ڈیفالٹ! ”رجیم چینج“ کرنے والوں کو مبارک ہو!

”رجیم چینج “(Regime Change) حکومتی تبدیلی کو کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح عام طور پر دنیا بھر میں امریکا کےلئے استعمال کی جاتی ہے۔ ماضی میں امریکہ جب کسی حکومت کو دیکھتا ہے کہ وہ اس کے بتائے ہوئے ”صراطِ مستقیم“ پر نہیں چل رہی تو اس طریقِ حکمرانی کو جھٹ ”رجیم“ کا نام دے دیتا ہے۔ یہ اصطلاح منفی اور مذمتی معنوں میں زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ امریکہ۔ روس، چین، ایران، شمالی کوریا، ترکیہ یا پاکستان کی حکومتوں کو تو ’رجیم‘ کا نام دے سکتا ہے لیکن خود اپنی، برطانوی، جاپانی، فرانسیسی اور جرمن حکومت کو کبھی ’رجیم‘ کا نام نہیں دے گا۔ جب وہ ”رجیم چینج“ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو اس کا حقیقی مفہوم امریکہ کے نزدیک ایک ناحق، باطن پرست، غیر اخلاقی اور غیر قانونی حکومت وغیرہ ہے جس کو تبدیل (Change) کرنا ”عین تہذیب و شرافت“ ہے۔ امریکہ نے جس حکومت کو باطل پرست جان کر تبدیل کرنا ہوتا ہے تو اس ”کارِ خیر“ کے لئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں وہ بھی باطل پرستانہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ پاکستان کو لے لیں تو یہاں بھی 9اپریل 2022ءکو ”رجیم چینج“ ہوا۔ جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی منتخب حکومت کو ”ٹیکنیکل “ طریقے سے ختم کرکے یعنی کچھ اندرونی قوتوں کو ساتھ ملا کر نئی حکومت عوام پر مسلط کی گئی۔ حالانکہ یہ واحد رجیم چینج ہے جس سے امریکا مکمل طور پر انکاری نظر آتا ہے۔ یہ لیکن اگر وہ اپنے ان اقدامات کو مان لیتا ہے تو پھراُسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اندرون ملک اس کے ساتھ کس کس نے سازش کی۔ اور پھر تاریخ گوا ہ ہے کہ یہاں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر آج تک حکمران ”رجیم“ کی تبدیلی میں بیرونی قوتیں ہمیشہ ملوث رہی ہیں۔ پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی خطرات کو دیکھیں اور سابق اور موجودہ حکمرانوں کی ترجیحات کا جائزہ لیں تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔مگر حد تو یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں عوامی مفاد کے لیے نہیں بلکہ مقتدر قوتیں اپنے ذاتی مفاد کے لیے یا بیرونی آقاﺅں کی خوشنودی کے لیے کرتی ہیں۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ رجیم چینج کرنے والوں کو اس کی بالکل پرواہ نہیں ہوتی کہ ملک ڈیفالٹ کر جائےگا، ملک کو آگ لگ جائےگی، مہنگائی 40فیصد تک چلی جائےگی، ملک میں کرپشن بڑھ جائےگی، عدلیہ کا استعمال نظریہ ضرورت کے تحت بڑھ جائےگا، بیوروکریسی غلام بن جائےگی، امن و امان ہاتھ سے نکل جائےگا، چور لٹیرے دوبارہ اقتدار میں آجائیں گے، مقبول ترین لیڈر کو عدالتوں میں گھسیٹا جائےگا، نیب ۔ ایف آئی اے جیسے اداروں کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائےگا، پولیس کو گھر کی باندی بنا لیا جائےگا، اداروں کے درمیان پھوٹ پڑ جائےگی، ملک میں خودکشیاں بڑھ جائیں گی، ملک میں بے روز گاری بڑھ جائےگی، سٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوجائے گا یا لوگوں کی عزتیں لٹنا شروع ہوجائیں گی۔ اُن پر بس ایک ہی دھن سوار ہوتی ہے کہ چلتی ہوئی درست حکومت کا خاتمہ کرکے ملک کو کیسے اپنے مقاصد پورے کیے جائیں اور ملک کو غیر مستحکم کیا جائے۔ نہیں یقین تو آپ تاریخ کو کھنگال کر دیکھ لیں، سرد جنگ کے دوران امریکہ نے ان گنت ممالک میں وہاں کی ”اسٹیبلشمنٹ“ کے ذریعے حکومتیں بدلیں چھیالیس برسوں کے اس عرصے میں امریکہ کیلئے رجیم چینج روز مرہ کا معمول تھا، ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی پسماندہ ممالک میں ایک سے زیادہ مرتبہ مارشل لا لگائے گئے ان دنوں جو ملک روس کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیتا تھا اسے بھاری امداد ملتی تھی یہ بات مشہور تھی کہ حلیف ممالک اپنے بل واشنگٹن بجھوا دیتے تھے جہاں انکی ادائیگی ہو جاتی تھی اس سخاوت کے بدلے چھوٹے ممالک اپنے وسائل‘ سرزمین اور افرادی قوت امریکہ کو مہیا کرتے تھے۔ اس دور کے خاتمے کے بعد امریکہ نے ان ممالک سے ایسے آنکھیں پھیر لیں جیسے ان سے کبھی کوئی تعلق ہی نہ تھا امریکہ پر اس معاشی انحصار کی وجہ سے چھوٹے ممالک آج تک اپنے پاو¿ں پر کھڑے نہ ہوسکے واشنگٹن نے انکی برائے نام امداد کیلئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے قائم کئے جنہوں نے سود پر انہیں رقم مہیا کرکے انکی حالت مزید خراب کر دی۔ لہٰذااب وطن عزیز میں رجیم تبدیل ہوئے ایک سال ہونے والا ہے تو آپ ملک کی حالت خود دیکھ لیں، ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے۔ بلکہ بقول وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ”ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اور ہم دیوالیہ ملک میں رہ رہے ہیں جس کے ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ، بیورو کریسی اور سیاست دان سب ہیں۔“لہٰذااس عظیم ”کامیابی“ کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو آج بھی فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے عمران خان کو ایک منصوبے کے تحت گھر بھیجا۔ اور یہ مذکورہ لوگ یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اب کیا ہوگا اس ملک کے ساتھ۔ اس عوام کے ساتھ اور یہاں کے اثاثوں کے ساتھ، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے مگر عام عوام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اُس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔بقول شاعر افسوس ہے گلشن کو خزاں لوٹ رہی ہے شاخ گل تر سوکھ کے اب ٹوٹ رہی ہے چلیں یہاں تک بھی ٹھیک ہے کہ ملک مشکل میں ہے، آنے والے دنوں میں سنبھل بھی سکتا ہے،اور پھر روس یوکرین جنگ کے بعد دنیا بھر کے حالات قدرے مشکلات کا شکار ہیں ،پھر سیلاب سے تباہی بھی سب جانتے ہیں، جس سے پاکستانی معیشت کا پہیہ مزید بیٹھ گیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر معاشی بحران ہے تو پھر یہ مراعات یافتہ طبقہ مراعات کیوں لے رہا ہے؟ انہیں شرم کیوں نہیں آتی مراعات لیتے ہوئے؟ اتنی بڑی جہازی قسم کی کابینہ بنا دی گئی ہے، ان کے پروٹوکول کے اخراجات،ان کے آفسز کے اخراجات، ان کے سٹاف کے اخراجات کہاں سے پورے ہورہے ہیں؟عوام کی جیبوں سے؟ جو پہلے ہی قرض تلے لتھڑے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان کی مراعات پھر معمولی نہیں ہیں، بلکہ بیرون ملک سفر کی ٹکٹیں لے رہے ہیں، غیر ضروری دورے کیے جا رہے ہیں، مہنگے ہوٹلوں کے کرائے ملکی خزانے سے دیے جا رہے ہیں۔ مراعات، وظیفے یا دیگر لوازمات تو اُس وقت دیے جاتے ہیں جب ریاست کے پاس اضافی پیسے موجود ہوں۔ ان کے دلوں میں کتنا ملک کا درد ہے وہ تو اس سے نظر آجاتا ہے کہ جب یہ مراعات لیتے ہیں؟ اور یقین مانیں مراعات لینے والا طبقہ کروڑ پتی نہیں بلکہ ارب پتی ہے۔ بلکہ بقول جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کے اس وقت جو چیدہ چیدہ مراعات لی جارہی ہیں وہ یہ ہیں کہ ایک ریٹائرڈ جج کو ماہانہ پنشن کی مد میں تقریباً 10لاکھ روپے ملتے ہیں، اس کے علاوہ مفت بجلی کے 2ہزار یونٹ،3سو لیٹر مفت پیٹرول اور3ہزار روپے کی مفت فون کالز ملتی ہیں۔ 60 بلٹ پروف لگڑری گاڑیاں صرف کابینہ کے ارکان کے استعمال میں ہیں، جبکہ دیگر بڑے افراد کے پاس ایسی گاڑیاں ہیں جو ایک ٹرک جتنا تیل استعمال کرتی ہیں۔ان کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں مفت پیٹرول سے بھری ہوئی ہیں، کسی کے لیے بجلی، گیس یا پیٹرول مفت نہیں ہونا چاہیے۔وغیرہ ۔ اگر ایک سینیٹر کو یہ چیزیں نظر آرہی ہیں تو کیا ”رجیم چینجرز“ کو یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا؟ کیا اُنہوں نے صرف امریکی ایماءپر یا اپنی ذاتی ایماءپر اقتدار تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ اُس کے بعد اُن کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے؟ ان چیزوں پر ماسوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ جب تک ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہوتے تب تک ہر قسم کی مراعات ختم کی جائیں،سرکاری پروٹوکول کے نام پر اربوں روپے خرچ ہونے سے بچائے جائیں، غیر ضروری بیرون ملک دوروں پر پابندی لگائی جائے۔ تو ملک کے حالات خود بخود ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گے۔ آپ یقین مانیں اس وقت دنیا کفایت شعاری مہم کے ذریعے اپنی مشکلات پر قابو پا رہی ہیں۔ یورپین یونین کمیشن کے صدر جوزمینوئل باروسوے نے کہا کہ سادگی کے اقدامات کی وجہ سے ایسٹونیا، فن لینڈ، لکسمبرگ، سویڈن وغیرہ میں خسارہ کم ہوا یعنی میں کہہ سکتا ہوں کہ دوا نے کام شروع کر دیا ہے۔ معاشی جریدے ”اکانومسٹ“ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ جرمنی نے مقررہ مدت سے قبل ہی ایڈجسٹمنٹ کر لی اور خسارے سے نکل آیا۔اسی طرح ہنگری جسے سب ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے وہ بھی خسارے سے نکلنے کو ہے۔ریسرچ کے مطابق گزشتہ عشرے کے دوران کافی ممالک نے کفایت شعاری اور سادگی متعارف کرائی۔ ان میں سے کچھ ممالک کو مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے جبکہ کئی ممالک نتائج حاصل کرنے میں ناکام بھی رہے۔ 1993-96میں کینیڈا بھی بری طرح معاشی بحران کا شکار تھا مگر اُس نے مالیاتی خسارہ ختم کر لیا تھااور یہ صرف سرکاری اخراجات کو کم کرنے ، مراعات ختم کرنے اور پالیسیوں کے تسلسل کے باعث ممکن ہوا۔ اسی طرح لٹویا اور ایسٹونیا میں سادگی اور کفایت شعاری کے حامیوں نے کہا کہ اقتصادی نمو کا پھر سے لوٹ آنا اس بات کا اشارہ تھا کہ کفایت شعاری اختیار کرنے والے ممالک اپنے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ الغرض جب ملکوں نے ترقی کرنا ہوتی ہے تو اُس وقت وہ ایک وقت کی روٹی بھی چھوڑ دیتے ہیں، کفایت شعاری مہم اوپر سے شروع کی جاتی ہے، پروٹوکول کم کر دیا جاتا ہے،۔ جہاں جہاں انقلاب آئے، اُن کو آپ سٹڈی کریں،آپ کو علم ہوگا کہ کبھی وہ ملک ترقی نہیں کرتے جہاں کا طرز زندگی شاہانہ ہو۔ جبکہ یہاں تو سی ایم ،پی ایم کے پروٹوکولز ہیں وہی ختم نہیں ہوتے، گورنر، صدر، وزراءان سب کے پروٹوکول چیک کرلیں، اربوں روپے کا بجٹ بنتا ہے۔ اربوں روپے کی گاڑیاں امپورٹ کی جا رہی ہیں، جن میں ہائی اوکٹین پٹرول بھی عوام کے پیسوں سے ہی ڈالا جاتا ہے۔ لہٰذاان کو تو چاہیے کہ وہ ملکی مفاد کی خاطر مراعات واپس کرکے ایک مثال پیدا کریں ۔ بہرکیف واپس رجیم چینج کی طرف آتے ہیں، کہ بادی النظر میں اگر تحریک انصاف ٹھیک کام نہیں کر رہی تھی تو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے ان کے پاس پورا ایک سال تھا۔ پھر اگر یہ تبدیل نہیں کرسکے توعمران خان کو تبدیل کرنے کی ضرورت کیا تھی؟اچھی بھلی حکومت چل رہی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ رجیم چینج کرنے کا مقصد عوامی فلاحی مقصد نہیں بلکہ کوئی اور مقصد تھا۔ اور اس مذموم مقصد کے لیے سب قوتوں نے مل کر ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا ، جس کا خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں!