آفتاب اقبال اور دیگر صحافیوں کی گرفتاریاں غیر جمہوری ہیں!

مجھے یاد ہے کہ پرویز مشرف کے 1999ءکے مارشل لاءاور 3نومبر2007 کی ایمرجنسی کے وقت جب صحافیوں کی پکڑ دھکڑ ہوتی تو میں اُس وقت ایک بڑے قومی اخبار میں بطور چیف رپورٹر کام کر رہا تھا۔ اُس وقت الیکٹرانک میڈیا نومولود تھا، ہمارے بہت سے رپورٹرز مذکورہ بالا دونوں واقعات کے دوران روپوش ہونا شروع ہوگئے، کچھ صحافی پکڑے گئے، ہمارے آفسز میں بھی مخصوص بیٹ پر کام کرنے والے صحافیوں کو اُٹھایا گیا۔ ہمیں انتباہ کیا گیا کہ کسی قسم کے ”نیگٹیو“ رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے۔ ہم نے کہا ”حضور“ ہم اس سخت دور میں کیسے سر اُٹھا سکتے ہیں۔ پھر ہمیں مجبوراََ کہنا پڑا کہ ”حضور“ جیسے آپ کا حکم! حکم کیسے نہ مانتے بھلا ، سخت مارشل لاءکے دور میں ہمیں ”غائب“ کیے جانے کا اور اغوا و تشدد کیے جانے کا اندیشہ رہتا۔لیکن پھر بھی ہم کسی نہ کسی طرح لفظوں کو گھما پھرا کر اصل بات کہہ دیتے ۔ اسے ہم اکثر ”ہومیو پیتھک“ صحافت بھی کہہ دیتے۔ لیکن پھر بھی بہت سے صحافیوں کو پکڑ کر بھرپور تشدد کے بعد چھوڑ دیا جاتا، سراور بھنویں مونڈ دی جاتیں، یا مار دیا جاتا۔ اس سے پہلے کے ضیاءمارشل لاءمیں چلے جائیں، ہمارے اساتذہ پر تشدد کیا جاتا اور اُنہیں تلقین کی جاتی کہ جو ہم دکھانا چاہتے ہیںصرف وہ دکھاﺅ !باقی سب غائب کر دو۔ مطلب! گزشتہ 75سالوں سے پاکستانی صحافت نے اپنے بے باکانہ کردار سے جنرل ایوب, جنرل ضیاءاور جنرل مشرف کے سخت اور پر آشوب ترین دور کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔بہت سے صحافیوں نے اس حوالے سے جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا، ماریں بھی کھائیں اور جیلیں بھی کاٹیں۔ انہی بیباک، ایماندار، مخلص اور پیشہ ور صحافیوں کی اس فہرست میں کئی درخشاں ستارے ہیں جیسا کہ آرد شیر کاو¿س جی، آغا شورش کاشمیری، آغا مسعود حسین، ابوعلیحہ (علی سجاد شاہ)، احمد بشیر، اے حمید، ارشاد احمد حقانی، احمد ندیم قاسمی، عارف نظامی، مجید نظامی، خالد حسن، عطاءالحق قاسمی، منو بھائی، میر خلیل الرحمن، نذیر ناجی، عباس اطہر، ثقلین امام، ڈاکٹر توصیف احمد خان، الطاف گوہر، ایاز امیر، ایلس فیض، ایم بی نقوی، باری علیگ، تاج حیدر، سہیل وڑائچ ، فاروق قیصر ، ارشد شریف اور کئی دوسرے صحافی جنہوں نے صحافت میں اپنی کارکردگی سے ایسی مثالیں قائم کیں کہ آج بھی ان کے پڑھنے والے ان کی تحاریر سے منسلک ہیں۔ صحافت کے لیے اس تمہید باندھنے کا مقصد ایک تو گزشتہ ہفتے صحافت کے عالمی دن پر حاضری لگوانا اور دوسرا موجودہ حکومت کا ایک بار پھر مارشل لاءکی یاد تازہ کرتے ہوئے دوست صحافیوں کی گرفتاری عمل میں لانا ہے۔ ان صحافیوں میں مزاح سے بھرپور صحافتی کرئیر رکھنے والے آفتاب اقبال اور تنقیدی صحافت کرنے والے عمران ریاض بھی شامل ہیں۔ جنہیں عمران خان کی گرفتاری کے بعد عوام کی آواز بننے اور سرکار پر تنقید کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان صحافیوں کے ساتھ ساتھ بے شمار وی لاگرز، یوٹیوبر اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔ انہیں پبلک آرڈر1960کی سیکشن 3کے تحت گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اب یہاں سادہ سا سوال یہ ہے کہ ایک صحافی کا کام صبح سویرے ”ناشتہ“ لگانے کا نہیں بلکہ خبریں بریک کرنا ہوتا ہے۔ جب صحافی خبر بریک نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟ صحافی کا کام عوام کو خبر دینا اور حالات حاضرہ سے آگاہ رکھنا ہوتا ہے۔ اگر ایک صحافی یہ خبر بریک کرتا ہے کہ مظاہرین کینٹ میں داخل ہو چکے ہیں اور وہ حکومتی اقدامات سے سخت نالاں ہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ آفتاب اقبال کا بھی یہی قصور ہے کہ اُنہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا تو مارشل لاءمیں بھی نہیں ہوتا جیسا ظلم وہ اس وقت تحریک انصاف کے کارکنا ن پر کر رہی ہے۔ ہاں! ان صحافیوں کا قصور یہ ہے کہ یہ عمران خان کے اقدامات کو ملک کے لیے بہتر سمجھتے ہیں، تبھی اُس کے کیے کی تعریف بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھار خان صاحب پر تنقید بھی کرتے ہیں؟ اور پھر بتایا جائے کہ کیا نوازلیگ یا زرداری سے جڑے صحافی اپنی لیڈر شپ کے لیے ایسا نہیں کرتے؟ اگر کرتے ہیں تو پھر ان صحافیوں پر اعتراض کیوں؟ بلکہ ان مذکورہ بالا شخصیات کے بارے میں تو مشہور ہے کہ یہ کروڑوں روپے کے تحائف کے ساتھ ساتھ اپنے من پسند صحافیوں کو بڑے بڑے عہدوں سے بھی نوازتے ہیں۔ اُنہیں بیرون ملک دورے کرواتے ہیں جہاں لاکھوں کی شاپنگ سمیت تمام اخراجات یہ خود اُٹھاتے ہیں۔ لہٰذامیرے خیال میں ان صحافیوں کی گرفتاری کے حوالے سے جتنی بھی مذمت کی جائے اُتنی کم ہے۔ میری سمجھ سے یہ بات بالا تر ہے کہ حکومت کیوں اپنے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے، فیصلہ کرنے والی قوتیں اس وقت ملک کو کیوں مزید تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہیں؟ دنیا ہمارا مذاق بنا رہی ہے ، بھارت ہمیں ملک کے خراب حالات کو بھرپور ”نیگٹو“ کوریج دے رہا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ ضدی بنے ہوئے ہیں۔ بہرکیف حکمرانوں کا یہ رویہ صحافت کی اصل روح سے شدید متصادم ہے۔ صحافت ہمارے یہاں ریاست کے پانچویں ستون کی طرح معاشرہ میں موجود رہی ہے۔ صحافیوں کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت گرانے یا چلانے کا سلسلہ تو جنرل ایوب خان کے زمانے سے جاری ہے لیکن جنرل ضیاءاور میاں نواز شریف نے اسے باقاعدہ اور منظم طریقے سے استعمال کیا۔ جنرل ضیاءکے زمانے میں صحافیوں کی تنظیموں کے ٹکڑے کئے گئے اور پھر انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ نواز شریف کے دور میں صحافیوں اور تنظیموں کو باقاعدہ خریدا گیا اور پھر یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس کے باوجود بھی صحافت نے اپنا تقدس قائم رکھا تھا۔ جنرل مشرف کی طرف سے صحافت کو ملنے والی آزادی کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ عشروں پر محیط حکومتی جبر کے بعد ملنے والی اس آزادی کا صحیح استعمال کیا جائے گا اور قوم تک سچ پہنچایا جائے گا۔ مالکان کی طرف سے ایسا کوئی دباو¿ نہیں ہو گا کہ سیاسی صورتحال اور اس طرح کے دیگر معاملات پر صحافی بےلاگ تبصرے کرنے یا واقعات کی حقیقی رپورٹنگ نہ کر سکیں۔ اس صحافتی آزادی کے بعد میڈیا پروفیشنلز کی ایسی تربیت ہونی ضروری تھی کہ انہیں اپنے پیشے کی اخلاقی حدود و قیود کا احساس ہو جاتا، کوئی صحافی اپنی خبر کو کوئی خاص سمت دینے کے لئے کسی حکومتی، اپوزیشن یا دوسری شخصیات پر ذاتی حملے نہ کرتا۔ لفافہ جرنلزم کا بھی سوال نہ اٹھتا اور مفادات کے حصول کے لئے مخصوص طرز کی صحافت نہ کی جاتی۔با دی النظر میں اس وقت تمام اداروں کو دشمن کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے ، اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے ۔ نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ دوسری جنگ عظیم عروج پر تھی، جرمنی کی طرف سے برپا جنگ پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ ان میں فرانس بھی شامل تھا جس کے بہت سے علاقے پر جرمن فوج قابض ہو چکی تھی۔ مقبوضہ علاقوں سے لاکھوں فرانسیسی اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو کر وسطی فرانس میں بطور مہاجر کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ فرانسیسی فوج کی پے درپے ناکامیوں سے مایوس ہو کر فرانس کے عوام پورے ملک میں احتجاج کررہے تھے اور فوج کو ہٹلر کے ہاتھوں شکست کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ اپنے ہی عوام کی طرف سے احتجاج اور مخالفت میں نعروں کی وجہ سے فرانس کی فوج شدید دباﺅ کا شکار تھی۔ جرمن فوج کی پیشی قدمی جاری تھی۔ اس کے باوجود فرانسیسی فوج اور اس کے کمانڈر مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب عوام کے اندر سے کم ہوتی حمایت کی بدولت فرانسیسی فوج کے کمانڈر جرمن فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا سوچنے لگے۔ یہ اطلاعات فرانس کی برطانیہ میں قائم جلا وطن حکومت کے سربراہ چارلس ڈیگال تک پہنچی تو اس نے فرانس کے عوام اور وہاں جرمن فوج سے برسرپیکار فرانسیسی فوج کا حوصلہ بڑھانے کے لیے خطاب کیا۔ عوام کے لیے اس کا مندرجہ ذیل پیغام: ” آرمی آپ کے ملک میں ہمیشہ رہے گی۔ اگر وہ آپ کی نہیں تو یہ آپ کے دشمن کی ہوگی!“ یہ پیغام فرانس کے لیے انتہائی موثر ثابت ہوا۔ فرانس کے عوام اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی اور پھر 25 اگست 1944 ءکو جب فرانسیسی فوج فاتح کے طور پر پیرس میں داخل ہوئی تو ڈیگال اپنی عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ لہٰذااس وقت ہمیں متحد ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ اور اس بات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ آزادءصحافت، خصوصاً مزاحمتی صحافت کے تصور کا خاتمہ ہر حکومت کی بنیادی خواہشات میں شامل ہوتا ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادءاظہار رائے کے خلاف peca کا کالا قانون ن لیگ کی گزشتہ دور حکمرانی میں ہی نافذ کیا تھا۔جسے آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔میرے خیال میں اس حوالے سے صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پاکستان فیڈرل یونین اف جرنلسٹس (پی۔ایف۔یو۔جے) اخباری مالکان کی تنظیم، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے۔پی۔این۔ایس)، پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی۔بی۔اے)، نیوز ڈائریکٹرز اور ایڈیٹرز کی تنظیم، الیکٹرونک میڈیا نیوز ڈائریکٹرز اینڈ ایڈیٹرزایسوسی ایشن(ای۔ایم۔ڈی۔این۔اے) اور میڈیا سے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی جوائینٹ ایکشن کمیٹی بنائی جائے جو اس حوالے سے ایک مضبوط لائحہ عمل بنا ئے ، تاکہ کوئی بھی آنے والی حکومت کسی صحافی کو گرفتار نہ کر سکے۔ ورنہ ہمارا بھی کمزور سیاسی میدان کی طرح شیرازہ بکھر جائے گا۔