ریکارڈنگ کرنے والوں کو کون پکڑے گا؟

کسی آزاد وطن میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ قوم اپنے افکار،نظریات اور فلسفے کے مطابق آزاد زندگیاں گزار سکیں، جہاں اُن کے بنیادی حقوق سلب نہ کیے جائیں، جہاں اُن کی ذاتی زندگی متاثر نہ ہو۔ بلکہ وہ بلا خوف و خطر ایک آئین کے تحت زندگی گزار سکیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ سب کچھ اُلٹ ہے، یہاں آزادی کا مطلب ہے کہ اگر آپ کے کسی اپنے ہم وطن سے خیالات نہیں ملتے تو ہم اس کو مار دیں، اگر کسی کے کھانے کا طریقہ اور پسند ہم سے جدا ہے تو ہم بھیڑ کی شکل میں جمع ہو کر اس کی جان لے لیں، یہاں آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود یہ طے کر لیں کہ معاشرے کا ایک طبقہ ملک دشمن ہے اور ایک طبقہ چاہے ملک دشمنی کے کاموں میں ملوث ہو یا رہا ہووہ محب وطن کہلائے گا۔ اسے المیہ سمجھ لیں یا کچھ اور لیکن یہاں وطن عزیز میں آزاد زندگی گزارنے کی تمنا دم توڑ رہی ہے۔ آپ کی نا تو ذاتی زندگی محفوظ ہے نا انٹرنیٹ اور نہ ہی ہر وقت ساتھ رہنے والا موبائل فون۔ کوئی ادارہ بھی آپ کے موبائل فون کو ہیک کر سکتا ہے، آپ کی کالز کی ریکارڈنگ کر سکتا ہے اور آپ کی پرائیویسی کی دھجیاں اُڑا سکتا ہے۔ جی ہاں! ہمارے ہاں یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہاں کسی کی ذاتی زندگی اب محفوظ نہیں رہی، یعنی اس بار تو ساس، بیوی، بیٹی، بہو کو بھی نہیں چھوڑا جا رہا ۔بلکہ اس بار تو یہ حملہ کسی سیاسی شخصیت کے بجائے چیف جسٹس کی ساس اور وکیل طارق رحیم کی اہلیہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو استعمال کیا گیا۔ چیف جسٹس کی ساس اپنے داماد کے بارے میں باتیں کر رہی ہیں لیکن اس آڈیو کے لیک ہوتے ہی مسلم لیگ والوں نے شور مچا دیا کہ اب تو چیف جسٹس کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔ اس گفتگو میں مارشل لاءکی بات کی گئی ہے۔میں بھی گزشتہ روز مذکورہ آڈیو سے مستفید ہوا۔ میں ذاتی طور پر بندیال صاحب کی ساس کو تو نہیں جانتا مگر مسز خواجہ طارق رحیم کو ضرور جانتا ہوں، اُن سے کئی فورمز پر ملاقات بھی رہی ہے ، وہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ بلکہ خواجہ طارق رحیم سے زیادہ کریڈیبلٹی اُنہی کی رہی ہے۔ اُن کی عزت کو اس طرح اُچھالنا میرے خیال میں کسی سانحہ سے کم نہیں ہے۔ اور پھر کیا اس بات میں دورائے ہے کہ جب پروفیشنل خواتین، یا وکلاءحضرات ، یا جج حضرات یا بیوروکریٹ حضرات آپس میں بیٹھیں گے یا کال پر بات کریں گے تو ظاہر ہے وہ گلی محلے کی باتیں تھوڑی کریں گے۔ وہ اپنے پروفیشن سے متعلق بات کریںگے، وہ سیاست پر بات کریں گے یا کسی کیس کے حوالے سے بات کریں گے مگر سوال یہ ہے کہ یہ گھناﺅنا کھیل کون کھیل رہا ہے؟ جیسے جسٹس ثاقب نثار اور خواجہ طارق رحیم کی آڈیو لیک ہوئی ہے۔ ظاہر ہے وہ آپس میں عید کی مہنگائی پر بات تو نہیں کریں گے۔ دونوں قانون دان ہونے کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی کیس کے حوالے سے ہی بات کریں گے۔ مطلب !سمجھ نہیں آرہا ، کہ کیا ہمارے سارے ملکی وسائل انہی کاموں کے لیے استعمال ہوں گے؟اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے، اور پھر یہی نہیں بلکہ یقین مانیں پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ آپ بیرون ملک پاکستانیوں سے کبھی اس حوالے سے ڈسکس کر کے دیکھیں تو وہ یہاں کے سسٹم اور اداروں سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ اُنہیں بیرون ملک اسی خطے کے باشندوں کے طنز کے نشتر سہنا پڑتے ہیں۔ مثلاََبیرون ملک چلیں جائیں تو 98فیصد انڈین پاکستانی اکٹھے ہی رہتے ہیں ۔ وہ اکثر اپنے آپ کو ایک ہی خطے کے باشندے سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، پاس کرتے ہیں اور کبھی کبھی ایک دوسرے کے ممالک میں ہونے والے سیاسی ہنگاموں پر مزاح بھی کرتے ہیں۔ اور جب اس قسم کی آڈیو لیکس ہوتی ہیں یا کوئی اور ڈھینگی ماری جاتی ہے تو ایسی صورتحال میں وہ ہمارے ملک میں ہونے والی شعبدہ بازیوں پر ہمیں خوب لتاڑتے ہیں؟ اور بے چارے پاکستانیوں کے پاس ان گھٹیا حرکات کا جواب ہی نہیں ہوتا کہ ہم اب کسی کی بہو، ساس یا بہن کی ریکارڈنگ بھی مارکیٹ میں لائیں گے۔ اس موقع پرمجھے ایک مشہور لطیفہ یاد آ رہا ہے۔”کسی ریاست کا دوسری ریاست سے جھگڑا ہو گیا تو ریاست کے بادشاہ نے ریاست میں جنگ کی تیاری کے لئے قاصد بھیجے۔ ایک قاصد میراثیوں کی بستی میں بھی چلا گیا۔ میراثیوں نے ساری بستی کو اکٹھا کیا اور قاصد نے کہا کہ ہمیں لڑنے کے لئے آپ سب کی خدمات بھی درکار ہوں گی۔میراثیوں نے قاصد کی بات کو بڑے دھیان سے سنا۔ جب قاصد نے بادشاہ کا پیغام سنایا تو میراثیوں کے سر پنچ نے ریاستی قاصد سے کہا”جناب اگر بات ہم میراثیوں کی جانوں تک پہنچ گئی ہے تو بادشاہ کو کہیں صلح کر لے“۔یعنی اگر بات بہو، ماں ، ساس تک پہنچ چکی ہے تو اداروں کو چاہیے کہ وہ سیاستدانوں سے جنگ کے بجائے ان سے صلح کر لیں ۔ لہٰذاجو ادارہ بھی اس میں ملوث ہے، وہ ملک دشمنی کر رہا ہے، ناکہ ملک کے ساتھ وفا کر رہا ہے۔ کیوں کہ دنیا بھر میں کسی کی بھی خفیہ ریکارڈنگ کرنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ ہمارا نہ تو آئین ہی اس چیز کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی اسلام اجازت دیتا ہے۔ بلکہ ایک روایت کے مطابق ”رسول اللہ اپنے کمرے میں موجود تھے اور اپنے سر کو کنگھی سے کھجلا رہے تھے، کوئی شخص دیوار کے سوراخ سے آپ کو دیکھ رہا تھا۔ اس شخص نے بعد میں آپ کو بتایا۔ آپ نے فرمایا، “اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں وہ کنگھی تیری آنکھوں میں چبھو دیتا۔“ بہرکیف گزشتہ دو برسوں میں درجن بھر سے زائد آڈیو لیکس سامنے آئیں۔ ان میں سابق وزیراعظم عمران خان، موجودہ وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز، شوکت ترین، بشریٰ بی بی،پرویز الٰہی ،اعجاز چوہدری، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، ڈاکٹر یاسمین راشد اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی ان آڈیوز کی اخلاقی حیثیت پر بات کرے۔ ملک کے سنجیدہ طبقات کو اس گھناﺅنے کھیل پر آواز اٹھانا چاہیے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس کی آڈیو ریکارڈنگ کون کر سکتا ہے۔ طارق رحیم کی اہلیہ کی ریکارڈنگ کون کر سکتا ہے۔ اس سارے کھیل میں سب سے زیادہ قابل اعتراض عمل لوگوں کی آڈیو ریکارڈ کرنا ہے اور اسے عام کرنا ہے۔ اگر سارا میڈیا چیف جسٹس اور ان کے خلاف یا ان کے حق میں مباحثے کے بجائے عام لوگوں کی آڈیو ریکارڈنگ کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔یہی لوگ جو آج اچھل کود کررہے ہیں کچھ عرصہ قبل رانا ثناءاللہ ، مریم نواز وغیرہ کی آڈیو ریکارڈنگ پر ناراض ہوا کرتے تھے اور عمران خان اس ریکارڈنگ کو جائز قرار دیتے تھے۔ا ب پی ٹی آئی والے اس آڈیو لیک پر چراغ پا ہیں اور مسلم لیگ والے اس پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ یہ نہایت گھناﺅنا عمل ہے۔ چیف جسٹس کی ساس کے کوئی بھی سیاسی خیالات ہو سکتے ہیں اور ان کو کسی بھی قسم کی گفتگو کا حق ہے۔ وہ کسی اور خاتون سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں کوئی جلسہ نہیں تھا پرائیویٹ گفتگو تھی۔ا گر وہ چیف جسٹس کو مقدمے کے فیصلے کے بارے میں مشورہ دے رہی ہوں یا چیف جسٹس ان کے مشورے پر عمل کا وعدہ کر رہے ہوں تو یہ بات قابل گرفت ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس ان کی ساس یا طارق رحیم کی اہلیہ کوئی جرائم پیشہ یا مشتبہ لوگ نہیں۔ عام معزز شہری ہیں۔ا ن کی آڈیو ریکارڈ بھی نہیں ہونی چاہیے اورموضوع بھی نہیں بننا چاہیے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ نہایت سنجیدہ قسم کے سیاستدان اور شیخ رشید ، رانا ثناءاللہ قسم کے غیر سنجیدہ لوگ سب ایک ہی رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔اور پھر اہم بات یہ کہ یہ تو پھر بھی ڈیسنٹ افراد کی ریکارڈنگ منظر عام پر آرہی ہیں، لیکن اگر ہم جیسوں کی آگئی تو پھر یہ کانوں میں انگلیاں دباتے پھریں گے۔ لہٰذاان سب کو مل کر آڈیو ریکارڈ اور لیک کرنے والے کو تلاش کر کے اسے پکڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ یہ ساری ٹیکنالوجی اور صلاحیت کس ادارے کے پاس ہے۔ پھر بھی اس ادارے کو سیاست سے لا تعلق قرار دینا نہایت بھونڈا مذاق ہے۔اس سلسلے کو روکنے کے لیے عدلیہ ، حکومت ،اپوزیشن سب کو متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ معذرت کے ساتھ اس ادارے کے بارے میں ہم نے تو سنا ہے کہ ان کا اپنا خود احتسابی کا نظام بہت سخت ہے۔ لیکن اس معاملے میں وہ اتنے نرم مزاج کیسے ہوگئے؟ اگر اُن پر اس حوالے سے سوشل میڈیا پر الزام لگائے جا رہے ہیں تو ڈی جی آئی ایس پی آر کو اس حوالے سے بھی وضاحت پیش کرنی چاہیے تھی۔ بلکہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم تو جنرل قمر جاوید باجودہ کے اُس اقدام کے حوالے سے بھی خاموش ہیں کہ جس کا ذکر دو معروف صحافیوں کے آپسی مکالمے میں کیا گیا ہے کہ جنرل باجوہ نے 25صحافیوں کے سامنے کہا کہ ہم جنگ لڑنے کے قابل نہیں وغیرہ ۔ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو یقینا ادارے کو اس پر ایکشن لینا چاہیے، کیوں کہ پورا بھارتی میڈیا، امریکی میڈیا ، یورپی میڈیا اس کلپ کو چلا چلا کر دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اور چھٹی بڑی فوج کے پرخچے اُڑا رہا ہے۔ اور لگتا ہے کہ ہم کہیں سوئے ہوئے ہیں؟ لہٰذااس عوام کو بیرونی خطرات سے زیادہ اندرونی خطرات نے آن گھیرا ہے۔ اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں خود سے اپنی اصلاح کرنی چاہیے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا!