پاکستان کو ابھی مزید کتنا نقصان پہنچانا ہے!

کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ ملک کس سمت جا رہا ہے، ادارے آپس میں اُلجھ پڑے ہیں، سیاستدان آپس میں لڑ پڑے ہیں، ایک ہی جماعت کے دو معیشت دانوں کی آپس میں نہیں بن رہی، سکیورٹی ادارے کشمکش کا شکار ہیں، الیکشن کمیشن محتاجی کی حالت میں ہے، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو ہر کوئی کھلے چیلنج کر تا نظر آرہا ہے۔ تادم تحریر پی ڈی ایم سے منسلک سیاسی جماعتوں کے کارکن(خاص طور پر مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی ف کے کارکن) اسلام آباد کے ہائی سکیورٹی ریڈ زون میں داخل ہو گئے ہیں، جہاں وہ دھرنا دیں گے اور سپریم کورٹ کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں گے۔ جن میں سب سے بڑا مطالبہ چیف جسٹس کا استعفیٰ ہوگا۔ اس کے علاوہ سپریم کے اندر اور باہر پولیس، ایف سی اور رینجرز کے دستے تعینات کیے گئے ہیں۔اُنہیں غصہ اس کا بھی ہے کہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے سربراہ کو ایک گھنٹے میں کورٹ میں طلب کرکے اور فوری طور پر نیب کی گرفتاری کو غیر قانونی قرارد ے کر عوام کے غضب اور غصہ کو ٹھنڈا کرنے میں ایک مرتبہ پھر اہم کردار ادا کیا ۔ جس سے شاید پی ڈی ایم حکومت کو بہت صدمہ لگا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے پی ڈی ایم کے سربراہان کا اجلاس منسوخ کر کے اپنا حکومتی اجلاس طلب کیا ،تاکہ وہ من مانے فیصلے عوام پر پھر مسلط کر سکیں۔گویا سپریم کورٹ کو پھر پارلیمنٹ کی اہمیت اور برتری جتا سکیں۔اور الیکشن کو ملتوی کر سکیں۔ اور پھر یہ جتنا کچھ پچھلے چند دنوں میں ہوا ہے۔یہ صرف اس لئے تھا کہ الیکشن رکوائے جائیں۔ابھی بھی سپریم کورٹ کے باہر جو چودہ جماعتوں کے کارکنان موجود ہیں ، یقیناً ان میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور مدرسوں کے طلبہ ہیں۔ پھر پیپلز پارٹی بھی صوبہ سندھ سے خاصی تعداد میں لوگ اسلام آباد بھیج سکتی ہے مگر اس پر اخراجات بہت آئیں گے ،جیسے بلوچستان سے 15بسوں کا قافلہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تو اُس پر لاکھوں روپے کے اخراجات آئے، جسے چندے کی رقم سے پورا کیا گیا۔پھر مولانا کے غریب طالب علموں کو جس طرح کا بھی کھانا دیا جائے وہ کھا لیتے ہیں۔خیر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ احتجاج کیوں ہو رہا ہے صرف اسلئے کہ کہیں سپریم کورٹ آئین پر عمل درآمد نہ کرنے کے سبب وزیر اعظم کو فارغ نہ کردے۔حکومت یہ بھی جانتی ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ چودہ تاریخ کوالیکشن کرانے کے حکم کو نہ ماننے کے جرم میں سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے کسی کلرک کو توہین عدالت کی سزا سنادے۔چیف الیکشن کمیشن نے اپنے آپ کو نااہلی سے بچانے کیلئے وہ تمام اقدامات کئے ہیں جو الیکشن کیلئے اس کی طرف سے ممکن تھے۔ الیکشن کرانے والے عملے کی ٹریننگ وغیرہ تک کرادی۔ خیر بات پھر وہی آجاتی ہے کہ ہم صرف ملک کتنے بھیانک معاشی دور سے گزررہا ہے، لیکن ہم ذاتی مفادات کو ہو ا دے کر اپنی ذاتی لڑائیاں لڑنے میں مصروف ہیں۔ ہر روز ہم پر ایک نیا عذاب مسلط کیا جا رہا ہے، ہمارے دماغ بند ہو چکے ہیں اور سمجھ نہیں آرہا کہ آگے اس ملک میں کیا ہونے والا ہے؟ بقول شاعر وعدوں کا ایک شہر تھاجس میں گزر رہے تھے دن انکھیں کھلیں تو دور تک پھیلے ہوئے سراب تھے ایک تھا موسمِ وفا جس کی ہمیں تلاش تھی اپنے نصیب میں مگر، اور ہی کچھ عذاب تھے لہٰذاڈر اس بات کا ہے کہ ہم اس وقت جو لڑائی لڑ رہے ہیں وہ ہمارا وجود کھونے کے لیے کافی ہے۔ اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں، اگر پاکستان نہیں تو کوئی نہیں۔ اگر ہم بکھر گئے تو ہمیں نہ ہی سعودی عرب قبول کرے گا، نہ متحدہ عرب امارات اور نہ ہی انڈونیشیا و ملائشیا۔الغرض نہ ہی ہمیں کوئی مذہب کی بنیاد پر اپنائے گا نہ رنگت کی بنیاد پر اور نہ ہی ہمارے سلیقے کی بنیاد پر ۔ اس لیے اس وقت ہماری پہچان صرف پاکستان ہے۔ اور کچھ نہیں! بلکہ خاکم بدہن اگر پاکستان کو کچھ ہوا تو امریکا، بھارت یا چین ہمیں اپنے ملک کا حصہ بنا کر ہم پر حکومت کریں گے۔ اس لیے تمام سٹیک ہولڈر ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے اس حد تک نہ چلے جائیں کہ واپسی ممکن نہ ہو۔ لہٰذاابھی بھی کچھ نہیں بگڑا سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کیس میں ایک ہفتے کی مزید مہلت دے کر سیاستدانوں کو مل بیٹھنے کا صائب مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا کوئی حل نکالیں۔ ہم بھی اپنے کالموں میں گزشتہ 6ماہ سے شور مچا رہے ہیں کہ ہمارے حالات ٹھیک نہیں ہیں، معاشی طور پر ہم تباہ ہو رہے ہیں، دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم سنجیدہ ہونے کے لیے تیار ہی نہیںہے!اس لیے الیکشن کرواد یں تاکہ ملک کو صحیح قیادت نصیب ہو۔ آپ یقین مانیں ترکیہ میں تین ماہ قبل اس قدر خوفناک زلزلہ آیا، مگر انہوں نے پھر بھی الیکشن کروادیے۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے ہاں سبھی کیوں اقتدار سے چپکے رہنا چاہتے ہیں؟ حد تو یہ ہے کہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے، اُسے کرسی کی ایسی لت لگتی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ بس اب یہی اُس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اور پھر بادی النظر میں یہ بات کلیئر ہے کہ جب الیکشن کروانے کے لیے پورا ملک کہہ رہا ہے، عدالتیں کہہ رہی ہیں، آئین کہہ رہا ہے، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہہ رہی ہے تو کیوں نہیں کروائے گئے، اور اوپر سے پھر آپ مقبول سیاسی پارٹی کے لیڈر کو گرفتار کر لیتے ہیں تو پھر ردعمل تو آئے گا۔ میرے خیال میں اب لیڈروں کو گرفتار کرکے پھانسی پرلٹکانے کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اور وہ دور بھی ختم ہو چکا ہے کہ اب عوام کو جو بتایا جائے گا،لوگ اُس پر یقین کرنا شروع کر دیں گے۔ اور رہی بات مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی تو مولانا کی سیاسی اہمیت یہ ہے کہ وہ اپنی بھی سیٹ ہا ر چکے ہیں، غصہ اُنہیں صرف اس بات کا ہے کہ تحریک انصاف والے اُنہیں مخصوص سکینڈلائز نام سے پکارتے اور اُن کا ہر جلسے میں ذکر کرتے ہیں۔ ویسے یہ ہمیں بھی قبول نہیں مگر یہی سیاست ہے، کہ آپ جیسا کریں گے ویسا بھریں گے۔ اور پھر اُنہیں غصہ اس بات پر بھی ہے کہ اُن کی گزشتہ 10 سال سے کے پی کے میں اُجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔ اس لیے اُنہوں نے اپنے لیے نہ تو دفعہ 144کا خیال رکھا اور نہ ہی کسی ادارے کی حرمت کا۔ اور پھر موجودہ حالات میں دیکھیں کہ تحریک انصاف کی دفعہ ریڈ زون میں جانا جرم ہے، مگر اب پی ڈی ایم کے لیے یہ جرم نہیں ہے! اب کہیں سے کوئی شیل فائر نہیں ہوا، نہ ہی کہیں سے فائر کی گونج سنائی دی ہے۔ویسے اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز سمیت بہت سے سیاسی قائدین اپنے اپنے ورکرز کے ساتھ ریڈ زون میں موجود ہیں تو حکومت ایسے میں کس کس پر مقدمہ درج کرتی ہے۔ اور ویسے بھی دفعہ 144کا نفاذ نہ بھی ہو تب بھی ریڈ زون میں بغیر اجازت جانا جرم ہے۔ نہیں یقین تو PATکے کارکنوں سے پوچھ لیں جو 2014ءمیں ریڈ زون میں گئے تھے اور ابھی تک اُن کی ان مقدمات سے جان نہیں چھوٹی۔ خیر اب کہا جا رہا ہے کہ چند دن کے لیے دفعہ 144کا نفاذ اُٹھا لیا جائے گا تو کیا یہ مذاق ہے؟ مطلب یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کے ذاتی مال بردار جہاز جب پورٹ پر آجائیں تو آپ مخصوص اشیاءپر سے ڈیوٹی ختم کردیں اور جب جہاز آف لوڈ ہوجائیں تو آپ دوبارہ ڈیوٹی لگا دیں ۔ مطلب یہ بھی ہے کہ آپ نے سیاست اور آئین کو بھی کاروبار بنا لیا ہوا ہے۔ بہرکیف اس وقت وفاقی کابینہ میں یہ لڑائی چل رہی ہے کہ عمران خان پر اتنے کمزور کیسز کیوں بنائے گئے کہ اُنہیں عدالتوں سے فوری ریلیف مل گیا؟ مثال کے طور پر عمران خان کے خلاف کرپشن کا اکلوتا کیس اتنامضحکہ خیر ہے کہ لطیفہ بن کر رہ گیا ہے۔ایک برطانوی اخبار نے سرخی لگائی۔”عمران خان کو یونیورسٹی بنانے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا“۔ بیچاری حکومت اور بیچارہ پی ڈی ایم اتحاد۔کیا کرے کہ عمران خان کا سب کچھ سامنے ہے۔ ایک بار پہلے سپریم کورٹ اس سے زندگی بھر کے کمائے ہوئے ایک ایک روپے کی منی ٹریل لے چکی ہے۔اگر کوئی حکومت تصوف کی یونیورسٹی یا شوکت خانم اسپتال بنانے پر اس پر مقدمات بنائے تواسے اپنی عقل پر ماتم کرنا چاہئے۔ یہ وہ کیس ہے جسے کسی آدمی کا ذہن کیس ماننے کو تیار نہیں۔ان کیسز کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کیسے تسلیم کرلے۔اگرعمران خان نے پراپرٹی ٹائیکون سے آصف علی زرداری کی طرح کوئی محل لیا ہوتا تو کوئی بات سن بھی لیتا۔معاملہ ایک یونیورسٹی کی زمین کا ہے۔جس کیلئے بحریہ والوں نے زمین عطیہ کے طور پر دی ہے۔ ہاں اگر عمران خان کے دور میں بحریہ ٹاﺅن والوں کے ساتھ کسی معاملہ میں کوئی اچھا سلوک کیا ہے تو حکومت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ بحریہ ٹاﺅن بھی یہیں ہے۔حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے۔بحریہ ٹاﺅن کے ساٹھ ارب جو عمران خان کی کابینہ نے ایڈجسٹ کرلئے تھے۔وہ اس ایڈ جسٹمنٹ کو ختم کردے۔ بحریہ ٹاﺅن والے کہیں بھاگ تو نہیں گئے۔ کسی میں ہمت ہے تو انہیں گرفتار کرے مگر وہاں پر جلتے ہیں کہ وہاں بہت بڑےبڑے ریٹائرڈ افسران باقاعدہ ملازمتیں کرتے ہیں۔صرف یہی نہیں عمران خان کے خلاف بنایا جانے والا ہرکیس کسی لطیفے سے کم نہیں۔اس لیے حکومت ہوش کے ناخن لے، عمران خان کے خلاف اُنہیں کچھ نہیں ملے گا۔ اس لیے نہ ہی وہ خود ناچے اور نہ ہی اس ملک کا نچائے ورنہ سب کا نقصان ہوگا اور ملک بھی خاکم بدہن نہیں بچے گا!