عمران خان کی کمزور ہوتی ”گرپ“ !

سینیٹ انتخابات میں پی ڈی ایم کے مشترکہ اُمیدوار یوسف رضا گیلانی جیت گئے، سیاسی پنڈتوں کے نزدیک یہ ایک بڑا اپ سیٹ ہے لیکن میرے نزدیک یہ سیاست کی ہار ہے۔ کیوں کہ سیاست میں جس طرح کے حالات بن رہے ہیں، ہم اخلاقیات کی پستی گرتے جارہے ہیں۔ سینیٹ الیکشن سے جڑی ویڈیوز آڈیوز ٹیپ لیک ہونے سے ایک بات تو طے ہوگئی ہے کہ بیک سٹیج وہی خرید و فروخت جاری رہی جس کا اندیشہ ہم کرتے آئے ہیں۔ ان مذکورہ ویڈیوز میں جس طرح ووٹ کو خراب کرنے، ووٹوں کو خریدنے اور ایک دوسرے کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، یقین مانیں ایسا لگتا ہے کہ بقول جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہم پاکستان میں نہیں بلکہ ”گٹر“ میں رہ رہے ہیں۔ خیر سیاست میں خرید و فروخت 80کی دہائی میں شروع ہوئی جہاں سے سرمائے کی سیاست کا آغاز ہوا۔ اُن کے بعد دیگر سیاسی جماعتیں بھی اسی ڈگر پر چلتی رہیں۔ اس بارے میں ہم بعد میں بات کرتے ہیں ، لیکن پہلے سینیٹ انتخابات کی بات ہو جائے جہاں پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کی اسلام آباد سے حیرت انگیز کامیابی کے ساتھ سینٹ انتخابات مکمل ہو ئے ۔ حکمران جماعت تحریک انصاف اپنے اراکین اسمبلی کی مطلوبہ حمایت حاصل کرنے کے لئے بروقت اقدام نہ کر سکی۔20ووٹوں کا مارجن کچھ ووٹ ضائع اور کچھ مخالف امیدوار کو ملنے پر تحریک انصاف مستقبل میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سمیت کئی مشکلات کا ہدف بنتی نظر آ رہی ہے۔ ان مشکلات کے پیدا کرنے میں شایدوزیر اعظم کا اپنا قصور بھی ہے، اُن کی پارٹی پر گرپ دن بدن کمزور ہوتی چلی جارہی ہے، وہ اصولی سیاست سے ہٹ کر اقدامات کر رہے ہیں، انہیں جب سے اقتدار ملا ہے وہ خالص تحریک انصاف کے کارکنوں کو آگے لانے کے بجائے مالدار لوگوں، سفارشی افراد، دوست احباب اور سیلیکٹڈ لوگوں کو آگے لا رہے ہیں۔ تبھی تو اُن پر سینیٹ کی ایک ایک سیٹ کے بدلے 35، 35کروڑ روپے لینے کے الزام لگ رہے ہیں۔ یہ الزام کسی اور نے نہیں بلکہ کراچی سے اُن کی اپنی پارٹی کے سندھ کے صدر لیاقت جتوئی نے لگایا ہے۔پھر گرپ کمزور ہے تو وہ خود بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ بلوچستان میں ایک ایک سیٹ 65, 65کروڑ روپے کی بک رہی ہے۔ پھر خان صاحب کے خلاف سینیٹ الیکشن میں چاروں صوبوں سے تحریک انصاف کے کارکنان نے احتجاج کیا جس کے بعد خان صاحب کو چند ایک فیصلے واپس بھی لینا پڑے لیکن کئی فیصلوں پر وہ اڑ گئے جس سے فوری طور پر جو نقصان ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اور جو دیرپا نقصان ہونے جارہا ہے اُس کے بارے میں بھی میرے خیال میں انہیں علم ہونا چاہیے ! اور وہ نقصان یہ ہے کہ جو حرکات و سکنات اور لین دین کی سیاست ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں ہوا کرتی تھی اور جو لوگ اس سےاست سے متنفر تھے، وہ انہیں چھوڑ کر تحریک انصاف میں آگئے۔ لیکن اب یہاں بھی ایسے ہی حالات ہیں تو یقینا یہ لوگ واپس جانے میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے۔ سابقہ حکمران سیاسی پارٹیوں میں سیاسی ڈکٹیٹر شپ تھی، فرد واحد فیصلے کیا کرتا ہے، لیکن اگر آپ نے بھی اس ڈگر پر چلنا ہے تو سینیٹ الیکشن جیسے نتیجے کو آخری نتیجہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اسے ابھی آغاز سمجھنا چاہیے۔ حد تو یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ تحریک انصاف کی اندرون خانہ سیاست میں تھوڑی بہت بہتری آتی، مگر افسوس یہ جماعت بھی پرانے لوگوں کی ڈگر پر چل رہی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہو رہا ہے جیسے 1988ءتک پیپلزپارٹی کرپٹ نہیں تھی ، لیکن ن لیگ کی پیشگی کارروائیوں سے بچنے کے لیے وہ بھی کرپٹ ہو گئی اور کرپشن کے ایسے ریکارڈ قائم کیے کہ ن لیگی بھی پیچھے رہ گئے۔ ن لیگ نے انہیں بندے توڑنے اور خریدنے سکھائے، انہیں سیاست میں پیسہ چلانا سکھایا، انہیں پیسے کی ریل پیل چلانا سکھائی اور ایسی سکھائی کہ ”شاگرد“ اُستاد سے بھی آگے نکل گیا۔ اب جبکہ تحریک انصاف کو یہ دونوں جماعتیں ملکر کرپشن کے ”گرُ“ سکھا رہی ہیں تو یقین مانیں ایک بار پھر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ جماعت سابقہ دونوں جماعتوں سے بھی آگے نکلنے کی ”اہلیت“ رکھتی ہے، کیوں کہ اس جماعت میں بھی بڑے بڑے سوداگر بیٹھے ہیں۔ لہٰذاخان صاحب کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ اپنی جماعت میں ایسی ایسی مثالیں قائم کریں کہ لوگ واقعی اُن کی طرف مائل ہوں بقول شاعر تو اہل نظر ہے تو نہیں تجھ کو خبر کیوں پہلو میں ترے کوئی زمانے سے کھڑا ہے لیکن فی الوقت تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، جیسے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نے سینیٹ الیکشن میں جوکیا ، کیا اُنہیں ایسا کرنا چاہیے تھا؟ انہوں نے اپنا ہی ووٹ ہی ضائع کر دیا ہے اور پھر جس طرح پی ٹی آئی نے بلوچستان میں عبدالقادر کو جتوایا ہے اُس سے پی ٹی آئی کی ساکھ خاصی خراب ہوئی ہے، لہٰذاعمران خان کو انقلابی فیصلے کرنا ہوں گے۔جن کی فی الحال دور دور تک اُمید نظر نہیں آرہی۔ بہرحال ہمارے لیے موجودہ سینیٹ انتخابات کے نتائج حیران کن نہیں ہیں، کیوں کہ تحریک انصاف پی ڈی ایم کی ”تجربہ کار“ سیاسی جماعتوں کے سامنے نومولود سیاسی جماعت ہے کیوں کہ یہ جماعتیں علی الاعلان بھی کرپشن کر جائیں تو وہ بھی ”قانون کے دائرے“ میں رہ کر کرتے ہیں، کہ کوئی بھی انہیں پکڑنے سے یا ان پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر رہتا ہے۔ مثلاََ سینیٹ انتخابات سے 2روز قبل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے حوالے سے جو کچھ سینیٹ الیکشن سے ایک روز قبل سامنے آیا، اُسے دیکھتے ہوئے گیلانی صاحب ووٹنگ سے پہلے ہی اخلاقی طور پر یہ انتخاب ہار چکے تھے۔مذکورہ وڈیو اور ایک آڈیو لیک جو لیک ہوئی اُس دیکھ سُن کر ایک بار پھر ہم جمہوریت کے حامیوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ ان دونوں ٹیپس نے ان سینیٹ انتخابات کو ایک بار پھر داغدار کر دیا۔ وڈیو میں علی حیدر گیلانی پی ٹی آئی کے چار ایم این ایز کو ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ سکھا رہے تھے جو اُنہوں نے لیک وڈیو کے سامنے آنے کے بعد تسلیم بھی کر لیا۔ لیک آڈیو میں علی گیلانی سندھ کے وزیر ناصر حسین شاہ سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے اراکین کے ”پیکج“ کو ڈسکس کر رہے تھے۔ اس آڈیو میں پی ٹی آئی ممبرانِ اسمبلی کی ناصر حسین شاہ سے بات چیت بھی سنوائی گئی۔ ناصر شاہ نے اگرچہ کہا کہ اس آڈیو میں اُن کی آواز نہیں بلکہ مشورہ دیا کہ علی گیلانی سے پوچھیں کہ وہ کس سے بات کررہے ہیں لیکن بظاہر علی گیلانی سے وہی بات کرتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں۔ اس آڈیو کی حقیقت کو جاننے کے لئے الیکشن کمیشن کو فرانزک ایکسپرٹ سے مدد لینی چاہئے۔ ان دونوں ویڈیو اور آڈیو میں گیلانی صاحب کے بیٹے کا اہم کردار ہے جس کے باعث یوسف رضا گیلانی کا اپنا کردار مشکوک ہو گیا۔ اگرچہ سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے بھی ووٹوں کی خرید و فروخت کی خبریں سامنے آ رہی ہیں لیکن سینیٹ الیکشن سے ایک روز قبل لیک ہونے والی وڈیو اور آڈیو نے ایک بار پھر سیاست اور سیاستدانوں کو داغدار کر دیا اور یہ ثابت کیا کہ الیکشن جیتنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بکنے والے اکثر اراکینِ اسمبلی کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے جبکہ خریداروں میں پاکستان پیپلز پارٹی پیش پیش ہے۔ بہرکیف موجودہ صورتحال میں ایک بار پھر تحریک انصاف اگلے ڈھائی سال کے لیے مشکل میں نظر آرہی ہے، کیوں کہ پی ڈی ایم کے یوسف رضا گیلانی کا چیئرمین سینیٹ بننے کا امکان ہوگیا۔ پی ڈی ایم اتحاد کو حکومتی اتحاد پر 6 نشستوں کی برتری حاصل ہے۔ اب اگر نو منتخب سینیٹرز کو ملا لیا جائے تو اپوزیشن ارکان کی تعداد 53 ہوگئی ہے جبکہ پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی نشستیں 47 ہوگئی۔ لہٰذاپارٹی پوزیشن دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ اگلے ڈھائی سال عمران خان کو بھرپور توانائی کے ساتھ میدان میں آنا پڑے گا، کیوں کہ نہ تو انہیں ایوان بالا میں سادہ اکثریت حاصل ہے اور نہ ایوان زیریں میں، اس لیے انہیں بعض معاملات میں اپوزیشن کو ساتھ ملا کر چلنا پڑے گا۔ اپنے لہجے میں تلخی کے بجائے شیریں لانا پڑے گی، اُن کی اپنی جماعت میں انہیں خاموش ووٹروں کی قدر کرنا ہوگی ورنہ وہ اگلے الیکشن تک خاموش اُڑ جائیں گے۔ کیوں کہ آج بھی ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں بہت سے لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ آپ کوئی بہتر مثال قائم کریں، آپ کوئی اچھا سسٹم بنا دیں، آپ کوئی بہتر کارکردگی دکھا دیں، آپ عوام کو ریلیف دے دیں، آپ مہنگائی مافیا کو ہی نتھ ڈال دیں تو مزید لوگ آپ سے رجوع کر سکتے ہیں جس سے آپ کی پارٹی مزید مضبوط ہو جائے گی لیکن اگر آئندہ بھی ایسی ہی ”حرکات و سکنات“ رہیں تو جو ایماندا اور Dedicatedلوگ آپ سے وابستہ ہیں وہ بھی آپ کو چھوڑنے کے بہانے تلاش کریں گے، کیوں کہ ایک بہانہ تو انہیں مل گیا کہ اگر اُن کے پاس 35کروڑ روپے ہوں گے تو انہیں ٹکٹ ملے گی ورنہ وہ ساری زندگی یونہی سیاسی ”کسمپرسی“ کی حالت میں رہیں گے! اس لیے ایک تو عوام کو سوچنا چاہئے کہ آخر کیوں وہ ایسے افراد کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں جو بکنے کے لئے تیار رہتے ہیں دوسرا عمران خان کو اپنی پارٹی گرپ زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا ہوں گی، تمام فیصلے پارٹی کے سینئر ممبران پر مشتمل تھنک ٹینک کے حوالے کرنا ہوں گے، جنہیں فیصلے کرنے میں مکمل بااختیار بنایا جائے گا اور اپنے تئیں پارٹی میں موجود ”ڈکٹیٹر شپ“ ختم کرنا ہوگی ورنہ ہمیں 2023ءمیں انہی روایتی سیاستدانوں کے چہرے دیکھنا ہوں گے جنہوں نے اس ملک کا چہرہ ہی بگاڑ دیا ہے!!!