کیا فوجی عدالتیں سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیں گی؟

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک میں فوجی تنصیبات پر اُس کے اپنے شہریوں کی جانب سے حملہ کرنا کوئی ”اتفاقیہ“ حادثہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے مکمل منصوبہ بندی اور یا مکمل ذہن سازی ہوتی ہے۔ جیسے بقول شاعر قابل اجمیری کے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا لہٰذااب یہ بحث بہت پیچھے رہ گئی ہے کہ 9مئی کو لاہور اور پنڈی میں سکیورٹی نا ہونے کے برابر تھی۔ اور جن لوگوں نے کورکمانڈر ہاﺅس لاہور میں حملہ کیا، اُن کی تعداد سینکڑوں میں تھی نا کہ ہزاروں میں۔ لیکن اس بحث میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔کہ اُنہیں کیوں نہ روکا گیا۔ لیکن اب اس حملے کے بدلے میں سیاسی قائدین اور کارکنوں کے خلاف ملکی تاریخ کا ایک بڑا کریک ڈاﺅن کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے وزیرا عظم شہباز شریف کی ”خاص“ ہدایات ہیں کہ ان حملوں میں ملوث کارکنوں کی باقائدہ تشہیر کی جائے اور اُنہیں 24گھنٹے کے اندر گرفتار کیا جائے۔ اس پر پولیس اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے عمل درآمد ہوا اور اطلاعات ہیں کہ 80فیصد لوگ گرفتار ہو چکے ہیں۔ جن کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ اور اب کہا جا رہا ہے کہ ان گرفتار ہونے والے افراد پر فوجی عدالتوں میں مقدمات قائم کیے جائیں گے۔ جیسا کہ پاکستانی فوج نے تحریکِ انصاف کے احتجاج کے دوران عسکری تنصیبات اور املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث مظاہرین کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن بادی النظر میں یہ ناپسندیدہ فعل کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ اس طرح کے اقدامات کو عالمی سطح پر ظالم حکومتیں خوف اور جبر کے آلات کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔اور پہلے ہی ہمارا امیج دنیا کے سامنے ہے کہ ہم کتنے منظم لوگ ہیں۔ خیر آگے چلنے سے پہلے اگر آرمی ایکٹ پر روشنی ڈالوں تو اس ایکٹ کا نام پاکستان آرمی ایکٹ 1952 ہے ، اسی ایکٹ کے اطلاق کے حوالے سے کچھ شقوں میں یہ قانون بعض صورتوں میں عام شہریوں پر بھی نافذ ہوتا ہے۔فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کی صورت میں ملزم کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کہا جاتا ہے اور یہ فوجی عدالت جی ایچ کیو ایجوٹنٹ جنرل (جیگ) برانچ کے زیر نگرانی کام کرتی ہے۔اس عدالت کا صدر ایک حاضر سروس (عموماً لفٹیننٹ کرنل رینک) فوجی افسر ہوتا ہے، استغاثہ کے وکیل بھی فوجی افسر ہوتے ہیں۔ یہاں ملزمان کو وکیل رکھنے کا حق دیا جاتا ہے۔اگر کوئی ملزم پرائیویٹ وکیل رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو فوجی افسر ان کی وکالت کرتے ہیں، انھیں ’فرینڈ ا?ف دی ایکیوزڈ‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں ہونے والی کارروائی کے بعد ملزم اپیل کا حق رکھتا ہے۔ 2015 میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ نے21 ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کی متفقہ منظوری دی تھی۔آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کے تحت کسی بھی سویلین کا معاملہ 31 ڈی میں لا کر اس کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے پہلے اس سویلین کے خلاف کسی تھانے میں مقدمہ کے اندارج اور مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔خاص طور پر جب فوج کو سویلین حکومت کی مدد کے لیے بلایا جائے، ان حالات میں فوج کو یہ اختیارات حاصل ہیں۔اسی طرح اگر بات کروں ”آفیشل سیکرٹ ایکٹ “ جسے نامزد بھی کردیا گیا ہے تو اس قانون کے مطابق اگر کوئی دشمن یا کسی بھی شخص کو فوج سے متعلق کوئی خفیہ معلومات فراہم کرے تو اس ایکٹ کے تحت اس ملزم کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔بعض قانونی و عسکری ماہرین کہتے ہیںکہ سابق وزیراعظم ذوالفقار کی بھٹو کو بھی اسی سہولت کاری کے جرم میں سزائے موت دی گئی تھی۔ بہرحال یہ ایک لمبی قانونی بحث ہے کہ کن کن کے مقدمات کو عدالتیں آرمی کورٹس کو ریفر کریں گی اور کن کن افراد کو سول کورٹس سزائیں دیں گی، لیکن یہ ایک المیہ ہے، بحرانی کیفیت ہے، سیاسی کشیدگی کو بڑھاوا دینے والے اقدام ہیں، سیاسی بساط کو لپیٹنے کے اقدام ہیںاور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم دنیا کی نظر میں مزید گندے ہوں گے اور کوئی انوسٹر ادھر کا رخ نہیں کرےگا۔ لہٰذاہمارے سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے جو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا مہرا بنے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک فوجی عدالتیں سویلین کے حق میں کبھی نہیں رہیں۔ اسی لیے یہ بات میں وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہیں، کسی ایک سیاسی جماعت کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی ماہر ہوتی ہیں۔ نہیں یقین تو یاد کر لیں کہ پیپلزپارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ کو بھگت چکی ہے، ن لیگ کا بھی بہت بار پالا پڑا ہے، اے این پی کا بھی پالا پڑتا رہا ہے، اور ایم کیو ایم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی سب جانتے ہیں۔ لہٰذاان سب کے بعد اب تحریک انصاف کی باری ہے۔ کیا ہم نے مشرف کا مارشل لاءاور گورنمنٹ نہیں دیکھی؟کیا ہم نے ضیاءالحق کا مارشل لاءنہیں دیکھا؟ پیپلزپارٹی کے ساتھ 1977سے 1988تک جو کچھ ہوا اُسے کون بھول سکتا ہے؟ مشرف کے مارشل لاءمیں اگر ن لیگ کی قیادت ڈیل کرکے نا جاتی تو آج یہ لوگ اللہ کو پیارے ہو چکے ہوتے۔ پھر آپ زیادہ دور نہ جائیں، 2017ءمیں نواز شریف کو گھر عمران خان نے بھیجا تھا؟ نہیں ! اُس وقت بھی فیصلہ کرنے والی قوتوں نے ایسا کیا تھا۔ لیکن نام عمران خان پر لگ گیا تھا۔اور پھر رانا ثناءاللہ پر منشیات کا مقدمہ عمران خان نے دیا تھا؟ بالکل نہیں! یہ رانا ثناءاللہ کو بھی علم ہے کہ اُس پر مقدمہ کس نے کروایا تھا، الغرض 90فیصد کیسز تو فیصلہ کرنے والی قوتیں تیار کرتی ہیں یا کروائے جاتے ہیں۔ اس لیے سیاستدان ہوش کے ناخن لیں، اور کسی کا بھی مہرہ بننے سے گریز کریں، ایسا کرنے سے پورے ملک کی سیاسی بساط بھی لپیٹی جا سکتی ہے۔ میں پھر یہی بات کہوں گا کہ اس میں تو دوسری کوئی رائے ہی نہیں ہے کہ 9مئی کو جو واقعات ہوئے، وہ نہیں ہونے چاہیے تھے، اُس سے پاکستان کے تشخص پر گہری ضرب لگیں۔ عالمی میڈیا میں پاکستانی افواج کا امیج بری طرح متاثر ہوا۔ لیکن اس کے اصل ذمہ داران کو پکڑنا چاہیے ناکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس کا نشانہ بنانا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں تیسری قوت نے کام دکھایا ہو۔ جو پہلے ہی ہمہ وقت پاکستان کو De Stablisedکرنا چاہتی ہیں۔ بقول چیف جسٹس اس وقت سیاسی ادارے کو گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ انہوں نے تو 15مئی بروز پیر کو کمال حکمت عملی کے ساتھ الیکشن التواءکیس کو ایک ہفتے کے لیے موخر کر دیا ۔کیوں کہ اگر وہ کوئی بولڈ فیصلہ کردیتے تو عین ممکن تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت سپریم کورٹ پر حملہ کر دیتی، وہ پہلے ہی گیٹ پھلانگ کر ریڈ زون میں داخل ہو چکے تھے۔ جنہیں نا تو کسی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور نا ہی اُن کی کسی قسم کی پکڑ دھکڑ ہوئی! چیف جسٹس بھی بار بار یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ کچھ نہیں کرنے جا رہے ، مگر آئین کا تقاضا یہی ہے کہ آئین توڑنے والوں کو سزا دی جائے۔ قومی مفاد میں بہتر یہی ہے کہ سیاستدان آپس میں گرینڈ دائیلاگ کریں، سیاسی استحکام لائیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ یہ کہنا پڑے: اب پچھتائے کیا ہوت، جب چگ گئی چڑیاں کھیت