پاکستانی کب ”اُم رباب“ کےلئے باہر نکلیں گے!

ام رباب سندھ کی بیٹی ہیںوہ سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل میہڑ میں رہتی ہیں،جس کے باپ مختیار چانڈیو، دادکرم اللہ چانڈیواور چچا کابل چانڈیوا کو پانچ سال قبل 17جنوری 2018کو ڈی ایس پی پولیس کے دفتر کے سامنے مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا تھا۔یہ الزام پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی سردار خان چانڈیو اور ان کے بھائی برہان چانڈیو سمیت سات افراد پر لگا اور ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرایا گیا۔مقتول مختیار چانڈیو کی بیٹی ام رباب کا الزام ہے کہ ایم پی اے سردار خان چانڈیو کے کہنے پر برہان چانڈیو نے پولیس پروٹوکول کی موجودگی میں مختار چانڈیو، کابل چانڈیو اور کرم اللہ چانڈیو کو فائرنگ کرکے قتل کیا تھا۔ اس تہرے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت دائر ہے جس میں ام رباب کے چچا مدعی ہیں جبکہ بھائی مقدمے کی پیروی کر رہے تھے لیکن ام رباب جو خود قانون کی طالبہ ہیں انھوں نے پیروی کی ذمہ داری سنبھال لی ۔اس کیس کو پانچ سال ہوچکے ہیں اُم رباب ہر پیشی پر ننگے پاﺅں پیش ہوتی ہیں، تاکہ عدالتوں کو شاید اُن پر رحم آجائے مگر انصاف اُن سے کوسوں دور لگ رہا ہے۔بلکہ اس دوران تو کئی مرتبہ اُسے ہراساں کرنے کی بھی کوشش ہو چکی ہے، جیسے دو سال قبل پیشی سے واپسی پر ام رباب کا سیکورٹی حصار توڑ کر چانڈیو سرداروں کے قافلے نے انکی گاڑی کو ٹکر ماری اور قتل کرنا چاہا لیکن ام رباب چانڈیو معجزانہ طور پراس حملے میں محفوظ رہیں ۔لیکن اُس نے نہ تو اپنے مقصد سے جان چھڑائی اور نہ ہی بااثر وڈیرہ سسٹم کے خلاف ایک انچ بھی پیچھے ہٹی۔ وہ اس لیے بھی ثابت قدم ہیں کیوں کہ وہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتی ہے، اُس کے باپ مختار چانڈیو نے ایک ”تمندار کاﺅنسل“ بنا رکھی تھی جو سرداری نظام کے خلاف تھی۔ اُم رباب بھی شاید انہی ہزاروں بیٹیوں کی طرح ہمارے نظام میں گم ہو جاتی مگر اُن کی شہرت کی وجہ اُس وقت بنی جب وہ ننگے پاﺅں اکیلی لڑکی اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی گاڑی کے سامنے آگئی۔ جس پر چیف جسٹس نے یقین دلایا کہ اس کیس کا فیصلہ دو ماہ میں ہوجائے گا مگر،،،، کچھ نہ ہو سکا۔ الغرض چیف جسٹس ثاقب نثار نے ام رباب کی فریاد کا دو بار از خود نوٹس لیا، ام رباب کے مطابق سکھر میں چیف جسٹس نے عوام کے سامنے اعلان کیا تھا کہ میں انصاف دلاو¿ں گا اور دو ماہ میں مقدمے کا فیصلہ سنادیا جائے گا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ پھر جنوری میں تحریری طور پر حکم جاری کیا کہ یہ مقدمہ تین ماہ کے اندر نمٹایا جائے کیونکہ اس میں انسداد دہشت گردی کے دفعات لگی ہوئی ہیں اور قانون کے مطابق یہ مقدمہ تین سے چھ ماہ میں مکمل ہونا چاہیے لیکن قانون پر یہاں کوئی عمل نہیں ہوتا۔ام رباب کہتی ہیں کہ انہیں عدالتوں پر اعتماد تو ہے لیکن ملزمان اتنے بااثر ہیں کہ مقدمے میں تاخیر کراتے آرہے ہیں وہ خود قانون کی طالبہ ہیں ’اگر آج مجھے انصاف نہیں مل رہا تھا تو کل میں کسی اور کو کیسے انصاف دلاو¿ں گی۔‘ام رباب مزید کہتی ہیں کہ ”مجھے یہ بھی علم تھا کہ پولیس گارڈ مجھے شوٹ بھی کرسکتے تھے کچھ بھی ہوسکتا ہے پر میں نے جان کی پرواہ نہیں کی صرف اس لیے کہ میں انصاف حاصل کر سکوں۔“اس کے بعد اگلے سال ہی دوبارہ تپتی دھوپ میں ننگے پاﺅں جب عدالت میں حاضر ہوئیں تو اُن کی تصاویر اور ویڈیو ز نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اور ابھی بھی گزشتہ دنوں پانچویں برسی جب گزری تو وہ کہتی پائی گئی کہ میرا بار بار ننگے پاﺅں عدالت میں آنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں احساس نہیں ہے یا وہ قاضی جو اندر بیٹھا ہے اس کے دل میں یہ رحم پیدا ہو کہ گزشتہ پانچ سال سے یہ بچی صرف انصاف کے لیے دہائیاں دے رہی ہے۔ بلکہ ا س برسی پر تو اُس کا ایک خط بھی کسی کی وساطت سے مجھ تک پہنچا جس میں وہ اپنے والد کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتی ہیںکہ ”ہر سال آتا ہے ہر سال جاتا ہے اس جنوری میں میرے بابا آپ سے جدائی کو 5 سال ہوگئے ہیں چھٹا سال شروع ہوا ہے اور 5 سالوں میں بابا آپکی لاڈلی سکون سے نہیں سوئی آپسے کیا ہوا واعدا پورا کرنے کہ لیے میں دن رات سوچتی ہوں جدوجہد کرتی ہوں کہ اس ظلم اور جبر کو ختم کرنا ہے سرادروں اور جاگیرداروں سے لڑنا ہے مظلوم کا ساتھ دینا ہے بابا میرے لیے مشکل ہے پر ناممکن نہیں، بابا میں حق سچ کہ لیے لڑونگی۔ بابا میں آپکی جدوجہد، حق کی جدوجہد جیت کہ دکھاﺅنگی اور انشاللہ یہ نیا سال میرے دادا اور چاچو کہ خون کے ساتھ انصاف کا سال بنے گا بابا سندھ اور پاکستان کے غیرتمند بھائیوں اور بہنوں نے آپکی لاڈلی کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑا۔ بابا ہم سب مل کر انقلاب لائیں گے بابا آپ جانتے ہیں آپ کا خواب پورا ہونے کو ہے سندھ کی غیرتمند باشعور غیور عوام غریب مزدور ہر طبقہ کہ لوگ جن کو سرادر اور جاگیردار اپنا غلام سمجھتے تھے صدیوں سے جن کی آواز دبا کر رکھی تھی ۔بابا آپ کے خون سے انقلاب آیا ہے بابا وہ لوگ حق کہ لئے نکلے ہیں وہ لوگ اپنے لیے اور آپکی لاڈلی کہ لیے بھی لڑ رہے ہیں پر بابا آپکی لاڈلی تب سکون سے سوئے گی جب سندھ اور پاکستان کی ساری عوام جاگ جائیگی لاکھوں کی تعداد میں لوگ نکل کر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوکر فیصلہ کریں گے اور اس دھرتی پر انصاف کا انقلاب آئے گا“آپ کی بیٹی اُم رباب چانڈیو۔ لیکن اُم رباب کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ وہ کس معاشرے میں انصاف کی طلب گار ہے، اُسے تو علم ہونا چاہیے کہ ہماری عدالتیں ”نظریہ ضرورت“ کے تحت کام کر رہی ہیں، اگر ضرورت پڑے تو عدالتیں 24گھنٹے کام کرنا شروع کر دیتی ہیں، اگر ضرورت پڑے تو جج صاحبان چھٹی پر چلے جاتے ہیں اگر ضرورت پڑے تو بینچ کو ہی Desolveکر دیا جاتا ہے اور یا کسی غیر ضروری کیس میں پورا بنچ تشکیل دے دیا جاتا ہے، آپ ٹیریان کیس ہی کو دیکھ لیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس 25سال پرانے کیس پر لارجر بنچ بنا دیا۔ پھر اگر خان صاحب کو سیٹ سے اُتارنا مقصود ہو تو رات 12بجے بھی عدالتیں لگ جاتی ہیں۔ کسی کو ریلیف دینا ہوتو عدالتیں اتوار کو بھی کھل جاتی ہیں، نہیں یقین تو نواز شریف کو بیماری کے باعث باہربھیجنا تھا تو ہماری عدالتوں نے اتوار کے روز بھی اُنہیں ریلیف دیا۔ بہرکیف ام رباب سرداری نظام کے خلاف اپنے والد کا مشن جاری رکھنا چاہتی ہیں، جس کے لیے وہ گزشتہ 5سال سے انسداد دہشت گردی سے لے کر سپریم کورٹ تک کے دروازے کھٹکٹا چکی ہیں۔ ان کا مطالبہ صرف تین الفاظ پر مشتمل ہے ’مجھے انصاف چاہیے‘۔ میرے خیال میں اس پر میرے خیال میں نوجوان بلاول زرداری کو بھی ایکشن لینا چاہیے اور مثال قائم کرنی چاہیے کہ وہ انصاف کرنے والے ہیں، اور پھر یہی نہیں اُم رباب کے خاندان کا تعلق بھی پیپلزپارٹی ہی سے ہے۔ یعنی ام رباب کے دادا یونین کونسل بلیدائی تحصیل میھڑ کے چیئرمین تھے چچا، ضلع کاو¿نسل کے رکن تھے ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ ام رباب کا کہنا ہے کہ مقدمے میں نامزد ملزمان کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہے وہ بلاول بھٹو سے یہ سوال کرنا چاہتی ہیں کہ آپ جمہوریت میں اعتماد رکھتے ہیں تو پھر ہمیں کیوں سرداری نظام میں گھسیٹا جارہا ہے۔’مجھے پتہ ہے کہ میرے والد، دادا اور چچا تو واپس نہیں آسکتے، پر یہ جو سندھ میں جاگیردارانہ اور سرداری نظام ہے۔ یہ وڈیرے جو بدمعاشی کرتے ہیں میں ان کے خلاف کھڑی ہوئی ہوں تاکہ آج میرے ساتھ یہ ناانصافی ہوئی ہے کل کسی اور ام رباب کے ساتھ اتنی ناانصافی نہ ہو اس سرداری نظام کی آڑ میں۔ میں اس نظام کے خلاف کھڑی ہوئی ہوں۔‘ باتیں تو اُم رباب کی دل موہ لینے والی ہیں، اور یقینا سندھ میں کئی بہادر عورتوں نے جنم لیا جن میں اب ام رباب چانڈیو کا نام بھی لیا جائے گا۔لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ یہ وہی سندھ ہے جہاں قاتلوں کو تحفظ دیا جاتا ہے، یہاں ناظم جوکھیو کو قتل کر دیا گیا اور اُس کے قاتلوں کو جو ایم پی اے اور ایم این اے ہیں، اُنہیں دیت کے قانون کے تحت معافی مل گئی۔ یہاں تو شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کو باعزت بری کر دیا گیا ہے، بلکہ اس کے ملزمان شاہ رخ جتوئی اور اُس کے ساتھیوں کو کرائے پر ہسپتال لے کر وہاں شاہانہ طرز زندگی گزارنے کی ہر سہولت سرکار نے پہنچائی۔ پھر راﺅ انوار جیسا بندہ 4سو سے زائد جعلی پولیس مقابلوں میں لوگوں کو مارنے والا بندہ عدالتوں سے بری ہو کر کہہ رہا ہے کہ آج انصاف کی جیت ہوئی! اس پر مجھے ایک شعر یاد آتا ہے کہ قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے پھر آپ یہی نہیں دیکھیں بلکہ لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو کئی مقدمات میں بری کر دیا گیا ہے، بلکہ اُس کے کیسز میں کئی گواہوں کا ”انتقال“ ہو چکا ہے، لہٰذاجب یہ صورتحال ہوتو کیا ”ام رباب“ کو پاکستان میں انصاف مل سکے گا؟ لیکن سلام اُس خاتون کو جو سندھ کے فیوڈل سسٹم کے سامنے کھڑی ہے۔ جو وڈیرہ سسٹم کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہے، جو اپنی دیگر ساتھی طلبہ کو اس طرف راغب کر رہی ہے کہ تعلیم سے ہر دقیانوسی معاشرے کو شکست دی جا سکتی ہے۔ ہمیں ہر مظلوم کا ساتھ دے کر انصاف دلوانے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اگر آج اس مظلوم کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا تو کل ہم بھی اس کی جگہ ہوسکتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ ام رباب چانڈیو کو جلد انصاف ملے تاکہ آئندہ لوگ جرم نہ کریں۔ورنہ تبھی اللہ بھی اس ملک پر رحم نہیں کھاتا کیوں کہ یہاں کا نظام بندوں پر رحم نہیں کھاتا۔