خواتین کے حقوق : ہمیں خوف کس چیز کا ہے؟

8مارچ خواتین کے حقوق کا عالمی دن گزر گیا، ان آنکھوں نے پورے ملک کو دو دھڑوں میں بٹے ہوئے دیکھا۔ ایک گروپ ان بولنے والی خواتین کا تھاجو میگا فون پہ اپنی نسوانی آواز کی آخری حدوں تک جا کر، سڑکوں پہ آ کر، نعرے لگا کر، مکے لہرا کر، پلے کارڈز اٹھا کر معاشرے کو شرم دلانا چاہتی ہیں۔ کہ انہیں حقوق دو، حقوق دو ۔ وہ چاہتی ہیں کہ اس معاشرے سے کاروکاری کا خاتمہ کیا جائے، عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنا بند کیا جائے، ریاست انہیں تحفظ فراہم کرے، عورتوں پر تشدد کو روکے، عورتوں کی اُجرت کو بڑھایا جائے، ان کے مذہب کی جبری تبدیلی کو روکے، ان کے صحت کے مسائل حل کرے، ان کے ہاتھ مضبوط کرے، پولیس اسٹیشنوں میں خواتین اور خواجہ سرا اہل کار تعینات کیے جائیں جو خواتین کے مسائل سنیں، خواتین ایم ایل اوز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے وغیرہ ۔ جبکہ دوسرا گروپ ایسے حضرات کا تھا جو عورت مارچ نامی احتجاج کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔ انہیں خواتین کے نعروں، پلے کارڈز پر لکھے الفاظ، سڑکوں پر گونجتی آوازوں پر اعتراض ہے، انہیں عورت مارچ میں لفظ ”عورت“ اور ”مارچ“ دونوں پہ اعتراض ہے۔عورت مارچ کے مخالف مرد ہیں چلو مان لیا لیکن اس سے بھی گھمبیر صورت حال یہ ہے کہ بہت سی عورتیں بھی ایسے کسی مارچ وارچ کے حق میں نہیں۔ہمارے معاشرے کا تانا بانا کچھ ایسا بُنا گیا ہے کہ اس میں وہ دھاگہ جس میں عورت لپٹی ہے، کچا رکھا جاتا ہے۔ صدیوں سے چلے ریتی رواج، روزمرہ بول چال، لغت کے الفاظ، محاورے، لوک داستانیں، حکایتیں، نصیحتیں سب مردانہ بالادستی اور خواتین کی کم مائیگی کے طے شدہ خود ساختہ سچ کے گرد گھومتی ہیں۔اس لیے ہمارا ذہن بھی حاکمانہ سا بن گیا ہے، اگر ہم اس حوالے سے ٹھندے دماغ سے سوچیں کہ بھئی کون سی قیامت آ گئی۔ اور جب اس حاکمانہ سوچ کو ختم کرنے کے لیے مرد کی اجارہ داری ختم ہو رہی ہے تو اس میں مسئلہ کیا ہے۔اور پھر خواتین کے حقوق سے مراد یہ نہیں کہ خواتین کو مردوں پر اجارہ داری حاصل ہو، بلکہ اُس سے مراد بقول وومن رائیٹ لیڈر میری شیلے”میں نہیں چاہتی کہ عورت کو مردوں پر اختیار ملے، میں چاہتی ہوں کہ عورت کو خود پر اختیار ملے“۔ لہٰذااس معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں قیادت ہو یا معاشرت، معیشت ہو یا سیاست، عورت کو ہمیشہ اس کے اصل حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اسے اظہار کی آزادی ملتی ہے نہ قیادت کا منصب۔ کام کی جگہ پر ہراسیت ہو یا زبردستی کی شادی، تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں ہوں یا بنیادی نوعیت کا صنفی امتیاز، سبھی اس کے حصے میں آتے ہیں۔ خواتین کو عام طور پر”صنفِ نازک“ کے طور پر پیش کر کے مردوں سے کمتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لئے لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت کا کام ہے کہ گھر بیٹھے، بچوں کی دیکھ بھال کرے، لوگوں سے پوشیدہ رہے، اور گھر بار کی ذمہ داریاں نبھائے۔ کئی لوگ انہیں محض ”شو پیس“ سمجھتے ہیں، جسے بنا سنوار کر رکھا جائے اور لوگوں کے سامنے بنا سنوار کر اس کی قیمت لگائی جائے۔ عورت میدان عمل میں قدم رکھے تو اس پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں اور اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اس لئے عورت وہ سب کچھ نہیں کر سکتی جو وہ چاہتی ہے۔ معاشرہ، لوگ، لوگوں کی ذہنیت، اسے قبول نہیں کرتے۔ عورت کو ہمیشہ نااہل سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس کے اندر طاقت ہے، عزم ہے، امید ہے، پھر ایسا کیوں؟ اسے کم ازکم ایک موقع تو دیں۔ ہماری خواتین ہر طرح کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنا آپ ٹٹولیں تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ وہ اگر ٹھان لیں اور انہیں اگر درست راہ دکھا دی جائے تو وہ معجزے برپا کر سکتی ہیں۔پاکستان میں آج بھی زیادہ تر علاقوں میں قدامت پسندی کا راج ہے جہاں خواتین کو ووٹ دینے کے بنیادی آئینی حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ اس سے رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور انہیں لگتا ہے جیسے وہ بیکار سی چیز ہیں، انہیں ہمیشہ پیچھے رکھا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ فیصلے کرنے کی آزادی، نقل وحرکت کی آزادی، اظہار کی آزادی، یہ سب بنیادی انسانی حقوق ہیں۔ یہ حقوق نسواں کی بدیسی باتیں نہیں بلکہ وہ حقوق ہیں جن کا ہر فرد، ہر انسان حقدار ہے۔ یقین مانیں ہماری تو سی ایس ایس کرنے والی خواتین بھی اکثر گھروں میں حراسگی کا نشانہ بنتی ہیں، ظلم کا شکار ہوتی ہیں، کبھی ساس کے ظلم کا شکار تو کبھی شوہر کے ظلم کا شکار ہماری تو اے ایس پی یا ایس پی خاتون کو بھی شوہر سے تھپڑ پڑ جاتے ہیں۔ درحقیقت یورپ میں خواتین اور مرد میں فرق ختم کر دیا گیا ہے، وہاں جائیداد میں سے بھی برابر کا حصہ خواتین کو دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے ہاں خواتین کی جائیداد ضبط کرنے کے لیے اُنہیں دبایا جاتا ہے، اُنہیں مارا پیٹا اور بے دخل کر دیا جاتا ہے، ہمارے معاشرے میں بھی آدھا حصہ نہیں بلکہ پورا حصہ ملنا چاہیے،اس پر نئی قانون سازی ہونی چاہیے۔ پھر طلاق یافتہ خواتین جو عدم تحفظ کا شکار ہیں، اُنہیں بھی تحفظ ملنا چاہیے۔اگر ہم سود کو نافذ کرکے ملک میں اسے حلال قرار دے سکتے ہیں، تو خواتین کو حقوق دینے میں مسئلہ کیا ہے؟ ہم نے تو ہر بنک کے ساتھ ”اسلام“ جوڑ دیا ہے، لیکن ہوتا سب کچھ وہی ہے جو سود کی زمرے میں آتا ہے۔ بہرحال ہمیں اتنا تنگ ذہن نہیں ہونا چاہیے کہ ایک عورت سے ڈر جائیں، چلیں یہ بھی چھوڑیں پاکستان کے حالات دیکھ لیں، دنیا کے سامنے ہم خواتین کے معاملے میں اس قدر تنگ نظر ہو چکے ہیں کہ ورلڈ اکنامک فورم کی شائع شدہ جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق پاکستان 153 ممالک کی فہرست میں 151ویں نمبر پر ہے اور یوں پاکستان اس میدان میں صرف عراق اور یمن سے آگے ہے۔پھر معاشی طور پر خودمختار خواتین کے حوالے سے ہماری رینکنگ 153ممالک کی فہرست میں 150ویں نمبر پر ہے، پھر خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ہمارا نمبر 143واں ہے،پھر خواتین کی صحت کی سہولیات کے حوالے سے 149واں ہے، پھر خواتین کے سیاست میں حصہ لینے کے حوالے سے ہم93ویں نمبر پر ہیں، زچگی کے دوران شرح اموات میں ہم تیسرے نمبر پر ہیں، یہی نہیں ہم جنوبی ایشیا میں بھی خواتین کو حقوق دینے میں آخری نمبر پر ہیں۔اور پھر اولمپک گیمز میں خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے ہمارے ملک کا نمبر 111ہے۔ لہٰذاجب ایسی صورتحال ہو تو ہم دنیا کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا چاہیے، اپنے ملک کا مثبت امیج بحال کرنا چاہیے، لیکن اس کے برعکس ہم تو کسی کو جائز حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں رہتے۔ اگر کوئی کمتر اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہوجائے تو ہم اُسے دبانے کی شدید کوشش کرتے ہیں تاکہ ہماری اُجارہ داری ختم نہ ہو سکے۔ ہم تو اس بات کا بھی خیال نہیں کرتے کہ اگلے بندے (خواتین ) پر اس حوالے سے کیا گزر رہی ہوگی۔ ہم جب کاروکاری کرتے ہیں تو سسٹم خاموش رہتا ہے، 18سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیاں کرتے ہیں تو سسٹم خاموش رہتا ہے، خواتین کی حفاظت کے لیے ہمیں کوئی بہتر کام کرنا پڑے گا۔ جو لڑکیاں کھیل کے میدان میں جاتی ہیں اُنہیں تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ اور جو لڑکیاں اگر اپنے حقوق کے لیے میدان میں آگئی ہیں تو انہیں ہم جینے نہیں دیتے۔ پھر دکھ کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی خواتین کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ قوانین نہیں بنا سکی،سابقہ حکومتوں کی طرح خواتین کے حقوق، تعلیم صحت پر کبھی کسی نے بات نہیں کی، حد تو یہ ہے کہ اُلٹا خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کو پرائیڈ آف پرفامنس کے ایوارڈ دے رہی ہے، جن میں گلوکار علی ظفر نمایاں ہیں، خیر بات کہیں کی کہیں نکل جائے گی اس لیے قانون سازی پر ہی رہتے ہیں کہ اس حوالے سے آخری بل ”2016ءمیں تحفظ خواتین بل(پنجاب)“ کے بعد کوئی نمایاں قانون سازی دیکھنے میں نہیں آئی،اور ویسے بھی ہمیں اس ان بلز کی کوئی ضرورت ہی نہیں کیوںکہ ان پر عمل درآمد کروانا ہی جان جوکھوں میں ڈالنے کا کام ہے۔ حالانکہ آئین پاکستان کی شق 25-Aکے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کی پابند ہے۔لیکن اگر پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا موازنہ کیا جائے تو ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 25لاکھ بچےاں بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، 32 فیصد پرائمری سکول جانے والی عمر کی لڑکیاں سکول نہیں جاتیں ۔ چھٹی جماعت تک 59 فیصد لڑکیاں سکول سے باہر ہیں۔نویں جماعت میں صرف 13 فیصد لڑکیاں سکول جاتی ہیں۔ اور کالج لیول تک تو یہ تناسب شرمناک حد تک گر جاتا ہے، یعنی محض 6فیصد رہ جاتا ہے۔ پھر یہاں زبردستی شادیوں کے رواج ، جائیداد میں خواتین کے حقوق سلب کرنے کے مسائل، پھر یہاں زنا بالجبر یا ریپ کے ہزاروں مسائل ہیں جنہیں کوئی نہیں روک پا رہا، ایک تحقیق کے مطابق سال 2022میں ان کیسوں کی تعداد میں 200فیصد اضافہ ہوا، اور صر ف لاہور میں ایک ماہ میں 73 ریپ کیسز اور 5 گینگ ریپ کیسز رپورٹ کیے گئے۔ الغرض یوں لگتا ہے جیسے ہم عورتوں کو پیدا ہوتے ہی گ±ھٹی میں اپنا ہی دم گھونٹ لینے کا سبق دم کر کے پلایا جاتا ہے۔ یوں بھی لگتا ہے کہ صدیوں سے مردانہ بالادستی کا طے شدہ سچ ہمارے ڈی این اے پہ مہر کی طرح ثبت ہوگیا ہے کہ اب کوئی اس کو چیلنج بھی کرے تو خود ہم عورتوں کو برا لگنے لگ جاتا ہے۔ قصہ مختصر عورتوں کے حقوق کا مسئلہ وطنِ عزیز میں بہت گمبھیر ہے۔ عورتوں نے آواز بلند کرنا شروع کی ہے تو شاید ہمیں ہضم نہیں ہو رہی۔ اگر ہر معاشرے میں عورتوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے۔ تو یہاں بھی یہ ان کا آئینی حق ہے۔ جس سے خوفزدہ ہونے کے بجائے قبول کرنا چاہیے!