ضیاءمحی الدین اصل ہیرو تھے!

ابھی امجد اسلام امجد کے قومی نقصان کو ہم بھلا نہ پائے تھے کہ صرف تین دن بعدعالمی شہرت یافتہ ایک اور قومی ہیرو ضیاءمحی الدین کی رحلت کی خبر سنی تو دل مزید اُداس ہوگیا۔ کیوں کہ ضیاءمحی الدین میرے لڑکپن کے ہیرو تھے۔ وہ روایتی ہیروز سے مختلف تھے۔ وہ بیک وقت پاکستانی اداکار، صداکار، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور ٹی وی نشریاتی مقرر تھے جو اپنے سارے کیریئر کے دوران پاکستانی اور برطانوی سینما میں نمودار ہوتے رہے ۔ ان کے سانحہ ارتحال سے فن و ثقافت کا روشن ستارہ ڈوب گیا۔ انہیں تلفظ اور لب و لہجے کا بادشاہ کہا جاتا تھا،جس محفل میں کلاسیکی شاعری اور دیگر تخلیقات اپنی آواز میں پیش کرتے تھے، سماں باندھ دیتے تھے۔ وہ آواز کے جادو گر تھے۔آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرس میں ہر سال میلہ لوٹتے تھے۔ 31 جنوری 2023 کو ”ناپا“ اکیڈمی میں منعقدہ تقریب ان کی آخری تقریب ثابت ہوئی، جس میں انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو مدعو کیا تھا۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ کراچی میںنیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ ”ناپا“ کی بنیاد رکھی اور معیاری تھیٹر کو رواج دیا۔انہوں نے جو کام بھی کیا اس کو ایک اعلی سطح کے معیار تک پہنچایا کہ پھر کوئی دوسرا ان کے مقابلے پر دکھائی نہیں دیا۔ ایک خاص کلاس اور معیار ہی ان کی پہچان تھا ورنہ اداکاری، صداکاری اور میزبانی تو یہاں کئی کررہے ہیں۔ان کے بارے میں بہت کچھ نہ جاننے والے بھی ان کے بارے میں تاثر رکھتے تھے کہ یہ نستعلیق شخص ایک کلاس ہے اور باقیوں سے ممتاز ہے۔ اگرچہ ہماری نسل نے ان کی اداکاری نہیں دیکھی مگر یہ ہمیشہ سنا کہ انہوں نے ہالی ووڈ کی فلموں میں بھی کردار ادا کیے۔ تھیٹر پر شیکسپیئر کے ڈرامے کیے۔ شیکسپیرئین انگریزی کی ڈائیلاگ ڈلیوری کسی عام شخص کے بس کی بات ہے ہی نہیں۔ شیکسپیئر کے کلاسیک ڈرامے ہیملٹ کے صفحات کے صفحات انہیں ازبر تھے۔ پاکستان میں ان کی فلم ”مجرم کون“ آئی تو ہم ذوق و شوق سے اسے دیکھنے گئے، لیکن جنہیں محمد علی، وحید مراد اور ندیم کے چہروں کی عادت ہو چکی تھی، ان کی نظروں کو یہ چہرہ نہ بھایا۔ ہم نے اسی بہانے ان کی مشہور انگریزی فلم لارنس آف عریبیاً بھی دیکھ ڈالی ۔پھر آہستہ آہستہ ضیاءصاحب ہماری آنکھوں میں رچ بس گئے، اور پڑھے لکھے ادیب، اداکار مشہور ہوگئے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی شخصیت کا جادو ایسا ہمارے سر چڑھا کہ آج ان کی موت کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ جیسے کوئی ہم سے قیمتی چیز چرا کر لے گیا ہے۔ یوں تو ان کی آواز کا جادو آج بھی ہمارے پاس سائنس کے کرشمے کی وجہ سے محفوظ ہے، لیکن ایک جیتا جاگتا انسان تو ہر لمحے ایک نیا جادو جگاتا رہتا ہے۔ میں خود بھی ضیاءمحی الدین کے جادو کا اسیر تھا، اس لیے اُنہیں اکثر سنتا اور سر دھنتا تھا۔ کتنے ہی لازوال شہہ پارے ہیں کہ جنہیں انہوں نے ایسے پڑھا کہ سب کچھ ایک خوبصورت فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ کتنے ہی ایسے ادیب ہیں کہ جنہیں ضیاءنہ پڑھتے تو شاید ہم ان سے آشنا بھی نہ ہوتے جیسے محمد علی ردولوی۔ ردولوی صاحب کے اپنی بیٹی ”ہما“ کے نام خطوط انہوں نے ایسے انداز سے پڑھے کہ باپ اور بیٹی کے محبت بھرے رشتے کی ساری خوبصورتی اور کسک سامنے آ گئی۔ الغرض ضیا محی الدین ہر لحاظ سے کلاسیک شخصیت اور ایک ”کلاس“ کے آدمی تھے۔ان کا متنوع تخلیقی وفور فنون لطیفہ کے مختلف منطقوں پر اپنا اظہار کرتا رہا اور دنیا سے داد پاتا رہا۔ انہوں نے صدا کاری میں معیار قائم کیا ، ہالی ووڈ کی آرٹ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے پھر سٹیج شو کی بھر پور میزبانی کی، پاکستان میں فنون لطیفہ کے معتبر ادارے بنائے۔یہی نہیں بلکہ اس ہیرو نے بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا نام روشن کیا اور بی بی سی اور مختلف امریکی ٹی وی چینلوں پر ایسے شو 1960کی دہائی تک متعارف کرواد یے تھے، جسے وہاں کی عوام میں خوب پذیرائی ملی۔ انہوں نے مذکورہ صنف کو ”پاکستانی“ روپ فراہم کیا۔ان کا شو مگر امریکہ اور یورپ میں متعارف ہوئے انداز کی بے اثر نقالی نہیں تھا۔ وہاں مشہور ہوئے شوز کا میزبان عاجزانہ تجسس سے مختلف وجوہات کی بنا پرمشہور ہوئے مہمانوں کو اپنے فن اور شخصیت کے زیادہ پہلو عوام کے روبرو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ضیامحی الدین شو میں لیکن ان کی اپنی شخصیت پورے شو پر چھائی رہتی۔ ضیا صاحب بنیادی طورپر سٹیج کے اداکار تھے۔ برطانیہ کی مشہور زمانہ رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس(راڈا) کے ہونہار طالب علم رہے تھے۔ اداکاروں کو پہلا سبق وہاں یہ سکھایا جاتا ہے کہ سٹیج پر داخل ہوتے ہی لوگوں کی توجہ اپنی جانب کیسے مبذول کرانا ہے۔ تکینکی زبان میں اسے ”انٹری“ کہا جاتا ہے۔ضیا صاحب منفردانداز میں شو کے آغاز میں سٹیج پر نمودارہوتے۔ان کا لباس بہت شوخ اور طرح دار بانکوں والا ہوتا۔ کھڑے ہوکر افتتاحی کلمات ادا کرنے کے بعد مہمان کی ”انٹری“ کے لئے فضا بناتے اور اسے کرسی پر بٹھاتے۔ دریں اثنا ڈرامائی فضا کا سماں بندھ گیا ہوتا۔ناظرین مبہوت ہوچکے ہوتے۔”انٹری“ کا یہ انداز امریکہ اور یورپ کے مشہور ترین شوبازوں کو بھی نصیب نہیں ہوا۔ بہرکیف ضیاءصاحب کا 92برس کی عمر میں انتقال ہوا، عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے کئی محفلوں میں اُن کے ساتھ احترام کا رشتہ ہی قائم رہا۔ کیوں کہ جن شخصیات کو آپ ”ہیرو“ مان لیتے ہیں ، پھر آپ اُن کا احترام آپ پر واجب ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا محفلوں میں ان کا لہجہ ،آواز کا زیروبم سننے والے کو اپنے حصار میں لے لیتا تھا۔ یادداشت میں ضیا محی الدین کے ایسے کئی شاہکار اڑان بھرتے ہیں جس میں شاعری پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ن م راشد کا زندگی سے ڈرتے ہو زندگی تو تم بھی ہو ہم نے ضیا محی الدین کی آواز میں سنا اور زمانہ طالب علمی میں خود بھی ہم اس کی خوب نقالی کیا کرتے تھے۔ اس دور میں یقینا پی ٹی وی ہی وہ ذریعہ تھا جس کے معیاری پروگراموں کے ذریعے سے یہ سب کچھ ہم تک پہنچا۔ اس وقت کے ٹاک شوز دیکھ کر بات کرنے کا سلیقہ آتا۔ٹی وی کے میزبانوں میں طارق عزیز، قریش پور،مستنصر حسین تارڑ، عبید اللہ بیگ۔لئیق احمد،۔ ضیا محی الدین جیسے پڑھے لکھے لوگ شامل تھے ہیں جن کو سن کر بات کرنے کا سلیقہ سیکھتے اور اپنا تلفظ درست کرتے۔ پی ٹی وی کے دور سے الیکٹرانک میڈیا کے ٹی وی چینلوں اور پھر بھانت بھانت کے یوٹیوبرز اور قسم قسم کے سوشل میڈیائی ولاگرز تک آتے آتے ہم نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔پورا ایک تہذیبی منظر نامہ تبدیل ہو کے رہ گیا ہے۔جس کا ایک عکس آپ کو اس وقت الیکٹرانک میڈیا کے ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں نظر آئے گا۔ وہ ضیا محی الدین، قریش پور جیسے ہنروروں کا دور تھا جب شاعر طرح دار احمد فراز نے کہا تھا سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں احمد فراز کو شہر خموشاں کا مکین بنے برس گزر گئے۔ باتوں سے پھول جھڑنے کا زمانہ پرانا ہوگیا۔ میزبانوں کا دور بیت گیا اب اینکروں کی ریٹنگ پرور ہنروری کا زمانہ ہے۔اب گفتگو نہیں کی جاتی سامنے والے کو باتوں کے گھونسے مارے جاتے ہیں۔ بات کرنے اور بات سننے کی ایک تہذیب ہوتی تھی جسے ہم نے وقت کی تیز رفتاری کا مقابلہ کرتے ہوئے کھودیا ہے۔ غضب خدا کا کہ جس سکرین کو ضیا محی الدین اپنی نستعلیق آواز اور اپنی پروقار شخصیت سے آکر سجایا کرتے تھے اب ایسے ایسوں کی بے ہنگم،بے معنی بے مغز باتوں میں الجھ چکی ہے جن کا نہ کتاب سے واسطہ نہ ادب سے کوئی علاقہ ہے ،بس روشنی کی رفتار سے پٹر پٹر بولنا جن کی واحد خوبی ہے۔ہمارے حق میں یہ سب اچھا ہوا ہم نے اپنے وقتوں کی خوبصورت چیزوں کو اپنے دل و ذہن میں جگہ دے کر محفوظ کر لیا اور اب ہم اس خوشبو کو محسوس کرتے رہتے ہیں اور آج کے دور کے ہنگام سے ہمارا ذوق نہیں ملتا تو ہم اس سے دور رہنے ہی میں عافیت اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ افریقی قبیلوں کی ایک روایت ہے کہ ایسے بڑے لوگوں کے مرنے پر جو طویل عمر گزار کر اپنے حصے کا بہترین کام کرکے جائیں تو ان کے مرنے پر لوگ گیت گاتے ہیں اور رقص کرتے ہیں۔ یہ شکرانے کا اظہار ہے کہ ایسے شاندار لوگ ہمارے درمیان موجود رہے ہم نے ان کا عہد دیکھا۔ضیاءمحی الدین بھی ہمارے عہد کی ایسی ہی بے مثال اور شاندار شخصیت تھے۔ہماری نوجوان نسل کو اُن سے استفادہ کرنا چاہیے، اُن کے تلفظ کو سیکھنا چاہیے، اُس پر پریکٹس کرنی چاہیے اور سب سے بڑھ کر اُسے روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرنا چاہیے تاکہ ہم ریٹنگ سے ہٹ کر کوئی اچھا کام کر سکیں جس سے ہماری آنے والی نسلوں کی تربیت ہو۔