مہنگا پٹرول ،طوفانی مہنگائی اور سسکتاہوا عام آدمی !

پٹرول کی قیمتیں بڑھ گئیں ! مطلب سوئی سے لے کر جہاز تک کی قیمتیں بڑھ گئیں! ڈالر کی قدر بڑھ گئی !مطلب ہر امپورٹڈ شے کو آگ لگ گئی۔ اور ملک بھر میں یہ دو فیکٹر ہی ہیں جن پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر حکمت عملی صفر بٹا صفر ہے۔ تبھی تو ایک سال میں ہم نے دیکھا کہ ملک بھر میں مہنگائی کی شرح ریکارڈ 37فیصد سے بھی زیادہ ہو چکی ہے، جبکہ چند سال قبل یہ شرح 6سے 7فیصد تھی۔ جبکہ دنیا کے مستحکم ممالک میں یہ شرح 2سے 4فیصد تک رہتی ہے۔ اور پاکستان چونکہ اس وقت غیر مستحکم ممالک کی فہرست میں ٹاپ ٹین پر موجود ہے۔ اس لیے یہاں نہ ہی معاشی نظام قابو میں ہے اور نہ ہی بہتری کی کوئی اُمید نظر آرہی ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ کبھی کبھی یہ سوچ کر بھی دل گھبرا جاتا تھا کہ ڈالر ڈھائی سو روپے سے اوپر چلا جائے گا، مگر آج یہ 270روپے پر ٹریڈ کر رہا ہے۔ بلکہ روپے کی قدر تو اس قدر کم ہو چکی ہے کہ ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان جو آج بھی پتھر کے دور میں رہتے ہیں اُس کی کرنسی بھی ہم سے آگے نکل چکی ہے یعنی ایک وقت میں جب افغانی کرنسی کلو کے بھاﺅ ملتی تھی آج ایک”افغانی “ 3پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔ روپے کی یہ بے قدری کب تک رہے گی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اور پھر اسی بے قدری کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات بھی تاریخی بلندی کو پہنچ چکی ہیں۔ اور گزشتہ روز اس میں 22روپے تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد 272روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت جا پہنچی ہے۔ اور عام آدمی کی زندگی حقیقت میں حرام ہو چکی ہے۔ حالانکہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں فی بیرل 80ڈالر ہے جبکہ یہی قیمت عمران خان دور میں 140ڈالر کے قریب تھی۔ جبکہ اُس وقت پٹرول 150روپے جبکہ آج 272روپے فی لیٹر مل رہا ہے۔ خیر آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس وقت حکومت فی لیٹر قیمت میں سے 100روپے سے زائد کے ٹیکس عام عوام سے وصول کر رہی ہے۔ یعنی حال ہی میں حکومت نے لیوی کو 35روپے سے بڑھا کر 50روپے کر دیا گیا ہے۔ آپ پٹرولیم مصنوعات پر سادہ سا حساب لگائیں کہ حکومت کتنے روپے عوام کی جیب سے بٹور رہی ہے تو جیسے کہ ایک بیرل میں 159لیٹر ہو تے ہیں، اور فی بیرل 80ڈالر کے لگ بھگ ہے، اس حساب سے فی لیٹر تیل کی قیمت آدھا ڈالر یعنی 130سے 135روپے بنتی ہے،جبکہ اس وقت پٹرول کی قیمت فی لیٹر 272روپے تک جا پہنچی ہے۔ اور حکومت فی لیٹر ایک سو روپے سے زائد کا ٹیکس وصول کر رہی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پٹرول پر50 روپے 50 پیسے لیوی، 30روپے دیگر ٹیکسز، 4 روپے 76 پیسے فریٹ مارجن، 3 روپے 68 پیسے ڈسٹرکٹ مارجن اور 7 روپے فی لٹر ڈیلرز مارجن کی مد میں عوام سے وصول کیے جا رہے ہیں۔اور پھر پاکستان سالانہ تقریباً 21 ارب لیٹر پیٹرولیم مصنوعات استعمال کرتا ہے۔ اگر اسے 100 روپے سے ضرب دی جائے تو یہ2100 ارب روپے سالانہ بنتے ہےں۔ یہ 21سو ارب روپے کس کھاتے میں جا رہے ہیں، اس کا حساب تو دور کی بات اس بارے میں عام عوام بات بھی نہیں کرسکتے۔ جو اس وقت سخت ترین حالات سے گزر رہے ہیں، بلکہ 25، 30یا 50ہزار کمانے والا تو دور کی بات ایک لاکھ روپے کمانے والے شخص کے گھر بھی فاقہ کشی کی صورتحال ہوچکی ہے۔ لیکن حکومت ہے کہ امیر زادوں پر ٹیکسز بڑھانے ایف بی آر سسٹم کو بہتر بنانے، ٹیکس چوری کو روکنے یا دیگر جگہوں سے ٹیکس حاصل کرنے کے بجائے عام عوام سے پیسہ وصول کرنے کو اہمیت دے رہے ہیں۔ اور یہ ٹیکسز صرف پٹرولیم مصنوعات میں سے ہی نہیں بلکہ ہر وہ جگہ جہاں سے لیے جا سکیں لیے جارہے ہیں۔ مثلاََآپ اگر موٹر وے ایم ٹو پر اسلام آباد کی طرف سے لاہور آئیں تو ٹول پلازہ پر ایک درجن سے زیادہ بوتھ ہیں ، ہر بوتھ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک منٹ میں چھ گاڑیاں گزرتی ہیں ،اور یہی ایک بوتھ ایک گھنٹے میں 360 گاڑیوں کی گزر گاہ ہے ،، اسی طرح بارہ عدد بوتھ سے 4320 گاڑیاں ایک گھنٹے میں گذرتی ہیں ،اور چوبیس گھنٹوں میں 103680 گاڑیاں گزرتی ہیں ، اسلام آباد سے لاہور تک ایک کار کا ٹیکس 1000 ہزار روپے ہے اور اسی طرح بڑی گاڑیوں کا چار پانچ ہزار تک یہ ٹیکس چلا جاتا ہے ،ہم اگر ایوریج ایک گاڑی کا ٹیکس صرف 1000 ہزار بھی لگائیں ، تو اس حساب سے 24 گھنٹوں میں یہ پلازہ کم از کم ساڑہے دس کروڑ روپے وصول کرتاہے ، اسی طرح ملک بھر کے موٹر ویز اور ہائی ویز پر ان ٹول پلازوں کی تعد گن لیں اور پھر ان کو کروڑوں سے ضرب دیں تو صرف ٹول ٹیکس کی مد میں روزانہ کے حساب سے اربوں روپے حکومت کے خزانے میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر آپ جس گاڑی میں سفر کر رہے ہیں ، اس کو جب خریدا جاتا ہے ، تو جتنی گاڑی کی قیمت ہوتی ہے ، اتنا ہی اس پر سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی بھرنی پڑتی ہے۔آپ جس گاڑی کو اپنے پاس رکھتے ہیں ، اس کی سالانہ ایکسائز ڈیوٹی بھی اربوں میں جمع ہوتی ہے۔آپ کی بجلی کا بل اگر دس ہزار روپے ہے ،تو اصل بجلی کی قیمت تین ہزار نکال کر بقایا سات ہزار روپے ٹیکس ہے ،جو ماہانہ ہر کنزیومر سے کاٹا جاتا ہے اور اربوں کے حساب سے حکومت کے خزانے میں جمع ہوتا ہے۔اسی طرح گیس کے بل پر بھی اسی شرح سے ٹیکس لگ رہا ہے ،اور خزانے میں جمع ہو رہا ہے۔آپ ایک میڈیکل سٹور سے تین سو روپوں کی دوائی خرید رہے ہیں ، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس پر تقریباََ چالیس سے پچاس روپے تک سیلز ٹیکس ہے ،جو کہ خزانے میں جا رہا ہے۔آپ ہوٹل میں کھانا کھا رہے ہیں اور آپ کا پانچ ہزار بل آگیا ہے ، تو اس پر تقریباََ پانچ سو کے قریب آپ سے ٹیکس کاٹا جائے گا۔آپ اپنے مکان کا نقشہ پاس کروا رہے ہیں ، اور آپ کسی بھی ڈویلپمنٹ ادارے کے دفتر جائیں ،تو لوگوں کی قطاریں لگیںہوئی ہونگی ، جن سے چالیس سے پچاس ہزار روپے فی نقشہ فیس جمع کی جائے گی۔ یہ بھی خزانے میں جمع ہوتا ہے۔آپ جس گھر میں رہ رہے ہیں ، اس گھر کا سالانہ ٹیکس آپ نے خزانے میں الگ سے جمع کروانا ہوگا۔آپ گھر کے لئے خوراکی مواد یا گراسری کی خریداری کر رہے ہیں ، اس پہ بھی آپ نے ٹیکس دینا ہوگا۔آپ پڑھ رہے ہیں ،اور اپنے لئے کتابیں کاپیاں اور سٹیشنری خرید رہے ہیں ،اور پر بھی آپ ٹیکس دے رہے ہیں۔آپ کسی سیاحتی ٹور پہ جا رہے ہیں ،تو کئی جگہوں پر ناکے لگے ہوتے ہیں ،اور ٹی ایم اے کے نام پر آپ سے ٹیکس لیا جاتا ہے۔آپ بنک میں اپنے پیسے جمع کرتے ہیں یا نکالتے ہیں ، اس پر آپ نے ٹیکس دیناہوگا ، اور آپ جتنی مرتبہ بھی ایک ہی رقم نکالتے اور جمع کرتے رہیں گے ،آپ اس پر ٹیکس دیتے رہیں گے۔حتی کہ آپ مر گئے ، تو آپ کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے بھی آپ کے عزیز و اقارب کو ٹیکس دے کر سرٹیفیکیٹ لینا پڑے گا۔ اس کے علاہ آپ کا موبائل اُس وقت تک کام نہیں کرے گا جب تک آپ اُس موبائل کی قیمت کا 20سے 40فیصد ٹیکس جمع نہ کر وا دیں۔ اس کے علاوہ حکومت کے پاس ایسے بے شمار اثاثے ہیں ،جنہیں بیچ کر اربوں روپے حکومت کے خزانے میں جا رہے ہیں ، جیسا کے پچھلے دنوں اسلام آباد کے بلیو ایریا میں سی ڈی نے اپنا چند کنال کا پلاٹ آٹھ ارب روپے کا بیچ دیا ،یہ نہ پہلا پلاٹ تھا اور نہ آخری ہے۔میں نہیں سمجھتا ،کہ میرے پاس اگر چند مرلے کا کمرشل پلاٹ ہوتا ہے ، تو اس ایک پلاٹ سے میری زندگی شاندار گزرتی ہے ، بلکہ میرے آنے والی نسل بھی اس سے بھر پور استفادہ کرتی ہے۔میرے پاس اگر چھوٹا سا کارخانہ ہو تو ہماری اگلی نسلیں اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ایک ٹرانسپورٹر کے پاس ایک آدھ بس یا ٹرک ہوتا ہے ،تو اس کی پوری فیملی کی کفالت اس سے ہوتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ جس ملک میں اربوں کھربوں کے ٹیکس روزانہ کی سطح پر اکھٹے ہو رہے ہیں ،وہ کیوں مفلوک الحال ہے ، اور دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا ہے۔ اس کے باوجود حکومت نئے ٹیکسوں کے لیے آرڈیننس جاری کر رہے ہیںعوام آخر کب تک ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کرتے رہیں گے۔ لہٰذایہاں مسئلہ ٹیکسز کا نہیں بلکہ کرپشن کا ہے، سسٹم کے ٹھیک نہ ہونے کا ہے، جگہ جگہ کرپشن کے اڈے ہونے کا ہے۔ آپ آئی ایم ایف کو لاکھ برا کہیں مگر وہ آپ کو ہر پل سسٹم بنانے کے لیے کہتا ہے۔ اگر وہ آپ سے سرکاری ملازمین کا سالانہ آڈٹ کرنے کا کہہ رہا ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟ جو نوٹیفکیشن میری نظر سے گزرا ہے اُس کے مطابق جج صاحبان اور جرنیل صاحبان اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ حالانکہ ان موصوفان کو تو خود چاہیے کہ ملک و قوم کی خاطر اپنے آپ کو پیش کریں کہ سب سے پہلے اُن کا احتساب اور آڈٹ ہونا چاہیے۔ لیکن کیا کریں یہاں نہ تو کوئی سسٹم ہے اور نہ ہی کوئی سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ اور رہی بات پٹرولیم مصنوعات کی تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ امریکہ میں ہر دو تین کلومیٹر کے فاصلے پر مختلف معیار اور ریٹس کی پیٹرولیم مصنوعات دستیاب ہوتی ہیں۔تقریبا ہر پمپ پر ریٹ مختلف ہوتا ہے آپ جہاں سے ڈلوانا چاہیں تیل ڈلوا سکتے ہیں۔ مقابلے کی فضا قائم ہونے کی وجہ سے سستا پیٹرول مل جاتا ہے۔لیکن یہاں چونکہ آپ نے ہر لیٹر میں سے 100روپے سے زائد کا چونا لگانا ہوتا ہے اس لیے آپ اس حوالے سے کبھی بھی مقابلے کی فضا پیدانہیں کریں گے۔ ٹھیک ہے نا کریں! مگر عام عوام کی آمدنی تو بڑھائیں، اُسے راشن کارڈ ہی جاری کردیں، یا اُسے پٹرول کارڈ ہی جا ری کردیں ورنہ سنا ہے کہ 2022ءمیں 21ہزار پاکستانیوں نے مہنگائی کی وجہ سے خودکشی کی تھی اور یہ تعداد 2023میں کئی گنا بڑھ بھی سکتی ہے جس کا سارا قصور ہی وقت کے حکمرانوںپر ہوگا ،اور پھر وہ وقت دور نہیں ہو گا جب عوام کا ہاتھ ہو گا اور حکمرانوں کے گریبان ہوں گے!