سیاست مالی کرپشن کے بعد ”اخلاقی کرپشن“کاشکار بھی ہوچکی ہے

کسی نے ایک فراڈیے سے پوچھا تھا کہ تم لوگوں کا دھندا کیسے چلتا ہے؟ اس نے کہا جب تک دنیا میں لالچی لوگ موجود ہیں ہم فراڈیوں کا دھندا کبھی مندا نہیں ہوگا۔ یہی حال ہمارے سیاستدانوں کا ہے جب تک وہ نئے نعروں ، سیاسی چالوں اور اپنے بھونڈے فیصلوں سے عوام کو پھسلاتے اور پھنساتے رہیں گے،اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ اور جب تک ہمارے عوام پھنستے رہیں گے، ہمارے سیاستدان اور ہر قیمت پر حاکم بننے کے خواہشمند چالاک، مکار اور ذہین سیاستدانوں کے ان پر حکمرانی کرنے کے خواب کبھی کم نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی ذہین، چالاک اور مکار لوگ سیاست کے نام پر اپنے اپنے حصے کے بیوقوف ڈھونڈ ہی لیتے ہیں اور پاکستان میں یہ کون سا مشکل کام ہے۔یقین جانیں گزشتہ چند سالوں سے سیاست کا جو برا حال ہوا ہے، اُس سے سیاست پر سے دل ہی اُٹھتا جا رہا ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ”فرنٹ اینڈ“ کچھ اور ،اور بیک اینڈ کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔ آپ حالیہ سیاست کو ہی دیکھ لیں، خان صاحب نے اسمبلیاں توڑ کر ایک غیر اخلاقی اقدام کیا، اور مرکزی حکومت کو گرانے کے لیے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا پلان بنایا تو چند ہی منٹوں بعد سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے 3درجن کے قریب ممبران اسمبلی کے استعفے قبول کرکے تحریک انصاف جو اسی اسمبلی کی صاحب اقتدار جماعت تھی کے ممبران کی تعداد کو کم کرکے اپنی طرف سے ایک گہری چال چلی۔ خیر ہم اس چیز کو سپورٹ نہیں کرتے کہ عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرکے بہت اچھا اقدام کیا ہے، لیکن دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو اُس کے پاس مزید آپشنز کیا ہیں؟ میری اس حوالے سے ایک سینئر پی ٹی آئی رہنما سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے ان پر دباﺅ برقرار نہ رکھا تو یہ عمران خان کو ڈسکوالیفائی کر دیں گے، تحریک انصاف کو کھڈے لائن لگا دیں اور رہنماﺅں کو مزید جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیں گے۔ اس کے علاوہ مزید یہ کریں گے کہ یہ خریدو فروخت کی منڈیاں لگائیں گے اور اگلے جنرل الیکشن تک ان کی کوشش ہو گی کہ یہ ہمارے زیادہ سے زیادہ لوگ خرید لیں۔ کیوں کہ ابھی تک بیرسٹر علی ظفر کے بقول عمران خان پرمختلف نوعیت کے 50مقدمات درج ہو چکے ہیں۔کئی دفعہ پولیس بنی گالہ کا محاصرہ کر چکی ہے، تبھی وہ لاہورمیں براجمان ہیں۔ مطلب پاکستان میں کب تک بدلے کی سیاست چلتی رہے گی! ہم نے تو وہ بھی وقت دیکھا ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید حاملہ تھیں تو جنرل ضیاءالحق نے فوری طور پر الیکشن کا اعلان کر دیا۔لندن میں مقیم اور آکسفورڈ میں بینظیر کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والے صحافی شیام بھاٹیہ کے مطابق جنرل ضیا کو یہ اطلاع بھی مل چکی تھی کہ بےنظیر اب ’حاملہ‘ ہیں اور یہی سوچ کر انتخابات نومبر 1988 میں منعقد کروانے کا اعلان کیا گیا کہ اس وقت بےنظیر بھٹّو حمل کے بالکل آخری دنوں میں ہوں گی اور ان انتخابات میں زیادہ متحرک نہیں رہ سکیں گی۔جنرل ضیا نہیں چاہتے تھے کہ بےنظیر انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچیں مگر خود جنرل ضیا 17 اگست 1988 کو بہاولپور کے قریب ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے اور اس حادثے کے بعد پاکستان کی سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ نومبر کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔21 ستمبر 1988 کو بے نظیر بھٹو کی اولین اولاد اور پارٹی کے موجودہ شریک چیئرمین بلاول بھٹّو زرداری کی ولادت سے پہلے کئی مہینوں کی حاملہ بےنظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی جو بلاول بھٹّو کی ولادت کے بعد بھی جاری رہی۔ خیر ہماری تاریخ انہی گھٹیا حرکتوں سے بھری پڑی ہے، لیکن شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ ان کی یہی حرکتیں عمران خان کو مزید مضبوط کریں گی، کیوں کہ پہلے ہی یہ تاثر عام طور پر پایا جاتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے اتحاد نے عمران خان کو مضبوط کیا ہے، یعنی 30سال ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے والے اگر آج اکٹھے ہوئے ہیں تو مطلب یہ اپنے مفاد کےلئے اکٹھے ہوئے ہیں، یا لوگ یہی سوچتے ہیں کہ اگر آج یہ اکٹھے ہوئے ہیں تو ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ اور اب تو صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد صرف اپنے اوپر مقدمات ختم کروائے ہیں، اس وقت بھی ماسوائے سلمان شہباز کے اپوزیشن لیڈر پنجاب حمزہ شہباز سمیت پوری قیادت اس وقت لندن میں بیٹھی ہے۔ مریم نواز کو اگر ایک سال پہلے پاسپورٹ مل جاتا تو وہ بھی ایک سال پہلے ہی اپنے ”آبائی وطن“ جا چکی ہوتیں۔ اور سلمان شہباز بھی صرف اور صرف اپنے اوپر مقدمات ختم کروانے کے لیے یہاں موجود ہیں۔ اور ابھی بھی پوری ن لیگی قیادت نواز شریف کو واپس آنے کا کہہ رہی ہے مگر مجال ہے میاں صاحب ٹس سے مس ہو رہے ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کیوں آئیں، کہاں لندن اور کہاں پاکستان! میاں صاحب اب لندن کے پکے پکے رہائشی ہیں۔ اپنا گھر! وہ بھی ایسا عالی شان کہ گوروں کی اکثریت اس کا سوچ بھی نہیں سکتی! صاحبزادے ماشاءاللہ دونوں لندن میں ان کے پاس ہیں۔ دونوں کی شہریت برطانوی ہے! لندن کی جنت کو چھوڑ کر میاں صاحب پاکستان آجائیں! اب وہ اتنے بھی کوتاہ اندیش نہیں! وہ تو سالہا سال عید پر بھی پاکستان سے لندن چلے جاتے رہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم لوگ عید منانے اپنے اپنے شہر یا اپنے اپنے گاﺅں چلے جاتے ہیں۔ لندن کی آب و ہوا، وہاں کی خوراک، وہاں کا پولیس سسٹم، وہاں کے ریستوران، وہاں کے سپر سٹور، وہاں کے ہسپتال، یہ اعلیٰ ترین معیارِ زندگی چھوڑ کر میاں صاحب اس ملک میں چلے آئیں جہاں نو ماہ شدید گرمی رہتی ہے، ہر طرف گرد اور مٹی! ڈھنگ کے ریستوران نہ علاج کی سہولتیں! مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں!کئی برسوں سے میاں صاحب لندن ہی سے پارٹی کے معاملات چلا رہے ہیں۔ جب سے ان کے چھوٹے بھائی وزیراعظم بنے ہیں‘ ملکی معاملات بھی میاں صاحب کے لندن والے گھر ہی میں طے ہوتے ہیں۔ اب بھی انہوں نے رانا ثنا اللہ صاحب کو حکم دیا ہے کہ حاضر ہوں اور پنجاب کے صوبائی حلقوں کے امیدواروں کی فہرست پیش کریں! تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ جب متحدہ ہندوستان پر تاجِ برطانیہ کی حکومت تھی تو برطانیہ کے وزیراعظم کی کابینہ میں ایک وزیر‘ وزیرِہند بھی ہوتا تھا جسے سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیاکہا جاتا تھا۔ اس کی ذمہ داری تھی کہ ہندوستان کی انگریزی حکومت یعنی ہندوستان کا وائسرائے برطانیہ کے مفادات کو ہر حال میں مقدم رکھے۔ ہندوستان کا وائسرائے وزیرِ ہند کا براہِ راست ماتحت تھا۔ وزیرِ ہند‘ ہندوستان کے علاوہ عدن‘ برما اور سری لنکا کا بھی انچارج تھا۔ وزیرِ ہند کی آسامی اس وقت پیدا کی گئی جب 1857ءکی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو ختم کر دیا گیا اور ہندوستان‘ براہِ راست برطانوی حکومت کے زیر انتظام آگیا۔ انگریزی اقتدار ختم ہوا اور پاکستان اور بھارت الگ ہوئے تو وزیرِ ہند کی پوسٹ بھی ختم کر دی گئی۔تقسیمِ ہند کے پچھتر سال بعد پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ پاکستان کا وزیراعظم لندن کو رپورٹ کر رہا ہے مگر اس بار وزیرِ ہند کو نہیں بلکہ میاں نواز شریف کو! وفاقی وزرا بھی اکثر و بیشتر وہیں جاتے ہیں۔ اب پنجاب کے معاملات طے کرنے کے لیے رانا صاحب بھی وہیں حاضر ہو رہے ہیں۔ الیکشن میں کھڑے ہونے والے امیدواروں کی فہرستیں بھی وہیں جا رہی ہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں‘ عملاً صورت حال وہی ہے جو قیامِ پاکستان سے پہلے تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ 2013ءسے 2016ءتک‘ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران‘ دستیاب اطلاع کے مطابق میاں صاحب سترہ بار برطانیہ یعنی لندن تشریف لے گئے، توکیوں نہ ان کے لندن قیام سے سیاسی اور سرکاری فائدہ اٹھایا جائے تاکہ پاکستان کا بھلا ہو۔ قارئین ! اس وقت یہ حالات ہیں پاکستان کے، تو فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے یا اقتدار کے لیے لوگ منتخب کرنے والوں کے ہاتھ میں۔ لہٰذاانہیں کیا لگے کہ پاکستان کی معیشت کیوں ہچکولے کھا رہی ہے، انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد بے دریغ سرکاری خزانہ استعمال کیا ہے، 15ارب ڈالر کے ذخائر آج 8ماہ بعد 4ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کئی چلتے ہوئے پراجیکٹس کو بھی روک دیا ہے، ائیرپورٹس پر دوبارہ پروٹوکول لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ صحت کارڈ کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد فیصل آباد کی انڈسٹری سمیت پاکستان بھر کی انڈسٹری کا پہیہ جام کر دیا ہے، بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یہاں اپنی پراڈکشنز بند کر دی ہیں، عام تاجر سڑک پر آگیا ہے، اور پھر انہوں نے اقتدار میں آکر 36فیصد سے زائد مہنگائی کرکے دنیا کے ریکارڈ توڑ دیے ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کیا، گیس لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کیا۔یہ کٹورا لے کر پوری دنیا میں گھوم رہے ہیں، مگر کہیں پروڈکشن اور پاکستان کی مارکیٹ بڑھانے کی کوئی بات نہیں کر رہا ۔ یقین مانیں کہ دنیا بھر میں لیڈرز اپنی پراڈکٹ لے کر دنیا میں گھومتے ہیں کہ ہم نے یہ چیز تیار کی ہے، آپ اگر ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں تو اسے خرید لیں بدلے میں ہم آپ کی یہ چیزیں خریدیں گے۔ جبکہ یہاں ہر آنے والی حکومت کشکول کے پیالے کا نیا ڈیزائن پیش کرتی ہے۔ کسی کے پاس باتوں کے منجن بیچنے کے علاوہ کچھ نہیں جو برائے فروخت ہو۔ چلیں وقتی طور پر آپ مان لیں کہ عمران خان سے حکومت نہیں صحیح چل رہی تھی، اور بقول عمران خان کے انہیں کئی چیزوں کے بارے میں اقتدار میں آنے کے بعد علم ہوا ۔ لیکن یہ لوگ تو تجربہ کار تھے، گزشتہ تیس تیس سالوں سے برسراقتدار تھے، انہوں نے کیا کیا؟ 17ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر کو 4ارب ڈالر پر لے آئے؟ کراچی پورٹ پر آج سینکڑوں بحری جہاز کلیئرنس کے لیے کھڑے ہیں، مگر مجال ہے کہ حکومتی خزانے میں انہیں پیمنٹ کرنے کے لیے پیسے موجود ہوں۔ لہٰذااب اسٹیبلشمنٹ پر ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اگر انہوں نے حالات خراب کیے ہیں تو کیا ٹھیک بھی انہوں نے ہی کرنے ہیں، ورنہ ہم امپورٹڈ حکمرانوں اور امپورٹڈ حکومت کے وزیروں و مشیروں کے بزدلانہ فیصلہ کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے!