لگتا ہے، پاکستان میں سارے غلط کام عمران دور میں ہوئے!

9مئی کے واقعات کو ہوئے ڈیڑھ ماہ ہونے کو ہے، مگر مجال ہے کہ تحریک انصاف کی اس واقعہ سے ابھی تک جان چھوٹی ہو۔ جبکہ اسی دن کی آڑ میں پولیس بھی اختیارات سے تجاوز کرتی نظر آرہی ہے، سیاسی مخالفین نے بھی ایک دوسرے پر چڑھائی کر رکھی ہے اور حکمران ( ن لیگ اور پیپلزپارٹی) من مرضی کے فیصلے عوام پر مسلط کر رہے ہیں۔ ویسے بھی وہ ایسے فیصلے کیوں نہ کریں 9مئی کے بعد تو جیسے اُن کی لاٹری لگ گئی ہے۔ بلکہ جلال الدین اکبر کا قول ہے ”دو دشمن تب تک دوست رہ سکتے ہیں جب تک ان کا مشترکہ دشمن کمزور نہیں ہو جاتا“۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ جب تک ان کا مشترکہ رقیب پوری قوت کے ساتھ کھڑا تھا یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی ڈھال بنی ہوئی تھیں مگر جیسے ہی چیئرمین پی ٹی آئی ”تنگدستی“ کا شکارہوئے ہیں حکمران اتحاد میں پائی جانے والی دراڑیں واضح دکھائی دینے لگی ہیں۔ عباس تابش کا شعر ملاحظہ کریں؛ یہ دیکھ مرا ہاتھ مرے خون سے تر ہے خوش ہو کہ ترا مدمقابل نہ رہا میں اور پھر حیران کن بات یہ ہے کہ حکمران، فیصلہ کرنے والی قوتیں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز قیام پاکستان سے لے کر آج تک کی تمام خرابیوں کو ذمہ دار عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور کو قرار دے کر خود بری الذمہ ہو رہے ہیں۔ یقین مانیں! پاکستان میں رہتے ہوئے آج یہی لگ رہا ہے کہ فاطمہ جناح کو عمران خان کے دور اقتدار میں غدار قرار دیا گیا تھا۔ سانحہ مشرقی پاکستان بھی عمران کے اقدامات کی وجہ سے ہوا تھا اور تو اور جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کو جو پھانسی دی تھی وہ بھی ایسے لگ رہا ہے جیسے عمران خان کے کہنے پر دی تھی۔ بلکہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پرویز مشرف جو فرنٹ مین اتحادی بنا تھا وہ بھی عمران خان کے کہنے پر بنا تھا۔ مطلب !وہ بھی دودھ کے دھلے ہوگئے جنہوں نے معیشت کا بیڑہ غرق کیا، جنہوں نے 75سال تک عوام کو کھربوں کے قرضے میں ڈبو دیا، جنہوں نے چار چار مرتبہ مارشل لاءلگائے، جنہوں نے افغان جنگ میں امریکیوں کا ساتھ دے کر جہادی بنائے اور ملک کو شورش میں دھکیلا، جنہوں نے 30مرتبہ سے زیادہ آئی ایم ایف سے قرضے لے کر سب کچھ گروی رکھوا دیا۔ یقین مانیں 2013-14میں جب اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی غرض سے آئی ایم ایف گئے اور موٹروے، ریڈیو پاکستان جیسے پراجیکٹ گروی پر رکھوائے تو میں اُس وقت بھی بیٹھا یہی نوحہ پیٹ رہا تھا کہ پاکستان کا اب کوئی مستقبل نہیں رہا۔ میں اُس وقت بھی یہی نوحہ پیٹ رہا تھا جب اقتدار کے آخری دنوں میں یعنی2012-13میں پیپلزپارٹی اتوار کو بینک کھلوا کر کرپشن کررہی تھی،اُس وقت راجہ پرویز اشرف کی حکومت تھی اور زرداری صاحب صدر پاکستان تھے۔ پھر سمجھ سے باہر ہے کہ کھربوں روپے کی کرپشن کرنے والے اور ایک دوسرے پر سینکڑوں مقدمات کرنے والے آج دودھ کے دھلے کیسے ہو چکے ہیں؟ اور کیسے فیصلہ کرنے والی قوتوں نے انہیں کھلی چھٹی دے دی ہے۔ عمران خان نے صحیح کہا تھا کہ جیسے ہی میں اقتدار میں آیا، ان دونوں پارٹیوں نے ایک ہو جانا ہے، وہ بات بھی من و عن سچ نکلی۔ اور اب جبکہ ان دونوں چور پارٹیوں کی لڑائی کروا دی گئی ہے، تو اب ان تین مہینوں میں ان دونوں پارٹیوں کا حال دیکھیے گا۔ یہ ایک دوسرے کے کپڑے اُتارنے کا کام کریں گی۔اور اگر پھر بھی بات نہ بنی تو یہ یہی کہیں گے کہ فلاں غلط کام عمران خان کے دور اقتدار میں غلط فیصلوں کی وجہ سے ہوا۔ لیکن بادی النظر میں اگر عمران خان 42مہینے اقتدار میں رہا تو کیا کسی کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ 15ماہ تو ان کو بھی ہوچکے ہیں، اقتدار میں آئے ہوئے۔ ان 15مہینوں میں کوئی مجھے بتائے کہ انہوں نے کون سا عوامی منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچایا ہے، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے اپنے اوپر سے تمام مقدمات سے چھٹکارہ حاصل کیا ہے۔ 15ماہ میں اور کچھ نہیں تو فو ڈ سیکورٹی کا نظام تویقیناً قائم کیا جاسکتا تھا (الٹا 64 ارب کے ناقص آٹے کی تقسیم میں 20ارب کی چوری ہوگئی) خصوصاً جبکہ پی ڈی ایم آئی ہی ”مہنگائی“ کی آڑ میں جو آتے ہی اس تیزی سے بڑھائی کہ آج تین وقت والوں کے لئے دو اور دو والوں کے لئے ایک وقت کی روٹی کا حصول محال ہوگیا۔ کچھ ناگزیر کرنے کیلئے ملکی کرتے دھرتے مکمل بے نیاز ہیں۔ سارا زور کراچی جیسے انتخابات اور نتائج حاصل کرنے پر لگا دیا۔ جس کے دور رس ہی نہیں فوری نتائج (اللہ خیر) بھی تباہ کن ہوں گے۔ موجود صورتحال اس کی سیٹیاں بجا رہی ہے، لیکن سننے والا کوئی نہیں۔ اب آنے والے دنوں میں دیکھیے گا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی سخت دست و گریبان ہوں گے، جس کے آثار آجکل دکھائی بھی دے رہے ہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے چور چوری کرنے کے بعد مال کی تقسیم پر لڑ پڑتے ہیں۔ انگریزی کہاوت ہے کہ Thiefs fight when they divide ۔ یہ یقینا اب لڑیں گے۔ ان کی پہلی لڑائی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاملے پر ہوگی۔ کیوں کہ زرداری کہتے ہےں، کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی ”ن لیگی بچہ“ ہے جبکہ ن لیگ الزام لگاتی ہے کہ محسن نقوی زرداری صاحب کا بغل بچہ ہے۔ لیکن ان بیانات کی روشنی میں ایک بات تو طے ہو گئی کہ نگران حکومت نیوٹرل نہیں ہے۔ نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ 9مئی کے دن آئی جی، سی سی پی او، ایس ایس پی، ایس پی کہیں نظر نہیں آئے ، اُس دن نا تو پولیس والا کوئی زخمی ہوا، نا ہی کوئی دیگر سکیورٹی اداروں کے اراکین زخمی ہوئے، تو اس کا مطلب ہے کہ پولیس اور نگران حکومت نے یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہونے دیا۔ خیر یہ الگ بحث ہے مگر آنے والے دنوں میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے اپنے انتخابی جلسوں میں ہر غلط کام تحریک انصاف پر ڈالنا ہے، ن لیگ والے یہ کہیں گے کہ دیکھو! 2017تک ملک ترقی کر رہا تھا، اُس کے بعد حالات خراب ہوئے۔ حالانکہ اُس وقت بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ پاکستان نے 2019-20ءمیں 20ارب ڈالر سے زائد کے قرضے ادا کر نے ہیں۔ اور ایسی صورت میں پاکستان دیوالیہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن خان کی حکومت نے اُس وقت نہ صرف کورونا سے مقابلہ کیا بلکہ ریکارڈ قرضے بھی اُتارے۔ پھر اسی طرح پیپلزپارٹی یہ کہے گی کہ اگر اُن کا ہر دفعہ پنجاب میں الیکشن چوری ہوا۔ جس کی وجہ سے ملک ترقی کرنے سے رک گیا۔ حالانکہ بندہ پوچھے کہ گزشتہ 15سال سے سندھ میں آپ نے کون سااچھا کام کیا ہے؟ سیلاب زدگان کے اربوں روپے تک تو کھا لیے گئے ہیں۔ بہر کیف آصف زرداری کی جماعت گزشتہ ڈیڑھ سال سے (ن) لیگ کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے مگر جیسے ہی جنرل الیکشن قریب آرہے ہیں وہ اب الگ شناخت چاہتے ہیں۔ اس لیے دونوں جماعتیں کے درمیان کھینچا تانی کی ابتدا ہو گئی ہے۔ کچھ اختلافات ایسے ہیں جو سب کو نظر آ رہے ہیں مگر بہت کچھ درونِ خانہ چل رہا ہے۔ میرے نزدیک چیئرمین پی سی بی کا مسئلہ ہو یا چیئرمین نادرا کا مستعفی ہونا‘ کشمیر کا ضمنی الیکشن ہو یا کوئی اور وجہ۔ یہ مسائل حل طلب ہیں اور آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے پا جائیں گے مگر جو پردوں کے پیچھے چل رہا ہے‘ وہ اختلافات زیادہ سنگین ہیں۔ ان مسائل کی تلخی کے اثرات زیادہ گہرے ہوں گے۔ جیسے آصف علی زرداری کی خواہش اور کوشش ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اگلے وزیراعظم ہوں۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ چاہتے ہیں مسلم لیگ (ن) ان کا ساتھ دے، لہٰذان لیگ بی ٹیم بننے کی عادی ہی نہیں ہے، نہیں یقین تو 2008ءکے الیکشن کے بعد ن لیگ چند ماہ ہی پیپلزپارٹی کی بی ٹیم بنی جس کے بعد راہیں جدا کر لی گئیں۔ پھر پیپلزپارٹی پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کہے گی تاکہ پارلیمان میں اُن کی پوزیشن مضبوط ہو۔ لیکن ن لیگ ایسا کبھی نہیں چاہے گی۔ پھر جہانگیر ترین کی استحکامِ پاکستان پارٹی بھی دونوں جماعتوں میں لڑائی کی بڑی وجہ بنے گی۔ پیپلز پارٹی کا ماننا ہے کہ جہانگیر ترین کی جماعت کے پیچھے (ن) لیگ کا ہاتھ ہے اور یہ سب پی پی پی کا پنجاب میں راستہ روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔پھر آئندہ الیکشن کی تاریخ پر بھی دونوں پارٹیاں متفق نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی وقت پر الیکشن چاہتی ہے مگر (ن) لیگ کا کہنا ہے کہ اگر چند ماہ اور مل جائیں تو کیا قباحت ہے۔ میاں نواز شریف واپس آ جائیں اور ان کے کیسزپر فیصلہ ہو جائے تو الیکشن کروا دیے جائیں۔ قصہ مختصر کہ آئندہ بھی حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔ اور پھر ان کی نیت میں سب سے بڑا فتور یہ ہے کہ 9مئی اور عمران خان کے گزشتہ ساڑھے تین سالہ دور کو جواز بنا کر اُنہیں الیکشن سے باہر کیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ اس حوالے سے دونوں جماعتیں ایک پیج پر ہوں مگر پیپلزپارٹی تحریک انصاف کے ووٹرز کو اپنی طرف لبھانے کے لیے ہمدردی کارڈ بھی استعمال کر سکتی ہے۔ تاکہ پی ٹی آئی کا ووٹر پی پی پی کی طرف راغب ہو۔ لہٰذاجو بھی ہے ، مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس وقت سیاستدان الیکشن کے حوالے سے واضح ٹائم لائن اور واضح حکمت عملی نہ دے کر ملک کو مزید مسائل کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ جو ملک کو مزید پیچھے لے جائے گا اور ہم سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔