اشرافیہ کی مراعات بندکریں ورنہ!

وزیر اعظم شہبازشریف نے ”کفایت شعاری“ مہم کا اعلان کرتے ہوئے چند اقدامات کیے جن میں تمام وفاقی وزرائ، مشیروں، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی رضا کارانہ طور پر تنخواہیں ،مراعات اور یوٹیلیٹی بلز اپنی جیب سے ادا کریں گے۔سرکاری افسران کے پاس موجود سیکورٹی گاڑیاں واپس لے لی جائیں گی، سرکاری تقریبات میں ون ڈش ہوگی، غیر ضروری غیر ملکی دوروں پر پابندی ہوگی، وزراءکو ضرورت کے تحت سیکورٹی کیلئے ایک گاڑی دی جائیگی، توشہ خانہ سے 300 ڈالر مالیت تک کا تحفہ خریدنے کی اجازت ہوگی۔ توشہ خانہ ریکارڈ پبلک ہوگا، تمام وزارتوں، ذیلی ماتحت دفاتر، ڈویژن، متعلقہ محکموں کے جاری اخراجات میں 15فیصد کٹوتی کی جائے گی۔ بجلی کی بچت کے اقدامات کئے جائیں گے جن میں سرکاری دفاتر ساڑھے سات بجے کھلنے اور مارکیٹوں کے اوقات پر سختی جیسے فیصلے بھی شامل ہیں۔ان اقدامات سے 200ارب روپے کی بچت ہوگی۔ وزیر اعظم کے یہ اقدامات سن کر اچھا لگااور پھر اس سے بھی زیادہ اچھا اُس وقت لگے گا جب ان اقدامات پر حقیقت میں عمل ہوگا۔ کیوں کہ راقم نے اس پر گزشتہ ہفتے ہی ایک کالم داغا تھا کہ ڈیفالٹر ملک میں مراعات کیسی؟ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اگروفاق کی سطح پر بچت پروگرام کا آغاز کرکے ہم 200ارب روپے کی بچت کر سکتے ہیں تو کیا عین ممکن نہیں کہ ہم مراعات یافتہ طبقے کی مراعات ختم کرکے 2000ارب روپے کی بچت کر سکیں! کیوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک کا 22سو ارب روپیہ پینشن، مراعات اور سرکاری بیرونی دوروں پر ضائع ہوتا ہے۔ مطلب! ہم مراعات اُس طبقے کو دے رہے ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک ڈیفالٹ ہوا یا ہونے کے قریب پہنچا۔ ہم کیوں امریکا، برطانیہ ، چین یا بھارت کو اس ڈیفالٹ کا ذمہ دار قرار دیں، ہم تو اندر سے ہی ٹھیک نہیں ہیں۔ اور جن لوگوں کو ملک ٹھیک کرنے کا موقع ملا، انہوں نے اس حد تک کرپشن کی کہ اس ملک کی چیخیں نکل گئیں۔ لہٰذاکیا ایسا طبقہ مراعات کے قابل ہے؟ اور مراعات بھی چھوٹی موٹی نہیں بلکہ ان کی پنشنز 2لاکھ سے شروع ہو کر 10لاکھ روپے تک جاتی ہے، ان کی گاڑیاں 1600سو سی سی سے شروع ہو کر 4000سی سی تک جاتی ہیں، ان کے گھر 1کنال سے شروع ہو کر 8,8کنال تک جاتے ہیں۔ ان کے بیرون ملک سفر اکانومی میں نہیں بلکہ بزنس کلاس میں ہوتے ہیں۔ان کے مخصوص ہیلی کاپٹر ہوتے ہیں، 50، 50کروڑ کے ہیلی کاپٹر استعمال کیے جاتے ہیں ، حالانکہ عوام کے پیسوں سے تو امپورٹڈ گاڑیوں یا ہیلی کاپٹر کا خیال بھی ان کے ذہن میں نہیں آنا چاہیے، بھلا گورنرز کو کیا ضرورت ہیلی کاپٹر کی حالانکہ یہ عہدہ تو محض کاسمیٹکس ہوتا ہے۔ پھر انہیں پٹرول بھی معاف ہے، انہیں بجلی کے بل بھی معاف ہیں، اُنہیں یوٹیلٹی بل بھی معاف ہیں اور تو اور ان کے گھروں میں کام کرنے والا سٹاف بھی سرکاری ہے۔ اور پھر نہلے پر دہلا یہ کہ ان کی تعداد کم بھی نہیں ہے، آپ حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کی ملک بھر میں تعداد گن لیں، وزراء، اراکین اسمبلی ، سابق وزرائے اعظم، سابق صدور، سابق ججز، سابق جرنیل، سابق افسران، و دیگر مراعات یافتہ طبقے کی تعداد کو گن لیں۔ ان کی تعداد لاکھوں میں بنتی ہے۔ اور ان میں سے 99فیصد امیر ترین لوگ ہیں۔ لیکن مراعات لینے میں نمبر ون ہیں! اور پھرقارئین کویاد ہوگا کہ ہم سب اس عمل سے گزرچکے ہیں کہ بچپن میں جب ہم کسی کلاس میں فیل ہو جاتے یا کسی مضمون میں کم نمبر حاصل کرتے تو گھر والے سزا کے طور پر ہماری ”مراعات“ یعنی پاکٹ منی پر کٹ لگا دیا کرتے تھے۔ تو کیا ملک کو ڈیفالٹ کرنے والے ناکام سیاستدانوں، بیوروکریٹس، عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کی مراعات پر کٹ نہیں لگنا چاہیے؟ اگر میری بات سے آپ متفق ہیں تو پھر آپ کو اس حوالے سے بھی متفق ہونا چاہیے کہ ملک کو اس حالت میں پہنچانے میں عوام بے قصور ہیں۔ جو ٹیکسوں کے بوجھ تلے اس حد تک دب چکی ہے کہ کوئی معجزہ ہی اُنہیں اس مصیبت سے نکال سکتا ہے۔ اور پھر غصہ اُس وقت اپنے عروج پر ہوتا ہے جب یہ اشرافیہ بڑی بڑی پریس کانفرنسوں میں خطاب کر تے ہوئے کہہ رہے ہوتے ہیں عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ ویسے یہ عجیب منطق ہے، کہ عوام کہاں ٹیکس نہیں دیتے۔ ہر قسم کا زبردستی ٹیکس تو عوام پر مسلط کیا ہوا ہے، تو پھر ٹیکس نہ ادا کرنے کا شکوہ کیسا؟ اگر جوتی خریدنی ہے تو اُس کا بھی ٹیکس ادا کیا جاتا ہے، کپڑے خریدنے ہیں تو اُس پر بھی ٹیکس، ریسٹورنٹ میں کھانا کھانا ہے تو اُس پر بھی ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ آپ گھر سے نکلیں تو آپ کو ہر قسم کا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، آپ کو ٹول ٹاٹیکس کی مد میں ٹیکس دینا پڑتا ہے، آپ کو پٹرول کی مد میں ٹیکس بھرنا پڑتا ہے، آپ کو گاڑیوں کی مد میں ٹیکس دینا پڑتا ہے، کسٹم ڈیوٹیز دینا پڑتی ہیں، آپ کی بجلی کا بل اگر دس ہزار روپے ہے ،تو اصل بجلی کی قیمت تین ہزار نکال کر بقایا سات ہزار روپے ٹیکس ہے ،جو ماہانہ ہر کنزیومر سے کاٹا جاتا ہے اور اربوں کے حساب سے حکومت کے خزانے میں جمع ہوتا ہے۔اسی طرح گیس کے بل پر بھی اسی شرح سے ٹیکس لگ رہا ہے ،آپ کو ادویات پر ٹیکس بھرنا پڑتا ہے، آپ اپنے مکان کا نقشہ پاس کروا رہے ہیں ، اور آپ کسی بھی ڈویلپمنٹ ادارے کے دفتر جائیں ،تو لوگوں کی قطاریں لگیںہوئی ہونگی ، جن سے چالیس سے پچاس ہزار روپے فی نقشہ فیس جمع کی جائے گی۔ پھر آپ جس گھر میں رہ رہے ہیں ، اس گھر کا سالانہ ٹیکس آپ نے خزانے میں الگ سے جمع کروانا ہوگا۔آپ گھر کے لئے خوراکی مواد یا گراسری کی خریداری کر رہے ہیں ، اس پہ بھی آپ نے ٹیکس دینا ہوگا۔آپ پڑھ رہے ہیں ،اور اپنے لئے کتابیں کاپیاں اور سٹیشنری خرید رہے ہیں ،اور پر بھی آپ ٹیکس دے رہے ہیں۔جتنے پیسوں کا موبائل آپ نے خریدا ہے، اتنا ہی ٹیکس بھرنا پڑتا ہے، آپ کسی سیاحتی ٹور پہ جا رہے ہیں ،تو کئی جگہوں پر ناکے لگے ہوتے ہیں ،اور ٹی ایم اے کے نام پر آپ سے ٹیکس لیا جاتا ہے۔آپ بنک میں اپنے پیسے جمع کرتے ہیں یا نکالتے ہیں ، اس پر آپ نے ٹیکس دیناہوتا ہے ، اور آپ جتنی مرتبہ بھی ایک ہی رقم نکالتے اور جمع کرتے رہیں گے ،آپ اس پر ٹیکس دیتے رہیں گے۔حتی کہ آپ مر گئے ، تو آپ کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے بھی آپ کے عزیز و اقارب کو ٹیکس دے کر سرٹیفیکیٹ لینا پڑے گا۔ الغرض اس معاشرے میں اشرافیہ اور عام آدمی کے درمیان خلیج پیدا ہوچکی ہے، یہ خلیج کئی حوالوں سے قائم و دائم ہیں! آپ کسی جگہ چائے پینا چاہتے ہیں۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ نہیں پی سکتے! آپ بچے کو کسی تعلیمی ادارے میں داخل کرانا چاہتے ہیں مگر نہیں کرا سکتے۔ اور اگر کرانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو آپ کو فیس‘ مراعات یافتہ طبقے کی نسبت‘ زیادہ ادا کرنا پڑے گی! آپ ہوائی جہاز میں سفر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا ٹکٹ پورا ہو گا جبکہ مراعات یافتہ طبقے کے لیے اس پر ڈسکاﺅنٹ ہو گا! آپ کی گاڑی پر عام نمبر پلیٹ ہو گی مگر آگے جانے والی گاڑی کی نمبر پلیٹ پر ”ایم این اے“ لکھا ہو گا یا کوئی اور مخصوص نشان بنا ہو گا۔ وہ گاڑی ٹول پلازوں سے سپیڈ میں گزر جائے گی۔ آپ کو رک کر ٹول ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔آپ جہاز سے اُتر کرپاسپورٹ ہاتھ میں لیے قطار میں کھڑے ہوں گے مگر ایک صاحب آئیں گے، ان کے ساتھ ایک چست سمارٹ جوان ہو گا۔ ان کے پاسپورٹ پر فوراًٹھپہ لگ جائے گا۔ جتنی دیر میں آپ قطار سے فارغ ہوں گے وہ صاحب گھر پہنچ چکے ہوں گے۔آپ کچن کی عام چھری لے کر گھر سے باہر نکلیں گے تو پچاس بار پوچھ گچھ ہو گی مگر کچھ لوگوں کی گاڑیوں کے آگے پیچھے بڑے بڑے ڈالوں پر بندوق بردار کھڑے ہوں گے۔ کسی کے باپ میں بھی جرا¿ت نہیں کہ انہیں روکے یا ٹوکے! مراعات یافتہ طبقے کے اس بڑے طائفہ میں کوئی ایک گروہ نہیں‘ بہت سے گروہ شامل ہیں۔ یوں سمجھیں، یہ طائفہ ایک سمندر ہے جس میں کئی دریا ملتے ہیں۔سیاست دان،( حکمران اور اپوزیشن دونوں ) اعلیٰ بیورو کریسی( سول اور خاکی دونوں) منتخب اداروں کے ارکان، وزیر، سفیر، امیر، بڑے بڑے فیوڈل، جرنیل اور صنعت کار، سب مراعات یافتہ طبقے میں شامل ہیں۔ قانون سے ماورا ہیں۔ کوئی ضابطہ، کوئی اصول، کوئی رول ان سے نظر نہیں ملا سکتا!اس طاقتور طبقے اور عوام کے درمیان جو جو فرق ہیں، وہ یقینا قابل شرم ہیں۔اس لیے میرے خیال میں اگر گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں تو اس طبقے کو اپنے تئیں مراعات لینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اور پھر جب ملک کے حالات بہتر ہوں تو خواہ اسی لگژری لائف میں واپس چلے جائیں تو کوئی حرج نہیں! بہرکیف اس ملک میں مراعات یافتہ طبقے اور عوام میں بہت بڑی خلیج حائل ہے۔ اس خلیج کے ختم یا کم ہونے کا مستقبل قریب میں کیا، مستقبل بعید میں بھی کوئی امکان نہیں! اس حقیقت کو میں اور آپ جتنا جلدی سمجھ لیں اور سمجھ کر جتنا جلدی ہضم کر لیں‘ ہمارے لیے بہتر ہے!ورنہ بقول شاعر بس انتہا ہے چھوڑیے بس رہنے دیجیے خود اپنے اعتبار سے شرما گیا ہوں میں اس لیے فیصلہ کرنے والی قوتوں کو چاہیے کہ اس پر غور کریں ، اگر پاکستان کو بچانے کے لیے اُنہیں خود کے بجٹ میں بھی کٹوتی لگانی پڑتی ہے تو اُس سے گریز نہ کریں، کیوں کہ ملک ہے تو ہم ہیں، اگر ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں!اور پھر اگر ہم نے اس بارے میں آج نا سوچا تو دوبارہ شاید کبھی سوچنے کا موقع ہی نہ ملے! ورنہ خاکم بدہن پھر ہمیں شاید زمبابوے، شام، سری لنکا، سوڈان ، کمبوڈیا بنتے دیر نہ لگے! اور پھر عوام جو پہلے ہی مہنگائی کے طوفان اور کرپشن سے تنگ آچکے ہیں اور بھرے پڑے ہیں اُن کے ہاتھ ہوں گے اور اس اشرافیہ کا گریبان ہوگا!