نئی سیاسی جماعتیں بنانے والوں کا کھیل!

موجودہ سیاسی صورتحال دیکھ کر بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں، جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے۔ کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں اسی وجہ سے عمران خان اپنی زندگی کے سخت ترین بحرانی دور سے گزر رہے ہیں، اُن کے کئی دوست، پارٹی قائدین اور دوست احباب پارٹی چھوڑ چکے ہیں بلکہ کئی تو سیاست کو بھی خیر آباد کہہ چکے ہیں۔ جبکہ زیادہ ”متحرک“ قائدین بہت جلد ہی کسی بلاک میں یا پارٹی میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے خان صاحب سے ناراض رہنما جہانگیر ترین اور علیم خان فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور مختلف پلیٹ فارمز پر سیاسی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اور ابھی تک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پریشر گروپ کے بجائے سیاسی جماعت کا پلیٹ فارم عوام کو فراہم کیاجائے۔ بلکہ مذکورہ بالا دونوں شخصیات نے ظہرانے کا بھی اہتمام کیا جس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی عون چودھری ، سینئر سیاستدان اسحق خاکوانی ،سابق سینئر صوبائی وزیر سعید اکبر نوانی ،سابق ایم پی اے شعیب صدیقی سمیت دیگررہنما شریک ہوئے۔اندر کی خبر یہ ہے کہ کوئی بھی ”تحریک انصاف “ قسم کا گروپ بنانے کے حوالے سے نہیں مانا بلکہ سب نے کہا کہ تحریک انصاف کے علاوہ کوئی نئی سیاسی پارٹی بنائی جائے تاکہ دیگر نئے آنے والے لوگ بھی اس پارٹی میں ضم ہو سکیں۔ خیر ابھی کچھ حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ لیکن خبر یہ بھی ہے کہ جیسے ہی یہ اراکین کسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں تو جہانگیرترین جلد اہم سیاسی رہنماو¿ں کے ساتھ پریس کانفرنس کرینگے ،پریس کانفرنس میں جہانگیرترین کے ہمراہ تحریک انصاف سے لاتعلقی کرنیوالے سیاست دان بھی موجودہونگے۔ اور پھرجہانگیر ترین جلد ہی الیکشن کمیشن میں نئی پارٹی کی رجسٹریشن کی درخواست جمع کروائیں گے۔ خیر 2018ءمیں جب جہاز جہاز بھر بھر کر پی ٹی آئی کے ہیڈ کوارٹر میں لینڈ کروایا جا رہا تھا، ہم نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ آنے والوں نے آج نہیں تو کل جانا ضرور ہے۔لیکن اتنی جلدی اور اتنی بڑی تعداد میں یہ ٹوٹ پھوٹ غیر معمولی ضرور ہے۔اور پھر پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں جب کسی بھی سیاسی جماعت پر مشکل وقت آتا ہے تو ایسے ہی دھڑے، نئی سیاسی جماعتیں ، اتحاد اور بلاکس بنتے ہیں۔ یہ کوئی ہماری سیاست کے لیے نیک شگون تو نہیں مگر پارٹیاں بنانے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ نہیں یقین تو تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں، کہ 1964 کے متنازع انتخابات کے بعد متحدہ اپوزیشن کا سیاسی اتحاد بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا،تو اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے 1967 میں نوابزدہ نصراللّہ خان کی قیادت میں پانچ پارٹیوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کا اتحاد وجود میں لایا گیا، جس نے ایوب خان کو سیاسی میدان میں پچھاڑ کر رکھ دیا اور وہ اقتدار سے چلتے بنے۔ 1977 کے الیکشن سے پہلے بھٹو کے مقابل نو جماعتی اتحاد (قومی اتحاد ) بنا لیکن الیکشن میں پیپلز پارٹی پورے پاکستان خصوصاً پنجاب اور سندھ میں صفایا کر گئی جبکہ قومی اتحاد کے حصے میں صرف 36 سیٹیں آئیں۔ایسا کرنے سے یہ ضرور ہوا کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ تقسیم ضرور ہوا۔ پھر 1993ءمیں پیپلزپارٹی کا ووٹ توڑنے کے لیے قاضی حسین احمد کو میدان میں لایا گیا۔ اسی سلسلے میں جماعت اسلامی نے طویل عرصہ اس مقدمے کی آبیاری کی کہ پیپلزپارٹی سب سے بڑی فکری اور سیاسی برائی ہے۔سوشلزم اور اسلام کے پس منظر میں اٹھنے والا یہ فکری قضیہ ایک سیاسی آویزش میں ڈھل گیا اورجماعت اسلامی کے حلقے میں پیپلزپارٹی کے بارے میں اجماع ہو گیا۔جماعت نے نوازشریف صاحب کی قیادت میں قائم ہونے و الی مسلم لیگ اور دوسری جماعتوں کوچھوٹی برائی قرار دیتے ہوئے‘ان کے ساتھ مل کر‘ایک بڑی برائی‘پیپلزپارٹی کے خلاف اتحاد بنائے۔ 1993ءمیں قاضی حسین احمد صاحب نے جماعت کا سیاسی رخ یک دم تبدیل کرنا چاہا اور جماعت اسلامی کے متاثرین سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کو یکساں برائی تسلیم کر دیں۔لیکن جماعت چونکہ مستحکم تھی اس لیے جماعت کے وابستگان نے خلافِ روایت اپنے امیر کی بات کوزبانِ حال سے مسترد کردیا۔یہ ایک سوچنے سمجھنے والے گروہ کا فطری ردِ عمل تھا۔یہاں قاضی صاحب کے نقطہ نظرکی صحت زیرِ بحث نہیں، مگر اُس وقت بھی ووٹ بینک کو تقسیم کیا گیا۔ پھر 1999ءکے مارشل لاءکے بعد ن لیگ کو تقسیم کرکے ق لیگ کو قائم کیا گیا۔ اور اسی طرح 2018ءمیں تحریک لبیک کو بنا کر ن لیگ کا ووٹ تقسیم کیا گیا۔ یعنی تحریک لبیک پنجاب میں ووٹ لینے کے معاملے میں تیسرے نمبر پر آئی۔ لہٰذااب اگر تحریک انصاف کو توڑ کر نئی سیاسی جماعت تشکیل دی جا رہی ہے تو یہ کھیل ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے دیکھے ہیں۔ لہٰذامسئلہ یہ ہے کہ اگر الیکٹیبلزکو اکٹھا کرکے نئی جماعت تشکیل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اس کی کامیابی کے بارے میں کسی پر امیدی کا اظہار کرنا مشکل ہے۔ان اسباب کی بنیاد پر کوئی جماعت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ تحریکِ انصاف اصلاً خان صاحب کے مداحوں کی جماعت ہے۔اس کا مقدر وہی ہے جو خان صاحب کا نصیب ہے۔ مقتدرہ کی حمایت بھی‘ اب سیاسی اثاثہ نہیں رہا۔ تاہم اگر مقتدرہ کی سرپرستی میں ایک نئی سیاسی جماعت بنتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سیاست دائرے میں گھوم رہی ہے۔گویاہم آج بھی وہیں ہیں‘ جہاں برسوں پہلے تھے۔ اور رہی بات اس وقت پی ڈی ایم اور فیصلہ کرنے والی قوتوں کے مشترکہ آپریشن کی تو یقین مانیں اس وقت بھی پی ڈی ایم کی حکومت کی جانب سے غداروں کی نئی فصل کاشت کی جا رہی ہے۔ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کے رہنماﺅں کی تصویریں سڑک کے کنارے آویزاں کر کے ان پر غداری کے لیبل چسپاں کئے جا رہے ہیں۔اس حکمراں گروہ میں اگر کوئی تاریخ کا شعور رکھنے والا صاحب علم موجود ہو تو وہ انہیں بتائے کہ غدار بنانے کی فیکٹریاں ستر سال سے لگی ہوئی ہیں۔ان فیکٹریوں میں تراشے گئے غداروں کے نام آج بھی تاریخ کے صفحات پر چمک رہے ہیں لیکن انہیں غدار بنانے والوں کا نشان بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔خان عبدالغفار خان،جی ایم سید،محترمہ فاطمہ جناح،ولی خان،حبیب جالب،اور ان گنت سیاسی زعما غداری کے لقب سے ملقب ہوئے۔لیکن وہ سب تاریخ کے کٹہرے میں سرخرو ٹھہرے۔میرے نزدیک کسی سیاسی کارکن کو ملک دشمن قرار دینا اور غداری کے جرم میں مقدمہ قائم کرنا ایک گالی سے کم نہیں۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سیاسی کارکن سرخرو ہوتے ہیں اور یہی حکمراںتاریخ کی عدالت میں سر جھکائے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔”غدار ڈرامے“ کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جونہی کوئی شخص حکومت کے کہنے پر پریس کانفرنس کرتا ہے تو اس کے دامن سے غداری کا داغ فورا مٹ جاتا ہے۔اس واشنگ مشین سے کتنے ہی داغ دھوئے جا چکے ہیں اور کتنے دھلنے کیلئے تیار ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کے لئے غداروں کی فہرست میں اضافہ کرنا کب تک جاری رکھیں گے۔ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ان کا انداز حکمرانی آپ کو نا پسند ہو سکتا ہے۔ان کے بعض ساتھیوں کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ان کی عوامی مقبولیت کے نعرے کو دیوانے کی بڑ کہہ سکتے ہیں،ان کے دور اقتدار کو کوئی بھی اچھا یا برا نام دے سکتے ہیں،لیکن تحریک انصاف کے رہنماﺅں پر غداری کے الزامات عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔کیا کوئی اس حکمراں ٹولے سے پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ آج ملک کی معاشی صورت حال کیا ہے؟آئی ایم ایف آپ سے ڈیل کرنے کو کیوں تیار نہیں؟پاکستان میں ڈالر کا ایکسچینج ریٹ کہاں پہنچ چکا ہے؟ملک میں خط غربت سے نیچے جانے والے افراد کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے؟کیا تاریخ کے ناکام ترین حکمرانوں سے کوئی یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش کیوں ہے؟یا فیصلہ کرنے والی قوتوں سے کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ اس وقت ان کے لیے ضروری کیا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ نئی پارٹی بنائی جائے اور پاکستان کی سب سے مقبول جماعت کو مزید نقصان پہنچایا جائے۔ لیکن شاید کوئی تاریخ یاد رکھے یا نا رکھے مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے کبھی سیاسی جماعت کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اُسے پیچھے دھکیلا جا تا ہے۔