قرضہ ملنے کے بعد کا پاکستان !

موجودہ حکومت کو جاتے جاتے آئی ایم ایف کا قرضہ تو نصیب ہو گیا مگر لگتا ہے پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے یہاں مستقل قدم جماتے ہوئے پاکستان یا پاکستانیوں کو ”سیدھا“ کرنے کی بھی ٹھان لی ہے۔ ابھی قرض کی پہلی قسط( 1.2ارب ڈالر) ہی ملی ہے کہ ایستھر میڈم نے گیس کی قیمتیں دوگنا کرنے کا عندیہ دے دیا ہے، جبکہ بجلی 5روپے فی یونٹ تک بڑھا دی گئی ہے، اور آخری خبریں آنے تک آئی ایم ایف نے ریئل اسٹیٹ اور زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کرنے کا پلان مانگ لیا، ایف بی آر پلان آئی ایم ایف نے منظور کر لیا تو منی بجٹ آسکتا ہے ۔ لیکن ان تمام مشکلات سے بے خبر جناب وزیر اعظم شہباز شریف الیکشن مہم کی خاطر 80ارب روپے کے لیپ ٹاپ تقسیم کر رہے ہیں، بظاہر یہ تقسیم بالکل ویسی ہی ہے جیسی رمضان میں 60ارب روپے کا آٹا تقسیم ہوا تھا تو اُن کی اپنی ہی جماعت نے کہہ دیا تھا کہ 20ارب روپے کی خورد برد کی گئی ہے۔لیکن فی الوقت دن میں تین تین مرتبہ ”آپ“ شہباز سپیڈ صاحب مختلف پراجیکٹس کا یا تو افتتاح کرتے نظر آرہے ہیں یا پہلے سے جاری پراجیکٹس کے دورے کررہے ہیں۔ چلیں خیر اُن کی حکومت کے اس وقت آخری دن دو تین ہفتے چل رہے ہیں ، اُنہیں معلوم ہے کہ اس وقت مقابلہ سخت ہے، کیوں کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں انہوں نے عوام کا جو حال کیا ہے اُسے compensateنہ کیا تو عوام الیکشن میں اُن کا وہ حال کرے گی کہ دنیا دیکھے گی۔ لیکن اس وقت فیصلہ کرنے والی قوتوں کو سوچنا چاہیے کہ اگر آئی ایم ایف نے پیسے دے ہی دیے ہیں تو اُن کا صحیح استعمال کیا جائے، اگر آپ اس کے استعمال سے لیپ ٹاپ بانٹ رہے ہیں، یا غیر ضروری پراجیکٹس کی فزیبلٹیاں بنوا کر رقوم ضائع کر رہے ہیں تو اُس سے بہتر ہے کہ سمال انڈسٹری کو فروغ دے کر اپنی ایکسپورٹ کو بہتر بنا لیا جائے۔ کیوں کہ ایکسپورٹ بڑھے گی تو پیسے آسکتے ہیں۔ورنہ ہم پر ایک بار پھر دیوالیہ ہونے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ لیکن انہیں کیا؟ انہوں نے تو اگلے ایک دو ہفتوں میں چلے جانا ہے ۔ انہیں کیا لگے کہ اس وقت انڈسٹری کی کیا صورتحال ہے؟ آپ زیادہ پیچھے نہ جائیںصرف مالی سال 2023ءکو دیکھ لیں، کہ کس طرح ہماری انڈسٹری مسلسل تنزلی کا شکار رہی۔ حتیٰ کہ کلیدی برآمدی شعبے ٹیکسٹائل کی پیداوار بھی تنزل کا شکار رہی۔ بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں کمی ہونے کی وجہ سے ان صنعتوں سے وابستہ لاکھوں افراد کو روزگار سے ہاتھ بھی دھونا پڑے۔ رواں سال مئی میں سالانہ بنیادوں پر 14فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ اپریل میں یہ کمی 21فیصدتھی، مارچ میں 25فیصد، فروری میں 11.6فیصد، جنوری میں 7.9 فیصد،دسمبر 2022ءمیں 3.51 فیصد، نومبر میں 5.49فیصد‘ اکتوبر میں 7.7فیصد اور ستمبر میں 2.27 فیصد رہی جبکہ اگست میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 0.30 فیصد کا معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا ۔ الغرض حالات یہ ہیں کہ انڈسٹری کا پہیہ بتدریج بند ہوتا گیا، لیکن حکمرانوں کی ترجیحات آئی ایم ایف، سعودی عرب، چین ، روس یا متحدہ عرب امارات سے قرضے لینا یا رہن کے لیے پیسے جمع کرنا رہیں۔ حکمرانوں کو تو شاید یہ علم نہیں کہ اس وقت ملک میں لوہے اور سٹیل کی پیداوار بھی 6فیصد تک کم ہوگئی ہے، کیمیکل مصنوعات کی نمو مئی میں پچھلے سال کے مقابلے میں بھی 15.44 فیصد کم ہوئی۔اس کے علاوہ سالانہ بنیادوں پر ادویات کی پیداوار میں 38.61 فیصد‘ ربر مصنوعات میں 5.81 فیصد اور کھاد میں 13.31 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔لہٰذاجب حالات یہ ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ آپ کاسمیٹکس پراجیکٹس پر 80،80ارب روپے لگا دیں۔ لہٰذامکمل یکسوئی کے ساتھ یہ ضرور سوچیں کہ جس ملک کے حکمران ذہین نہ ہوں وہ ملک خواہ جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹر شپ، کبھی ترقی نہیں کرتے۔ 75سالوں میں اگر ان حکمرانوں میں ایک نے بھی محض کرپشن پر قابو پانے اور انصاف کے فروغ کے لیے کام کیا ہوتا تو آج ملک کی تقدیر بدل چکی ہوتی، یقین مانیں دنیا میں ان ملکوں نے بھی ترقی کی ہے جہاں جمہوریت نہیں تھی لیکن دو باتیں ضرور تھیں‘ اول انصاف یعنی کرپشن کا خاتمہ اور دوسرا جدید تعلیم۔ اس دلیل کی سب سے بڑی مثال پہلے جرمنی تھا‘ پھر روس بنا اور آج چین اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ لیکن اس کے برعکس محترم وزیر اعظم کو شاید یہ علم نہیں کہ اُن کے دور میں 12لاکھ ماہر ڈاکٹر، انجینئر، کمپیوٹر ایکسپرٹ وغیرہ ملک سے باہر چلے گئے ہیں، جبکہ بھارت دنیا بھر سے چن چن کر سائنسدانوں، کمپیوٹر ایکسپرٹس، ڈاکٹرز، انجینئرز وغیرہ کو اپنے ملک میں نوکریاں دے رہا ہے، وہ ٹیکنالوجی میں ہم سے اتنا آگے نکل چکا ہے کہ چاند پر بھیجا جانے والا چندریان تھری اس کی بہترین مثال ہے۔نہیں یقین تو یہ بھی چیک کر لیں کہ اس وقت دنیا کی کتنی ہی بڑی کمپنیوں کے سربراہ بھارتی ہیں ، بھارت کے حیدرآباد کو اس وقت دنیا کا آئی ٹی ہب بنا دیا گیا ہے جہاں گوگل فیس بک سمیت دنیا کی بڑی آئی ٹی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ لہٰذاہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر کا خیال کریں، ایسا بالکل نہ کریں کہ قرض ملنے کے بعد آپس میں بانٹنا شروع کردیں۔ بلکہ کسی گھر میں قرضہ ملنے کے بعد اُسے آپس میں تقسیم کرنے کے بجائے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسے کہاں لگایا جائے کہ آمدنی ہو، اور اُس آمدنی سے گھر کے اخراجات بھی چلائے جائیں اور مستقبل میں قرض کی واپسی بھی کی جائے۔ خیر یہ باتیں اُس وقت بے معنی ہو جاتی ہیں جب آپ کے حکمران کسی چیز کو سمجھنا ہی نہ چاہیں، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اگرحالات مزید تباہی کی جانب جا رہے ہیں تو کیوں نہ ملک کا انتظام چین یا امریکا کے سپرد کر دیا جائے، جہاں کم از کم کوئی نظام تو موجود ہے! مثلاََ میں ابھی ایک ریسرچ پڑھ رہا تھا جس کے مطابق چین نے زرعی شعبے میں پیداواری صلاحیت، اور تکنیکی ترقی کیلئے بھی کئی اقدامات کئے ہیں۔ پھر چین نے انتہائی اہم صنعتوں میں جدت اور تکنیکی ترقی کو آگے بڑھانے کیلئے قومی سطح پر انجینئرنگ تحقیقی مراکز قائم کر دیئے ہیں۔ یہ مراکز ترقی یافتہ سامان سازی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور حیاتی ٹیکنالوجی میں مہارت کو پروان چڑھانے اور صنعتی ترقی کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ یہ ادارہ محققین کو جدید تحقیق کرنے اور جدت طرازی کو فروغ دینے کیلئے مالی امداد فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے نے بائیو ٹیکنالوجی، قابل تجدید توانائی اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پھر چین نے نئے محققین اور ابتدائی کاروبار کیلئے سرکاری فنڈ، اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کیلئے ایک معاون ماحولیاتی نظام تشکیل دیا ہے۔ اس تناظر میں، ٹارچ ہائی ٹیکنالوجی انڈسٹری ڈیولپمنٹ سینٹر، سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے تحت، تکنیکی جدت طرازی اور کاروبار کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ نظام ٹیکنالوجی سے وابستہ نئے محققین کو قرضے دینے اور ابتدائی ڈھانچے کی تشکیل میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اور محققین کو اپنے خیالات کو ترقی دینے اور تجارتی سانچے میں ڈھالنے کے قابل بناتا ہے۔ مزید برآں، انٹرنیٹ پر مبنی پلیٹ فارمز اور ای کامرس کے عروج نے چین میں نجی اداروں کی ترقی کو آسان بنا دیا ہے۔ علی بابا اور ٹینسنٹ جیسی کمپنیوں نے نہ صرف مقامی مارکیٹ میں انقلاب برپا کر دیا ہے بلکہ یہ عالمی دیو بن چکی ہیں۔ انکی کامیابی نے کاروباری سرگرمیوں میں ایک ایسی لہر دوڑا دی ہے، جس نے چین کے نجی شعبے کو انتہائی مثبت انداز میں متاثر کیا ہے۔ چین کی برقیات کی صنعت صارفین کیلئے برقی مصنوعات بشمول اسمارٹ فونز، ٹیلیویڑن اور پرسنل کمپیوٹرز کی تیاری میں بہترین شہرت کی حامل ہو گئی ہے۔چین میں موٹر گاڑیوں کی صنعت ایک اور روشن مثال ہے۔ جس نے چین کو دنیا کے سب سے بڑے موٹر گاڑیوں کے بازار اور موٹر گاڑیوں کی صنعت میں تبدیل کر دیا ہے۔ یقین مانیں ان ملکوں کی مثالیں دے دے کر ہمیں خود شرمندگی ہونا شروع ہوگئی ہے۔ کہ ہم کر کیا رہے ہیںاور ہمارے کرنے کے کام کیا ہیں؟ نہ تو آج تک ہم اپنا کوئی انفراسٹکچر بنا سکے ہیں، نہ کوئی تھنک ٹینک، اور نہ ہی کوئی ایسا ترقیاتی ادارہ جسے دیکھ کر دنیا ہماری طرف کھنچی چلی آئے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم آج تک بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد بھی بحال نہیں کر پائے۔ اور تو اور ان پاکستانیوں کے لیے انصاف کا حصول ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔ نہیں یقین تو خدانخواستہ اگر آپ کسی مقدمے میں پھنسے تو اُس وقت شاید آپ کو اندازہ ہو جائے کہ یہاں انصاف کا حصول کتنا مشکل ہے۔ عدالتوں میں اس وقت لاکھوں مقدمات پیروی کے منتظر ہیں مگر مجال کہ اس کی کسی کو پرواہ ہو۔ یہاں آج بھی ایک پلاٹ کا قبضہ چھڑوانے کے لیے دوسرا پلاٹ فروخت کرنا پڑتا ہے۔ یہاں آج بھی آدھے سے زیادہ بے گناہ قیدی سزائیں کاٹ رہے ہیں، میں پھر چرچل کی وہی بات دہراﺅں گا کہ دو سری جنگ عظیم کے دوران ونسٹن چرچل نے اپنا دفتر کیمبرج یونیورسٹی کے ایک کمرے میں منتقل کرلیا تھا۔ایک صبح چرچل کا ماتحت دوڑتا ہوا آیا اور بتایا کہ جرمن فوجیں برطانیہ کے سر پر پہنچ گئی ہیں۔ خوفناک بمباری کی وجہ سے برطانیہ کی سلامتی کو شدید خطرہ ہے۔چرچل نے اطمینان سے پوچھا کہ برطانیہ میں عدالتیں کام کررہی ہیں۔ماتحت افسر نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالتیں کام کررہی ہیں۔چرچل نے پھر پوچھا کہ کیا وہ انصاف فراہم کررہی ہیں۔ماتحت افسر نے جواب دیا کہ جی ہاں برطانیہ میں عدالتیں مکمل انصاف فراہم کررہی ہیں۔چرچل مسکرائے اور کہنے لگے کہ جب تک برطانیہ میں عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں تو برطانیہ کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ بہرکیف اس وقت قرضہ ملنے کے بعد کے پاکستان کو دیکھیں تو یہ باہر سے ہرا بھرامگر اندر سے بقول شاعر انتہا کا تنہا ملک نظر آرہاہے۔۔۔ محسوس کرو گے تو گذر جاو¿ گے جاں سے وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے