ہوش کے ناخن لیں اور جنرل الیکشن کروا دیں!

سب سے پہلے تو ہمیں وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ جنہوں نے عمران خان کے کہنے پر اُن کی امانت ”پنجاب اسمبلی“ تحلیل کردی۔ یہ اخلاقاََ درست عمل تھا، مگر یہ ایک مشکل فیصلہ بھی تھا، جس کے آنے والے دنوں میں یقینا مثبت اثرات مرتب ہوںگے کیوں کہ چوہدری پرویز الٰہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ق لیگ تحریک انصاف میں ضم ہونے کا جلد ہی فیصلہ کرے گی۔ میرے خیال میں یہ ایک بہترین فیصلہ ہوگا، کیوں کہ تحریک انصاف میں ضم ہونے سے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس کا فائدہ ق لیگ کو ہی ہوگا۔ اور راقم اس حوالے سے گزشتہ دنوں ایک کالم بھی تحریر کر چکا ہے کہ ”ق لیگ تحریک انصاف میں ضم ہو جائے“۔ ایسا میں اس لیے بھی کہتا رہا ہوں کہ مونس الٰہی کا مستقبل تحریک انصاف میں روشن ہے، جبکہ ن لیگ جیسی جماعت میں پہلے ہی مریم نواز، حمزہ شہباز وغیرہ موجود ہیں۔ خیر چوہدری پرویز الٰہی بے شک مروج سیاست کے ایوانوں میں قابلِ رشک ہیں کہ پنجاب اسمبلی کے371 کے ایوان میں صرف 10 ارکان اسمبلی کی بنیاد پر وزارت اعلیٰ بھی چلا رہے ہیں اور 13جماعتوں کو بھی خود سے بات چیت پر مجبور کر تے رہتے ہیں۔تحریک انصاف پنجاب اسمبلی میں 180ارکان رکھتے ہوئے بھی اور بہت بار پرویز الٰہی پر شبہات کے باوجود انہیں وزیر اعلیٰ رکھنے پر مجبور اوران کی حمایت کی محتاج ہے اور اسے آئندہ انتخابات میں ان کی بہت سی شرائط بھی ماننا پڑیں گی۔ تحریک انصاف تو پھر حلیف جماعت ہے،(ن) لیگ 167ارکان ہوتے ہوئے اور چوہدری صاحب سے شدید اختلاف رکھتے ہوئے بھی انہیں وزارت اعلیٰ کی پیش کش پر مجبور رہی۔ چوہدری پرویز الٰہی کی اس کامیابی اور تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہونے کا بنیادی سہرا دو چیزوں کے سر ہے، ایک شریف خاندان سے ان کی مخاصمت اور دوسری مونس الٰہی کا عمران خان کی طرف جھکاﺅ۔ وہ اپنے والد صاحب کو یہ سمجھاتے رہے ہیں کہ عوامی رخ عمران خان کے ساتھ ہے اور شریفوں سے ہمیں کوئی خیر نہیں ملے گی۔ خیر موجودہ صورتحال حال میں پنجاب اسمبلی تحلیل ہو چکی، خیبر پختونخواہ اسمبلی بھی آجکل میں تحلیل ہو جائے گی، لیکن میرے خیال میں یہ کوئی اتنا پسندیدہ فیصلہ نہیں ہے، لیکن جب آپ کسی کو اتنا دھمکا دیں کہ اُسے خطرہ لاحق ہو جائے کہ وہ یا تو گرفتار ہو جائے گا یا ڈسکوالیفائی ہو جائے گا تو یقینا وہ ایسے ہی فیصلے کرے گا۔ اس لیے ایسی روایت کو توڑنا ہوگا کہ جس سے سیاست میں اداروں کا عنصر نمایاں ہو۔ بہرحال خان صاحب اس وقت فرنٹ فٹ پر ماسٹر سڑوک کھیل رہے ہیں جبکہ مرکزی حکومت دفاعی انداز میں حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ دونوں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد جنرل الیکشن کے جلد ہونے کی اُمید بھی کی جا رہی ہے، مرکزی حکومت چاہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح مدت پوری کرے لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ اس وقت اُن کی مقبولیت کا جو گراف ہے وہ مستقبل میں کم ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے وہ جیسے تیسے کر کے اقتدار لینا چاہتے ہیں۔ عمران خان کے حامیوں کو یقین ہے کہ نہ صرف خیبرپختونخوا پر اُن کا پرچم لہراتا رہے گا بلکہ پنجاب اسمبلی میں بھی اُن کی بلا شرکت غیرے اکثریت ہو گی اور یوں وہ دونوں صوبوں میں دندناتے پھریں گے۔ وفاقی حکومت کا جینا حرام کر دیں گے اور اُسے انتخابی تالاب میں غوطہ لگانا پڑے گا۔ مسلم لیگ(ن) اور اُس کے ہم نوا اپنے آپ کو اور دوسروں کو یہ یقین د لانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا، وہ اُنہیں جھاڑ پونچھ کر دوبارہ اپنی ٹوکری میں ڈال لیں گے۔پنجاب پر اُن کا پھریرا لہرانے لگے گا اور خیبرپختونخوا میں بھی مولانا فضل الرحمن وغیرہ کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کو ناکوں چنے چبوا دیں گے۔ یہ ”سادہ“ سی صورتحال ہے اس وقت وطن عزیز کی! مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد آنے والے دنوں میں سیاسی استحکام کی اُمید بھی نہیں بندھ رہی۔ کیوں کہ اس وقت دستور کے مطابق سابقہ اسمبلی میں قائدِ ایوان یعنی وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے باہمی مشاورت سے نگران وزیر اعلیٰ کے لیے ایک متفقہ نام تجویز کرنا ہے۔اگر یہ دونوں رہنما اتفاقِ رائے سے ایک نام کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو وہ نام گورنر پنجاب کو بھجوا دیا جائے گا جنھیں وہ نگران وزیر اعلیٰ مقرر کر دیں گے۔جبکہ تادم تحریر پرویز الٰہی اور عمران خان کی ملاقات میں وزارت اعلیٰ کے لیے تین نام احمد نواز سکھیرا، نصیر خان اور ناصر سعید کھوسہ سامنے آئے ہیں ۔ تاہم سوال یہ کہ اگر سابق قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف نگران وزیراعلیٰ کے لیے کسی بھی نام پر متفق نہیں ہوتے تو کیا ہو گا؟ایسی صورت میں نگران وزیراعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ سابق صوبائی اسمبلی کی ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا۔تحلیل ہونے والی اسمبلی کے سپیکر یہ پارلیمانی پارٹی تشکیل دیں گے جو کل چھ ممبران پر مشتمل ہو گی۔ اس حکومت اور حذبِ اختلاف کی برابر نمائندگی شامل ہو گی یعنی دونوں اطراف سے تین تین ممبران کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔اس پارلیمانی کمیٹی میں دونوں طرف سے دو دو نام نگران وزیرِاعلیٰ کے لیے تجویز کیے جائیں گے اور کمیٹی تین دن کے اندر کسی ایک نام پر اتفاق کرے گی۔ یہ نام تعیناتی کے لیے گورنر پنجاب کو بھجوا دیا جائے گا۔تاہم اگر پارلیمانی کمیٹی بھی تجویز کردہ چار ناموں میں سے کسی ایک نام پر تین روز میں اتفاق نہیں پیدا کر پاتی تو نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کا معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس چلا جائے گا۔اگر پارلیمانی کمیٹی بھی ایک متفقہ نگران وزیرِاعلیٰ کو چننے میں ناکام رہتی ہے تو پھر یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔دو روز کے اندر الیکشن کمیشن پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے دیے گئے چار ناموں میں سے کسی ایک کو نگران وزیرِاعلیٰ منتخب کر دے گا۔نگران وزیرِاعلیٰ عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی کابینہ کا انتخاب کرے گا اور الیکشن کمیشن پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے عمل کو آگے بڑھائے گا۔یعنی حالات و واقعات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب کے عوام کے لیے مزید آزمائشیں پیدا ہونے والی ہیں۔ بہرکیف انتخاب آئینی طور پر بھی 2023ءمیں ہونے ہیں۔ اس لیے اگر عام انتخابات کی طرف نہ جایا جائے‘ تحلیل ہوجانے کی صورت میں ضمنی الیکشن کروائے جائیں تو بہت سی وجوہات کی بنا پر کل 516نشستوں پر انتخاب بہت بڑا مسئلہ ہوگا۔اس لیے ہر حال میں جنرل الیکشن کی طرف جانا ہوگا۔ لہٰذاہمیں اس وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ الیکشن ضمنی ہوں گے یا جنرل ۔ ہمیں صرف اس چیز کو اہم بنانا ہے کہ شفاف الیکشن کیسے اور کب ہوں گے۔ ورنہ ہم اسی بھنور میں پھنسے رہیں گے اور عوام کا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا! اور رہی بات پی ڈی ایم کی تو اس وقت 13جماعتوں کا کنبہ بری طرح پھنس چکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل معروف افسانہ نگار جمیل احمد عدیل کے مجموعے ”بے خواب جزیروں کا سفر“ میں ”مزید تفتیش“ عنوان کا ایک عجیب و غریب افسانہ نظر سے گزرا تھا۔ موضوع بڑا انوکھا اور گھمبیر تھا۔ کسی علاقے کی پولیس کو اطلاع ملتی ہے کہ شہر کے پوش علاقے کے ایک ڈرائنگ روم سے کوئی لاوارث لاش ملی ہے، جس کی وجہ سے پورے شہر میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ پولیس کی ابتدائی چھان بین لوگوں کو مزید دہشت زدہ کر دیتی ہے، جب انھیں پتہ چلتا ہے کہ اس مردہ جسم کے تمام اعضا الگ الگ ہیں ، جنھیں کسی اُجرت پسند موچی نے نہایت عجلت میں کچے دھاگے سے سیا ہے۔ جب اس لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیجا جاتا ہے تو وہاں سے مزید دل دہلا دینے والی رپورٹ موصول ہوتی ہے جس کے مطابق یہ لاش کسی ایک آدمی کی ہے ہی نہیں بلکہ مختلف لاشوں کے اعضا کو جوڑ کر ایک جسم کی شکل دی گئی ہے تاکہ دیکھنے والوں کو وہ ایک لاش نظر آئے۔ رپورٹ کے ساتھ یہ نوٹ بھی لکھا تھا کہ جب تک تمام لاشوں کے بقیہ حصے دستیاب نہیں ہوتے، قتل، وجہ قتل، آلہ قتل اور اصل قاتل کا سراغ لگانا مشکل بلکہ ناممکن ہے! یقین جانیں اس افسانے سے ہمارا دھیان سیدھا موجودہ حکومتی اتحاد کی طرف گیا، جس میں بھان متی یا کسی پردھان متی نے بعض مخصوص مقاصد کے لیے کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا جوڑ کر ایک انوکھا اور بے مقصد کنبہ ترتیب دینے کی نہایت بھونڈی کوشش کی۔ لاش کی تشبیہ اس لیے بھی حسبِ حال ہے کہ ابھی تک اس اتحاد سے زندگی کے آثار نمودار نہیں ہوئے۔ لوگ حیران ہیں کہ اگر ملک میں اقتدار کی تبدیلی ایسی ہی ناگزیر تھی تو چند مخلص و معقول اور زندہ ضمیر لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے عنانِ اقتدار تھمائی جا سکتی تھی۔ ایسے لوگوں کو مسلط کرنا کہ جن کی عیاریوں، مکاریوں اور اداکاریوں سے ایک زمانہ واقف ہے، کسی شخص کے ساتھ نہیں، ملک قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ انتقام یا بے احتیاطی کے مٹی گارے سے وجود میںلائی گئی یہ تعمیر قدم قدم ریت کی دیوار ثابت ہوئی ہے ، جس سے پورے ملک میں شدید خوف و ہراس کی کیفیت ہے۔ نازک ملکی معیشت کے اوپر وزیروں کی فوجِ ڈفر موج مسلط ہے۔ المیہ یہ کہ نو مہینے میں سیاسی ایوانوں سے ’دے جا سخیا‘ کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ اس طرح کے جوڑ توڑ کا سب سے بڑا نقصان ہی یہ ہوتا ہے کہ نہ تو وہ کسی اجتماعی کاز کے لیے یکسوئی سے سرگرم ہو سکتی ہے اور نہ کسی کو اپنی ناکارکردگی کا حساب دینے کا خوف ہوتا ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کا یہ بیان غیرت مندوں کے ڈوب مرنے کے لیے کافی ہے کہ ”ہم نے پاکستان کی ساری ہیکڑی نکال دی، اسے کٹورا لے کر دنیا بھر میں گھومنے پر مجبور کر دیا۔“ اس وقت سات درجن وزرا کی روز افزوں تعیشات، ڈیڑھ سو سے زائد نئی مرسڈیز کے آرڈر نامے، کھائے کھیلے لیڈران کے اکاﺅنٹس، بلاول کے بیرونی دوروں اور مخالف پارٹی کے ممبران کی خریداری کے علاوہ پورے ملک میں کہیں خوش حالی کا نام و نشان نہیں ہے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی حکومت اور مقتدر قوتیں حالات کا مکمل جائزہ لیتے ہوئے فوری طور پر شفاف جنرل الیکشن کی طرف جائیں جسے اقتدار ملنا ہے ملے، باقی رہنما پانچ سال تک اپوزیشن میں رہیں، ورنہ دیوالیہ ہونے کی رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی اور پھر عوام سڑکوں پر ہوں گے اور پھر حقیقت میں کسی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور انہی سیاستدانوں کو پھر چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی!