توشہ خانہ : پوری دال ہی کالی ہے!

کالم شروع کرنے سے پہلے راقم کا 22نومبر 2022ءکو لکھے گئے کالم کا ایک چھوٹا سا حصہ ملاحظہ فرمائیں ”سوال یہ ہے کہ کیا یہ توشہ خانہ کا پہلا تحفہ یا پہلی گھڑی تھی جو عمران خان کو بطور وزیراعظم پاکستان ملی؟کیا یہ پہلا تحفہ تھا جو عمران خان نے بطور وزیراعظم قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے خریدا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر رٹ پٹیشن عنقریب سب کچھ بتا دے گی کہ اب تک کتنے اور کس قدر مالیت کے قیمتی تحائف، جو غیر ملکی سربراہان کی جانب سے دیے گئے تھے، توشہ خانہ سے خریدے گئے۔ اور آج نہیں تو کل یہ بات منظر عام پر آہی جائے گی کہ وہ تمام تحائف جو توشہ خانہ میں جمع تھے، کون لے گیااور کس نے نایاب اور قیمتی اشیا کی من مانی قیمتیں مقرر کرا کر ان کی ادائیگیاں کیں اور پھر ان کو ایسے اپنے گھروں میں لے گئے کہ نہ کسی کو خبر دی گئی اور نہ ہی ان سے متعلق ابھی تک کیبنٹ ڈویژن عوام کو کچھ بتا رہا ہے۔ حکومت سے جب بھی ”فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ“ کے تحت توشہ خانہ کی تفصیلات طلب کی جائیں تو اسے ”سٹیٹ سیکرٹ“ قرار دے دیا جاتا ہے۔ مطلب راقم نے اُسی وقت یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ جلد یا بدیر توشہ خانہ کا ریکارڈ منظر عام پر لانا پڑے گا۔ تب ہی تمام حقائق کھل کر سامنے آسکیں گے۔ اور آج ایسا ہی ہوا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں! بلکہ پوری دال ہی کالی نکل آئی ہے۔ یعنی وفاقی حکومت نے عدالتی ”دباﺅ“ کے بعد توشہ خانہ کے تحائف کی خریداری سے متعلق 21 سالہ ریکارڈ عوام کے سامنے لاتے ہوئے 466صفحات پر مشتمل دستاویز کو سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا ہے۔ریکارڈ بہت دلچسپ ہے، ایسے لگ رہا ہے جیسے ہمارے پورا سیاسی ”ٹبر“کھرب پتی ہونے کے باوجود دل کے ہاتھوں مجبور ہے اور چھوٹی موٹی چوریوں پر بھی اکتفا کر تا ہے۔ اور پھر جب سسٹم انہیں یہ چوریاں کرنے کی اجازت نہ دے تو یہ قوانین اپنے مطابق ڈھال لیتے ہیں جیسے پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور میں قوانین میں نرمی کرکے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی تھی۔اس حوالے سے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر رکھے ہیںاسی طرح آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو توشہ خانہ سے خریدرکھی ہیں۔ اگر باقی ریکارڈ کی تفصیلات یہاں بیان کرنے لگ جاﺅں تو بہت سے صفحات کالے کرنا پڑیں گے مگر چیدہ چید شخصیات کا جائزہ لیں تو دستاویز کے مطابق سابق وزیر اعظم نوازشریف نے سال 2008 میں توشہ خانہ سے مرسڈیز بینز گاڑی لی، سال 2008میں مرسڈیز گاڑی کی قیمت42 لاکھ 55ہزار تھی، نواز شریف نے 2008 میں 6لاکھ36 روپے دے کر مرسڈیز گاڑی لی، شہبازشریف کو تحائف میں درجنوں چیزیں ملیں جو انہوں نے مفت میں رکھ لیں۔نوازشریف نے43ہزار روپے کا گلاس سیٹ اور کارپٹ 6ہزارمیں رکھے، نوازشریف نے وزیراعظم ہوتے ہوئے12لاکھ کی گھڑی ،کف لنک 2لاکھ40ہزار دے کر رکھے، توشہ خانہ سے نوازشریف نے8ہزار کا گلدان مفت میں رکھ لیا۔آصف علی زرداری کی بات کریں تو سابق صدرکو جیوانی واچ ،ہارس ماڈل، مجموعی مالیت 5لاکھ 40 ہزار کے ملے، انہوں نے جیوانی واچ، ہارس ماڈل کیلئے 79 ہزار 5روپے ادا کیے،سابق صدر کو 5کروڑ 78لاکھ کی بی ایم ڈبلیو، 5کروڑ کی ٹویوٹا لیکسس تحفے میں ملیں انہوں نے 10کروڑ78 لاکھ کی 2گاڑیوں کیلئے ایک کروڑ61لاکھ روپے ادا کیے۔اس کے علاوہ آصف زرداری نے10ہزار روپے کی پینٹنگ مفت میں رکھی، آصف زرداری کو سال 2009میں 2کروڑ 73لاکھ روپے مالیت کی بی ایم ڈبلیو تحفے میں ملی، جو انہوں نے 41لاکھ میں خریدی، اور بلاول بھٹو زرداری نے ساڑھے6ہزار روپے کا گلدان مفت میں رکھا۔ آپ وزیراعظم شہباز شریف کو دیکھ لیں جنہوں نے درجنوں چیزیںمفت میں رکھ لیں، شہباز شریف نے گائے کا ماڈل، صراحی، وال ہنگنگ، باو¿ل اور خنجر مفت میں رکھ لیے۔ وزیرا عظم نے بک لیٹ 10ہزار، اسٹیڈیم ماڈل 15ہزار توشہ خانہ سے لے کر مفت میں رکھ لیا،شہبازشریف نے گھوڑے کا 28ہزار روپے مالیت کا دھاتی مجسمہ فری میں رکھ لیا، شہباز شریف نے چاکلیٹ اور شہد 12ہزار، جار10ہزار روپے کا فری میں رکھ لیا، ازبک مصنوعات کی کتابیں 33ہزار، پینٹنگ28ہزارروپے کی فری میں رکھ لیں، ازبک مصنوعات کی کتابیں 33ہزار، پینٹنگ28ہزارروپے کی فری میں رکھ لیں۔وزیراعظم شہبازشریف نے 4لاکھ روپے مالیت کا طلائی گلدان توشہ خانہ سے لیا، انہوں نے طلائی گلدان کیلئے ایک لاکھ85ہزار روپے ادائیگی کی، اس کے علاوہ انہوں نے2013 میں بطور وزیراعلیٰ 35ہزار کاڈیکوریشن پیس 5ہزار میں لیا۔ اس کے علاوہ مریم نواز، کلثوم نواز اور نوازشریف نے پائن ایپل کا باکس مفت میں رکھا، سال 2013 میں نواز شریف کے سمدھی اور موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے15 ہزار روپے مالیت کی بیڈ شیٹ 1ہزار روپے میں رکھی۔آپ پاکستانی ائیر لائن کے مالک اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بات کر لیں، سال 2018میں شاہد خاقان عباسی کو2کروڑ50لاکھ مالیت کی گھڑی تحفے میں ملی، 2018میں شاہد خاقان عباسی کے بیٹے نادر عباسی کو ایک کروڑ70لاکھ کی گھڑی تحفے میں ملی، 2018میں وزیراعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد کو 19لاکھ مالیت کی گھڑی ملی، گھڑی کی قیمت 3لاکھ 74ہزار روپے توشہ خانہ میں جمع کروائی گئی، 2004میں پرویزمشرف کو ملنے والے تحائف 65لاکھ روپے سے زائد کے ظاہر کیے گئے۔ ان کے علاوہ عمران خان کی تفصیلات تو بار بار منظر عام پر آچکی ہیں، انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں اس کے علاوہ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے تحائف توشہ خانہ میں جمع کروائے، مئی2006میں سابق وزیرخزانہ عمر ایوب نے ساڑھے4لاکھ کی گھڑی توشہ خانہ میں دی، 2007میں شوکت عزیز کو ملنے والی ساڑھے 8لاکھ روپے کی گھڑی3لاکھ55ہزارمیں نیلام ہوئی، میرظفراللہ جمالی مرحوم نے خانہ کعبہ کے ماڈل کا تحفہ وزیراعظم ہاو¿س میں نصب کرا دیا تھا۔وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی والدہ نے 2009میں ایک لاکھ 15ہزارکی 2گھڑیاں30ہزارمیں لیں، فروری 2023 کو وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو بھی رولیکس گھڑی تحفے میں ملی۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی بھی توشہ خانہ سے گھڑی لینے والوں میں شامل ہیں، محسن نقوی کو 31جنوری 2023 کو رولیکس گھڑی تحفے میں ملی۔ الغرض یہ وہ تفصیلات ابھی کل دستاویز کا 5فیصد بھی نہیں ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اخلاقی طور پر اتنے گرے ہوئے ہیں، کہ سرکاری طور پر ملنے والے تحفے بھی نہیں چھوڑتے۔ اور حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ دوسروں پر تواتر سے الزامات کی بوچھاڑ بھی کر رہے ہیں، جب کہ ان سب کو علم تھا کہ انہوں نے بھی تحائف اونے پونے حاصل کیے ہوئے ہیں تو یہ کس منہ سے الزام لگا تے رہے ہیں؟ اور پھر یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ دوسروں پر الزام لگانے کے حوالے سے مسلم لیگ ن کا کوئی مقابلہ نہیں ! تاریخ گواہ ہے کہ ویسے بھی انہیں ہر وقت کوئی نہ کوئی بندہ، پارٹی یا عہدیدار چاہیے کہ یہ جس پر الزام تراشی کر سکیں۔ یہ لوگ گزشتہ 25سال سے محترمہ بے نظیر اور زرداری پر الزامات لگاتے رہے ۔ پھر جب ان کی پیپلزپارٹی سے صلح ہو گئی تو اب انہیں الزامات لگانے اور جملے کسنے کے لیے عمران خان اور تحریک انصاف مل گئی۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک بندہ بغیر وضو کے نماز پڑ ھ رہا ہے اور دوسروں سے کہہ رہا ہے کہ دیکھو اس نے وضو ٹھیک نہیں کیا۔ حالانکہ الزامات تو وہ شخص لگائے جو خود پارسا اور نیک ہو۔ اور پھر آپ بھی وہی کام کر رہے ہوں جو دوسرا کر رہا ہے تو آپ کا ضمیر دوسروں پر الزام تراشی کے لیے کیسے تیار ہو سکتا ہے؟ آپ کو بڑے لوگوں کی ایک حالیہ مثال دیتا چلوں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز کی تازہ ترین غلطی نے نہ صرف مقامی توجہ حاصل کی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کی جس میں عالمی شہرت یافتہ مصنف پاو¿لو کویلہو بھی شامل تھے۔ مریم نواز نے برازیل کے نامور مصنف پاو¿لو کویلہو کا غلط نام لیا جنہوں نے” دی الکیمسٹ“ سمیت کئی مقبول کتابیں تحریر کی ہیں۔ایک انٹرویو کے دوران مریم نواز نے پاو¿لو کویلہو کی جگہ پاو¿لو ”کویڈو“ کہہ ڈالا جس کی ویڈیو ٹوئٹر پر وائرل ہوگئی۔دوران انٹرویو مریم نواز سے ان کی پسندیدہ کتابوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ انہیں تاریخ میں خاصی دلچسپی ہے، جیسا کہ مصنف پاو¿لو کویڈو ہیں، میں انہیں بہت شوق سے پڑھتی ہوں۔مریم نواز کا ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو صارفین کی جانب سے ان پر خاصی تنقید کی گئی اور مختلف تبصرے بھی کیے گئے جب کہ اس کے برعکس پاو¿لو کویلہو نے بذات خود اس ویڈیو پر ردعمل دیا۔برازیلین مصنف کی جانب سے مریم کی غلطی کا دفاع کیا گیا۔انہوں نے تمام ناقدین کے لیے ویڈیو کو شیئر کیا اور لکھا ”میں غیر ملکی ناموں کے تلفظ میں اکثر غلطیاں کرتا ہوں لہٰذا تنقید نہ کریں“۔پاو¿لو کویلہوکا بڑا پن کہ وہ مریم نواز پر اُن کا نام غلط لینے پر تنقید کرتے، انہوں نے لکھا کہ وہ خود بھی ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں اس لیے تنقید سے اجتناب کریں۔ مگر یہاں اتنے بڑے ظرف والا کوئی شخص نہیں۔ کوئی دودھ کا دھلا نہیں، سبھی ایک دوسرے سے منہ چھپاتے اور کھلی تنقید کرتے ہیں۔اور یہ تنقید برائے اصلاح نہیں بلکہ تنقید برائے منفیت ہوتی ہے۔ لہٰذاسیاستدان سب سے زیادہ اپنے اخلاق، کردار اور عمل کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ، لیکن افسوس وہ سیاستدان آج ہمارے درمیان نہیں ہیں!