امجد اسلام امجد ”محبت“ کے شاعر تھے!

ویسے تو دنیا میں سب کی باریاں لگی ہوئی ہیں، کسی نے پہلے جانا ہے تو کسی نے بعد میں۔ مگر کسی خوبصورت اور شفاف انسان کا اچانک چلے جانا انتہائی تکلیف دہ ہوتاہے۔ امجد اسلام امجد بھی ایسی ہی خوبصورت اور شفاف شخصیت کے مالک تھے، وہ اندر اور باہر سے صاف شفاف تھے، وہ کسی کا برا نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی کبھی کسی ادبی لابی یا پراپیگنڈے کا حصہ بنے، درویش کی طرح اپنے ہجرے میں پڑے فکرِ سخن میں غرق رہتے۔وہ ادبی محافل کی جان تھے، پاکستان اور پاکستان کے باہر کوئی بھی ادبی تقریب ان کے بغیر مکمل نہ ہوتی، آپ کسی کانفرنس یا تقریب میں اسٹیج پر ہوتے تو یوں لگتا ہم سب اس کانفرنس اور تقریب کا حصہ ہیں،وہ سب کو پیارے بھی تھے اور سب سے پیار بھی کرتے تھے لہٰذا کسی بھی تقریب یا مشاعرے میں ان کی موجودگی ادبی برکت کا باعث بنتی۔ درحقیقت امجد اسلام امجد بیک وقت ڈرامہ نویس بھی تھے، مکالمہ نگار بھی تھے، فلم رائیٹر بھی تھے، شاعر بھی تھے، کالم نگار بھی تھے، استاد بھی تھے اور سب سے بڑھ کر دوستوں، بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ پیار کرنے والے اور بے تکلف تھے۔اُن سے اکثر ملاقات کسی ٹی وی پروگرام میں یا نجی محفل میں ہو جایا کرتی تھی۔ مشاعروں میں کبھی اُن سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ راقم مشاعروں میں جانے کی جسارت کم ہی کیا کرتا ہے، وہ جب بھی ملتے ”یار علی“ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ایک بار کندھے پر ہاتھ رکھ کر یارانہ انداز میں مجھے ایک طرف لے گئے اور کہا ”علی “ اس ملک کے مستقبل سے میں بہت پریشان ہوں۔ کیا بنے گا اس کا؟ میں نے کہا امجد بھائی آپ نے مجھے ڈرا ہی دیا ہے۔ یہ بات بھلا آپ سب کے سامنے پوچھ لیتے !اس پر انہوں نے بڑی معصومیت سے جواب دیا کہ یار لوگ سمجھیں گے کہ شاید ”امجد“ گھبرا گیا ہے! لیکن اُن سے جب بھی ملاقات ہوتی اُنہیں ہر بار ایک منفرد شخصیت کے طور پر پایا ۔ ان کی شاعری، شخصیت، دوستی، ہم سفری، دلداری سبھی تشنہ الفاظ ہیں۔ اور تشنہ بھی ایسے ویسے۔ وہ پاکستانی ادب کا بھی چہرہ تھے اور لاہور کا بھی۔ کیسے تصور کیا جائے کہ ادب میں اور لاہور میں رہنا ہوگا لیکن امجد بھائی نہیں ہوں گے۔ امجد بھائی جملے باز‘ بذلہ سنج‘ نکتہ شناس اور حاضر جواب دوست تھے۔ ان کی طبیعت کی خرابی کے باوجود ان کی شگفتہ طبعی اور زندہ دلی میں فرق نہیں آتا تھا۔ بہرحال امجد اسلام امجد صاحب رخصت ہوگئے۔ اردو ادب اور شاعری کی توانا آواز۔ ذہن و دل کے دریچوں کو ان کی نظموں نے بارہا فرحت و شامانی عطا کی ہے۔متعدد بار انکے اشعار نے بے کیف ساعتوں کو گل و گلزار کیا ہے۔ اکثر مایوسی کے اندھیروں میں انکے لفظوں نے امید کے چراغ روشن کئے ہیں اور بعض اوقات تو لفظوں نے جراحی کا کام کر کے شفا دی ہے۔ تخلیق کار کو ہمیشہ اس کا فن اور ہنر زندہ رکھتا ہے۔ بلا شعبہ امجد اسلام امجد صاحب کا کلام ایسا ہے کہ جو آنےوالی کئی نسلوں کو شاداں و فرحاں کرتا رہے گا۔ جب جب کوئی دل محبت کی اذان دےگا تو اسے رنگ بھرنے کےلئے امجد اسلام امجد صاحب کے فقرے مستعار لینے ہونگے۔ محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا محبت ان کا خاص موضوع تھا۔اس محبت کے دریا میں ان کے الفاظ تغیانی لاتے رہیں گے۔ جب بھی آپ محبت کے دائرے میں داخل ہو جائیں گے تو ، خوشبو ، تتلی ، ہوا ، گلاب ، اوس ، ستاروں اور لہروں کا یہ شاعر آپ کو اپنی یاد آنے پر مجبور کر دے گا۔وہ مجھ سے جب بھی ملتے میں اُن سے ایک ہی فرمائش کرتا کہ مجھے محبت کی نظم ”اگر کبھی میری یاد آئے“ اپنے انداز میں سنا دیں۔ اُن کا موڈ نہیں بھی ہوتا ، مگر وہ اپنے لہجے میں سنا دیتے تھے کہ اگر کبھی میری یاد آئے گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا میں خوشبوﺅں میں تمہیں ملوں گا مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خوشبوﺅں میں نہ پاﺅ مجھ کو تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا۔۔ بہرکیف 1972 میں امجد اسلام امجد نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ایک ڈرامہ ’یا نصیب کلینک‘ تحریر کیا، یہاں سے ان کی ڈرامہ نگاری کے سفر کا آغاز ہوا۔ ابتدا میں اکا دکا ڈرامے لکھے اور اردو کے مختلف افسانوں کی ڈرامائی تشکیل کی۔انھی ڈراموں میں طویل دورانیے کا ایک ڈرامہ ’خواب جاگتے ہیں‘ شامل تھا جو ناظرین کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رہا۔ یہ ڈرامہ پاکستان کے قیام کی سِلور جوبلی کے موقع پر نشر ہوا تھا مگر جس ڈرامہ سیریل نے انھیں شہرت کے بام عروج تک پہنچایا وہ ’وارث‘ تھا۔وارث کے بعد ان کے لکھے ہوئے جو ڈرامہ سیریل ناظرین میں بے حد پسند کیے گئے ان میں دہلیز، سمندر، دن، وقت، گرہ، بندگی، اگر، اپنے لوگ، رات، ایندھن، زمانہ، شیرازہ اور انکار کے نام سرفہرست رہے۔ڈراموں کی مقبولیت انھیں فلمی دنیا میں بھی لے گئی۔ انھوں نے چند فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کیے جن میں قربانی، حق مہر، نجات، چوروں کی بارات، جو ڈر گیا وہ مر گیا، سلاخیں اور امانت شامل ہیں۔ان ڈراموں اور فلموں کے ساتھ ساتھ امجد اسلام امجد کا شعری سفر بھی جاری رہا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’برزخ‘ تھا جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل تھا۔اس کے بعد ان کے پچیس تیس مجموعے شائع ہوئے جن میں ساتوں در،فشار، ذرا پھر سے کہنا، اتنے خواب کہاں رکھوں گا، آنکھوں میں تیرے سپنے، سحر آثار، سپنے کیسے بات کریں، ساحلوں کی ہوا، پھر یوں ہوا، رات سمندر میںاور اسباب شامل ہیں۔ ان کی کئی شعری کلیات بھی شائع ہوئیں جن میں خزاں کے آخری دن، ہم اس کے ہیں، نزدیک، شام سرائے، باتیں کرتے دن، سپنوں سے بھری آنکھیں اور میرے بھی ہیں کچھ خواب سرفہرست ہیں۔انھوں نے عالمی شاعری کے تراجم بھی کیے۔ ان نظموں کے مجموعے ’عکس‘ اور ’کالے لوگوں کی روشن نظمیں‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔1970 کی دہائی میں امجد اسلام امجد کی ایک نظم ’محبت کی ایک نظم‘ نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی اور زندگی بھر امجد اسلام امجد کی پہچان بنی رہی، وہ جہاں بھی جاتے تھے ان سے اسی نظم کی فرمائش ہوتی تھی۔ پھر ان کی مقبولیت کا یہ سفر عمر بھر جاری رہا۔امجد اسلام امجد کا نثری سفر بھی بہت طویل ہے۔ ان کے کئی سفرنامے شائع ہوئے جن میں شہر در شہر، ریشم ریشم، سات دن اور چلو جاپان چلتے ہیں سرفہرست ہیں۔وہ قومی اخبارات میں بھی مستقل کالم نگاری کرتے رہے۔ ان کالموں کے بھی متعدد مجموعے شائع ہوئے ، ان مجموعوں میں چشم تماشا، کٹھے میٹھے، دیکھتے چلے گئے، نئی آنکھیں پرانے خواب، چھاو¿ں، تیسرے پہر کی دھوپ، کوئی دن اور، دھند کے اس پار اور چراغ رہ گزر شامل تھے۔ امجد اسلام امجد نے اپنی شاعری کی بدولت دنیا بھر کے سفر کیے، ہر جگہ ان کے چاہنے والے موجود تھے۔امجد اسلام امجد کو دنیا بھر سے مختلف اعزازات بھی عطا ہوئے جن میں حکومت پاکستان کے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔اس کے علاوہ انھیں پاکستان ٹیلی ویژن، اکادمی ادبیات، نگار ایوارڈ، گریجویٹ ایوارڈ اور مجلس فروغ اردو کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔آج امجد اسلام امجد صاحب اپنے حصے کی شمعیں جلاتے رخصت ہو گئے ہیں۔ وہ یقینا ہم میں اپنی شاعری، تصانیف اور سفرناموں کے ذریعے زندہ و جاوید رہیں گے اور آنے والی نسلیں اُن کے لکھے ہوئے سے مستفید ہوتی رہیں گی!