سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا تو خانہ جنگی !

اس ملک کے لیے اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں سیاستدانوں نے 95فیصدسے زائد سیاسی فیصلے عدالتوں سے کروائے۔ ان فیصلوں میں ایک فریق راضی اور دوسرا نالاں نظر آیا۔ اور جو نالاں نظر آیا اُس نے ہر بار معزز عدالتوں کا میڈیا ٹرائل کیا، معزز ججز کی کردار کشی کی اور جب اس سے بھی دل نہ بھرا تو کہیں نہ کہیں سے عدلیہ کو دھمکیاں بھی دے ڈالیں۔یعنی اس سے صاف ظاہر ہے کہ سیاسی ادارہ، ہمارے سیاستدان اور ان سے جڑے تمام سٹیک ہولڈرز ناکامی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔اور پھر اگر یہ اہم ترین فریق بری طرح ناکام ہیں تو کوئی کیسے سوچ سکتا ہے کہ ملک ترقی کر سکتا ہے۔ حال ہی میں بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کیس کا محفوظ فیصلہ سنا یا جس میں دونوں صوبوں میں نوے روز میں الیکشن کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے سامنے آنے والا یہ فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت کے ساتھ جاری کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے دیگر تین اراکین کے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور از خود نوٹس کو مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خیبرپختونخوا کی حد تک گورنر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے یعنی جہاں گورنر نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کیا، وہاں انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی جانب سے ادا کی جانی چاہیے اور جہاں گورنر کے حکم سے اسمبلی تحلیل نہیں کی گئی، وہاں عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری صدر کو ادا کرنی ہوگی۔اس لیے الیکشن کمیشن فوری طور پر صدرِ مملکت سے مشاورت کرے اور اگر 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت سے پنجاب میں تاریخ بدلی بھی جاسکتی ہے۔بادی النظر میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بڑا جامع اور آئینی اقدار کا عین عکاس ہے۔ اس ازخود نوٹس کیس کے حوالے سے جن معزز جج صاحبان نے اختلافی نوٹ لکھے‘ ا±نہیں اختلاف اس از خود نوٹس کیس پر تھا نہ کہ نوے دن میں انتخابات کروانے پر۔کیونکہ جب آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے بعد نوے روز میں وہاں نئے انتخابات کے انعقاد کا واضح حکم موجود ہے تو اس حوالے سے کوئی ابہام باقی نہیں رہنا چاہیے۔ گوکہ تحریک انصاف سمیت اکثریتی حلقوں کی طرف سے اس فیصلے کو صائب قرار دیا جا رہا ہے لیکن حکومتی موقف اس سے کچھ مختلف ہے۔ حکومت یعنی پی ڈی ایم کے بس میں ہوتا تو شاید یہ فیصلہ رکوانے کے لیے تحریک انصاف کے کارکنان سے بھی بڑی تعداد میں سپریم کورٹ چلے جاتے۔ لیکن فیصلہ بہرحال پی ڈی ایم کی خواہش کے مطابق نہ آیا۔ گویا بچتے نہیں مواخذہ روزِ حشر سے یہ بات تو سورج کی روشنی کی طرح واضح ہے کہ پی ڈی ایم کسی بھی صورت میں انتخابات میں جانا نہیں چاہتی۔ اس کے لیے وہ عجیب عجیب بہانے تراش رہی ہے۔ ادھر مریم نواز صاحبہ کی بھی سن لیں، فرماتی ہیں کہ انتخابات اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہ ہو جائیں۔ پاناما کیس اور دیگر مقدمات میں میاں نواز شریف کو بے گناہ قرار دیا جائے۔ عمران خان کو کٹہرے میں لایا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس بیان کا لہجہ حاکمانہ ہے یعنی یہ درخواست نہیں، ان کی خواہش بھی نہیں بلکہ حکم ہے، جس پر عملدرآمد ہونا ضروری ہے۔ روئے سخن کس کی طرف ہے؟ حکومت کی طرف؟ لیکن حکومت تو ان کی اپنی ہے اور وہ اب تک ترازو کے پلڑے برابر کرنے میں ناکام ہے تو مزید کیا پہاڑ ڈھائے گی؟ مقتدرہ کی طرف؟ لیکن وہ تو نیوٹرل ہے۔ نظام انصاف کی طرف؟ جی ہاں۔ یہ حکم نظام انصاف کے لیے ہی ہے۔ لہٰذاسپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس حالیہ فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا تو خانہ جنگی ہوگی، اور پھر مارشل لاءآئے گا۔ اور پھر جو حالات چل رہے ہیں اُن کے مطابق معذرت کے ساتھ ہم امریکا کی 50ریاستوں کے بعد 51ویں ریاست بن چکے ہوں گے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوگا، جیسے مشرف یا ضیاءکے دور میں ہوا تھا۔ کہ ہم امریکا ہی کے غلام بن کر رہ گئے تھے۔ جس کا نقصان ہم مختلف صورتوں میں اُٹھانا پڑا کہ آج تک ہم ایک مکمل ریاست نہ بن سکے۔ اور پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف جو لوگ انگلیاں اُٹھا رہے ہیں، یا فیصلہ نہ ماننے کا مشورہ دے رہے ہیں، اُن میں سے کسی کا پاکستان میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اُن کے مال، جان ، جائیداد سب کچھ بیرون ملک پڑا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے 1997ءمیں سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا ، ماضی کے دریچوں کو اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو 28نومبر 1997کا دن یاد ہوگا جب ن لیگ اور اُن کے حامیوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا، ہوا کچھ یوں تھا کہ ملک کی دستوری تاریخ میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے پہلی بار آرٹیکل 63 اے کی شکل میں انسدادی قانون کے اضافے کے ساتھ ہماری سیاسی اور آئینی تاریخ کے کچھ سیاہ باب بھی وابستہ رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک دستوری ترمیم کو آئین میں واشگاف الفاظ میں مقننہ کے دستور سازی کے مطلق اختیار کے ہوتے ہوئے بھی قانون سازی کا عمل مکمل ہونے سے بھی پہلے جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی طرف مزید کارروائی سے روک دیا گیا۔ حکومتی جماعت اور اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے سپریم کورٹ کی طرف سے اس مداخلت پر شدید ردعمل دیا اور ملک کے چیف جسٹس پر ہارس ٹریڈنگ کے فروغ کے الزامات عائد کیے۔ اس کے بعد ملک کی تاریخ میں پہلی بار یہ بھی ہوا کہ پارلیمان میں عدلیہ مخالف گفتگو کرنے پر اراکین اسمبلی کے ساتھ ساتھ ملک کے منتخب وزیراعظم کو بھی ذاتی حیثیت میں سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی کارروائی میں طلب کیا گیا (اس سے پہلے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو توہین عدالت کی کارروائی میں استثنا طلب کرنے پر سپریم کورٹ کی طرف سے ان کی ذاتی حاضری پر اصرار نہ کیا گیا تھا)۔ اس کے بعد ایک ایسا واقعہ ہوا جس کا کسی بھی مہذب ملک اور کسی بھی دستوری مملکت میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا اور وہ واقعہ یہ تھا کہ 28 نومبر 1997 کے دن حکمران جماعت کے سیاسی کارکن درجن بھر ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کی قیادت میں سپریم کورٹ پہنچے (جن میں احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمٰن اور نیلام گھر سے شہرت پانے والے مسلم لیگی ایم این اے طارق عزیز بھی شامل تھے) اور وزیراعظم نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے دوران سپریم کورٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا اور وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی سماعت کرنے والے بینچ کو کارروائی چھوڑ کر کے اپنے چیمبروں میں پناہ لینا پڑی۔ لیکن معاملات یہیں پر ختم نہیں ہوئے۔ اسی تناو¿ کے دوران سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے تیرھویں آئینی ترمیم، جس کے تحت پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر صدر کو حاصل بدنام زمانہ اس اختیار کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع کر دی جس کے تحت وہ بیک جنبش قلم منتخب اسمبلیوں کو گھر بھیج سکتا تھا ختم کر دیا تھا۔اس سے حکومت اور عدالت عظمیٰ کے درمیان کشیدگی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ حکومت بھی کھل کر میدان میں آ گئی اور خود سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر دی۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کے ہی ایک بینچ کے فیصلے کے نتیجے میں اپنے عہدے سے رخصت ہونا پڑا اور جسٹس اجمل میاں نئے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ یاد رہے کہ جسٹس سعید الزمان صدیقی کو بعد ازاں مسلم لیگ ن کی جانب سے پہلے آصف علی زرداری کے مقابلے میں صدارتی امیدوار مقرر کیا گیا تھا جبکہ بعد میں انہیں مسلم لیگ ن کی حکومت میں عشرت العباد کی جگہ سندھ کا گورنر لگا دیا گیا۔ لہٰذا پی ڈی ایم میں موجود جماعتوں سے کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی کی توقع کی جاسکتی ہے، اس لیے تمام اداروں کو چاہیے کہ اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنا ہے اور ملک کو خانہ جنگی سے بچانا ہے تو الیکشن کمیشن، پاک فوج اور انتظامی ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملک میں شفاف الیکشن کی راہ ہموار کریں۔ اگر کسی کو فنڈز سے مسئلہ ہے تو الیکشن بعد میں ہوں یا پہلے فنڈز تو یقینا درکار ہوں گے۔ اور الیکشن نہ ہونے اور نااہل لوگوں کو بٹھانے سے روزانہ سینکڑوں ارب روپے کا جو نقصان ہو رہا ہے اُس سے بہتر ہے کہ 50ارب روپے جو الیکشن کمیشن کو الیکشن کروانے کے لیے درکار ہیں، دے دیے جائیں۔ قصہ مختصر کہ اصولی طور پر سپریم کورٹ کے اس صائب فیصلے کی روشنی میں نئے انتخابات کے انعقاد میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیا جانا چاہیے تاکہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو سکے۔ اسی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت بھی گمبھیر مسائل میں گھر چکی ہے۔ ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے‘ گزشتہ روز حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے شرح سود 20 فیصد کر چکی ہے اور ڈالر ہے کہ مسلسل بے قابو ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام قائم کیے بغیر معاشی استحکام کا قیام ناممکن ہے۔اور سب سے اہم بات یہ کہ الیکشن کب ہونے ہیں۔ الیکشن کس انداز میں ہونے ہیں کہ ان کی شفافیت پر سوال نہ اٹھے‘ یہ تمام چیزیں سیاستدانوں کے سوا کسی اور فریق نے طے نہیں کرنی۔ اب بھی جو الیکشن ہوں گے‘ اس میں ہارنے والا فریق بہت مشکل سے نتائج کو تسلیم کرے گا۔ اس کی بڑی وجہ سیاست دانوں میں بڑھتی خلیج ہے۔ اس دوری کو ختم کرنا ہوگا۔ ایسے سمجھدار سیاست دان‘ جو پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں‘ انہیں رابطوں کا ذریعہ بننا ہوگا۔ ورنہ الیکشن ہو بھی جائیں تو تقسیم‘ نفرت اور دوری ختم نہیں ہوگی۔ عمران خان ایک بڑے لیڈر ہیں‘ دل بھی بڑا کریں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کیساتھ بات چیت کی راہ نکالنے کے لیے اپنے اہم نمائندوں کو متحرک کریں۔ ملک کے معاشی حالات کسی مہم جوئی اور انتشار کی اجازت نہیں دیتے۔ مل جل کر راہ نکالنے کے لیے مل بیٹھنا ضروری ہوگا۔ سیاسی مخالفت کو سیاسی دشمنی میں نہیں بدلنا چاہیے۔ عوام کے فیصلے عوامی نمائندوں کو کرنا ہوں گے۔ اور اپنے نمائندے عوام کو منتخب کرنا ہوں گے۔