میں جائے۔ ہمیشہ طاقتور قانون سے بالاتر ہیں۔ جبکہ غریب ہمیشہ انصاف کے لیے ترستا رہتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ ہمارا کوئی ریٹائرڈ چیف جسٹس، گریڈ 22کا بیوروکریٹ یا جرنیل سب کی فیملیز باہر رہتی ہیں، اس لیے اُنہیں وطن سے کیا لینا دینا۔ اور پھر یہی نہیں آپ سیاستدانوں کو دیکھ لیں، ہمارے اراکین اسمبلی کی تنخواہیں دیکھ لیں، بنگلہ دیشی، نیپالی اور انڈین پارلیمنٹرین سے دوگنا وصول کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں ماسوائے مرکزی وزراءکے کسی کے پاس لگثری گاڑیاں نہیں ہیں، مگر ہمارے خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم نے تنگدستی کے باوجود 156نئی مرسڈیز منگوائی ہیں۔ اورپھر جو لوگ آج بھی عمران خان کو سپورٹ کر رہے ہیں، وہ اس لیے نہیں کر رہے کہ خان صاحب بہترین لیڈر ہیں، بلکہ یا تو وہ خان کے طرز زندگی کی وجہ سے اُنہیں پسند کررہے ہیں، یا مسئلے کی جڑ اُن کے نزدیک شریف خاندان اور زرداری خاندان ہیں! شریف خاندان اور زرداری خاندان کی مخالفت کی تہہ میں دو اسباب ہیں۔ ایک ان خاندانوں کا لائف سٹائل! دوسرے، پی پی پی اور مسلم لیگ نون پر دونوں خاندانوں کی مضبوط گرفت! کڑی اجارہ داری!ان دونوں خاندانوں کا لائف سٹائل‘ پاکستانی عوام کو ذہنی طور پر کچل کے رکھ دیتا ہے۔ کیا کسی کو اشفاق احمد مرحوم کا ڈرامہ ”فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی“ یاد ہے؟ اس کا لب لباب کیا تھا؟ یہی کہ دولت کی Vulgarاور بے مہار، بے تحاشا، بے محابا نمائش، گناہ تو یقینا ہے، جرم بھی ہے۔ اس نمائش کو دیکھ کر دوسرے لوگ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ محلے میں کوئی امیر ہو اور اسراف اور تبذیر کا ارتکاب کر رہا ہو تو صرف اڑوس پڑوس کے رہنے والے ذہنی اذیت کا شکار ہوں گے۔ لیکن اگر سیاسی پارٹیوں پر قابض خانوادے اپنی بے کنار دولت کو اچھالیں گے تو پورے ملک کے عوام رنجیدہ خاطر ہوں گے اور متنفر بھی! تجزیہ کرکے دیکھ لیجیے۔ پہلے تو میاں نواز شریف کا یہ انداز دیکھیے کہ عملاً ان کا وطن لندن ہے۔ شاید ایک آدھ عید کے سوا، جو مجبوراً پاکستان میں کرنا پڑی، وہ، کم و بیش ہر عید پر لندن ہوتے تھے۔ لہٰذااس لائف سٹائل کو لوگ نوٹ کرتے ہیں۔ اس لائف سٹائل کا پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے آخر کیا تعلق ہے؟ عمران خان جب کہتا ہے کہ شریفوں کا جینا مرنا پاکستان سے باہر ہے تو یہ بات لوگوں کے دل پر اثر کرتی ہے۔ یہ اربوں کا نہیں کھربوں کا لائف سٹائل ہے۔ بہرکیف ہم انہی حرکتوں کی وجہ سے آج دنیا کے سب سے بڑے بھکاری ہیں، ہم تو بھیک لے کر وکٹری کا نشان بناتے ہیں، بندہ پوچھے کہ بھیک لینے کا کونسا کریڈٹ بنتا ہے؟ کس حق سے لیا جا رہا ہے؟ اور پھر یہ جو رقم ملی ہے ، یہ صحیح لوگوں تک تو پہنچنی ہی نہیں ہے، کیوں کہ یا تو ان رقوم کا بندر بانٹ ہو گا یا ان میں سے آدھے سے زائد پیسے ہم ان پراجیکٹس پر خرچ کریں گے جن کا عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ لہٰذااس وقت ہمیں بھکاری بننے کی نہیں بلکہ معیشت کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ 1992 میں بل کلنٹن کی انتخابی مہم کے ایک ماہر چالباز (Strategist)جیمز کارول نے حالات کے عین مطابق ایک جملہ کسا: It is the Stupid Economy اورپھر یہ جملہ کالموں، مضامین اور کتابوں کا سرنامہ بنا۔ انتخابی جلسوں میں نعرہ بن کر لگا۔ اب بھی چل رہا ہے۔ جیمز کارول کا یہ جملہ ان سارے ملکوں میں دہرایا جاتا ہے جہاں معیشت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ان سارے خراب معاشی موسموں میں از خود لبوں پر آجاتا ہے کہ جہاں حکومتیں اور ریاستیں معیشت پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے سیاسی چالبازیوں میںمصروف ہوتی ہیں،اپنے خاندانوں کو عدالتوں سے بری کروارہی ہوتی ہیں، اپنے سیاسی مخالفین کو سیاسی، سماجی، مالی اور حتیٰ کہ جسمانی طور پر ختم کروانے میں لگی ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں اس Stupidityکی وجہ سے پاکستان مشکلات کا شکار ہے، جب تک ہم اپنے طرز عمل کو بہتر نہیں بنائیں گے، کفایت شعاری نہیں کریں گے تب تک ہم کبھی درست نہیں ہو سکتے۔ اس کے لیے ہمیں انفرادی طور پر بہترطرز عمل دکھانے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم ہمیشہ کی طرح نقصان میں رہیں گے یا بھک منگے ہی کہلائیں گے!