الیکشن : کیا ملکی حالات ٹھیک نہیں ہیں؟

جب آپ کے ملک میں غیر ملکی ٹیمیں کرکٹ کھیلنے آرہی ہیں، نیوزی لینڈ جیسی ٹیم جو ایک ای میل پر دھمکی کے واپس چلی جاتی تھی وہ5ون ڈے اور 5 ٹی ٹونٹی کھیلنے آرہی ہے، جب مکمل پی ایس ایل ملک میں ہوچکا ہے اور تمام غیر ملکی کھلاڑیوں نے اس میں بھرپور شرکت کی ہے، جب آئی ایم ایف کا پورا وفد دبئی یا نیویارک کے بجائے پاکستان میں آکر مذاکرات کر رہا ہے، جب تمام چینی وفود سی پیک پر دوبارہ کام شروع کرنے کے حوالے سے آاور جا رہے ہیں، جب گزشتہ سال اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہو چکا ہے، جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان میں کئی بار آچکے ہیں، جب سیاحت گزشتہ سالوں کی نسبت 11فیصد بڑھ چکی ہے، جب دہشت گردی 95فیصد تک ختم ہو چکی ہے، جب پاک فوج ملک بھر سے دہشت گردوں کے خاتمے کا اعلان کر چکی ہے اور تو اور شورش اور دہشت زدہ ممالک کی فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر سے نکل کر 18ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔ تو ایسے میں ملک امن و امان کا مسئلہ کیسے ہوگیا؟ حالانکہ دہشت گردی کے دنوں میں ہم خود کہتے تھے کہ حالات ٹھیک ہیں اور ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں ، لیکن دنیا نہیں مانتی تھی اور کوئی پاکستان آنے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن اس کے برعکس آج ہم خود کہہ رہے ہیں کہ حالات ٹھیک نہیں تو تب دنیا ٹیمیں بھی بھیج رہی ہے اور سربراہان دورے بھی کر رہے ہیں۔ چلیں مان لیا کہ ملک میں 5فیصد حالات خراب ہیں تو دنیا کے 100ممالک میں اتنے فیصد حالات تو ہر وقت خراب رہتے ہی ہیں۔ محض دو درجن ممالک ہوں گے جہاں سو فیصد حالات ٹھیک ہوں۔ لیکن 5فیصد خراب حالات والے ممالک میں کیا الیکشن نہیں ہوتے؟افغانستان میں 2019کے صدارتی الیکشن میں 64فیصد حالات خراب تھے تب بھی الیکشن ہوئے۔ گزشتہ سال عراق میں 23فیصد حالات خراب تھے وہاں بھی الیکشن ہوئے۔ حالیہ دنوں میں سوڈان میں 51فیصد حالات خراب ہیں لیکن تب بھی وہاں الیکشن ہو رہے ہیں، آپ ترکی کو دیکھ لیں۔ ترکی میں تاریخ کا بدترین زلزلہ آیا ہوا لیکن وہاں بھی الیکشن اگلے ماہ ہونے ہیں۔ لیکن مجال ہے طیب اردگان نے کہا ہو کہ الیکشن کو چند ماہ کے لیے آگے لے جائیں۔ مطلب! کوئی ایک مثال دے دیں کہ جہاں خراب حالات میں الیکشن کو روکا گیا ہو۔ بلکہ پاکستان میں کیا 2008ءیا 2013ءمیں 30فیصد تک حالات خراب نہیں تھے؟ تب بھی کیا الیکشن نہیں ہوئے؟ لہٰذاحکومت حیلے بہانے چھوڑے اور سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق اگلے ماہ الیکشن کروائے۔ کیوں کہ گزشتہ چند روز سے جیسے ہی صوبائی انتخابات کے چناﺅ کا کیس سپریم کورٹ میں پہنچا کہ مکرو فریب کی ایک داستان شروع ہو گئی۔ ایسی ایسی باتیں‘ ایسے ایسے مکروہ دلائل کہ سرکار اور اُس کے وکیلوں پر حیرت ہوتی۔ بات سادہ سی تھی کہ آیا الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ آگے پیچھے کر سکے۔ اتنا تو کوئی مستند بیوقوف بھی سمجھ سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایسا کر سکے تو پھر آئین کا تقدس ہوا میں اڑتا ہوا ایک خیالی تصور ہی رہ جاتا ہے۔ لیکن بات جب اتنی واضح ہو اور آپ کی نیت کچھ اور کہتی ہو تو پھر مسئلے کو الجھانے میں ہی بہتری نظر آئے گی۔ یہاں ایسا ہی ہوا، ہرحربہ استعمال کیا گیا کہ سادہ اور واضح بات کو الجھا دیا جائے۔ لہٰذا داد دینی پڑے گی چیف جسٹس عمرعطابندیال‘ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کو کہ انہوں نے نہ کمزوری دکھائی‘ نہ کسی ہیرپھیر کا شکار ہوئے۔ حکومتی مقصد واضح تھا‘ حکومت ایک اور نظریہ ضرورت چاہتی تھی تاکہ پنجاب چناﺅ سے بھاگنے کا راستہ ملے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے حکومت اور مقتدرہ تہہ دل سے یہ تمنا رکھتے تھے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ایک اور جسٹس منیر یا جسٹس انوارالحق بن جائیں۔ دباﺅ تھا اور دشنام طرازی کی ایک باقاعدہ مہم شروع کی گئی لیکن چیف جسٹس بندیال اور ان کے دو ساتھی جج ڈٹے رہے‘ انہوں نے کوئی نفسیاتی یا دوسری قسم کا پریشر قبول نہیں کیا۔ اور پنجاب چناﺅ کے حق میں فیصلہ دے کر انہوں نے اپنے نام پاکستان کی جوڈیشل تاریخ میں محفوظ کر لیے۔ یہ عجیب ٹولہ ہے جو بطورِ حکومت قوم پر مسلط کیا گیا ہے‘ نہ سمجھ نہ قابلیت کے مالک لیکن ہمارے جو کرتے دھرتے ہیں انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ اس بدنصیب قوم کی تقدیر انہی ہاتھوں میں سونپی جائے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے‘ پچھلے گیارہ ماہ میں قوم کی تباہی ہوئی ہے‘ ہرلحاظ سے‘ کیونکہ معیشت سے لے کر سیاست تک قوم نیچے کو جا نہیںرہی‘ نیچے کو پہنچ چکی ہے۔یعنی دوسری طرف عمران خان کو ہٹا کر جو سیاسی ہیرے لائے گئے‘ وہ ملک کو اس بند گلی میں لے آئے ہیں کہ اب انہیں ملک چلانا چھوڑیں‘ خود بھاگنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ وہ مسلسل ایک گلی میں پھنستے جارہے ہیں۔ وہ جتنا آگے جارہے ہیں وہ گلی اتنی ہی تنگ اور تاریک ہوتی جارہی ہے۔ وہ جو بھی اقدامات کرتے ہیں‘اُلٹا ان کے گلے پڑ جاتے ہیں۔ عمران خان کو ہٹانا جہاں ایک غلط فیصلہ تھا کہ انہیں اپنی سیاسی موت مرنے دیتے تو اگلا الیکشن وہ جیت سکتے تھے یا پھر عدم اعتماد کی تحریک کے فوراً بعد الیکشن کراتے تو بھی ان کے چانسز تھے کہ پاور میں آجاتے‘ لیکن شہباز شریف پر شیروانی پہننے کی خواہش غالب آگئی۔بقول شاعر کتنی قاتل ہے یہ آرزو زندگی کی مر جاتے ہے کسی پر لوگ جینے کے لیے اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ شہباز شریف کی وہ جو مِتھ تھی کہ وہ بہت اچھے منتظم ہیں‘ وہ ٹوٹ گئی۔ اس وقت اگر نواز لیگ تمام تر خرابیوں کے باوجود شاہد خاقان عباسی کو آگے کر دیتی اور شریف خاندان خود بھی تھوڑا صبر کر لیتا‘ باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیراعلیٰ نہ بنتا تو بہت فرق پڑتا۔پھر اسحاق ڈار بھی لندن میں اس طرح صبر نہ کر سکے جیسے شہباز شریف سے صبر نہیں ہورہا تھا۔ وہ بھی لندن سے دوڑے اور مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر وزیر خزانہ بن کر آئی ایم ایف کو دھمکیاں دینے لگ گئے۔ یوں وہ ڈیل جو فائنل ہونے کے قریب تھی وہ آج تک نہیں ہوئی۔ اکانومی تباہ ہوگئی۔ ڈار صاحب کی اَنا کی قیمت پورا ملک ادا کر رہا ہے۔ اب اوپر سے سپریم کورٹ نے حکومت کی ساری پلاننگ پر پانی پھیر دیا ہے۔ پنجاب میں الیکشن آٹھ اکتوبر کے بجائے 14مئی کو کرانے کا حکم دیا ہے۔ اب شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کی حالت اس بندے جیسی ہو چکی ہے جو کسی کنویں میں گر گیا تھا۔ پورا گاﺅں سارا دن نکالنے کی کوشش کرتا رہا‘ شام تک اسے نہ نکال سکے تو اس بندے نے کنویں کے اندر سے گالیاں دے کر کہا: اوئے نالائقو مجھے کنویں سے نکالتے ہو یا میں خود کسی طرف منہ کر جاﺅں۔ لہٰذا ابھی بھی وقت ہے حکومت سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے الیکشن کروا دے، اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ اور مقدرہ قوتوں سے بھی گزارش ہے کہ خدارا اب کوئی بیچ کا راستہ نہ نکالا جائے ، اور الیکشن کی تیاری کے ”بیک سٹیج“ احکامات جاری کیے جائیں تاکہ سیاسی و معاشی بحران ختم ہو۔ ورنہ ہم سب نے دیکھا کہ حالیہ دنوں میں کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ الیکشن سے فرار کیلئے بڑا پتّا الیکشن کمیشن نے کھیلا جس نے یکطرفہ طور پہ سپریم کورٹ کی دی ہوئی تاریخ‘ 30اپریل سے کھینچ کر 8اکتوبر میں بدل دی۔ کون سی ترکیب نہیں استعمال کی گئی چیف جسٹس بندیال اور ان کے دو ساتھی ججوں کو متنازع بنانے کے لیے۔ پارلیمنٹ سے ایک بل بھی منظور ہوگیا‘ چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے۔ صدر کے دستخط باقی ہیں‘ نہیں تو اب تک یہ بل قانون کا حصہ بن چکا ہوتا۔ لیکن بڑی بات تو تین رکنی بینچ کی ہے جس نے اس مشکل وقت میں آئین کی پاسداری کا فرض دلیری اور استقامت سے نبھایا۔ وکلاءبرادری کو بھی سلام ہے کہ تین رکنی بینچ کے ساتھ کھڑی رہی۔ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی اخلاقی حمایت تین رکنی بینچ کے ساتھ تھی۔ الیکشن کمیشن کی صورت میں حکومت نے جو تیر چلانا تھا‘ چلا دیا لیکن تین رکنی بینچ نے یہ وار ناکارہ کر دیا۔ 1997ءمیں چیف جسٹس سجاد علی شاہ اکیلے تھے‘ ان کے پیچھے کوئی عوامی سپورٹ نہ تھی، اُس وقت کی اپوزیشن پارٹی یعنی پیپلزپارٹی نے بھی اُن کا ساتھ نہ دیا تھا۔ اسی لیے (ن) لیگ کے کارندوں کو کھلی چھٹی تھی کہ وہ سپریم کورٹ پر باقاعدہ حملہ کرتے اور انہوں نے ایسا کیا۔ اس وقت سرکار کے پاس یہ آپشن موجود نہیں تھا کیونکہ مہم جوئی کی کوئی کوشش ہوتی تو منہ کی کھانا پڑتی۔لہٰذا فی الحال حکمرانوں کے پاس دانت پیسنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پنجاب کے انتخابات کے تصور کو وہ اب بھی ہضم نہیں کر سکتے لیکن تین رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد کریں گے کیا؟ یا کیا کر سکتے ہیں؟ بہرکیف حکومت الیکشن کروا کر بڑے پن کا مظاہر کرے اس کے لیے سب سے پہلے سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق 10اپریل تک الیکشن کمیشن کے اکاﺅنٹ میں 20ارب روپے ٹرانسفر کرے تبھی حکومت کی نیت کا سب کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ الیکشن کروانے میں کتنی مخلص ہے اور کتنی نہیں! لہٰذااس وقت الیکشن کروانے کے حالات پہلے سے زیادہ ساز گار ہیں۔ اور اگر حکومت چاہتی ہے کہ پورے ملک میں اکٹھے الیکشن ہوں تو مرکزی اسمبلیاں تین ماہ پہلے توڑ دیں ،اس میں حرج ہی کیا ہے، اور سمجھ نہیں آرہی کہ انہیں اقتدار سے چپکے رہنے کا کیوں شوق ہے؟انہیں عوام کے لیے اتنی تو قربانی دینی چاہیے،تین ماہ میں انہوں نے کونسا مہنگائی پر قابو پا لینا ہے یا ملک کو مشکلات سے نکال دینا ہے۔ میرے خیال اگر انہوں نے کچھ کرنا ہے تو صرف یہ کہ اپنے اثاثوں میں اضافہ ہی کرنا ہے۔ لہٰذااس وقت ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے بہترین قیادت کی ضرورت ہے نہ کہ کرپٹ ٹولے کی!اور رہی بات امن و امان کی تو اگر یہ الیکشن ٹرانسپیرنٹ ہوئے تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یہ تاریخ کے شفاف ترین الیکشن ہوں گے اور بہترین قیادت ملک کواگلے پانچ سال کے لیے سنبھالے گی!