آفتاب سلطان کااستعفیٰ: سسٹم کے منہ پر طمانچہ !

اس بحرانی دور میں آپ تصور کرسکتے ہیںکہ کہیں سے کوئی اچھی خبر آئے، یاکوئی ”سٹینڈ“ لے، یا کوئی کرپشن سے انکار کردے، یا کوئی اپنے عہدے پر رہ کر ایمانداری دکھا دے۔ بلکہ حالات تو یہ ہیں کہ تمام سرکاری عہدیداران و افسران و سیاستدان و دیگر طاقتور ادارے بزور طاقت سب کچھ سمیٹنا چاہ رہے ہیں بلکہ کچھ تو ”گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور ،،، “ کے مترادف ملک کے ساتھ وہ کھلواڑ کر رہے ہیں کہ جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ پھر ان حالات میں کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک آئینی اور بڑے ادارے (نیب) کے سربراہ نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ وہ کسی کو بلاوجہ پکڑ کر اندر نہیں کر سکتے اور نہ ہی کسی کوبغیر ثبوت سزا دلوا سکتے ہیں۔ جی ہاں! احتساب کے ادارے (نیب) کے چیئرمین آفتاب سلطان جنہیں گذشتہ سال موجودہ حکومت نے ہی تعینات کیا تھا یہ کہتے ہوئے مستعفی ہوگئے ہیں کہ”وہ آئین اور قانون سے ہٹ کر کسی دباو¿ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔“اس صورت حال میں موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ انہوں نے نیب کو پاکستان تحریک انصاف کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔آگے چلنے سے پہلے اگر اُن کے مختصر دور پر نظر دوڑائیں تو جولائی 2022 میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کی مشاورت سے تعینات ہونے والے آفتاب سلطان کا دور اس حوالے سے اہم رہا ہے کہ اس دوران اپوزیشن کے کسی رہنما پر کوئی نیا مقدمہ یا ریفرنس دائر نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کی ہدایت پر توشہ خانہ، مالم جبہ، بی آر ٹی کیسز کی نئے سرے سے تحقیقات ضرور شروع ہوئیں لیکن ان میں کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اسی طرح نیب آرڈیننس میں ترامیم کے باعث سینکڑوں مقدمات ختم ہوگئے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ آفتاب سلطان کا دور احتساب کے حوالے سے اوسط درجے کا دور تھا جس میں انھوں نے صرف ادارے کے اندر رہ کر کام کیا اور کسی قسم کا کوئی ایڈونچر نہیں کیا جو ماضی میں ادارے کے چیئرمین کرتے رہے ہیں۔ بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ ’آفتاب سلطان نے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جسے ایکسٹریم فیصلہ کہا جا سکے۔‘ ’ان کے استعفے کی بھی کوئی دوسری وجہ نظر نہیں آتی کہ انھوں نے ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے اختلاف کیا جو ماضی میں احتساب کے ادارے کو استعمال کرکے کیے جاتے رہے ہیں۔آفتاب سلطان نے ایک ایسے وقت میں جب ملک میں کئی محاذوں پر آئینی بحران جنم لے رہے ہیں چیئرمین نیب کا استعفیٰ ایک درست عمل ہے کہ انھوں نے نیب کے سابق سربراہان کی طرح نوکری بچانے یا اسے دوام دینے کے لیے کسی سیاست دان کو بلی کا بکرا بنانے کے بجائے اپنی نوکری قربان کرکے ایک طرف ہوگئے ہیں۔ میرے خیال میں آفتاب سلطان نے اس سسٹم کا حصہ نہ بن کر اس غلیظ سسٹم کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ انہوں نے ”احکامات“ ماننے سے انکار کیا ہے، ایسا کرنے سے یقینا اُن کے قد میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ آج تک کسی میں ایسی جرا¿ت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ بڑوں سے اختلاف کر سکے۔آ ج تک کتنے لوگ اختلاف کرنے کی جرا¿ت کر سکے ہیں؟ بادی النظر میں 2چار مزید آئی جی لیول کے لوگ، یا چیف سیکرٹری کی سطح کے افسران ایسی جرا¿ت کر لیں تو میرے خیال میں پورا سسٹم ٹھیک ہوسکتا ہے۔ ملک سنبھل سکتا ہے۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر آفتاب سلطان کے الزامات سچ ہیں تو پھر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے فیصلے کروانے والوں کو شرم کیوں نہیں آرہی؟ دنیا ہمارے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے منہ پھیر چکی ہے، انویسٹر یہاں آنے کو تیار نہیں ہیں، دنیا ہمیں قرضہ دینے کو تیار نہیں ہے، دوست ممالک ہمارے اسی رویے کی وجہ سے ہم سے کنی کترا رہے ہیں،لیکن فیصلہ کرنے والوں کو مجال ہے کہ شرم آجائے۔ وہ بازکیوں نہیں آرہے؟ اُنہیں اُس وقت سے ڈرنا چاہیے جب عوام ان کے گریبانوں کو پکڑ لے گی۔ خیر بقول شاعر کعبہ کس منہ سے جاوگے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی جو شخص یعنی آفتاب سلطان اس وقت خراج تحسین کا مستحق ہے اگر ہم اُن کے ماضی پر ایک نظر دوڑائیں تو آفتاب سلطان سول انٹیلی جنس ادارے کے ’انٹیلی جنس بیورو‘ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اور انھیں دیانتدار اور با اصول افسر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آفتاب سلطان اپنے کیریئر کے دوران مختلف تنازعات کا شکار بھی رہے۔ جب پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کے بعد 2002 میں ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس وقت آفتاب سلطان سرگودھا میں ڈی آئی جی کے عہدے پر تعینات تھے۔آفتاب سلطان کو ’اعلیٰ حکام‘ سے یہ پیغام موصول ہوا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریفرنڈم میں ووٹ کرنے کو کہیں مگر انھوں نے ان احکامات پر عمل کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ جب ریفرنڈم کا نتیجہ آیا تو سرگودھا ان چند شہروں میں سے ایک تھا جہاں ٹرن آو¿ٹ دیگر شہروں کے مقابلے میں انتہائی کم رہا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعدآفتاب سلطان کو معطل کر دیا گیا تھا۔ پھر جب عام انتخابات کے بعد 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو نئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آفتاب سلطان کو ڈائریکٹر جنرل انٹیلیجنس بیورو (ڈی جی آئی بی) کے عہدے پر تعینات کیا۔ تاہم جب سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو آصف زرداری سے متعلق مقدمات میں سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کی پاداش میں نااہل قرار دیا تو ان کے بعد راجہ پرویز اشرف نے آفتاب سلطان کو ڈی جی آئی بی کے عہدے سے ہٹا دیا۔آفتاب سلطان 2013 کے عام انتخابات کے وقت ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس تھے۔ ان انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو نواز شریف نے آفتاب سلطان کو ڈی جی آئی بی کے عہدے پر دوبارہ فائز کر دیا۔ یوں یوسف رضا گیلانی کے بعد اب آفتاب سلطان ایک اور وزیراعظم کی نظر میں بھی اس عہدے کے لیے ’بہترین انتخاب‘ بنے۔ آفتاب سلطان ماضی میں عمران خان کی براہ راست تنقید کا نشانہ بھی رہ چکے ہیں۔ عمران خان کے دور میں جب نواز شریف سمیت ن لیگ کے دیگر سینیئر رہنماو¿ں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی تو نیب نے 2020 میں آفتاب سلطان کے خلاف اختیارات سے تجاوز اور بدعنوانی (گاڑیوں کی غیرقانونی خرید و فروخت) کے الزام میں ایک ریفرنس دائر کرنے کی بھی منظوری دی تھی مگر بعدازاں نیب نے اپنا یہ ریفرنس واپس لے لیا تھا۔ 2017 کے دوران تحریک انصاف نے اپنے ایک پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا کو جاری کردہ اپنے ایک اعلامیے میں ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان کو ’ریاست کے بجائے شریفوں کا وفادار‘ قرار دیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’آفتاب سلطان نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات‘ کی ہے۔ پھر 2014 میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ ’آفتاب سلطان نے بطور آئی بی چیف صحافیوں اور اینکرز میں پیسے تقسیم کیے تھے‘ ایک دفعہ پھر 2018 میں عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے آئی بی کو یہ کام سونپا ہے کہ وہ انتخابات کے لیے امیدواروں کا چناو¿ کرے۔ لیکن یہ تمام الزامات اُس وقت دھل گئے جب آفتاب سلطان حقیقت میں ”سلطان“ ثابت ہوا!۔ اور انہی ن لیگیوں شہباز و نواز کا حکم ماننے سے انکار کیا اور اپنے دائرے سے نکل کر ایک سنگل قدم بھی نہیں اُٹھایا۔ میرے خیال میں یہی کسی بھی افسر، بیوروکریٹ، جج، جرنیل یا کسی عام افسر کے شایان شان ہے۔ بہرکیف نیب ایک آئینی ادارہ ہے۔جو ملک بھر میں ہونے والی کرپشن کا آڈٹ کرتا اور پیسہ ریکور کرتا ہے۔ یہ ادارہ 1999ءمیں بنا۔ جس کے مقاصد تو اچھے تھے لیکن جب سے یہ ادارہ بنا گزشتہ 22 سالوں کے دوران ملک میں کرپشن بڑھی ہے۔ اُس کی سب سے بڑی وجہ اس ادارے میں ”اداروں“ ، سیاسی شخصیات، اور حکومتی شخصیات کی بے جا مداخلت ہے۔ آپ آفتاب سلطان کیس ہی کی مثال لے لیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق آفتاب صاحب سے وزیراعظم نے کہا تھا کہ سیاسی مخالفین کیخلاف تحقیقات میں تیزی لائیں کیونکہ یہ کیسز من گھڑت نہیں ہیں۔ جبکہ آفتاب کا کہنا تھا کہ کام جاری ہے اور اس میں کچھ مہینے لگیں گے لیکن حکومت کو نتائج حاصل کرنے کی جلدی تھی اور چاہتی تھی کہ الیکشن کے قریب آتے ہی مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا جائے۔ اس پر آفتاب سلطان کا کہنا تھا کہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر وہ ایسا نہیں کر سکتے، اسی بات سے حکومت ناراض ہوگئی۔ اس پر آفتاب نے مستعفی ہونے کی پیشکش کی جسے فوراً قبول کر لیا گیا۔آفتاب سلطان نے جاتے جاتے ایک خوبصورت بات بھی کہہ دی کہ جن لوگوں نے کے پی حکومت کا ہیلی کاپٹر غیر مجاز انداز سے استعمال کیا ہے ان سے پیسہ وصول کیا جائے نہ کہ ان کیخلاف فوجداری کارروائی کی جائے۔اُن کی یہ بات یقینا درست ہے، کیوں کہ نیب بنا ہی ریکوری کے لیے ہے نہ کہ غداری یا فوجداری کے مقدمات بنانے کے لیے۔ لہٰذاساری باتیں ایک طرف مگر خوشی اس بات کی ہے کہ آفتاب سلطان میں کم از کم اتنی جرا¿ت تو ہے نا کہ اُنہوں نے اپنی پوزیشن کو چھوڑ دیا ہے کہ مجھ سے غلط کام نہیں ہوتے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان میں تو جو سیٹ پر بیٹھتا ہے وہ تو سیٹ چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ وہ مراعات لیتا رہتا ہے، وہ سیٹ انجوائے کرتا ہے، اور پھر وہ اُس وقت تک اُترتا نہیں جب تک اپنی جیبیں نا بھر لے، اپنے خاندان، دوست احباب اور رشتے داروں کو نہ نواز دے ۔ اس لیے آفتاب سلطان کو اس بحرانی حالات میں بہترین فیصلہ کرنے پر سلام!