قوی خان: ایک خوبصورت سفرختم ہوا!

حالیہ دنوں میں تو ایسے لگ رہا ہے جیسے تمام لیجنڈ لوگوں کی باریاں لگی ہوئی ہیں، امجد اسلام امجد، ضیاءمحی الدین، بلقیس بانو، ارشد شریف، رشید ناز، نیرہ نور، تنویر جمال، افضال احمد اسماعیل تارا، مسعود اختر، خواجہ مسعود سمیت متعدد افراد ہم سے حالیہ دنوں میں بچھڑ گئے۔ اور اب رہی سہی کسر قوی خان کے غم نے نکال دی ہے۔ جی ہاں! فلم اورٹی وی کے معروف اداکار قوی خان 80 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ قوی خان اور اُن کے قبیلے کے اداکار وہ لوگ ہیں جنہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ وہ نہایت دھیمے لہجے کی فلاحی شخصیت تھے، جنہوں نے ساری زندگی مال و دولت سمیٹنے کے بجائے سب کچھ لوگوں پر اور اپنی اولاد پر خرچ کر ڈالا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی سمجھے تو یہی زندگی بھی ہے اور آخرت بھی۔ قوی خان پاکستان کے ان ورسٹائل فنکاروں میں شامل تھے جن کی شخصیت کا جادوفنون لطیفہ کے چاروں شعبوں ریڈیو، تھیٹر ، ٹی وی اور فلم میں سر چڑھ کر بولتا رہا ،وہ چھ دہائیوں تک فنی دنیا کا حصہ بنے رہے۔ اور آخری دم تک کیرئیر کے آغاز جیسی لگن اور جذ بے کے ساتھ کام میں مصروف رہے۔ قوی خان اپنی زندگی کو ” جہد مسلسل“ قرار دیتے تھے انہیں بدلتے دور کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کا فن بخوبی آتاتھا۔ انہوں نے فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔ کم عمری میں چائلڈ ایکٹر کے طور پر ریڈیو پاکستان کے ڈراموں سے کام شروع کیا ۔ 1964ءمیں جب لاہور میں پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو انہیں اس کے پہلے ڈرامے ”نذرانہ“ میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے لاتعداد سیریلز، سیریز اور انفرادی ڈراموں میں کام کیا جن میں اندھیرا اجالا ، فشار، لاہوری گیٹ، دو قدم دور تھے، مٹھی بھر مٹی، من چلے، میرے قاتل مرے دلدار، پھر چاند پہ دستک، در شہوار، بیٹیاں، داستان، ایک نئی سنڈریلا اور ڈاکٹر دعاگو کے نام سرفہرست ہیں۔ قوی خان نے ڈرامہ سیریل اندھیرا اجالا سے نام کمایا اورایماندار پولیس آفیسر کی حیثیت سے اداکاری کے بہترین جوہر دکھائے۔ قوی خان نے 200 سے زائد فلموں اور لاتعداد ٹی وی ڈراموں میں کام کیا ہے۔جبکہ ان کی چند شہرہ آفاق فلموں میں محبت زندگی ہے، سوسائٹی گرل، چن سورج، سرفروش، کالے چور، زمین آسمان، رانگ نمبر، مہر النسا ءاور پری شامل ہیں۔وہ پاکستان ٹیلی وژن کی پہلے اداکار تھے جنہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انہیں 14 اگست، 1980ءکو ملا۔ بعد ازاں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی سرفراز کیا گیا۔ محمد قوی خان پی ٹی وی ایوارڈ اور ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں بھی کام کیا اور تین نگار ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ پی ٹی وی ایوارڈ اورریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ چند ماہ قبل ہی انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں اپنی فنی خدمات کے نتیجے میں اعتراف کمال ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اُن کی شخصیت کے لیے ایک خاص بات بتاتا چلوں کہ قوی خان نے 38سال قبل 1985ءکا غیر جماعتی الیکشن بھی لڑا تھا۔ اور دس ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ وہ بتایاکرتے تھے کہ انہیں ایسا کرنے کی ترغیب جمیل فخری نے دی تھی۔جبکہ اُن کے مدمقابل لاہور سے لیاقت بلوچ اور بیگم افسر رضا قز لباش تھیں۔انہوں نے 1985ءمیں ہی کہہ دیا تھا کہ الیکشن لڑنا عام آدمی کا کام نہیں، یہ مالدار لوگوں کا کام ہے۔ وہ بعد میں بھی کہا کرتے تھے کہ ہمارا سسٹم عام آدمی کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ وہ اپنے بارے میں بھی کہا کرتے تھے کہ انہوں نے ”ادھاری“ الیکشن لڑا۔ مثلاََ الیکشن مہم کے لیے فیصل آباد سے ان کا ایک پرستار بینرز کے لیے دس ہزار میٹر کپڑا لے آیا تو دوسرے نے پچیس ہزار پوسٹر مفت چھپوا کر دیے۔ ریاض الرحمن ساغر نے جلسوں میں پڑھنے کے لیے شعر لکھ دیے۔ قوی خان بتاتے کہ ا نتخابی مہم کے آخری روز انہوں نے گیارہ جلسوں سے خطاب کیا۔جلسوں سے فارغ ہو کر جب گھر لوٹے تو بوٹوں جرابوں سمیت ہی سو گئے تھے۔ انہوں نے اپنی شکست کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے ہارنا ہی تھا کیونکہ منظم افرادی قوت کی کمی کے سبب میں پولنگ ایجنٹ کھڑے کر سکا، نہ ہی ووٹر لسٹیں کہیں پہنچائی جا سکیں۔قوی خان نے بتایا کہ میرے حلقے میں75 دیہات بھی شامل تھے۔ اس بات کا علم مجھے الیکشن کے بعد ہوا۔ رزلٹ آیا تو ایک پیسہ خرچ کیے بغیر مجھے دس ہزار کے قریب ووٹ ملے، میں خودسے لوگوں کا اس قدر پیار دیکھ کر حیران رہ گیا۔ خیر اُن کی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز بھی آئے یعنی جب اُنہوں نے خود کی پروڈکشن سٹارٹ کی تو انہیں بہت سی ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا یعنی اوپر نیچے اُن کی 12سے زائد فلمیں فلاپ ہو گئیں۔ اور وہ مالی طور پر مزید کمزور ہو گئے لیکن انہوں نے غلطیوں سے سیکھا اور دوبارہ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو گئے۔ میں جب ”خبریں“ میں چیف رپورٹر تھا تو اُس وقت قوی صاحب اکثر لاہور آفس میں آجایا کرتے، اس وقت الیکٹرانک میڈیا نہ ہو نے کے برابر تھا اس لیے ہم انٹرویو ”ریکارڈر “ کو سامنے رکھ کر کر لیا کرتے تھے۔ ایک بار راقم نے اُن نے خاصی طویل گفتگو کی جس میں وہ خاصے شناساں سے ہوگئے، آنکھیں بھر آئیں اور شدید ماضی میں چلے گئے، پھر انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کے علاوہ بہت سے زندگی کے تجربات بھی شیئر کیے۔ انہوں نے بتایاکہ میں جب لاہور میں رحمان پورے میں رہائش پذیر تھا تو 2 سال بعد اس قابل ہوا کہ 25 روپے کرایہ دے سکوں۔انہوں نے کہا کہ ایک دن ایسا بھی تھا کہ جب میرے پاس بس کے ٹکٹ کے 5 پیسے نہیں تھے، بس کا ٹکٹ 15 پیسے کا تھا اور میرے پاس صرف 10 پیسے تھے، پھر 5 پیسے کے لیے دوست کے گھر گیا، اس کے ساتھ کافی دیر کھڑا رہا لیکن مجھ میں دوست سے 5 پیسے مانگنے کی ہمت نہ ہوئی اور میں واپس آگیا۔انہوں نے کام سیکھنے کے حوالے سے بتایا کہ الفاظ کے تلفظ ، ادائیگی ، زیر زبر کا فرق ، گفتگو کا قرینہ و سلیقہ میں نے ریڈیو پاکستان سے سیکھا اور کالج کی تعلیم کے دوران بھی ریڈیوپر کام کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہا پھر میں 1961میں لاہور آگیا۔ میں نے پانچ چھ برس بینک میں ملازمت بھی کی لیکن چونکہ میرے پاس ریڈیو پاکستان کا این او سی تھا تو میں نے ریڈیو لاہور پر کام کا سلسلہ جاری رکھا پھر میں نے الحمرا تھیٹر اور اوپن ائیر تھیٹر میں اداکاری کے جوہر دکھائے، رفتہ رفتہ مجھے فلم میں کام کرنے کا موقع بھی میسر آگیا 1964میں میری پہلی فلم ” رواج“ ریلیز ہوئی جسے دلجیت مرزا صاحب نے بنایا تھا ، ” رواج“ میں ولن کا کردار میں نے ادا کیا ساتھ ہی پروڈکشن میںدلجیت مرزا کو اسسٹ بھی کیا تھا جس سے مجھے فلم میکنگ کی باریکیوں کو سمجھنے میں کافی مدد ملی ، اسی دوران لاہور میںپاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہورہا تھا ، میں نے کام کے لئے فوری اپلائی کیا جلد ہی مجھے یہ پیغام ملا کہ پاکستان ٹیلی ویژن سے جو پہلاکھیل ”نذرانہ“ آن ائیر جائے گا اس میں ہیرو کا کردار میں ادا کروں گا تو وہ میرے لئے تاریخ بن گئی جو اب تک ہے۔ اس کھیل کو نجمہ فاروقی نے تحریر کیا تھا اور فضل کمال نے ڈائریکٹ کیا تھا، میرے ساتھ کنول حمید نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ پھر میں نے 1966 میں بینک کی جاب چھوڑ دی اور تمام تر توجہ فن اداکاری پر مرکوز کردی ، ریڈیو، ٹی وی ، تھیٹر اور فلم ہر میڈیم میں مجھے کام ملتا رہا اور میں نے اس سلسلے میں بریک نہ آنے دی۔ ایک زمانے میںمجھ پر فلم میکنگ کا جنون طاری ہوگیا جس کی تکمیل کے لئے میں نے بارہ فلمیں بھی بنائیںجو زیادہ اچھی نہیں گئیں اس ناکامی نے مجھے زندگی کے نشیب و فراز سے بخوبی آشنا کروایا لیکن اس سارے سفر میں ٹیلیویژن نے مجھے تھامے رکھا ، ہم دونوں نے ایک دوسرے کا دامن نہیں چھوڑا۔اب تک 54برس ہوگئے ہیں میں نان اسٹاپ ٹی وی پر کام کررہا ہوں اور ہر ہفتے میں کسی نہ کسی چینل پر ضرور آن ائیر ہوتا ہوں۔ میں نے زندگی میں کوئی بزنس نہیں کیا ، کوئی پراپرٹی نہیں بنائی۔ اداکاری ہی میرا جنون رہا جس سے مجھے رزق کا سامان بھی مہیا ہوتا رہا۔ میں پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اوپر نہیں پہنچ گیا بلکہ میرا سفر تو جہد مسلسل کی عملی مثال ہے، پہلی کے بعد دوسری پھر تیسری سیڑھی مرحلہ وار عبور کیں۔ قوی خان کی یہ باتیں واقعی دل موہ لینے والی تھیں، انٹرویو کے دوران وہ بہت زیادہ ماضی میں کھو جاتے تھے، لہٰذاانہیں جگانے کے لیے مجھے ایک شرارت سوجھی اور میں نے اُن سے سٹیج پر اداکاری کے تجربے کے حوالے سے پوچھ لیا۔ اور پوچھا کہ سنا ہے کہ آپ کا وہ تجربہ کامیاب نہیں رہا تو اُنہوں نے ناراضی کا اظہار کیا، اور کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ میرا سٹیج والا تجربہ ناکام رہا، بلکہ وہاں کوئی اور کلاس ڈرامہ دیکھنے آتی ہے، آرٹسٹ کوعلم ہونا چاہئے کہ مکالمہ کہنے کے کیا اسرار ورموز ہیں ، تھیٹر ہال میں جو 600آدمی آپ کو لائیو دیکھ رہے ہیں ان کی ڈیمانڈ کیاہے اورٹی وی ناظرین کے سامنے کیسے آنا ہے۔ آوازکی پچ، باڈی لینگوئیج، کیمرہ ہینڈلنگ ، خود اعتمادی اور ہر میڈیم کاباہمی فرق، یہ سب علوم تجر بے سے ہی حاصل ہوتے ہیں اورسب سے بڑھ کر فنکار کا زمانے میںآنے والی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہونا بہت ضروری ہے ، جیسے کچھ سالوں بعد کیمرے بدل جاتے ہیں ، لائٹس بدل جاتی ہیں، لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آجاتی ہے ، لباس اور گفتگو کا انداز بدل جاتاہے، ویسے ہی آرٹسٹ کو وقت کے ساتھ ان تبدیلیوں کو اپنا لینا چاہئے ورنہ وہ زمانے کے ساتھ چل نہیں پائے گا۔ میرا یقین ہے کہ ریڈیو او ر تھیٹرکا تجربہ ہونے کی وجہ سے میں نے اتنے برس کام کرلیا ورنہ خامیاں اورکوتاہیاں تو مجھ میںبھی بہت ہیں اور مکمل تو صرف میرے مالک کی ذات ہے۔ بہرکیف قوی خان واقعی ایک لیجنڈ اداکار تھے، اُن کے ہونے سے اس معاشرے میں برکت تھی، لیکن اُن کے نا ہونے سے خلا پیدا ہو چکا ہے۔وہ دوستوں کے دوست تھے،کبھی محنت کرنے سے انہوں نے جی نہیں چرایا۔ اگر کسی نے کہا کہ سر! کیا آپ سٹیج پر کام کریں گے تو انہوں نے سب سے پہلے پوچھا کہ ڈرامہ کا سکرپٹ تعمیری ہے! تب ہی انہوں نے حامی بھری ورنہ انکار کردیتے۔ اُمید ہے اُن کے کام سے ہماری نوجوان نسل سیکھنے کی کوشش کرے گی اور تاقیامت اُن کے کام سے استفادہ حاصل کیا جاتا رہے گا۔